ایک کے بس کی بات نہیں،کیا سب پیسے کمائیں؟

415

کسی بھی معاشرے کی تشکیل و تطہیر میں دیگر بہت سے عوامل بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتے ہی ہیں تاہم اہم ترین اور فیصلہ کن کردار معاشی ڈھانچے کا ہوتا ہے۔ معاشی ڈھانچا ہی طے کرتا ہے کہ معاشرتی ڈھانچا کیسا ہوگا۔ معاشرتی ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں در حقیقت معاشی ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاس ہوتی ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، جو کچھ معیشت میں ہو رہا ہوتا ہے وہ ہماری زندگی پر اجمالی اعتبار سے اثر انداز ہوتا ہی ہے۔ زندگی کا مجموعی تاثر معاشی رویوں کی بنیاد پر بھی قائم ہوتا ہے۔ ہم جس طور کماتے ہیں اُسی سے طے ہوتا ہے کہ دیگر بہت سے معاملات میں ہماری طرزِ فکر کیا ہوگی۔

ایک زمانے سے پاکستانی معاشرہ شدید نوعیت کی خرابیوں کے پھیر میں ہے۔ ایک بحران نے ابھی دم نہیں توڑا ہوتا کہ دوسرا بحران سر پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ریاست، معاشرت اور معیشت کو لاحق خطرات کی تعداد کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ملک و قوم کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہیں اور ریاست کی سالمیت بھی خطرے میں رہتی ہے۔ یہ سب کچھ ہماری معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے اور معاشی رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی زندگی کا ڈھانچا بدل رہی ہیں۔

آج پاکستانی معاشرے میں بے روزگاری بھی ہے اور مہنگائی بھی۔ مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ روز افزوں مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ بہت کچھ ہے جو اس صورتِ حال کا ذمہ دار ہیں۔ ڈیل کارنیگی کا شمار اُن مصنفین اور مقررین میں ہوتا ہے جنہوں نے شخصی ارتقاء کے موضوع پر زندگی بھر لکھا اور کروڑوں افراد کی زندگی کا ڈھانچا بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کارنیگی نے کہا تھا ’’کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں، ذمہ دار تو آپ ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اس ایک جملے میں پوری ایک کتاب بند ہے۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ڈیل کارنیگی نے ایک جملے میں دانش کا خزانہ بند کردیا ہے۔ جب تک انسان کسی بھی صورتِ حال کے حوالے سے اپنی ذمہ داری قبول نہیں کرتا تب تک اصلاحِ احوال کی صورت نہیں نکلتی۔ ہم کسی بھی معاملے کو درست کرنے کی سمت اُسی وقت بڑھتے ہیں جب اُس معاملے کی خرابی میں اپنا کردار یا ذمہ داری تسلیم کرتے ہیں۔

آج کا پاکستانی معاشرہ بہت سے معاملات میں خرابیوں کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز استثنا کا بھی حامل ہے۔ علاقائی تناظر میں دیکھیے یا عالمی تناظر میں، ہم بہت سے معاملات میں انتہائی انوکھے واقع ہوئے ہیں۔ جب خرابیاں بڑھتی ہیں تو انسان اصلاحِ احوال کی طرف بڑھتا ہے۔ یہی عمل اجتماعی سطح پر بھی دکھائی دینا چاہیے۔ معاشرے یونہی بیٹھے بٹھائے سُدھر نہیں جاتے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاحِ احوال کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہت کچھ ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ چند ایک معاملات پر متوجہ ہوکر پوری زندگی کو درست کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان سے جُڑے ہوئے کسی بھی ملک میں معیشت کا وہ ڈھانچا رُو بہ عمل نہیں جو پاکستان میں ہے۔ بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا، افغانستان، ایران، ترکی اور دیگر بہت سے علاقائی ممالک کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سب نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق بہت کچھ اپنا رکھا ہے اور بہت کچھ چھوڑ رکھا ہے۔ بعض چھوٹے اور کمزور ممالک بھی تعلیم، صحت اور معیشت کے حوالے سے ایسی سوچ کے حامل ہیں کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایران بہت سے معاملات میں ایک مضبوط ملک ہے۔ اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے باوجود وہ ایک قوم کی حیثیت سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ بھارت آبادی اور آبادی کے تنوع کے اعتبار سے بہت بڑا ملک ہے مگر پھر بھی اُس نے اپنے آپ کو اچھی طرح سنبھالا ہے۔ بنگلا دیش آج خاصا مستحکم دکھائی دے رہا ہے۔ یہ استحکام ایسے ہی نہیں مل گیا۔ بنگلا دیش کے عوام اور حکومت دونوں نے بہت کچھ کیا ہے تو کچھ حاصل ہوا ہے۔ سری لنکا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔

کبھی ہم نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ ہمارے پورے خطے میں پورے گھر کی ذمہ داری کسی ایک فرد کے کاندھوں پر ڈالنے کا رواج نہیں؟ بھارت کی مثال بہت نمایاں ہے۔ ہمارے ہاں دیہی معاشرے میں بہت حد تک یہ کلچر موجود ہے کہ گھر کے تمام ہی افراد کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں تب کہیں جاکر کچھ گزارا ہو پاتا ہے۔ طریقے سے جینے کے لیے گھر کے تمام افراد کا کسی نہ کسی حد تک معاشی کردار ادا کرنا لازم ہوا کرتا ہے۔ بھارتی معاشرے میں بھی دیہات اور شہروں کا اجتماعی کلچر یہ ہے کہ گھر کے بیشتر افراد کچھ نہ کچھ کریں۔ وہاں بیٹے خاصی چھوٹی عمر سے باپ کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ کلچر ہمارے خطے میں نسبتاً نیا ہے اور زیادہ قابلِ قبول بھی نہیں۔ مغرب نے یہ کلچر بہت پہلے اپنایا تھا۔ شخصی آزادی کے تصور سے یہ خیال بھی چمٹا ہوا ہے کہ ہر فرد کو اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے۔ جو اپنا بوجھ خود اٹھاتا ہے وہی اکڑ بھی سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں کم و بیش ڈھائی سو سال کے دوران یہ کلچر پروان چڑھا ہے کہ لوگ اپنی اولاد کو بہت چھوٹی عمر سے عملی زندگی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ آٹھ دس سال کے لڑکے کو بھی سکھایا جاتا ہے کہ کماتے کیسے ہیں اور خرچ کیسے کیا جاتا ہے۔ یہی تربیت لڑکیوں کے لیے بھی ہوا کرتی ہے۔ مقصود یہ نہیں کہ وہ دس بارہ سال کی عمر سے کمانا شروع کردیں بلکہ در حقیقت اُنہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ جو کچھ محنت سے کمایا گیا ہو اُس کی قدر کریں، سوچ سمجھ کر خرچ کریں، عملی زندگی میں ہر معاملہ پوری دیانت اور دانش کے ساتھ درست رکھیں۔ یہ تربیت ہر اعتبار سے زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔

ہمارے ہاں انتہائی مہنگائی اور دوسری بہت سی خرابیوں کے دور میں بھی لوگ خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں نہ اولاد ہی کو زندگی کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنے کے قائل ہیں۔ ہمارے ہاں مجموعی طور پر شہری اور دیہی دونوں ہی طرح کے ماحول میں خود کو زندگی کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنے پر کم لوگ متوجہ ہیں۔ زندگی کو اُسی طور قبول کیا جارہا ہے جس طور یہ ہمارے سامنے آتی ہے۔ زندگی جیسے بھرپور معاملے کے لیے بھی تیاری اول تو کی نہیں جاتی اور اگر کی جاتی ہے تو محض سرسری طور پر۔ یہ لاپروائی جو نتائج پیدا کرسکتی ہے وہ کر ہی رہی ہے مگر پھر بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔

یہ بے دِلی اور بے حِسی پر مبنی رویہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔ جو کچھ ہم دیکھ اور بھگت رہے ہیں اُس کے حوالے سے خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو پارہے۔

