پچھلے دنوں ہمیں اپنے دوست قدیر قریشی کے بھتیجے فیضان قریشی کی شادی خانہ آبادی کا دعوت نامہ ملا۔ قدیر قریشی چونکہ ایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں اور عرصہ دراز سے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، اس لیے اُن کے ساتھ ہمارا ادب دوستی کا رشتہ خاصا گہرا ہے۔ لہٰذا اُن کے بھتیجے کی تقریبِ سعید میں ہماری شرکت لازمی تھی، یا یوں کہیے کہ یہ پروگرام ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ سو، کارڈ پر درج روانگیِ بارات کے وقت سے بہت پہلے مجھ سمیت سارے دوست اُن کے گھر جا پہنچے جہاں باراتی تھے نہ کوئی گہما گہمی۔ سوائے قدیر قریشی کے وہاں کوئی نہ تھا۔ روانگیِ بارات سے متعلق میرے پوچھنے پر کہنے لگے: ’’میں خاصی دیر سے تیار ہوکر گھوم رہا ہوں، مہمانوں کا انتظار ہے، وہ آجائیں تو روانہ ہوجاتے ہیں‘‘۔
بات بالکل ٹھیک ہے، ظاہر ہے باراتیوں کے بغیر بارات کس طرح جاسکتی تھی! سو، اُن کی طرح ہم بھی لوگوں کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ ایک کے بعد دوسرا گھنٹہ گزرتے ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ لوگوں کے انتظار میں یہاں بیٹھنے کے بجائے آرام کی غرض سے کہیں جاکر لیٹنا پڑے گا۔ بس اسی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم باراتیوں کے لیے منگوائی گئی کوسٹر میں جا بیٹھے، بلکہ آخری نشست پر جا لیٹے۔ یوں خدا خدا کرکے رات سوا بارہ بجے پٹاخوں کی آوازوں کے ساتھ منزل کی جانب روانہ ہوئے اور رات ایک بجے کورنگی ڈھائی نمبر کے قریب واقع شادی ہال جا پہنچے۔ ’’بارات آگئی، بارات آگئی‘‘ کا شور سنتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ ہماری منزل آچکی ہے، یعنی ہمارے سفر کا اختتام ہوچکا ہے۔ سارے باراتی گاڑیوں سے اترنے لگے، میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے اُس شادی ہال کی جانب چل پڑا جہاں باراتیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے خاصا انتظام کیا گیا تھا۔ باقی لوگوں کی طرح میں بھی پنڈال میں جا بیٹھا۔ فیضان قریشی کا نکاح چند ماہ قبل ہوچکا تھا اس لیے میرا ارادہ تھا کہ کھانا کھاتے ہی یہاں سے رخصت ہوجائوں گا۔ لیکن سوچنے سے کیا ہوتا ہے! ہوا وہی جو ہونا تھا، یعنی یہاں بھی ہم بیٹھے رہے اور وقت گزرتا گیا۔ رات دو بجے کے بعد کھانا کھایا اور پھر اپنی اپنی کرسیوں پر ہی براجمان رہے۔ شادی ہال میں ایک جگہ بہت دیر تک بیٹھے رہنے سے مجھے کچھ تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی تھی، اس لیے سوچا کہ باہر تھوڑی چہل قدمی کرلوں، کوئی دکان کھلی ہو تو پان کھالوں۔ بس یہی سوچتا ہوا میں پنڈال سے باہر نکل آیا۔ شاید اس معاملے میں قسمت اچھی تھی کہ باہر نکلتے ہی شادی ہال سے متصل علاقے میں مجھے پان کی دکان نظر آگئی۔ میں تیزی سے قدم بڑھاتے اور گندے پانی کو پھلانگتے ہوئے اُس دکان تک جا پہنچا۔ پان کھایا اور کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد میں نے دکان دار سے اُس کا نام پوچھتے ہوئے کہا ’’تمہارے علاقے کی حالت دیکھ کر نہیں لگتا کہ کبھی یہاں کوئی ترقیاتی کام ہوئے ہوں گے۔ ہر طرف سیوریج کا گندا پانی… جبکہ گلیاں انتہائی خستہ حال دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘
پان والا شاید مجھ سے بھی زیادہ بولنے کا عادی تھا، اپنا نام آصف بتاتے ہوئے ایسا بولا کہ بولتا ہی چلا گیا:’’ہم تو بچپن سے ہی علاقے میں گندگی اور گلیوں میں سیوریج کا بہتا ہوا پانی دیکھ رہے ہیں، یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ آپ یہاں شادی میں آئے ہوئے ہیں اس لیے ایسی باتیں کررہے ہیں۔ ہم تو اسی گند کو ٹاپتے ہوئے جوان ہوگئے ہیں۔ کچرا تو یہاں کی ثقافت بن چکا ہے۔‘‘
