محمد حسن عسکری کل اور آج

296

شمس الرحمٰن فاروقی کی یادگار گفتگو

(دوسرا حصہ)
سوال: روایت کا تصور مختلف لوگوں نے مختلف انداز سے پیش کیا ہے۔ محمد حسن عسکری سے پہلے بھی روایت کا تصور رہا ہے۔ محمد حسن عسکری جب اردو کی اپنی ادبی روایت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ وہ کس ادبی روایت کی بات کرتے ہیں، وہ روایت جو ان کے پیش روؤں کی تھی یا کوئی روایت جسے وہ خود تشکیل دیں گے؟ وہ کون سی ادبی روایت کو قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اور انہوں نے اپنے تصور روایت سے کیا کام لیا؟

شمس الرحمن فاروقی: میری نظر میں عسکری کا عظیم ترین کارنامہ، جو آج بھی اہم ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اسی طرح اہم رہے گا، یہ ہے کہ انہوں نے روایت کے معنی بدل دیے۔ جس چیز کو ہم لوگ روا یت سمجھ رہے تھے اس کی جگہ انہوں نے بالکل ایک نئی تعریف متعین کی جو ان کے خیال میں سو فیصدی اور میرے خیال میں بڑی حدتک صحیح تعریف تھی۔ مثلاً ہم لوگ سمجھ رہے تھے کہ روایت بدلتی رہتی ہے، پرانی ہوتی رہتی ہے۔ سرور صاحب کے یہاں، احتشام صاحب کے یہاں، سب کے یہاں یہ خیال مل جائے گا کہ روایت ایک پرانی سی چیز ہے جو کبھی پیدا ہوئی ہوگی کسی زمانے میں۔ اسے لوگوں نے اختیار کیا، یا وہ لوگوں پر اثرانداز ہوئی۔ لیکن زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ وہ بدلی نہیں، جامد ہوکر رہ گئی۔ اس کی ذات میں ہی کچھ عیب موجود تھا، اس میں کچھ فساد بھی تھا۔ کچھ صالح اور کچھ غیرصالح عناصر سے مل کر روایت بنی۔ اور عسکری کے پہلے لوگ یا توروایت کو مسترد کرتے تھے، مثلاً اختر حسین رائے پوری، یا ترقی پسند مفکرین اور کچھ دوسرے لوگ یہ کہتے تھے کہ روایت کے صالح حصے کو تو ہم لیں اور غیر صالح حصے کو ہم چھوڑدیں۔ جو کچھ اس میں فاسد ہے، مفسدہ ہے، اس کو ہم چھوڑدیں اور جو اس میں اصلاح پذیر ہے اس کو ہم قبول کرلیں۔ لیکن انہوں نے رسمی باتیں کہنے کے سوا کبھی واضح نہیں کیا کہ ’’فاسد/غیرفاسد‘‘، ’’صالح/غیر صالح‘‘ جیسی اصطلاحوں سے ان کی کیا مراد ہے؟ مثلاً اگر غزل ساری کی ساری فاسد نہیں ہے تو اس کے خراب اجزا کو کس طرح الگ کریں کہ غزل بھی باقی رہے اور اس کا عیب بھی دور ہوجائے؟ اور یہ انہوں نے کبھی منطقی یا تاریخی طور پر ثابت نہیں کیا کہ روایت کوئی پرانی چیز ہے جو ایک جگہ جامد ہو کر رہ جاتی ہے۔ بس دعویٰ ہی کرتے رہ گئے۔

