آپ کا نام عبد اللہ ہے ،آپ کا نسب آپﷺ سے ملتا ہے اور باعتبار آبا ایک ہی درجہ میں ہے کیونکہ دونوں میں چھ چھ پشتوں کا فاصلہ ہے آپ کی والدہ کا نام سلمی بن ضخر بن کعب بن سعد ہے آپ کے والد ابوقحافہ کا نام عثمان ہے آپ کو زمانہ جاہلیت میں عبد الکعبہ کہا جاتا تھا آپ ﷺ نے آپ کا نام عبد اللہ رکھا آپ کا نام عتیق بھی تھا مگر علامہ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ عتیق آپ کا نام نہیں بلکہ آپ کا لقب ہے بعض نے کہا کہ حسن و جمال کی وجہ سے آپ کا نام عتیق مشہور ہوا بعض کا قول ہے کہ آپ کے نسب میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو عیب سمجھی جاسکے پس سلسلہ نسب کے بے عیب ہونے کی وجہ سے آپ کا نام عتیق مشہور ہوا ۔
تمام امت محمدیہ اس بات پر متفق ہے کہ آپ کا لقب صدیق ہے کیونکہ آپ نے بے خوف ہوکر محمدﷺ کی بلا تامل تصدیق کئی اور معراج کے موقع پر کفار کے مقابلہ میں ثابت قدمی دکھائی اور آپﷺ کے تمام اقوال کی تصدیق کی آپؓ آپﷺ سے دو سال دو مہینے چھوٹے تھے لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ آپؓ آپﷺ سے بڑھے تھے آپؓ مکہ میں پیدا ہوئے اور مکہ ہی میں پرورش پائی اور تجارت کی غرض سے باہر سفر میں جاتے تھے آپﷺ کے ساتھ آپؓ نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی اور مدینہ میں ہی داعئ اجل کو لبیک کہا ۔
حالات بعدِ اسلام و قبلِ ہجرت
ہجرت سے پہلے کا دور ایسا پُر خطر تھا کہ اسلام کا اظہار کرنا مشکل تھا تو دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا ایسا تھا جیسا کہ اژدھے کے منہ میں ہاتھ دینا ایسے دور میں دوسروں کو مسلمان بنانا آپؓ ہی کی ہمت تھی چنانچہ آپ کی کوشش سے اشراف قریش میں سے ایک جماعت مشرف بہ اسلام ہوئی جن کے نام یہ ہیں: حضرت طلحہ،حضرت عثمان،حضرت زبیر،حضرت سعد بن وقاص، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم، ان حضرات کے ایمان لانے سے کفر کی تیز چھری تند ہوگی۔
سفرِ ہجرت
جب کامل تیرہ برس تک کفار کے ظلم و ستم کا سلسلہ چلتا رہا آپﷺ اور آپ کے صحابہ امتحان خداوندی میں کامل ہوچکے تھے تو وحی الٰہی کےذریعہ آپ کو حکم ملا کہ مکہ سے ہجرت کرکےمدینہ چلا جائے خدا اور خدا کے رسول ﷺ نے اس سفر ہجرت میں تمام جماعت صحابہ میں سے صرف حضرت ابوبکرؓ کو ہی منتخب فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ آپﷺ کے ساتھ اس سفر ہجرت میں شامل تھے اور رفیق سفر بنے اور حضرت ابوبکر نے قدم قدم پر ایسی جانی و مالی خدمات انجام دیں۔
ذرا اس سفر ہجرت پر اجمالی نظر تو ڈالو تو وہ کفار کا آپﷺ کے قتل کیلے جمع ہونا اور آپﷺ کا وہاں سے نکل کر حضرت ابوبکرؓ کے گھر جانا اور ان کو سفر ہجرت کی خوش خبری دینا اور حضرت ابوبکرؓ کا فورا تیار ہوجانا اور اپنی اونٹنیوں کو لے آنا جو اس سفر ہجرت کے لیے چار ماہ قبل سے پالی جارہی تھی وہ آپﷺ کا پیدل چلنے کی وجہ سے زخمی ہوجانا اور حضرت ابوبکر آپﷺ کو اپنے شانوں پر اٹھانا اور عرض کرنا کہ یا رسول اللہﷺ آپ ذرا باہر انتظار کیجیے میں اندر جا کر غار کی صفائی کر دوں پھر حضرت ابوبکر کا اپنے چادر کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے سوراخوں کو بند کرنا اور ایک سوراخ جو باقی رہ گیا تھا اس کو اپنے پاؤں سے بند کرنا پھر سانپ کا کاٹنا اور آپﷺ کے لعاب دہن سے شفا پانا وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے کا تین روز برابر شب میں غار کو آنا اور آپ کے ساتھ آرام کرنا اور صبح سویرے