درد سر کے واسطے

681

میرے مضمون کے عنوان سے تو آپ حضرات یہی قیاس کر رہے ہوں گے کہ میں یا تو کوئی حکیم ہوں یا وَید جو آپ حضرات کو دردِ سر کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے بعد اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی موثّر علاج یا کوئی آزمودہ ٹوٹکا زیرِ بحث لا کر آپ سے داد وصول کرے گا مگر ایسا ہرگز نہیں ہے میرے محترم نہ تو میں حکیم ہوں اور نہ ہی وَید بلکہ —“میں وہی ہوں مومن ِمبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو” کافی عرصہ تک ‘‘جسارت’’ سے غیر حاضر رہا ہوں اور اب…

پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نظر ِدل فریبیِ عنواں کیے ہوئے

چونکہ مضمون کا عنوان درد سے وابستہ ہے لہٰذا میری خواہش ہے کہ کچھ اور دردوں کا بھی ذکر ِخیر کر کے اس سے آپ حضرات کو درد آشنا کر دوں یہ وہ درد ہیں جس سے وقتاً فوقتاً ہم سب کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔

دردِ دل اور دردِ جگر:
یہ دونوں درد ہمارے اردو شعرا حضرات کی میراث ہیں ان کے بغیر ان کی شاعری نامکمل ہے شعراکرام نے اپنی شاعری میں ان کا بے دریغ استعمال کیا ہے مصحفی نے اپنے دردِدل کی لذّت کو کیا خوب شعری پیراہن دیا ہے ۔ ملاحظہ کیجیے-

اگر دردِ دل میں یہ لذت ہے یارو
تو میں ان طبیبوں کے درماں سے گزرا

امیر مینائی کا مشہور مصرعہ جسے احباب اپنی گفتگو اور ادبا اپنی تحاریر میں استعمال کرتے ہیں:
’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘

دردِ شکم اور دردِ قولنج:
اس کا اردو شاعری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ان پر صرف اور صرف حکماء حضرات کی حکمرانی ہے۔

دردِ گردہ:
سرجن حضرات اور اسپتال والوں کی آمدنی کا بہترین ذریعہ ہے مگر اللہ نہ کرے کسی دشمن کو بھی اس درد سے سابقہ پڑے۔

دردِ سر:
اور دردوں سے مختلف ہے اور عوام النّاس میں اس قدر مقبول ہے کہ کیا بوڑھا کیا جوان کیا بچہ ہر کوئی اس درد سے آشنا ہے۔ محاورے بھی اس کے مرہونِ منّت ہیں پیناڈول بنانے والی کمپنی کچھ زیادہ ہی۔

آج کل ہماری ملکی سیاسی نیّا ڈاواں ڈول دکھائی پڑ رہی ہے معیشت خون کے آنسو رو رہی ہے اور کیوں نہ روئے۔اسے تو ہر نگہباں نے لوٹا ہے۔وطنِ عزیز کا وہی حال ہے جو میرؔ کے زمانے میں دلّی کا تھا وزیرِ خارجہ طوفانی دورے کرنے میں مصروف ہیں اُدھر آئی ایم ایف کا طوفان دن بہ دن قریب سے قریب تر آتا نظر آرہا ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا کچیّ دھاگے سے بندھا گٹھ بندھن دن رات ایک ہی وظیفہ پڑھ رہا ہے۔

دردِ سر کے واسطے پیدا کیا’’عمران‘‘ کو

اور عام پاکستانی کیا کہہ رہا ہے:

سن کے تقریر ’’خان‘‘ کی اے دوست
آج پھر درد سر میں ہوتا ہے

ہمارے شعرا حضرات نے بھی اپنی شاعری میں دردِسر کو فراموش نہیں کیا۔ الٰہی بخش معروف کیا حکیمانہ شعر کہہ گئے۔

دردِ سر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید
اس کا گسنا اور لگانا دردِ سر یہ بھی تو ہے

ایک اور شاعرِ محترم نے بہت ہی انوکھے انداز میں دردِ سر اور اس کے ساتھ دو عدد دوسرے درد شامل کر کے شعر کو درد کا مربّا بنا دیا… معاف کیجیے گا مرکّب بنا دیا۔

ایک درد ہو تو کوئی اس کا ازالہ بھی کرے
دردِ سر دردِ کمر دردِ جگر تینوں ہیں

اکثر شادی شدہ خواتین بھی دردِ سر کا شکار رہتی ہیں اگر انہیں ذرا بھی بھنک لگ جائے کہ ان کا شوہرِ نامدار جب صبح سویرے آفس جانے کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو پڑوسن چھجے پر کھڑی نظر آتی ہے بس اتنا ہی کافی ہے موصوفہ کے دردِ سری کے لیے یہ ایک ایسا درد ہے جس کا معجون حکماء حضرات کے پاس بھی نہیں ہے۔

ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ دردِ سر بذات خود کوئی مرض نہیں ہے بلکہ یہ کسی دوسرے امراض کا ردِ عمل ہے مگر جو شخص اس درد میں مبتلا ہوتا ہے اس کا کیا ردِّ عمل ہوتا ہے کبھی یہ بھی غور کیا ہے آپ نے کیفیت یہ ہوتی ہے کبھی جی چاہتا ہے کہ دیوار سے سر ٹکرا دے کبھی چاہتا ہے کہ ہتھوڑا سر پر مارلے بہرحال جانے کیا گزرے ہے بندے پے …یہ تو وہی جانتا ہے جس پر گزر رہی ہوتی ہے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے دردِ سر کی شدّت اتنی ہوتی ہے کہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ والی کیفیت ہوجاتی ہے اور صاحبِ سر درد یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:

دردِ سر نے کر دیا اس طرح شاہانہ مجھے
ایک بیوی ہے مگر دِکھتی ہے دو گانہ مجھے

حضرات میں اپنے مضمون کو اسی جگہ اختتام کر رہا ہوں‘ اسے طول دینا نہیں چاہتا۔مجھے اندیشہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی طوالت آپ کے لیے درد ِسر کا سبب بن جائے۔ اللہ حافظ۔

حصہ