فری اینڈ فیئر الیکشن اور انصاف کی فراہمی سے معاشرے کو بدلا جاسکتا ہے

400

عورت کو عزت،محبت اور تحفظ دیا جائے تو وہ ناممکن کو ممکن بناسکتی ہے،ہمارے معاشرے میں عورت جتنی بوڑھی ہوتی ہے اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے،ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے جسارت میگزین کی گفتگو

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی محترم قاضی حسین احمدؒ کی صاحبزادی، سابق رکن قومی اسمبلی اور واحد خاتون ممبر قومی نظریاتی کونسل ہیں۔ انٹرنیشنل وومن یونین کی موجودہ چیئرپرسن اور ٹرسٹیز کی ممبر ہیں۔ جماعت اسلامی خواتین کی امور خارجہ کمیٹی کی ڈائریکٹر ہیں۔ ہم نے جسارت میگزین کے لیے ان سے گفتگو کی جو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے دن کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟

سمیحہ راحیل قاضی: صبح ہمارے گھر کا معمول ہے نماز اور قرآن، اور اس کے بعد میری اور آغا جان کی عادت تھی کہ نماز و قرآن کے بعد کھجور یا موسم کا کوئی پھل لیتے تھے۔ اس کے بعد میں کچھ دیر سوتی ہوں، یہ وقت میرے لیے بڑی میٹھی نیند کا ہوتا ہے۔ پھر اٹھ کر روزانہ کا کوئی پروگرام طے ہوتا ہے۔ میرے پاس اس وقت دو آفس ہیں، ایک جماعت اسلامی شعبہ خواتین کا امورِ خارجہ اور انٹرنیشنل مسلم وومن یونین کا، دوسرا قواریر کا آفس۔

جسارت میگزین: قواریر کے بارے میں بتایئے یہ کیا ہے؟

سمیحہ راحیل قاضی: قواریر ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ یہ تمام مسلم ممالک کی بزنس وومنز کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ وہاں اپنی پروڈکٹس سیل کرسکتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ حجاب اور مختلف مسلم ممالک کے ساتر لباس اور ہینڈی کرافٹ کے لیے بنایا گیا ہے۔ میرا یہ شوق ہے۔ انٹرنیشنل مسلم وومن یونین میں تیس مسلم ممالک شامل ہیں، ان مسلم ممالک کی خواتین کے لیے یہاں خاص طور پر موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

میں IMWU (انٹرنیشنل مسلم وومن یونین) کی اس سال صدر منتخب ہوئی ہوں۔ لہٰذا اس کے لیے میری کوشش اور زیادہ ہے کہ مسلم خواتین کے لیے کچھ بہتر سے بہتر کرپائوں۔

جسارت میگزین: اپنی مصروفیات میں کیسے اپنے بچوں اور خاندان کے لیے وقت نکالتی ہیں؟ اپنے خاندان کے بارے میں بھی بتائیں۔

سمیحہ راحیل قاضی: میرے دو بچے ہیں، ایک بیٹا محمد ابراہیم قاضی اور ایک بیٹی ریہام جمیل قاضی۔ دونوں کی شادی کردی ہے۔ ماشاء اللہ دو پوتیاں، دو نواسے اور ایک پوتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سود سے بیاج پیارا ہوتا ہے۔ میرا وقت ان کے ساتھ بہت شوق اور خوشی سے گزرتا ہے۔ میں خود امی کے گھر کے قریب رہتی ہوں۔ ہم چار بہن بھائیوںمیں میں ہی ان کے قریب ہوں، اتنی خدمت نہیں کرتی ہوں جتنی کہ کرنی چاہیے، البتہ وہ میری نگرانی بھی کرلیتی ہیں اور سرپرستی بھی کرتی ہیں۔

ہمارا خاندان بڑا خاندان ہے، افراد کے لحاظ سے آغا جان کی طرف سے دس بہن بھائی اور امی کے سات بہن بھائی، پھر ان کی اولادیں۔ 81 کے قریب ہم کزن ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے خاندان کو اُون کی طرح آپس میں بُنا ہوا رکھا ہے، یعنی آپس میں گوندھ کر رکھا ہے۔ میری امی اور ابو دونوں اپنے بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے۔ ہمارے بزرگوں نے خاندان کو بہت جوڑ کر رکھا۔ پورے خاندان میں کوئی کسی سے کٹا ہوا نہیں رہا، الحمدللہ نہ کسی کی کسی سے ناراضی رہی۔ سب خوشی غمی میں ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے کوئی نہیں آسکتا تو کوئی برا نہیں مانتا، فون پر رابطے رہتے ہیں۔