عام رائے کے خلاف عسکری نے کہا کہ روایت ایک زندہ اور متحرک چیز ہے۔ اور ہمیشہ ادب کے اندر قائم رہتی ہے، اور یہ ایک seamless whole ہے۔ اسے پورا پورا قبول کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی ادبی روایت کا دوتہائی حصہ تو ہم نے لے لیا اور فلاں روایت کا چوتھائی حصہ وہاں سے لے لیا۔ یا کبھی کہہ دیا کہ یہ روایت آج سے بند اور نئی روایت آج سے شروع۔ تو یہ نہیں ہوسکتا ہے۔ روایت تو ایک نامیاتی کل ہے جو کہ ادب کے ارتقا کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ بے شک، ادب اس پر اثرانداز ہوتا ہے اور بے شک، ادب پر وہ اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے منطقوں، یا تاریخی خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ آپ اس پر کاٹ جھانٹ نہیں کرسکتے کہ یہ لے لیا، وہ چھوڑدیا۔ تو اس میں کوئی تصور فرسودگی کا نہیں ہے۔ پرانے لوگوں کا تصور روایت کا تھا تو یہی تھا کہ یہ ایک انسانی چیز ہے۔ کل تھی اور آج نہیں ہے۔ کل یوں تھی اور آج بدل کر یوں ہو گئی۔ کل کچھ چیزیں ہم نے اس میں سے چھوڑدیں تھیں تو آج کچھ نئی چیزیں اس میں ڈال بھی دیں۔

اس کے برخلاف عسکری کے یہاں یہ تھا کہ روایت Synchronic چیز ہے۔ یہ ہمیشہ قائم رہتی ہے، ہرزمانے میں موجود رہتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عسکری نے کہا روایت کی اصل جو ہے وہ زبانی بیانات میں ہے، تحریر میں نہیں آتی۔ جو چیز کہ زبان پر رواں رہتی ہے، جاری ہوتی ہے، اس سے روایت بنتی ہے، کیونکہ اس میں تحریر کی سی غلطی ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ اور اگر کسی نے غلط تقریر کی بھی تو اس کو درست کرلیا جاتا ہے۔ عام طور پر ہم جو سمجھتے ہیں اس سے یہ الٹی بات ہے۔ لیکن اس کے پیچھے افلاطون کا تصور پنہاں ہے۔ افلاطون نے کہا تھا، ’’لکھا ہوا متن اگر غلط ہے تو اسے اپنی اصلاح کرنے کی قوت نہیں۔‘‘ مثلاً ہم نے کہیں یہ لکھ دیا کہ الٰہ آباد پنجاب کا ایک شہر ہے۔ فرض کریں دو ہزار برس بعد اگر پنجاب اور الہ آباد نہیں رہے اور یہ تحریر رہ گئی تو کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ یہ بیان غلط ہے، کیونکہ جو لکھ دیا گیا، وہ لکھ دیا گیا۔ لیکن زبانی معاملہ ہو تو اس میں اصلاح یا تنسیخ ہوسکتی ہے۔ اگر میں یہ بات آپ سے کہوں کہ صاحب، الٰہ آباد پنجاب کا شہر ہے، تو آپ فوراً اس کی تصحیح کریں گے کہ نہیں جناب ایسا نہیں ہے۔ یا اگر یہی بات آپ مجھ سے منسوب کرکے کہیں کہ فاروقی کہتے ہیں، الٰہ آباد پنجاب کا ایک شہر ہے تو کوئی نہ کوئی اس کی تصحیح کردے گا۔ ناسخ کا شعر یاد آگیا:

تین تربینی ہیں دو آنکھیں مری
اب الٰہ آباد بھی پنجاب ہے

یہاں ہم الٰہ آباد کو پنجاب میں ڈالنے میں حق بجانب ہیں، کیونکہ ہم شعر کہہ یا پڑھ رہے ہیں، اور شعر کی بنیاد فرضی مقدمات پر ہوتی ہے۔ اگر پرانے زمانے کی جغرافیہ کی کتاب میں لکھا مل جائے کہ الٰہ آباد ایک شہر ہے پنجاب کا، اور الٰہ آباد یا پنجاب اس وقت موجود نہ ہوں، تو اس کی تردید تقریباً ناممکن ہوگی۔