مکہ چلا جانا وہ مکہ کے لوگوں کی خبریں پہنچانا اور حضرت ابوبکر کے غلام عامر بن فہیرہ یا ان کی صاحبزادی اسماء بنت ابوبکر کا غار میں کھانا پہنچانا ادھر کفار مکہ کا اعلان کرنا کہ جو بھی حضرت ابوبکر کو یا آپﷺ کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے پھر سو اونٹ کی لالچ میں کفار مکہ کا آپﷺ کی تلاش میں نکلنا کچھ لوگوں کا غار کے منہ تک پہنچ جانا اور حضرت ابوبکر کا ان کو دیکھ کر رنجیدہ ہونا اور آپﷺ کا ان کو لاتحزن ان اللہ معنا کے ذریعہ تسلی دینا پھر تین دن کے بعد غار سے نکل کر مدینہ کی جانب چلا جانا اور حضرت ابوبکر کا چاروں طرف نظر دوڑانا تاکہ کوئی آئے تو معلوم ہوجائے اتنے میں سراقہ کا گرفتاری کی غرض سے آنا اور آپﷺ کی دعا کی برکت سے سراقہ کا مع اپنے گھوڑے کے زانو تک زمین میں دھنس جانا اور آپﷺ سے پناہ مانگ کر زمین کی گرفت سے رہائی پانا ان سارے واقعات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ تنے تنہا تھے۔
غزوہ بدر
17 رمضان المبارک کو ہونے والےاسلام کے اس پہلے غزوہ میں رسول اللہﷺ کے لیے عریش (چادرٓ) تان کر ایک سائبان بنادیا گیا حضرت ابوبکر اس عریش میں آپ کے ساتھ رہتے تھے اور رات کو ہاتھ میں تلوار لے کر عریش کی نگہبانی کرتے تھے جس صبح کو لڑائی ہونے والی تھی اس کی اخیر شب میں آپﷺ نے بڑی بےتابانہ دعا مانگنا شروع کیا کہ خداونداہ اپنا وعدہ پورا فرما اگر یہ تیرے فرمانبردار بندے شکست کھا جائیں گے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے حبیب کی بے قراری دیکھی نہ گئیؓ حضرت صدیقؓ اندر تشریف لآئے اور کہا یا رسول اللہ بس کیجیے آپ کی اتنی دعا کافی ہے۔
حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی فراست ایمانی تو دیکھو کہ جبرئیل وحی لے کر چلے اور ان کے قلب مبارک پر انعکاس ہوگیا اور وہ کہہ اٹھے یا رسول اللہﷺ بس اتنی دعا کافی ہے۔
غزوہ خندق و خیبر
غزوہ خندق میں خندق کے ایک جانب کی حفاظت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد تھی اور اس طرف سے کوئی کافر عبور نہیں کر پایا۔ غزوہ خیبر میں ایک روز حضرت ابوبکر صدیقؓ سردار لشکر بناکر بعض علاقوں کی فتح کے لیے بھیجے گئے اگرچہ اس روز فتح نہیں ہوئی لیکن اس روز کی لڑائی نے کافروں کا غرور ایک حد تک توڑ ڈالا بالآخر حضرت علیؓ کے ہاتھ فتح ہوئی۔
غزوہ تبوک
غزوہ تبوک میں لشکر کا جائزہ لینا اور لشکر کی امامت کرنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہی کام تھا اور اسی غزوہ میں وہ واقعہ پیش آیا کہ جس میں آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکر و عمرؓ کو مال جمع کرنے کے لیے حکم دیا تھا اور حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر سے سبقت لےجانے کا ارادہ کیا تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے غزوہ کے لیے سارا مال و متاع پیش کردیا تھا جبکہ حضرت عمرؓ نے آدھا پیش کیا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت اور بابرکت کارنامے
اگرچہ آپ کا زمانۂ خلافت بہت مختصر تھا اور ایسے نازک وقت میں آپ خلیفہ ہوئے کہ اگر فرشتہ بھی ہوتا تو کچھ نہ کرسکتا تھا مگر پھر بھی آپ نے جو کارنامےانجام دیے امن و امان کے زمانہ میں بھی اس سے بڑھ کر نہ کرسکتے تھے۔
سب سے پہلا اور اہم کام رسول اللہﷺ کی نماز جنازہ اور تدفین کا تھا جس کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بحسن خوبی انجام دیا۔