تعلیم کی خاندان میں بہت اہمیت ہے اور اس پر فوکس کیا جاتا ہے۔ ہمارا خاندان ڈاکٹروں کا خاندان کہا جاتا ہے، یعنی میڈیکل ڈاکٹر زیادہ ہیں۔ البتہ پی ایچ ڈی پہلے میرے تایا جان نے کیا تھا 1954ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں۔ انہوں نے مکہ ام القریٰ یونیورسٹی کی لائبریری بنائی، پھر پشاور یونیورسٹی کی لائبریری کے وہ بانی تھے۔ اُن کے بعد میں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی پشاور یونیورسٹی سے الحمدللہ۔

جسارت میگزین: خاندان کو جوڑنے کے کیا اصول ہیں، آپ کے خیال میں؟

سمیحہ راحیل قاضی: خاندان کو جوڑنے اور اکٹھا رکھنے کے لیے پہلا اصول ہے کہ بہت زیادہ مداخلت نہ کی جائے، جتنی زیادہ گنجائش (اسپیس) دی جاسکتی ہے دی جانی چاہیے، یعنی جتنی زیادہ گنجائش دی جائے گی اتنے ہی تعلقات اچھے اور مضبوط ہوں گے۔ خواتین کا اس میں بنیادی کردار ہوتا ہے، یعنی لڑکی جب نئے گھر میں آتی ہے تو بہت کچھ چھوڑ کر آتی ہے۔ میں کہتی ہوں اگر وہ اپنی اَنا بھی چھوڑ کر آئے تو اس کا گزارا بہت اچھا ہوتا ہے۔ اسی طرح ساس جیسے اپنے بیٹے کو بہو کے لیے چھوڑ دیتی ہے اسی طرح وہ اپنی اَنا کو بھی چھوڑ دے۔ یوں اس کی زندگی بھی آسان ہوگی۔ اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ بھی صبر اور برداشت چاہتا ہے۔ ہمارے والدین کے بڑے مثالی تعلقات تھے لیکن اگر کبھی نوک جھونک ہوجاتی تو ایک بالکل خاموشی اختیار کرلیتا تھا۔ آغا جان غصے میں خاموش ہوجاتے تھے۔ امی غصے میں بہت بولتی تھیں، لیکن ہم نے کبھی انہیں اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ ہمیں اپنے نصاب میں بچوں کو سورۃ النساء ضرور پڑھانی چاہیے جہاں ابتدائی آیت میں صنفی برابری (Gender equality)کی بات ہے، اور آیت نمبر 34 میں مردوں کو عورتوں پر قوام بنانے کا ذکر ہے جس کو لے کر آزادی پسند بہت شور مچاتے ہیں۔

ابتدائی آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہم نے نفسِ واحدہ ایک جان سے پیدا کیا، اس سے اس کا جوڑا بنایا جو ایک دوسرے کو خوبصورت بھی بناتے اور مکمل بھی کرتے ہیں۔ آیت 34 میں قوام بنانے کا ذکر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس کا مطلب حاکم نہیں بلکہ سیکرٹری کے ہیں، جو خواتین کی زندگی کو منظم کرتا ہے۔ کیوں کہ عورت جذباتی ہوتی ہے، مرد مضبوط ہوتا ہے۔ عورت کو نازک بھی بنایا ہے اور برداشت کی صلاحیت بھی دی ہے، کیوں کہ اسے بچوں کی تخلیق اور پرورش کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔

تیسرا اصول اس کی صحت ہے۔ عورت کی صحت پر قوم کی صحت کا دارومدار ہے۔ وہ صحت مند ہوگی تو قوم صحت مند ہوگی۔ چوتھا اصول اس کو فوری اور مفت انصاف کی فراہمی ہے جس سے عورت مضبوط ہوگی، اور عورت مضبوط ہوگی تو قوم مضبوط ہوگی۔ پانچواں اصول کہ اس کو وہ تمام حق دیے جائیں جو اسلام اسے دیتا ہے۔ وہ حق نہیں نہ وہ آزادی جو مغرب کہتا ہے۔ اسلام کے حق جس میں آزادی، معاشی وراثت کا حق، رائے کی آزادی کا، معاشی خودمختاری کا حق وغیرہ۔ یہ حقوق اگر عورت کو دیے جائیں تو وہ معاشرہ بدل دینے کی قوت رکھتی ہے۔

