دنیا ایک سراب

218

وہ دن ہوا ہوئے جب پسینہ گلاب تھا
ہاں! وہ دن بھی گئے جب تُو نواب تھا

مسلسل پانچ سال سے بیماری نہیں، فالج کی مریضہ جہاں آرا بیگم حسرت و یاس کی تصویر بن گئی تھیں۔ وہ پوری طرح تھک سی گئی تھیں، اکثر کہتیں: اسٹیشن پر تیار بیٹھی ہوں، بس انتظار ہے، گاڑی ہی نہیںآرہی۔ کبھی کہتیں: واہ! واہ کتنی بھرپور زندگی گزاری ہے میں نے۔ بستر پر پڑا بیمار شخص ماضی کی گلیوں ہی میں گھومتا رہتا ہے، علالت کے دوران جسم ہی نہیں خیالات بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔ جہاں آرا بیگم کی آنکھوں کے کٹورے آنسوئوں سے بھرے ہی رہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے لہجے میں کاٹ آجاتی، دل و دماغ میں مایوسی کے جالے سے بُنے گئے تھے۔
خوب صورت و رنگین پردے، بڑے نفیس کرسٹل کے ڈیکوریشن پیس، دیوار کے اوپر آرٹ کے مختلف نمونے، حتیٰ کہ دل بہلانے کو ہر طرح کا دنیوی سامان… مگر دل اداس ہو تو نرم و گداز بستر بھی کانٹوں کا لگتا ہے، بہار بھی خزاں لگتی ہے۔

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

جہاں آرا بیگم اپنے دور کی چلبلی، رنگین مزاج، ماڈرن، شوخ خاتون تھیں، ہر مجلس کی جان ہوا کرتی تھیں، ’’موسیقی روح کی غذا ہے‘‘ اس فارمولے پر عمل بھی کرتیں اور اس کے حق میں بڑھ بڑھ کر دلائل دیتے نہ تھکتیں، سوشل اتنی کہ کبھی کسی اسکول میں مہمانِ خصوصی ہوتیں تو کبھی کسی پارٹی میں پیش پیش نظر آتیں۔ سلم، اسمارٹ رہنے کے لیے جم جوائن کر رکھا تھا۔ کبھی کچھ ایسی باتیں کہہ جاتیں کہ باقی کلب ممبرز کن اَنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتیں، کچھ کہنا چاہتیں مگر کہہ نہ سکتیں۔
کرنل علی حسن بیگم صاحبہ سے ایک ہاتھ آگے تھے، مخلوط محافل میں کرنل صاحب بڑے فخر سے اپنی روشن خیالی کا پرچار کرتے۔ علما، داڑھی، پردے کا مذاق اڑاتے۔ افسری، مال و دولت، اوپر سے تین بیٹے، خوب صورت بنگلہ۔ دونوں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے اور اتنے مگن تھے کہ شاید یہ سب کبھی ختم نہ ہوگا۔ یہ تو انہوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب نعمتیں امانت ہیں۔ عالم شباب اور جوانی کی ترنگ میں انسان بھول جاتا ہے، دھوکہ کھا جاتا ہے، سمجھتا ہے یہ جوانی سدا رہے گی، یہ حسن کبھی ماند نہیں پڑے گا۔ انسان ہوا میں اڑنے لگتا ہے کہ ہمارے پاس مال ہے، کرسی ہے، ہمیں کسی کی کیا پروا؟ یہی معاملہ جہاں آرا بیگم کا تھا، وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی ہر زاویے سے خود کو دیکھتیں، خوش ہوتیں گویا کہہ رہی ہوں: ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ شہر کے مہنگے اور مشہور بیوٹی پارلر جاتیں۔ وقت پَر لگا کر اڑنے لگا، ایسی ہی رنگین شام و سحر میں دونوں مگن تھے کہ اچانک دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ کرنل حسن اپنی فیملی کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا، جانیں تو بچ گئیں مگر کرنل صاحب کی ٹانگ دو جگہ سے ٹوٹ گئی اور شدید چوٹیں آئیں، بیگم صاحبہ اور بچے بھی شدید زخمی حالت میں اسپتال میں ہیں۔ سب کو چپ سی لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے عجیب پلٹا کھایا۔ نوکر چاکر گئے، مال و دولت ختم ہونے لگا، جہاں آرا بیگم کے ظاہری زخم کیا ٹھیک ہوئے ساتھ ہی فالج کا شدید حملہ ہوگیا، بستر کی ہوکر رہ گئیں۔ بیٹے اپنی اپنی زندگی میں مگن ہوگئے۔ بیٹی تھی نہیں، ٹی وی دیکھ کر کتنی دیر دل بہلایا جاسکتا؟ بیتے دنوں کو یاد کرکے اکثر آبدیدہ ہوجاتیں۔ صرف یادوں کا خزانہ تھا، ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتیں۔

