خواب تو خواب ہوا کرتے ہیں، بچے رات کو سوتے میں ڈر جائیں تو کہا جاتا ہے کہ ڈراؤنا خواب دیکھا ہوگا۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر سوچنے پر جاگتے میں خواب دیکھنے کے طعنے سننے کو ملا کرتے ہیں۔ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ فلاں شخص نے کامیاب ہوکر والدین کے خواب پورے کردیے۔ دنیا کی دوڑ میں ملنے والی کامیابی کو بھی اپنے کسی دیرینہ خواب کی تکمیل سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’میرے خوابوں کی رانی‘‘ یا ’’میرے خوابوں کے راجا‘‘ جیسے القاب خوابوں کے حقیقی ہونے کی دلیل ہیں۔ یعنی لفظ ’’خواب‘‘ کسی نہ کسی حوالے سے ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ دادی اماں اکثر کہا کرتی تھیں کہ فجر کے وقت دکھائی دینے والے خواب سچے ہوا کرتے ہیں۔ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ’’پاکستان‘‘ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ خواب واقعی سچے ہوتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنے ذہن میں ابھرتے خیالات، اوہام، یہاں تک کہ اپنے مستقبل کے سپنوں کو بھی رات سوتے میں دکھائی دینے والے خواب بنا ڈالا۔ خیر نہ جانے کیوں میں دادی کی اس قسم کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتا تھا۔ شاید میری عمر کے تمام ہی لوگ بزرگوں کی جانب سے کہی جانے والی ایسی باتوں پر اسی قسم کا رویہ رکھتے ہوں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بزرگ جو بھی کہتے ہیں وہ اُن کی زندگی کے تجربات ہوتے ہیں۔ ان کی ایسی باتوں میں جنہیں ہم اہمیت نہیں دیتے، کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہوا کرتی ہے تبھی تو یہ باتیں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ ایک ایسے ہی خواب کا ذکر ایک مرتبہ پھر کرنا چاہتا ہوں جو شرمندئہ تعبیر ہوا، میرا مطلب ہے اُس وقت جو خواب دیکھا، تحریر کرتا ہوں۔ یہ غالباً 2017ء یا 2018ء کی بات ہے جب فجر کے وقت نظر آنے والے خوابوں کی حقیقت میرے سامنے کھلی جب جماعت اسلامی کراچی نے نادرا کی من مانیوں پر کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کردیا۔ اُس وقت نہ صرف عوام کے جائز مطالبات پر آواز اٹھائی گئی بلکہ شہر بھر کے تمام نادرا دفاتر کے سامنے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ احتجاجی دھرنوں کا بھی آغاز کردیا گیا، جبکہ دوسری جانب پبلک ایڈ کمیٹی کے ذمے داران کی جانب سے ادارہ نورحق میں متاثرینِ نادرا کی مدد کے لیے کاؤنٹر قائم کردیا گیا جہاں نہ صرف شناختی کارڈ کے اجراء سے متعلق شکایتیں اربابِ اختیار تک پہنچانے کے لیے اقدامات کیے جانے لگے، بلکہ آنے والے متاثرینِ نادرا کی قانونی مدد بھی کی جاتی رہی۔ جہاں ایک طرف جماعت اسلامی کراچی اپنی پوری قوت کے ساتھ میدانِ عمل میں اتری، وہیں دوسری طرف امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے شہر میں قائم نادرا دفاتر اور نادرا میں تعینات عملے سے پریشان حال عوام کی مشکلات کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر احتجاجی مظاہروں سے خطابات کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ اُنھی دنوں کی بات ہے جب احتجاجی پروگرام کے سلسلے میں میرا بھی نادرا دفاتر خاصا آنا جانا رہا۔ اس دوران میں ایک علاقائی نادرا دفتر پہنچا جہاں لوگوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی جو حافظ نعیم الرحمٰن کی آمد کے منتظر تھے، وہاں پر ہونے والے پروگرام کی تفصیل متعدد بار تحریر کر چکا ہوں، اس لیے آگے بڑھتا ہوں۔