جسارت میگزین: معاشرے کو بدلنے کے لیے کیا خود عورت کو نہیں بدلنا ہوگا؟

سمیحہ راحیل قاضی: جی ہاں! عورت کو بھی اپنے اصل کام کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ عورت کا پہلا اور اہم ترین کام بچوں کی پرورش ہے۔ باپ تیار نوالہ کھلائے اور ماں تربیت کرے اور گھر بنائے۔ غیر معمولی حالات میں صورتِ حال مختلف بھی ہوسکتی ہے، لیکن معمول کے طور پر ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کا بڑا کردار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عورت پر ظلم ہوتا ہے، اس سے بھی انکار نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت پرکار کی نوک ہے کہ وہ دائرہ بناتی ہے۔

معاشرے کے لیے، تبدیلی کے لیے، عورت کے لیے پانچ اصول اہم ہیں، یا یہ کہہ سکتے ہیںکہ یہ وہ طاقت ہے جو عورت کو دی جائے تو وہ انقلاب لا سکتی ہے۔

یہ جماعت اسلامی کے چارٹر میں بھی موجود ہیں۔ پہلی چیز ہے عزت، محبت اور حفاظت۔ آغا جان کہتے تھے کہ اگر عورت کو عزت، محبت اور حفاظت ملے تو ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔ عورت کا احترام اُس کی نسائیت کے باعث ہو۔ اس کے مردانہ پن، مردانہ رویّے یا مردانہ وار کام کے باعث نہیں۔ اس کی نسائیت کا احترام اور اس کا تحفظ لازم ہو۔

دوسرا اصول تعلیم ہے۔ پرائمری سے لے کر آگے جو وہ تعلیم حاصل کرنا چاہے اُس کو دی جانی چاہیے۔

جسارت میگزین:کیا خواتین معاشرے کو بدل سکتی ہیں اور کیسے؟

سمیحہ راحیل قاضی: خواتین ہی معاشرے کو بدل سکتی ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے النساء و عماد البلاد (عورتیں تہذیبوںکا ستون ہیں)۔ عورت کا معاشرے میں بہت مرکزی کردار ہوتا ہے۔ عورت سے خاندان بنتے ہیں اور خاندانوں سے قوم بنتی ہے۔ عورت جس رخ پر چاہتی ہے چلا سکتی ہے۔

ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ سمجھا جاتا ہے لیکن گھروں میں سب کچھ ہی عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیا پکے گا؟ گھر کے لیے کیا خریدنا ہے؟ کس کے ساتھ بچوں کے رشتے کرنے ہیں؟ کس سے ملنا ہے؟ اور کیسا رویہ رکھنا ہے؟ کیا لینا دینا ہے؟ ہمارے ہاںعورت جتنی بوڑھی ہوتی جاتی ہے وہ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ آپ دیکھیے ہمارے خاندانوں میں مرد تو ایک جگہ دبکے ہوتے ہیں، عورتوں کی ہی اجارہ داری ہوتی ہے۔ بظاہر کنٹرول پاور مرد کے پاس ہوتی ہے لیکن حقیقت میں خاندان میں عورت طاقت ور ہوتی ہے۔ میری ریسرچ کا عنوان بھی ’’خاندانیت‘‘ ہے۔

جسارت میگزین: سیاست میں خواتین کیا زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں؟

سمیحہ راحیل قاضی: جب ہم نے آج سے پچیس سال پہلے سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا تو بادلِ نخواستہ رکھا تھا۔ اُس وقت بڑی مضبوط رائے یہ تھی کہ عورت کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے، عورت کا اصل کام انسان سازی ہے، وہ ایک کام کرسکتی ہے، یا گھر میں اپنا کردار نبھا سکتی ہے یا باہر کردار ادا کرسکتی ہے، دونوں کام ایک وقت میں نہیںکرسکتی۔ لیکن جب ہم اسمبلی میں گئے تو وہاں اپنے کردار کے لحاظ سے ٹاپ آف دی لسٹ رہے۔

