بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پچھلے ماہ منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح شکست سے دوچار کردیا۔ مرکز میں کامیابی سے حکومت چلانے والی بی جے پی کو اس شکست پر شدید دھچکا لگا، حالانکہ دہلی کی وزارتِ اعلیٰ بھی عام آدمی پارٹی سے وہ نہیں جیت سکی تھی۔
دوسری طرف پاکستان کے اہم ترین شہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں اور تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے مقبول بیانیوں کو شکست سے دوچار کردیا۔ ایم کیو ایم اپنے دھڑوں کے ملاپ کے بعد الیکشن کی رات ہی بائیکاٹ پر چلی گئی تھی لیکن نتائج دیکھ کر سب کا واضح تجزیہ ہے کہ ایم کیو ایم کو مکمل شکست ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے انتخابی عمل سے نکل جانے کو گزارشات کی صورت روکنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہیں۔
عام آدمی پارٹی کی انتخابی کامیابی میں جہاں اُس کے اعمال کا دخل رہا جس کی وجہ سے اُس نے عوام کے دلوں میں جگہ پائی، وہیں اپنا پیغام منتقل کرنے کے لیے اُس نے سوشل میڈیا اور مارکیٹنگ مہم کا پورا استعمال کیا۔ عام آدمی پارٹی نے خصوصاً مہاراشٹر، کرناٹک اور دیگر صوبوں میں کانگریس وغیرہ کی سوشل میڈیا مہمات کا بغور مطالعہ کیا، تب وہ اس میڈیم کو اپنانے پر یکسو ہوئی۔ دہلی میں مقیم میڈیا پروفیشنل ایجنسی ’’کوسیپچوئل میڈیا‘‘ کو ہائر کیا گیا جس نے عام آدمی پارٹی کی سوشل میڈیا کی حکمت عملی اور مواد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس مہم سے وہ حزبِ اختلاف یعنی بی جے پی کے وزیراعلیٰ کے امیدوار منوج تیواری کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس کے ادارے میں 19 سے 35 سال کی عمر کے صرف 15 ارکان کی ایک چھوٹی سی ٹیم تھی جنہیں AAP قیادت نے نوجوان ووٹروں کو نشانہ بنانے کے لیے پارٹی کے سوشل میڈیا ہینڈلز بشمول ٹویٹر، فیس بک، واٹس ایپ، شیئر چیٹ، ٹک ٹاک اور ہیلو ٹیونز کو سنبھالنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ یوں وہ دہلی میں انتخابی کامیابی سمیٹ کر آگے بڑھتی چلی گئی۔
نئی دہلی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ میونسپل کارپوریشن دہلی میں میئر کا انتخاب ہونا باقی رہ گیا ہے۔ آخری اجلاس میں دونوں سیاسی جماعتوں کے عہدیداران ایک دوسرے کو جمہوریت دشمن کہتے ہوئے دھکم پیل سے مار دھاڑ، لاتوں، گھونسوں تک جا پہنچے۔ یوں اُن کا انتخابی اجلاس ہی نہیں ہوسکا۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ٹویٹر پر ردعمل دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 243 آر کا حوالہ دے کر کہا کہ اجلاس میں بدنظمی کرنے والے کونسلرز ووٹنگ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا نے ٹویٹ کیا کہ ”ایم سی ڈی میں اپنی بداعمالیوں کو چھپانے کے لیے کتنا نیچے گرو گے بی جے پی والو! الیکشن ملتوی کردیا، پریزائیڈنگ آفیسر کی غیر قانونی تقرری، نامزد کونسلرز کی غیر قانونی تقرری اور اب عوامی منتخب کونسلرز کو حلف نہ دلوانا… اگر عوام کے فیصلے کا احترام نہیں کرسکتے تو پھر الیکشن کروائے ہی کس لیے تھے؟“
یہ درست ہے کہ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے 15 سالہ قبضے کو ختم کرا دیا۔ دہلی کے 250وارڈز میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی 104کے مقابلے میں 134 سیٹیں حاصل کیں۔ کانگریس اس نمبر گیم میں خاصی پیچھے ہے۔ ملک کی سب سے چھوٹی پارٹی نے دُنیا کی سب سے بڑی پارٹی کو شکست دی۔ اہم بات یہ ہے کہ دہلی میں میئر کا براہِ راست انتخاب نہیں ہے۔ الیکشن جیتنے والے کونسلر ہی میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو بھی پارٹی ایم سی ڈی جیتتی ہے، اس کی میعاد 5 سال ہوتی ہے۔ ایک ہی شخص 5 سال میئر نہیں رہ سکتا۔ دہلی میں میئر کی میعاد ایک سال کی ہوتی ہے اور ایم سی ڈی میں کونسلر ہر سال میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی دہلی میں جن وجوہات سے حاصل ہوئی اُن میں بجلی کے بلوں میں کمی، بستیوں میں محلّہ کلینک کا قیام اور صاف پانی مہیا کرنا۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ اس میں ہندو مسلم فرق کرنے سے نتیجہ برآمد نہیں ہونے والا۔ خواتین کے لیے مفت بس و ٹرین سروس 2019ء میں شروع کی، گوکہ اس کے بعد خاصی تنقید کا بھی سامنا رہا کیونکہ وہاں سیکولر و لبرل طبقات میں مرد اور عورت کی برابری کا تصور اِس سے واضح طور پر ٹوٹ رہا تھا، مگر ڈپٹی چیف منسٹر کے مطابق 22-2021ء میں تقریباً تین کروڑ خواتین نے اس سہولت سے استفادہ کیا۔ دہلی کی آدھی سے زیادہ آبادی ان اسکیموں سے براہِ راست فائدہ اٹھاتی ہے۔ اتنی آمدنی نہیں ہے کہ دو ہزار کا بجلی کا بل بھی اس کمر توڑ مہنگائی میں بھر سکیں۔ لوگ مفت بجلی، پانی سے آگے سوچنے سے قاصر ہیں۔ مرکز میں بی جے پی جو پالیسیاں بناتی ہے اُن سے غریب آدمی غریب تر اور کارپوریٹ سیکٹر امیر سے امیر ہوتا جارہا ہے۔ یوں یہ پارٹی غریبی پیدا کرتی ہے۔ بیچ میں مدد کے لیے عام آدمی پارٹی ہے جو غریب کو سب کچھ مفت دے رہی ہوتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سے جو وعدے کیے گئے اُن میں دہلی کے ہر شہری کو صاف پانی نل میں دینے کا وعدہ، جھگیوں میں رہنے والوں کو فلیٹ، دہلی کو صاف ستھرا بنانا، سڑکوں گلیوں کا فائدہ، پارکنگ کا حل، وقت پر تنخواہ، تاجروں کو رشوت ستانی سے بچانے کے لیے آن لائن سہولیات، بہترین ہسپتال، نالوں کی صفائی، گھر کے نقشے کی منظوری کے لیے آن لائن سہولیات، آوارہ کتوں اور کچرے کے پہاڑوں سے نجات، سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے آن لائن سہولیات، ٹھیکوں میں شفافیت شامل ہیں۔ بی جے پی نے بھی اسی سے ملتے جلتے وعدے کیے، بس ایک سستے کھانے کی فراہمی اضافی وعدہ لگا۔
اب ہم چلتے ہیں کراچی کے بلدیاتی انتخابات کی جانب۔ تادم تحریر الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کی روشنی میں پاکستان پیپلز پارٹی کراچی اور حیدرآباد میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، بلکہ پورے سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اکیلی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔ صوبائی سطح پر ویسے ہی 2008ء سے یعنی 15سال سے مسندِ اقتدار پر براجمان ہے۔ سندھ کے اُن تمام شہری حلقوں سے بھی ایم کیو ایم کا صفایا ہوگیا ہے جہاں سے وہ تواتر سے کامیاب ہوتی تھی۔ کراچی سے جو نتائج آئے اُن میں جماعت اسلامی چوتھی بار اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا جبکہ تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے گراف کے باوجود کراچی میں تیسرے نمبر پر رہی یعنی 230میں سے صرف 40 سیٹیں (چیئرمین) جیت سکی (تادم تحریر)۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات چار مرتبہ ملتوی ہوئے یعنی 24 جولائی، اگست، اکتوبر… پھر 12 جنوری تک ملتوی ہونے کے اعلانات چلتے رہے اور 14 جنوری کو بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ 15 جنوری کو الیکشن ہوں گے۔ اس ساری بے یقینی کی کیفیت کے باوجود صرف جماعت اسلامی ہی ایسی پارٹی شہر میں تھی جس نے اپنی الیکشن مہم کو ہر صورت جاری رکھا۔ جلسوں، ریلیوں سے لے کر جھنڈوں، بینروں، پوسٹروں، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا پر کراچی کے نمایاں ایشوز کو مستقل زندہ رکھا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں کراچی نے تحریک انصاف کو بڑا مینڈیٹ دیا تھا، مگر ساڑھے 3 سالہ اقتدار کے باوجود تحریک انصاف شہر کے لیے کوئی نمایاں کام نہیں کرسکی۔ سوشل میڈیا کے مطابق یہ اہم باتیں گردش میں رہیں کہ ’’وزیراعظم عمران خان (گلشن اقبال)، ڈاکٹر عارف علوی (کلفٹن) کراچی سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد توجہ کا عالم یہ رہا کہ وزیراعظم اپنے دور اقتدار میں جتنا سعودی عرب جاتے رہے کراچی آنے کی تعداد اُس سے بھی کم رہی۔ یہاں تک کہ وہ جب کبھی کراچی آبھی جاتے تو یہ مشہور تھا کہ اب تو مغرب ہوگئی، خان صاحب کو واپس جانا ہوگا۔ کراچی سے اتنا مینڈیٹ لینے کے باوجود عمران خان اور اُن کی جماعت کراچی کے مسائل کے لیے نہ کوئی آواز اٹھا سکے اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل کرسکے‘‘۔ ایم کیو ایم پہلے ہی شارٹ بلکہ ٹکڑے ہوچکی تھی۔ کراچی میں شہری زندگی بدحال ہوتی جارہی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ حکومت کی وجہ سے اس تباہی کی ذمہ دار قرار دی جا رہی تھی، کہ وہی براہِ راست کامل اختیار و اقتدار رکھتی تھی۔ ایسے میں پیدا ہونے والے خلا کو جماعت اسلامی نے شعوری طور پر پُر کرنے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی 2015ء کے بلدیاتی انتخابات عوامی رائے اور ماحول کی روشنی میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر لڑچکی تھی مگر ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وسیم اختر کی صورت میئر مسلط کیا جو 2019ء تک کوئی کام نہ کرسکا۔ کراچی کے مسائل کو ایسے میں جماعت اسلامی نے زندہ کیا۔ گزشتہ سال کی برسات اور کورونا کی وبا اس میں مزید جان ڈال گئے۔ حالات بدتر ہوتے چلے گئے، جماعت اسلامی کی عوام سے کمیونیکیشن بڑھتی چلی گئی۔ اس میں کے الیکٹرک کے خلاف مہم، سوئی گیس، نادرا، واٹر بورڈ، مردم شماری، بحریہ ٹاؤن اور نسلہ ٹاور کا معاملہ ہو، یا ڈکیتی کی وارداتیں.. کراچی کے سیاسی افق پر صرف جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن ہی شہر میں نمایاں متفقہ لیڈر بن کر سامنے آئے۔ شہر کی تاجر برادری، ڈاکٹر، طلبہ، خواتین، شوبز کے افراد، وکلاء، مزدوروں سے لے کر تمام طبقہ ہائے زندگی میں انہوں نے مقبولیت پائی۔ ہر ایشو پر موثر مہم، احتجاج، دھرنے، ریلیاں، جلسے، ریفرنڈم، پریس کانفرنسیں، کیمپس… ان مہمات نے مخالفین کے جذبات ٹھنڈے کردیے۔ کسی کو یاد نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف، پی ایس پی، متحدہ، پیپلز پارٹی نے کراچی کے ایشوز پر یا بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں کب کوئی جلسہ کیا.. جبکہ جماعت اسلامی مستقل 6 ماہ میں کئی بار سیاسی قوت کا مظاہرہ شہر کی نمایاں سڑکوں اور وسیع و عریض جناح گراؤنڈ میں کر چکی ہے۔ جماعت اسلامی کی مہم کی خاص بات یہ رہی کہ اس نے اپنی ماضی کی کارکردگی کو بنیاد بنایا اور بار بار تکرار کرکے یہ واضح کردیا کہ ہم صرف کام کریں گے اور شہر کی تعمیر کریں گے۔ شہر کی تعمیر کی یہ بات انہوں نے اپنی پوری مہم میں نمایاں رکھی۔ اپنے گیتوں، اشتہاروں، سوشل میڈیا مہم میں بھی کارکردگی اور شہر کی تعمیر اور حافظ نعیم کو نجات دہندہ کے طور پر فوکس رکھا جس سے مایوس عوام میں امید پیدا ہوئی۔ سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام پر اپنے موقف کی ترویج کے لیے تمام طریقے استعمال کیے گئے۔ یہاں تک کہ لوگ متاثر ہوکر رابطے کرنے لگے۔ پوڈ کاسٹوں کے سلسلے میں شاید ہی کوئی ایسا معروف پوڈ کاسٹر ہوگا جس نے حافظ نعیم کو مدعو نہ کیا ہو۔ اس کے بعد آخری دنوں میں ٹی وی اشتہارات و انٹرنیٹ (گوگل) اشتہارات دیکھ کر تو مخالفین نے انگلیاں چبا ڈالیں اور اشتہاری مہم کے اخراجات پر دوبارہ سوال اٹھا دیے۔ اس سے قبل پوڈ کاسٹوں کو بھی اسی تنقید کا سامنا رہا، مگر یقین مانیں یہ سب تنقید کوریج کے مقابلے میں اتنی محدود رہی کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کم از کم ووٹر نے 15جنوری کو ایسا کوئی اثر نہیں لیا۔ الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوئے تو یوں سمجھ لیں کہ سارے پیسے وصول ہوگئے۔