دورانِ احتجاج ایک شخص مسلسل نادرا کی وکالت کرنے میں مصروف تھا، اُس کی باتوں سے ظاہر ہورہا تھا جیسے یہ احتجاج نادرا سے زیادہ اُس کے خلاف ہو۔ وہ اپنے تئیں باتوں باتوں میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو مشورے دینے لگا کہ ”وہ حافظ نعیم کو کہیں کہ وہ سیاست کریں، ویسے بھی چند ماہ بعد 2018ء میں انتخابات ہونے والے ہیں، اس لیے وہاں توجہ دیں، یہاں سے کیا ملے گا! بلاوجہ ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ علاقوں میں جائیں، عوام سے ملاقاتیں کریں اور کراچی کی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس ساری صورتِ حال میں صرف ہمارا نقصان ہے۔ نادرا میں ہمیں تو کرپشن نظر نہیں آتی۔ اگر لوگ اپنا کام جلدی ہونے کی خوشی میں کچھ رقم دے جاتے ہیں تو اس کو کرپشن کہا جارہا ہے۔ہم کسی سے زبردستی کرتے ہیں نہ کسی کی جیب پر ڈاکا ڈالتے ہیں،یہ تو خوشیوں کے سودے ہیں،اس پر کسی کو اعتراض کرنے کی کیا ضرورت! میں جماعت کے اکابرین سے کہتا ہوں کہ حافظ نعیم الرحمٰن کو کوئی دوسری ذمے داری دے کر کہیں اور مصروف کردیں۔ویسے بھی آج کل ہمارے محکمے کا نعرہ ’’خدا، حافظ نعیم الرحمٰن سے بچائے‘‘ بہت پاپولر ہوتا جارہا ہے۔ ہم تو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ باہمی رضامندی سے ہوتا ہے۔ ادارے میں بڑے طاقتور لوگ بیٹھے ہیں، ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، سارا نزلہ ہم جیسے ملازمین پر گرے گا، سمندر میں بڑی مچھلیاں بھی چھوٹی مچھلیوں کو ہی کھاتی ہیں، اگر کچھ کرنا ہے تو ان مگرمچھوں کے خلاف کیا جائے جو غیر ملکیوں کو بھی بڑی رشوت کے عوض شہریت بانٹتے پھر رہے ہیں۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا، یہاں جو بھی کہا ہے وہ کسی کے بھی سامنے کہہ سکتا ہوں۔ جماعت اسلامی بھی صرف چند دن ہی احتجاج کرے گی اور تھک ہار کر بیٹھ جائے گی۔ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن کو جلد اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ واقعی ان تلوں میں تیل نہیں۔“
نادرا کی من مانیوں کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے چلائی جانے والی مہم پر اپنی بات مکمل کرنے کے بعد، یا یوں کہیے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے بعد وہ کے الیکٹرک، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، تعلیم، صحت سمیت دیگر محکموں پر کیے جانے والے احتجاجات پر لب کشائی کرنے لگا۔ وہ بار بار حافظ نعیم الرحمٰن کا نام لے کر سوال کرتا کہ شہر میں اور بھی سیاسی جماعتیں ہیں، اُن کے قائدین بھی ہیں، لیکن صرف حافظ نعیم الرحمٰن ہی کیوں احتجاج کرتے ہیں؟
اُس وقت اس شخص کی طرف سے کی جانے والی باتوں پر میں نے بھی یہ دعویٰ کر ڈالا کہ تمہارے ایک ایک سوال کا جواب تمہیں حافظ صاحب کی زبانی ہی ملے گا۔ گھر پہنچا تو تھکاوٹ کی وجہ سے طبیعت میں خاصا بھاری پن محسوس ہورہا تھا۔ معلوم نہیں کب بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ ہاں اُس رات آنے والا خواب ضرور یادگار بن گیا جس میں کیفے پارس میں بیٹھے حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات میں نے اُس شخص کی جانب سے کی جانے والی باتیں حافظ صاحب کے سامنے رکھ دیں۔ جنہیں سن کر وہ مسکراتے ہوئے بولے ’’جماعت اسلامی نے ہمیشہ صاف ستھری اور مسائل پر سیاست کی ہے۔ جہاں تک احتجاج کا تعلق ہے یہ اختیار فردِ واحد کو نہیں ہوتا، بلکہ کسی بھی مسئلے پر جماعت اسلامی کے اکابرین کی اکثریتی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، تمام فیصلے کثرتِ رائے سے کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں نادرا ہو یا کے الیکٹرک… یہاں احتجاجی مظاہروں کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ صرف ان دو اداروں تک محدود نہیں، بلکہ جہاں جہاں اور جس محکمے میں کرپشن یا غیر قانونی عمل ہوگا، اِس تحریک کا رخ اُسی محکمے کی جانب موڑ دیا جائے گا۔ کے الیکٹرک ہو یا واٹر بورڈ، شہر کچرے سے اٹا ہو یا کھنڈرات کا منظر پیش کرتی سڑکیں، تعلیمی ادارے ہوں یا صحت کے مراکز.. جماعت اسلامی کی نظر ہر جگہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ابھی ہماری ساری توجہ نادرا اور کے الیکٹرک کی جانب ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جو مرض زیادہ بڑھ جائے پہلے اُس کا علاج کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ دونوں محکمے خصوصی طور پر زیر علاج ہیں۔ باقی محکموں کے ٹیسٹ کروانے کے لیے بھیجے ہوئے ہیں، رپورٹ آنے پر ان کا تسلی بخش علاج کردیا جائے گا۔ جماعت اسلامی تمام بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے میدان میں آئی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم ان بیماریوں سے ڈر جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہمارے پاس تجربہ کار معالجوں کی پوری ٹیم ہے، تسلی رکھیں سب کی باری آئے گی۔ ہماری تحریک کے نتیجے میں عوام جلد صفائی ہوتے دیکھیں گے۔ کرپٹ مافیا قانون کے شکنجے میں آئیں گے، لوگوں کو باعزت طریقے سے سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ جماعت اسلامی فقط سیاسی جماعت نہیں بلکہ عوامی خدمت کا نام ہے۔ اس ملک کے مسائل کا حل جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ ہم اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں، اِن شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب کراچی سمیت پورے ملک میں جماعت اسلامی کی حکومت ہوگی جس کی ابتدا منی پاکستان کہلانے والے شہر کراچی سے ہوگی۔ بندوق کی نوک پر شہر پر قبضہ کرنے والوں کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑے گی۔ دھونس، دھمکی کلچر کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ شہر کو قبضہ مافیا سے نجات صرف جماعت اسلامی دلائے گی۔ وہ وقت دور نہیں جب ایک مرتبہ پھر کراچی کو اُس کی حقیقی قیادت روشنیوں کا شہر بنا کر دم لے گی۔“
اُس وقت میرے خواب میں جو کچھ بھی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا وہ آج سچ ثابت ہوا۔ کراچی بلدیاتی انتخابات میں شاندار کامیابی بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ رواں ہفتے ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے مجھے اس حقیقت کا اندازہ ہوگیا کہ واقعی دادی ٹھیک کہا کرتی تھیں کہ فجر کے وقت دکھائی دینے والے خواب سچے ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے چلائی جانے والی احتجاجی تحریکوں کی بدولت نہ صرف نادرا اور کے الیکٹرک جیسے بے لگام گھوڑوں کو لگام ڈالی گئی بلکہ اربابِ اختیار نے مختلف محکموں کے کرپٹ افسران کے خلاف ایکشن بھی لیا جس کے تحت کرپٹ مافیا کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی اور خاصی بڑی تعداد میں اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ اس کے علاؤہ نادرا دفاتر کے اوقاتِ کار میں اضافہ کیا گیا، لوگوں سے ناجائز طور پر طلب کیے جانے والے کاغذات اور پیلے شناختی کارڈ سے جان چھڑا دی گئی، بند کی جانے والی نادرا موبائل سروس بحال کردی گئی، حصولِ شناختی کارڈ کے لیے بنائے جانے والے خودساختہ قوانین کو جنہیں زبردستی نافذ کیا گیا تھا، ختم کرکے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ کئی ایسی الجھنوں سے بھی نجات دلائی گئی جنہوں نے کراچی کے عوام کو نفسیاتی مریض بنا رکھا تھا۔ اس سب سے بڑھ کر احتجاجی دھرنوں کے نتیجے میں عوام میں سیاسی بیداری آئی اور کراچی ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی کے چاہنے والوں کا شہر بن کر ابھرا، اور تو اور جماعت اسلامی کی جانب سے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کی بدولت ہی مختلف محکموں کے چنگل سے آزاد ہوئے کراچی کے عوام کا بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد بتاتا ہے کہ وہ جان چکے ہیں کہ ان کے مسیحا کون ہیں، ان کی دادرسی کرنے والی جماعت کون سی ہے۔