پاکستانی معاشرے میں ایک زمانے سے یہ تصور کارفرما ہے کہ گھر کی ذمہ داری کسی ایک فرد ہی کو اٹھانی چاہیے۔ یہ فرد 99 فیصد معاملات میں باپ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں گھرانے عمومی سطح پر چار یا پانچ بچوں پر مشتمل رہے ہیں۔ اب رجحان تبدیل ہوا ہے تو ایک یا دو بچوں والے گھرانے زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ رجحان بھی دس پندرہ سال میں سامنے آیا ہے۔ آج بھی بیشتر گھرانوں میں تین سے پانچ بچے بڑے ہوچکے ہیں اور اُن کی پوری کی پوری ذمہ داری صرف باپ پر یا پھر ماں باپ پر ہے۔ اس قدر مہنگائی کے دور میں کوئی ایک فرد کتنی ہی محنت کرلے، پورے گھر کو اچھےطریقے سے نہیں چلا سکتا۔ کمائی اچھی بھی ہو تو روز افزوں مہنگائی قوتِ خرید میں کمی کا سبب بنتی رہتی ہے۔ گھر کے واحد کفیل کے لیے صرف ایک راستہ بچتا ہے … یہ کہ زیادہ کام کرے۔ زیادہ کام کرنا یعنی زیادہ تھکن۔ اس کے نتیجے میں انسان بیمار بھی پڑتا ہے اور وقت سے پہلے خاصا کمزور بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بڑھاپا جلد طاری ہوتا ہے اور انسان زیادہ کمانے کے قابل نہیں رہتا۔

کیا گھر کے تمام افراد کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا کوئی بُری بات ہے؟ ہمارے ہاں اب تک اس معاملے کو بُرا ہی سمجھا جارہا ہے۔ گھر کی ذمہ داری کسی ایک فرد کی نہیں ہوسکتی اور ہونی بھی نہیں چاہیے۔ اگر گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو نبھانے میں تمام افراد کوئی نہ کوئی کردار ادا کریں تو اِسے خالص دُنیوی یا مادّہ پرست سوچ نہیں سمجھنا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ گھر کا کفیل جتنی محنت کرسکتا ہے کرے۔ اُس کے ساتھ شریکِ حیات اور بچوں کو بھی اپنے طور پر بھی کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا ہی چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں معاملات درستی ہی کی طرف جاتے ہیں۔

بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا ہر اعتبار سے دانش مندی کی علامت ہے۔ کراچی، لاہور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں عمومی منظر یہ ہے کہ لڑکے گریجویشن کی سطح تک والد کی کمائی پر منحصر ہوتے ہیں۔ اور گریجویشن کے بعد بھی دو تین سال تک نوکری ڈھونڈنے کے عمل میں وہ اپنا معاشی بوجھ باپ ہی کے کاندھوں پر ڈالتے ہیں۔ یہ روش کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش نہیں۔

اگر ہم اپنے پڑوس میں دیکھیں تو بھارت اور بنگلا دیش میں بچوں کو عملی زندگی کے لیے خاصی چھوٹی عمر سے تیار کیا جاتا ہے۔ اُنہیں کمانے کے بارے میں محض بتایا نہیں جاتا بلکہ سکھایا بھی جاتا ہے۔ جو لوگ چھوٹی عمر سے کمانے کے عمل سے آگاہ ہو جاتے ہیں وہ کمائی کو ڈھنگ سے خرچ کرنا بھی سیکھ جاتے ہیں۔ پھر وہ زندگی بھر پریکٹیکل رہتے ہیں یعنی ڈھنگ سے کماتے اور ڈھنگ سے خرچ کرتے ہیں۔ محنت کی کمائی کا احترام انسان اُسی وقت کرتا ہے جب اُسے یہ سب کچھ بہت چھوٹی عمر سے سکھایا جاتا ہے۔ کیا یہ بات پسندیدہ ہے کہ کوئی اپنے دو تین بیٹوں یا بیٹوں بیٹیوں کو پچیس سال کی عمر تک اپنی محنت کی کمائی سے پالے؟ عقلی اعتبار سے یہ درست نہیں۔ بچوں کو دس بارہ سال کی عمر میں مستقبل کے لیے تیار کرنا چاہیے تاکہ پندرہ سولہ سال کے ہونے تک وہ کمانے کے بارے میں سوچنے لگیں اور کچھ نہ کچھ کماکر باپ یا ماں باپ دونوں کا سہارا بنیں۔