اُس کی باتیں سن کر محسوس ہوا جیسے اُسے میری بات بری لگی ہے۔ بس اس خیال سے میں نےکہا: ’’بھائی اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں، میں تو آپ کے علاقے کی بدترین صورتِ حال دیکھ کر یونہی پوچھ بیٹھا تھا۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، مجھے آپ کی کوئی بات بری لگی اور نہ میں غصے میں ہوں۔ آپ تو مہمان ہیں، ابھی چلے جائیں گے، لیکن ہمیں تو یہیں رہنا ہے،اور پھر سچ تو سچ ہوتا ہے جو آپ کے سامنے ہے۔‘‘
دکان کے ساتھ بنی چار دیواری کے بارے میں پوچھنے پر اُس نے بتایا: ’’یہ نشہ پارک ہے۔‘‘
’’نشہ پارک…! کیا مطلب؟‘‘
’’ذرا اندر جاکر دیکھیں، آپ کو ہر طرف چرس کی بدبو محسوس ہوگی۔ کہنے کو تو یہ ایک پارک ہے لیکن اب یہاں قبضہ مافیا نے قبضہ کررکھا ہے، علاقے کے چند لوگ جن کا کاروبار پھلوں کا ہے، نہ صرف یہاں نشہ کرتے ہیں بلکہ اپنی گاڑیاں بھی یہاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہی صورتِ حال اندرون گلیوں کی بھی ہے۔ خیر بات ہورہی تھی پارک کی، بس یوں سمجھیے کہ عوام کے لیے بنایا جانے والا یہ پارک ایک طرف نشہ پارک ہے تو دوسری جانب ”گیراج“ کے طور پر بھی استعمال ہورہا ہے۔‘‘
آصف کا محلے میں قائم پارک کے بارے میں اس طرح کا نقشہ کھینچنا کسی لطیفے سے کم نہ تھا، بلکہ المیہ تھا۔ خیر جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں،وہ بولے جارہا تھا، اس لیے میری تمام تر توجہ اُس کی باتوں کی جانب تھی۔ علاقے کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نے بتایا:
’’یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ فراہمی و نکاسیِ آب ہے۔ پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں، اور یہاں کے گلی کوچوں کے ساتھ ساتھ مرکزی سڑکیں اُبلتے گٹروں کے غلیظ اور بدبودار پانی کے تالاب یا نالوں کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں، علاقے کی گلیوں اور سڑکوں سے گزرنے کا مطلب اپنے کپڑے ناپاک کرنا ہے، اسی لیے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے دروازوں کے سامنے مٹی ڈلوانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ہم انتہائی پریشان ہیں اس لیے یہ سب کرنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر ہے گھر آنے جانے کے لیے یہیں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جن کے پاس اختیارات ہیں وہ دکھائی نہیں دیتے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر، بلکہ زیرو ہے۔ علاقے کی حالت منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ سارے ہی نااہل ہیں۔ ہر ادارے میں کرپشن عروج پر ہے۔ جنہیں بازپرس کرنی ہے وہ کرپٹ افسران پر مہربان ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ وہ ان کی غیر قانونی حرکتوں اور کرپشن کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ علاقے کی جانب جاتی مرکزی سڑک کی تمام اسٹریٹ لائٹس خراب ہونے کے باعث بند پڑی ہیں، نشاندہی کے باوجود کبھی کسی نے سنجیدگی دکھائی اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا گیا۔ عوام کا کام تو عوامی مسائل سے اربابِ اختیار کو آگاہ کرنا ہوتا ہے تاکہ شہریوں کے مسائل حل ہوسکیں، مگر جب کوئی ذمہ دار عہدیدار اس پر چشم پوشی کرے تو کیا کیا جائے! پورا علاقہ کسی گاؤں کا منظر پیش کرتا ہے، بلکہ شاید گاؤں بھی اس سے بہتر ہو۔ پچھلے دنوں ہمارا دوست حسیب چند دن ملتان رہ کر آیا، اس دوران اُسے گاؤں جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ بتا رہا تھا کہ وہاں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے، گاؤں کی جانب جاتی سڑک موٹر وے سے کم نہیں، بلکہ وہاں کے دیہی علاقوں کی چمچماتی سڑکیں ہمارے شہر کی مرکزی شاہراہوں سے بہتر ہیں۔ سیوریج سسٹم اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا جو نظام وہاں موجود ہے وہ ہمیں نصیب نہیں“۔
آصف کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔ اگر کراچی کے انفرااسٹرکچر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں یہاں کے ہر علاقے میں اپنے اور پھر شہر میں بڑے بڑے نالے ہوا کرتے تھے، پانی علاقوں کے ان نالوں سے ہوتا ہوا ملیر ندی، لیاری ندی، گجرنالہ اور دیگر نالوں میں جاکر گرتا تھا، اور سیوریج سسٹم بھی خاصا بہتر تھا۔ اس کے برعکس سیوریج کی لائنیں اب بند پڑی ہیں، کراچی شہر تیزی کے ساتھ پھیلتا ہوا شہر ہے، یہاں صرف سندھ سے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یہاں کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود کراچی گندگی اور سیوریج زدہ نظام سے اَٹا پڑا ہے۔گندگی اور مچھروں کی بہتات کے باعث یہاں کے باسی مختلف موذی امراض کا شکار ہیں۔ہر محلے،ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں،جبکہ کراچی سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے ہمیشہ رونا ہی روتے نظر آتے ہیں،جس کی مثال سابق ناظم کراچی وسیم اختر کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ دوسری طرف صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ہے جو شہر کراچی پر حکمرانی کا خواب تو دیکھتی ہے لیکن کراچی کے مسائل حل کرنے کے بجائے یہ جماعت اپنی تمام تر ذمہ داری کے ایم سی پر ڈال دیتی ہے۔بات سیدھی سی ہے کہ سندھ حکومت اگر کراچی کے مسائل کا حل چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز فراہم کرے تاکہ بلدیاتی نمائندے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں،کیوں کہ نچلی سطح تک اختیارات اور فنڈ دینے سے ہی سیوریج،پینے کے صاف پانی کی کمی اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور جہاں تک عوام کے کردار کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوام بھی سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جس روز یہ تحریر عوام کے سامنے ہو گی اُس دن کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہوں گے اور اُسی روز عوام کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار ہوگا۔ لہٰذا علاقائی جماعتوں کے بجائے کراچی سے محبت کرنے والوں کو نمائندگی دینا ہوگی۔ کراچی کی رونقیں بحال کرنے اور اسے دوبار روشنیوں کا شہر بنانے کی آرزو پوری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ایسی جماعت کو منتخب کیا جائے جس نے کے الیکٹرک کو لگام دی، جس نے شاختی کارڈز کے حصول میں پیش آنے والی دشواریوں کا سدباب کیا، جس جماعت کے رہنما اور کارکنان کراچی کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یقین مانیے کراچی کا درد رکھنے والی جماعت کو ووٹ دے کر ہی شہر کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے، بصورتِ دیگر ٹوٹی سڑکیں، اجڑے ہوئے پارک، ویران تعلیمی ادارے اور کچرے سے اَٹے محلے ہمارا مقدر ہوں گے۔