زندگی کی بعض حقیقتیں بڑی تلخ ہوتی ہیں لیکن انہیں اپنی تمام تر تلخی کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ خوشی اور غم، خوش بختی اور بدبختی انسان کے ساتھ سائے کی طرح لگے ہوتے ہیں۔ غم کے بعد خوشی اور آسانی کے بعد مشکل، اور دکھ کے بعد سُکھ کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ ہر دو طرح سے انسان کا امتحان ہورہا ہے، بس انسان یہ بھول جاتا ہے کہ زندگی آخرت کی کھیتی ہے، امتحان کی جگہ ہے۔ یہ حادثات، بیماری، موت، بھوک، غم انسان کو جھنجھوڑتے ہیں، خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔
’’صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔‘‘
ٹی وی آن کیا تو بڑی دلنشین آواز میں مولانا صاحب دنیا اور آخرت کی حقیقت اور موت و زندگی کا فلسفہ سمجھا رہے تھے۔ جہاں آرا بیگمِ سنتے سنتے گم سی ہوگئیں، اپنے اردگرد سے بے نیاز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ بے شک تبدیلی کا ایک لمحہ ہی ہوتا ہے۔ ’’اللہ مجھے معاف کردے، میرے اللہ، میرے معاف کرنے والے مالک میں سچی توبہ کرتی ہوں، مجھے قبر سے سخت ڈرلگتا ہے۔ میرے لیے آسانی فرما، تُو ہی میرا سہارا ہے، واحد آسرا ہے۔‘‘ روتے روتے نڈھال ہوگئیں۔ مولانا نے نماز، استغفار اور قرآن پاک جو کتابِ زندگی ہے، جو نصاب زندگی ہے اس کو سمجھ کر پڑھنے پر بہت زور دیا، شرائط بتائیں۔ انداز کچھ ایسا تھا کہ غفلت کے پردے چاک ہونے لگے۔ بے اختیار دل چاہا کہ سجدے میں گرجائیں، اٹھ کر قرآن پاک، مصحفِ خداوندی کو اپنے بازوئوں میں لے کر آنکھوں پر رکھیں، چوم کر سینے سے لگائیں۔ مگر ہائے یہ بے بسی، یہ معذوری۔ ’’پھر مجھے تو صحیح طرح قرآن پاک پڑھنا بھی نہیں آتا، مجھے تو اتنی عربی نہیں آتی کہ سمجھ سکوں کہ میرے رب نے میرے نام کیا پیغام دیا، کیا کرنے کا حکم دیا ہے، کس چیز سے روکا ہے، حلال کیا ہے، حرام کیا ہے؟ ‘‘
اسی کشمکش میں تھیں کہ اندر سے ایک آواز آئی: ’’سنو!‘‘ ایک میٹھی رسیلی آواز، پُرامید آواز ’’جہاں آرا توبہ کا در کھلا ہے، نزع سے پہلے پہلے موقع ہے منا لو اپنے روٹھے رب کو، راضی کرلو۔‘‘
ایک نئے عزم کے ساتھ پوری طاقت جمع کرکے اپنی خدمت گار اماں کو آواز دی، اپنے پاس بلایا اور کہا ’’مجھے وضو کرائو، میرے کپڑے تبدیل کرائو، میں اشاروں میں نماز پڑھوں گی‘‘۔ پھر قرآن پاک کو بھی سمجھ کر پڑھنے کا عزم کرلیا، جس کا اظہار کرنل صاحب سے بھی کیا، اور پُرعزم لہجے میں کہا ’’اب ہمیں اپنے مشاغل بدلنے ہوں گے، اپنی باقی زندگی رب کی بندگی میں گزارنے کا عزم کرلیں‘‘۔ تمام دنیا کی نمتیں توبہ کی اس نعمت کے سامنے ہیچ لگنے لگیں۔ طبیعت کو ایک قرار سا آگیا، انہیں یوں لگا جیسے ایک تسکین کا سمندر ہے جو ان کے سارے وجود میں اتر گیا ہے، ایک نورانی لہر ہے جو ان کے اندر دوڑ گئی ہے، ایک کیف آور لذت روح تک سرایت کر گئی ہے، جھلستی تپتی روح کو جیسے خنک برف کا نخلستان مل گیا ہے۔ وہ کھلی شاہراہ پہ تھیں، اب ان کو اپنا فالج زدہ جسم بوجھ نہیں لگ رہا تھا بلکہ مہلتِ عمل مانگ رہی تھیں، انہیں توبہ کے ساتھ یہ زندگی نعمت لگنے لگی تھی کہ شاید آخرت کے لیے کوئی زادِ راہ اکٹھا کرلیں۔

حصہ