ایک درویش تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دولت مند کے دروازے پر گیا اور بڑی لجاجت سے اس کے سامنے دست سوال دراز کیا۔ سنگ دل اور بد مزاج دولت مند نے مدد کرنے کی بجائے اس غریب کو خوب جھڑکا اور اپنے ملازم کو حکم دیا کہ اس کو دھکے مار کرنکال دو۔ ملازم نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی اور بے چارہ درویش اس ذلت اور رسوائی پر خون کے آنسو بہا کر رہ گیا۔
دولت ڈھلتی پھرتی چھائوں ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس ناشکرے امیر کو دغا دے گئی اور وہ پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا۔ دولت نے ساتھ کیا چھوڑا، نوکروں اور چاکروں نے بھی آنکھیں پھیرلیں۔ جس ملازم نے اس کے حکم سے غریب درویش کو دھکے مارکر نکالا تھا، وہ بھی اس کو چھوڑ کر ایک دریا دل اور نیک طینت امیر کے ہاں چلا گیا۔ اس امیر کے دروازے سے کوئی مسکین خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ ایک رات اس نیک امیر کے دروازے پر ایک فقیر نے صدا لگائی۔ اس نے ملازم کو حکم دیا کہ اس درماندہ بھکاری کو راضی کردو۔ جب ملازم اس بھکاری کے پاس کھانا لے کر گیا تو اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔
جب مالک کے پاس لوٹا تو آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مالک نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ میں جس بھکاری کو کھانا کھلا کر آیا ہوں، وہ کچھ عرصہ پہلے لاکھوں روپے کی جائیداد، مال اسباب اور سونے چاندی کا مالک تھا اور میں اس کے پاس ملازم تھا۔ آج اسے بھیک مانگتے دیکھ کر میرا دل لرز اٹھا اور آنکھیں اشک بار ہو گئی ہیں۔
سخی امیر نے کہا کہ اے بیٹے! اللہ بڑا عادل ہے۔ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تمہیں یاد ہوگاکہ جب یہ شخص امیر تھا تو اس کا دماغ آسمان پر تھا اور فقیروں کو دھکے دے کر اپنے دروازے سے نکال دیتا تھا۔ میری طرف دیکھو اور اور پہنچانو میں وہی فقیر ہوں جس کو ایک دفعہ اس نے ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دیاتھا۔ گردش زمانہ نے آج اس کو میری سابقہ حالت پر پہنچا دیا ہے اور جس مال و دولت پر اس کو ناز تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے عطا فرمائی ہے۔