صحابہ کرام پر اس وقت قیامت کبری یعنی رسول اللہﷺ کی وفات کا جو اثر تھا اس نے ان کے ہوش و حواس اڑا دیے تھے کوئی وفات کا منکر تھا کسی کے منہ پر مہر خاموشی لگ گئی تھی اور کوئی بے تاب تھا جیسا کہ روایات میں مذکور ہے حضرت صدیقؓ نے سب سے پہلے یہ کیا کہ حجرہ مقدسہ میں تشریف لے گئے اور آپﷺ کے رخ انور سے چادر ہٹاکر جبین مبارک کو بوسہ دیا اور سوزجگر نے یہ کلمات ادا کے وانبیاہ واخلیلاہ واصفیاہ بس یہ کہہ کر باہر آگئے اور ایک خطبہ دیا جس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کے لیے آب حیات تھا اس خطبہ میں آیات قرآنی کے حوالے تھے اور یہ بھی حضرت ابوبکر نے بتایا کہ قرآن میں آپﷺ کی وفات کی خبر موجود ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ آپﷺ کی عبادت کرتے تھے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے خدا کی وفات ہوگی اور جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ مطمئن رہے کہ ان کا خدا زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس خطبہ نے سب کو باہوش کردیا۔
قتال مرتدین
آپﷺ کی وفات کی خبر سن کر عرب کے بعض قبائل مرتد ہوگئے اور طرح طرح کی بغاوتیں رونما ہوئیں مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے جن میں ایک مسیلمہ کذاب تھا جس نے رسول اللہﷺ کے اخیر وقت میں سر اٹھایا تھا اور ایک خط بھی بھیجا تھا ان ہی مدعیان نبوت میں اسود عنسی بھی تھا اور سجاح نامی ایک عورت بھی تھی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان سب مرتدوں اور مدعیان نبوت کے قتال کے لیے حکم قطعی نافذ کیا ادھر ایک یہ بھی امر در پیش تھا کہ آپﷺ نے اپنے آخری وصیت میں کہا کہ اسامہ کے لشکرکو ملک شام کی طرف روانہ کردیا جائے حضرت صدیقؓ نے اس لشکر کی روانگی کا حکم دیا۔
چنانچہ مرتد لوگوں سے قتال کے لیے بھی فوجیں روانہ ہوئی اور جو جو فوج جس طرف بھی جاتی فتح و ظفر کے ساتھ ساتھ ہے تھوڑے ہی دنوں میں ہر طرف سے فتح کی خبریں آنے لگیں اور اسلام میں ارتداد کی مہلک وبا پھیلنے والی تھی وہ ایک دم ہی فنا ہوگئی ایک سال میں ہی مدعیان نبوت کو بھی راہی جہنم کردیا گیا اور حضرت اسامہؓ کا لشکر بھی دشمن کی بڑی بہادر فوج کو تہ و بالا کر کے بڑی فتح یابی کے ساتھ واپس لوٹا۔
شروع ماہ جمادی الثانی١٣ھ میں حضرت ابوبکرؓ بیمار میں مبتلا ہوئے پندرہ روز تک بیمار تھے جب آپ کو یقین ہوا کہ میرا آخری وقت ہے تو آپ نے سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو بلا کر خلافت کے متعلق مشورہ کیا آپؓ نے کہا کہ عمر کی بابت تمہارا کیا خیال ہے تو انھوں کہا کہ عمر کے مزاج میں سخت گیری ہے تو آپؓ نے کہا کہ عمر کی سختی کا سبب صرف یہ ہے کہ میں نرم مزاج ہوں میں نے اندازہ کیا کہ جن معاملات میں‘ میں نرمی کرتا ہوں ان میں حضرت عمرؓ سختی کرتے ہیں اور جن میں میں سختی کرتا ہوں عمر اس میں نرمی اختیار کرتے ہیں میرا خیال ہے کہ خلافت ان کو نرم دل بنا دے گی۔ اس کے بعد آپ نے حضرت عثمانؓ کو بلا کر یہی سوال کیا تو انھوں کہا کہ عمر کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم میں کوئی ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا پھر آپ نے حضرت علیؓ کو بلا کر وہی سوال کیا تو انھوں نے وہی جواب دیا جو حضرت عثمان دے چکے تھے پھر آپ نے حضرت طلحہؓ کو بلا کر یہی سوال کیا تو انھوں کہا کہ آپ اللہ کو کیا جواب دو گے تو آپؓ نے کہا میں اللہ کو جواب دوں گا کہ میں نے تیری امت پر تیری مخلوق میں سب سے بہترین شخص کو مقرر کیا ہے۔