مطلب یہ کہ روایت میں اپنے اندر قوت ہوتی ہے اپنی اصلاح کرلینے کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایت ایک سے دوسرے تک فوری طور پر، بالمشافہ پہنچتی ہے۔ جب تک روایت چلتی ہے سینہ بہ سینہ ایک دوسرے تک آتی رہتی ہے۔ مجھے آپ سے ملی۔ مجھ سے کسی اور تک پہنچی، اور پھر وہاں سے کسی اور تک پہنچی۔ تو اگر روایت چلتی رہتی ہے تو اس میں کھوٹ کا، فساد کا امکان بہت کم ہوتا ہے، بلکہ نہیں ہوتا۔ لیکن تحریر میں اگر غلطی ہوگئی تو ہوگئی۔ ایک مثال آپ کے سامنے ہے کہ مشہور غزل غالب کی ہے:

آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

اب پتا نہیں کس وجہ سے ایک بار دیوان میں چھپ گیا، ’’ہونے تک‘‘، بجائے ’’ہوتے تک‘‘۔ اس وقت وہ دیوان سامنے نہیں، لیکن شاید نظامی پریس کے کسی پرانے ایڈیشن میں ’’ہونے تک‘‘ لکھ گیا ہے۔ وہی چل گیا۔ اب پچاس ہزار بار غالب کہتے رہیں کہ میں نے ’’ہوتے تک‘‘ لکھا تھا، اور مالک رام اور مولانا عرشی اور کالی داس گپتا رضا سب کے مدون کردہ کلیات میں ’’ہوتے تک‘‘ ہی ہے۔ لیکن آج تک کوئی اسے نہیں مانتا۔ کوئی سننے کو تیار نہیں۔ 1953میں سہراب مودی نے اپنی لاجواب فلم بنائی، ’’مرزا غالب‘‘ کہانی منٹو کی، مکالمے بیدی کے، موسیقی غلام محمد کی۔ اور غالب کی غزلیں گانے والے ثریا، محمد رفیع، اور طلعت محمود۔ اس فلم میں ثریا نے ’’آہ کو چاہیے اک عمر۔۔۔‘‘ گاکر خود کو امر کرلیا۔ اور ’’ہوتے تک‘‘ کی جگہ ’’ہونے تک‘‘ گایا، اور اس طرح گایا کہ سننے والے کا دل آج بھی خون ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ہم یہ بھی کہیں گے کہ ’’ہوتے تک‘‘ بہتر لگتا ہے، لیکن کہتے پھر بھی وہی ہیں، ’’ہونے تک۔‘‘

تو یہ بات عسکری نے سجھائی کہ دیکھو تحریری روایت بظاہر تگڑی معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں اپنی اصلاح کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ اصل روایت وہ ہے جو زبانی طور پر مروج ہو اورایک سے دوسرے تک مسلسل پہنچے۔ تو ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پورا تصور ہی بدل دیا روایت کا۔