میں نے مولانا جلال الدین عمری جماعت اسلامی ہند کے امیر سے بھی پوچھا تھا، اُن دنوں وہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور ہم بھی تازہ تازہ اسمبلی میں آئے تھے۔ میں نے مولانا سے پوچھا کہ قرآن ہم سے کہتا ہے ’’وقرن بیوتکن‘‘ (قرار سے ٹک کر بیٹھو) اب ہمارے ملک میں عورتوں کو پارلیمنٹ میں لانے کا قانون بن گیا ہے اور جماعت کے اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں ہم سیاست میں آئے ہیں، تو ہم اس آیت کی اپنی زندگی میں کیسے تطبیق کریں؟ اس کا انہوں نے بڑا خوب صورت جواب دیا کہ اس آیت کے دو مطلب ہیں کہ عورت گھروں کے قرار اور اپنے وقار کے خلاف کوئی کام نہ کرے، یعنی عورت اپنے گھروں کے قرار، اپنے وقار کے دائو پر دنیا کی بادشاہت بھی قبول نہ کرے۔ لیکن اگر گھر کا نظام چل رہا ہے، بچوں کے لیے کوئی جوائنٹ فیملی سسٹم موجود ہو، آپ کے پاس صلاحیت بھی موجود ہو اور سہولت بھی موجود ہو اور اجازت بھی ہو توآپ ضرور سیاست، معیشت یا تجارت جس میں چاہیں اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں آپ کے گھر کے قرار، آپ کے وقار کو خطرہ ہو تو ایسا کام نہ کریں۔ میں نے اپنے لیے بھی یہی اصول بنایا ہے اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو بھی اس کی تلقین کرتی ہوں۔

خواتین رول ماڈل کے سلسلے میں آج کے دور میں بھی ہمارے پاس بڑی مضبوط مثالیں موجود ہیں جنہوں نے معاشرے پر اپنے بڑے گہرے اثرات ڈالے۔ آپا حمیدہ بیگم، آپا ام زبیر، بلقیس صوفی بنت الاسلام، رخسانہ جبیں، ڈاکٹر کوثر فردوس اور دردانہ صدیقی ہماری قابلِ تقلید رول ماڈل خواتین ہیں جنہوں نے اپنے مسلسل کاموں سے ہمارے لیے راہیں آسان کی ہیں۔

حق اور باطل کا کارزار تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، بظاہر باطل چھا جانے والا لگتا ہے لیکن حقیقت میں کمزور اور ناتواں ہے۔ لہٰذا سعی اور جہدِ مسلسل کرنا اور کرتے چلے جانا چاہیے۔ اس کے اثرات معاشرے میں ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں۔

آغا جان کہتے تھے: بیٹا! ندی بن جانا جو اپنا راستہ خود نکالتی ہے، مسلسل حرکت اور مسلسل کام سے کوئی آپ کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ وہ کہتے تھے: گند صاف کرنے کے لیے کیچڑ میں اترنا پڑتا ہے لہٰذا چھینٹوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ محبت فاتح عالم۔ ہر ایک سے محبت اور عزت، جو بڑے بڑے کام کرا لیتی ہے۔ اس کا تجربہ خود مجھے بھی ہوا۔ ہمارے بڑے بڑے مخالف میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ٹارگٹ کرکے کالم لکھنے والے… ہم نے فوکس کرکے ان سے ملاقاتیں کیں، عزت و احترام دیا اور وصول کیا۔ لہٰذا نہ تنقید سے پریشان ہونا چاہیے اور نہ چھینٹوں سے ڈرنا چاہیے۔ پھر ہم زعم میں مبتلا نہ ہوں۔ ہم دعویدار ہیں نہ ٹھیکیدار، نہ چوکیدار… اسلام ساری دنیا کی بھلائی کے لیے آیا ہے۔ ہم جتنا عاجزی اختیار کریں بہتر ہے۔ رسول پاکؐ نے دعا سکھائی ہے کہ ’’اے اللہ! لوگوں کی نظر میں بڑا اور اپنی نظر میں چھوٹا بنادے۔‘‘

جسارت میگزین: سیاسی طور پر کوئی ایک حل بتائیں جو شاہ کلید کی طرح ہر مسئلے کو حل کردے؟

سمیحہ راحیل قاضی: فری اینڈ فیئر الیکشن اور میرٹ پر انصاف جب تک نہیں ہوگا معاشرہ پنپ نہیں سکتا۔ معاشرے کفر کے ساتھ چل سکتے ہیں ظلم اور بے انصافی کے ساتھ نہیں چل سکتے، اور مایوسی کفر ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، انہیں تو امید کے جگنو بکھیرنا چاہئیں۔ روشنی کی کرن سپیدۂ سحر کے ساتھ نمودار ہوسکتی ہے۔ ہم تو اُس نبیؐ کے ماننے والے ہیں جس نے ہجرت کے کمزور وقت میں قیصر و کسریٰ کے کنگن کی خوش خبری دی تھی، پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودتے ہوئے ان کے محلات پر اقتدار کی خبر سنائی تھی۔ ان شاء اللہ مستقبل بہت اچھا ہوگا، بس سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارا اس میں کتنا اور کیسا کردار ہوگا؟