کبھی آپ نے اپنے ماحول میں موجود گھرانوں کو غور سے سے دیکھا ہے؟ آپ جن گھرانوں کو خوش حال دیکھتے ہیں اُن کے بارے میں عمومی رائے کیا ہوتی ہے؟ کیا آپ اس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ بیشتر یا تقریباً تمام ہی کامیاب اور خوش حال گھرانے وہ ہیں جن میں کوئی ایک فرد پورے گھر کا بوجھ نہیں اٹھاتا بلکہ سب مل کر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں، اپنا کردار ادا کرتے ہیں؟ جن گھرانوں میں بچوں کو چھوٹی عمر سے پریکٹیکل ہونے کی تربیت دی جاتی ہے وہ زیادہ کامیابی کے ساتھ جیتے ہیں۔ چھوٹی عمر کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کو آٹھ دس سال کی عمر سے کمانے کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ ہاں، پندرہ سولہ سال کا ہونے پر لڑکوں کو کمانے کے عمل سے جوڑا جاسکتا ہے اور جوڑنا ہی چاہیے۔ اور کچھ نہیں تو وہ اپنا بوجھ اٹھانا ہی سیکھ لیں۔ اگر کسی نوجوان کو اعلٰی تعلیم حاصل کرنا ہے تو لازم ہے کہ خود کمائے اور تعلیم کا خرچ برداشت کرے۔

آپ کسی بھی ماحول میں ایسے بہت سے گھرانوں کو بھی دیکھیں گے جو اپنے بچوں کو عملی زندگی کے لیے درکار اعتماد بخشنے کے لیے اُنہیں خاصی چھوٹی عمر سے عملی زندگی کی طرف بھیجتے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ اُنہیں کسی دکان پر لگادیا جائے۔ لوگوں سے ڈیل کرنے کی صورت میں وہ زندگی بسر کرنے کا وہ تجربہ جلد سیکھ لیتے ہیں جس کے سیکھنے میں لوگ ایک عمر کھپادیتے ہیں۔ بیشتر کاروباری گھرانے ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ بارہ سے پندرہ سال کے لڑکوں کو دکان، دفتر یا فیکٹری لے جاتے ہیں، ماحول کے بارے میں بتاتے ہیں، کام کرنا سکھاتے ہیں اور کام لینے کے گُر بھی سکھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ ایک پورا ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ ماحول مناسب نہ ہو تو زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا ہُنر سیکھنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔

آج ہمارے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ معاشی رویوں کے حوالے سے اپنی سوچ تبدیل کریں۔ سوچ تبدیل کرنے کا معقول ترین طریقہ ہے حقیقت پسندی کو شعار بنانا۔ حقیقت پسندی ہی کے ذریعے ڈھنگ سے جینے کی سوچ پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔
آج کا پاکستان اس امر کا متقاضی ہے کہ عملی زندگی کے حوالے سے حقیقت پسندی اپنائی جائے۔ مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار ہونا سب پر فرض ہے غریب اور زیریں متوسط طبقے کا اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ نئی نسل کو عملی زندگی کے لیے بروقت تیار کیا جائے۔ مڈل کی تعلیم کے دوران ہی طے کردیا جانا چاہیے کہ بچہ کس طرف جائے گا، کیا بنے گا۔ ایس ایس سی یعنی میٹرک کی سطح پر کریئر کا واضح تعین ہو جانا چاہیے۔ تب ہی تعلیم کا راستہ بھی متعین ہو جانا چاہیے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں شناختی کارڈ کے بننے تک اولاد کو عملی زندگی کے لیے بھی تیار کردیا جانا چاہیے۔ اُن کی سوچ عملی ہونی چاہیے۔ اُنہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ کمانا کیسے ہے اور گھر چلانے میں کردار کیسے ادا کرنا ہے۔

کسی بھی معاشرے میں پورے گھر کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر نہیں ڈالی جانی چاہیے۔ ترقی یافتہ گھرانوں نے یہ ہنر صدیوں پہلے سیکھ لیا تھا تب ہی تو وہ ترقی یافتہ ہو پائے۔ بیشتر پس ماندہ گھرانے بھی اس حوالے سے عملی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ عملی زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنانے کے لیے عملی سوچ اپنائی جائے۔

حصہ