اب رہا یہ معاملہ کہ انہوں نے روایت کے اس تصور سے کام لیا؟ یہاں پر مجھے ان سے اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ انہوں نے یہ کہا کہ اردو کی حدتک ہماری جو روایت ہے وہ اسلامی روایت ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ یہ روایت ہند+مسلم روایت ہے۔ اس میں ہندوؤں کا بھی اتنا حصہ ہے جتنا مسلمانوں کا۔ آپ اسے ہندو +مسلم نہ کہیے، ہند +ایرانی کہیے، ہند +عرب +ایرانی کہیے۔ ممکن ہے آپ شاعر گننے بیٹھیں تو دس مسلمان ہوں تو پانچ ہندو، یا vice versa۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ تصورات اس میں جو داخل ہوئے ہیں، اس روایت میں، وہ ہندو اور مسلمان دونوں طرف سے لائے گئے ہیں۔ اور اس پر عسکری کا یہ کہنا ہے کہ جہاں تک توحید کا سوال ہے، توحید کا تصور تو یقیناً مشترک ہے ہندو اور مسلمان میں، کہ التوحید واحد۔ جو ویدانت میں ہے وہ ہمارے یہاں بھی ہے۔ لیکن اس کے آگے عسکری صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ادبی روایت کی تشکیل میں یا ترقی میں جو تصورات کارآمد رہے ہیں اور بہ روے کار آئے ہیں، وہ دراصل خالص اسلامی تصورات ہیں اور اسلامی تصورات میں بھی وہ تصورات جن کا رشتہ براہ راست رشتہ جڑ جاتا ہے عقلیت کوش اور ماورائی تصوف، یا Intellectual Sufism سے، یعنی تصوف کی اس شکل سے، جو عملی نہیں ہے، صرف فکری ہے۔ یعنی شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، شیخ عبدالکریم الجیلی، بابا داتا گنج بخش، شاہ محب اللہ الٰہ آبادی، شاہ وجیہ الدین علوی وغیرہ نے تصوف کے جن مسائل سے سروکار رکھا ہے، ان ہی کو عسکری ہماری ادبی روایت کا اصل الاصول قرار دیتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ ان لوگوں کا ذکر ان کے یہاں خوب ملتا ہے۔ آج کل کے زمانے کے رنے گینوں (Rene Guenon)، مارٹن لنگس (Martin Lings)، ٹائٹس بورک ہارٹ (Titus Burckhart) فرتیاف شوآن (Frithjof Schuon) وغیرہ لوگوں کا ذکر وہ بہت کرتے ہیں۔ لیکن ان کے یہاں بہت کم ذکر ملے گا چشتیوں کا۔ چشتی جو کہ عمل کرتا ہے۔ دنیا میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے دیکھو اللہ یہ کہہ رہا ہے۔ اللہ کا بندے سے یوں تعلق ہے، انسان کو یوں رہناچاہیے۔ یہ نہیں ہے کہ وہ تبلیغ کر رہا ہے، یا ماورائی تعلقاتی سرگرمی میں مصروف ہے۔ بلکہ وہ اپنی گفتگو سے، اپنے عمل سے، لوگوں کو بتا رہا ہے کہ یوں ہونا چاہیے۔

یعنی برخلاف عسکری کے یہاں ذکر ہے تصوف کی اس روایت کا جو تعقل کی روایت ہے، جو Intellect کی روایت ہے، جو سراسر نوافلاطونی ہے لیکن جس کی بنیاد گہری مذہبیت پر ہے۔ عسکری صاحب وحدت الوجود اور شیخ اکبر ابن العربیؒ، یا بہت آگے جاتے ہیں تو مجدد الف ثانیؒ تک پہنچ جاتے ہیں اور عملی دنیا میں آتے ہیں تو مولانا تھانویؒ تک پہنچتے ہیں۔ مولانا تھانوی خود ایک بہت بڑے مفسر تھے وحدت الوجود کے۔ لیکن حضرت تھانوی کا ایک عملی روپ بھی تھا، وہ ’’التکشف عن مسائل اتصوف‘‘ کے ہی مصنف نہ تھے۔ وہ تفسیر قرآن، مواعظ، ’’بہشتی زیور‘‘، اور ’’البدائع‘‘ کے بھی اشرف علی تھانوی تھے۔ عسکری صاحب کوان اشرف علی تھانوی سے بہت کم سروکار ہے جو حکیم الامت تھے، جو قوم کے اخلاقی اورشرعی عیوب کے معالج تھے۔ اپنے حوالے سے حضرت تھانوی صاحب نے ’’علاج‘‘ اور ’’معالج‘‘ لفظ اکثر استعمال کیے ہیں۔ جو تصوف عملی دنیا میں کارآمد ہے، اس پر عسکری صاحب کم گفتگو کرتے ہیں۔