جسارت میگزین: خوشی اور غم کا ایسا واقعہ جس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو؟

سمیحہ راحیل قاضی: مجھے جب اللہ نے اولاد سے نوازا تو یہ میری زندگی کا بڑا اہم اور خوشی کا موقع تھا۔ وہ لمحہ جب بچہ ماں کے پاس آتا ہے، ممتا کا خوب صورت احساس دل میں بیدار ہوتا ہے۔ پھر بچوں ہی سے جڑا ہوا وہ وقت جب اُن کی شادیاں ہوئیں، وہ اپنے اپنے گھروں کے ہوئے اور اُن کی اولادیں ہوئیں۔ پھر مجھے وہ لمحہ بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں نے آغا جان کو انتہائی خوش دیکھا جب وہ میرے کانووکیشن میں میرے ساتھ گئے۔ اگرچہ ان کو یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے منع کیا گیا تھا کہ آپ کیوں کہ ایک سیاسی شخصیت ہیں لہٰذا آپ اگر نہ آئیں تو ہمیں آسانی ہوگی۔ آغا جان تھوڑا کبیدہ خاطر ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ بحیثیت والدین کے وہ مجھے کیسے منع کرسکتے ہیں! وہ وہاں گئے اور تمام دیگر والدین کی طرح ہال میں بیٹھے۔ پھر وائس چانسلر نے انہیں دیکھا تو اسٹیج پر بلایا۔ میں اُس وقت قومی اسمبلی کی رکن تھی جب میں نے پی ایچ ڈی کی تھی۔ وائس چانسلر نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ایک سٹنگ ایم این اے ہماری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہی ہے، تو میرے والد اس پر بہت خوش تھے۔ میری DP پر جو تصویر ہے وہ میری واحد تصویر ہے جو آغا جان کے ساتھ ہے۔ یونیورسٹی کے فوٹوگرافر نے جب اُن سے پوچھاکہ قاضی صاحب آپ اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر کھنچوائیں گے؟ تو آغا جان نے خوشی سے اجازت دی اور کہا ’’ہاں آج کیوں نہیں!‘‘

آغا جان کی خوشی میرے لیے بہت ہی بڑی خوشی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ بیٹا! آج تم نے مجھے بہت عزت دی ہے۔

جسارت میگزین: والدین پریشان ہیں کہ بچوں کو اسکرین سے کیسے دور رکھا جائے؟

سمیحہ راحیل قاضی: میں اپنی ذاتی مثال دیتی ہوں۔ میرا نواسہ ہے۔ اب گھر میں چار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہم پشتو، دادا‘ دادی پنجابی، پھر باہر اردو، اسکول میں انگلش۔ تو وہ چاروں زبانوں میں اتنا کنفیوز ہوا کہ بولتا نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ پہلے تو اس کو اسکرین سے دور کریں۔ والدین نے محنت کی، وقت مقرر کیا۔ پہلے تو وہ موبائل کے بغیر کھانا نہیں کھاتا تھا، انہوں نے اس کے موبائل کا وقت ایک گھنٹہ کیا، پھر باہر کی مصروفیات رکھیں کھیل کود، پارک وغیرہ۔ اب ماشاء اللہ بچہ فرفر بولتا ہے، اس کی دیگر ذہنی صلاحیتیں بھی نکھر گئی ہیں۔ تو اسکرین سے بچوں کو دور کرنے کے لیے والدین کو اپنا وقت دینا پڑے گا۔ گھر کے دیگر بڑوں یعنی دادا دادی، نانا نانی کو بھی توجہ دینی ہوگی۔

جسارت میگزین: خواتین کے لیے کیا پیغام دینا چاہیںگی؟

سمیحہ راحیل قاضی: خواتین کو اس بارے میں ذہن نشین کرنا چاہیے کہ وہ ممتا کی حیثیت سے ایک ادارہ ہیں جس کے اوپر اولاد کی تربیت کی ذمہ داری ہے۔ ابھی قطر کے فیفا ورلڈ کپ میں بھی ممتا کے ادارے کا اظہار سامنے آیا۔ ہمارے بزرگوں نے اس قابلِ فخر سرمائے کو ہم تک پہنچایا۔ ہم بھی اس کی اقدار، احترام اور عزت کا خیال کریں اور ان روایات کو اگلی نسل تک پہنچائیں۔

جسارت میگزین: آپ نے وقت دیا اس کے لیے بہت شکریہ۔

حصہ