لہٰذا انہوں نے اردوکی ادبی روایت کو دو طرح سے محدود کردیا۔ ایک تو انہوں نے اسے محدود کیا محض اسلامی روایت تک، اسلامی تصورات تک۔ اور دوئم اس کو پھر محدود کیا اسلامی روایت اور اسلامی تصورات کے اس پہلو تک جس کا تعلق ذہنی اور تعلقاتی تصوف سے ہے۔ لہٰذا وہ ایک مخصوص قسم کی Elitist روایت بن کر رہ گئی۔ چنانچہ ہندوستان کی جو مختلف تہذیب ہے، جو مخلوط تاریخی شعور ہے اور اردو ادب جس کا کہ گل سرسبد ہے، اس کا بہت بڑا حصہ اس روایت میں سے چھٹ گیا۔ اور جو حصہ بچا بھی اس میں انہوں نے تاویلیں شروع کردیں۔ مثلاً وہ کہنے لگے کہ داغ کا یہ شعر:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

دراصل روایت باری تعالیٰ کے مسئلے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے سامنے جلوہ گر ہوگا، کبھی نہ کبھی، قیامت میں، یا قیامت کے بعد۔ دنیا میں اس کے جلوے آشکار نہیں، لیکن بالکل پوشیدہ بھی نہیں۔ لیکن جسے لقاے ربانی کہتے ہیں وہ یہاں نصیب نہیں۔ عسکری کے خیال میں یہ شعر اسی مسئلے پر مبنی ہے۔

تو اس طرح کے interpretation کو غلط تو نہیں کہہ سکتے، کہ یہ interpretation بھی ممکن ہے۔ اور شعر کی ہر وہ تعبیر درست ہے شعر کے الفاظ جس کے متحمل ہوسکیں۔ میں عسکری صاحب کی اس بات سے متفق ہوں کہ اس طرح کہ اشعار کی تعبیر یقیناً صوفیانہ رنگ میں ہوسکتی ہے، جیسا کہ یہاں یہ معنی نکلتے ہیں کہ اللہ میاں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں کہ آپ سامنے آتے ہیں نہ چھپتے ہیں۔ اس کو بہت زیادہ واضح لہجے میں اور صاف صوفیانہ رنگ میں حضرت عبدالعلیم آسی سکندرپوری نے کہا،

بے حجابی یہ کہ ہر شے میں ہے جلوہ آشکار
اس پہ گھونگھٹ یہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے

تو داغ کے اس شعر کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ میاں نظرآتے بھی ہیں اور نہیں بھی نظر آتے ہیں۔ کب صاف صاف دکھائی دیں گے؟ کب انسانوں کو جلوہ دکھائیں گے اپنا؟ یہ ایک Interpretation داغ کے شعر کا ہے۔ لیکن عسکری صاحب کہتے تھے کہ اور کوئی تعبیر ممکن ہی نہیں ہے اس شعر کی۔ تو میرا ان کا اختلاف اسی بات پر ہے۔ حضرت آسی کے شعر کا غیر صوفیانہ مطلب نکالا جاسکتا ہے، اور داغ کے بھی شعر کا۔

میں یہ کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے ایک بڑا کام کیا۔ روایت کے معنی نئے سرے سے سمجھائے اور قائم کیے۔ روایت کی اہمیت اور مرکزیت ہم پر واضح کی۔ روایت کی قوت سے ہمیں ہمکنار کیا۔ لیکن انہوں نے ہماری ادبی روایت کو محدود کردیا صرف اسلامی روایت تک اور اسلامی روایت میں بھی محدود کردیا ان پہلوؤں تک جن کا تعلق تفکراتی اور تعقلاتی تصوف سے ہے۔ تو اس طرح سے بہت تنگ تصویر اس روایت کی بنی۔ اس کے نتیجے میں انہیں تعبیر کی قلابازیاں بھی کھانی پڑیں، جیسا کہ ہم داغ کے شعر میں دیکھتے ہیں۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں خود میں پہنچا ہوں ان کی تعلیمات بغیر وہاں میرے لیے پہنچنا ممکن نہ تھا۔
(جاری ہے)

حصہ