فالج ایک ایسا مرض ہے جو چلتے پھرتے انسانی جسم کو مفلوج کرکے روزمرہ کے معمولات کو ادا کرنے سے قاصر کردیتا ہے۔ فالج کے مریض کی وجہ سے اس کے گھر والے بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس میں مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 29 اکتوبر کو فالج کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں فالج کے حوالے سے آگہی، علاج اور تدارک کے حوالے سے خصوصی مہم چلائی جاتی ہے۔
پاکستان میں 30 سے 40 سال کی درمیانی عمر کے افراد میں فالج کی شرح میں مسلسل تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت یہ شرح بیس سے پچیس فیصد ہے جس کی وجوہات میں سگریٹ نوشی، ذیابیطس، بلند فشارِ خون، موٹاپا، چکنائی کا زیادہ استعمال اور ورزش نہ کرنا شامل ہیں۔ پاکستان میں شاید ذہنی دباؤ اور آلودہ ماحول ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں ہر روز چار سو لوگ فالج کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر دس سیکنڈ میں ایک انسان فالج کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ اِس مرض میں شریانوں میں خون کا لوتھڑا جم جانے سے جب خون کا دباؤ بڑھتا ہے تو مریض پر فالج کا حملہ ہوتا ہے، اور ایک صحت مند انسان فوری طور پر مفلوج ہوکر بستر سے لگ جاتا ہے۔
پاکستان میں دیگر بیماریوں کے مقابلے میں فالج سے ہونے والی اموات کا تقابلی جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوتی ہیں، اُس کے بعد فالج اور تیسرے نمبر پر کینسر ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر اموات فالج کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر ہم معذوری کے تناظر میں دیکھیں کہ وہ بیماریاں جن سے معذوری ہوتی ہے تو اُن میں فالج اول نمبر پر ہے، اور بیماری اور معذوری دونوں کے تناظر میں فالج دنیا بھر میں سب سے خطرناک مرض ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشینی دور میں جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے اور ایک جامد قسم کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ زیادہ چکنائی والی اشیاء کا استعمال بھی کرتے ہیں جو اس بیماری کی وجوہات میں شامل ہے۔
فالج کے نوّے فیصد سے زیادہ کیسز میں چار اہم علامات ظاہر ہوتی ہیں، جن میں بازو اور ٹانگوں میں شدید کمزوری محسوس ہونا، زبان میں لڑکھڑاہٹ یا بول نہ پانا، دیکھ نہ پانا یا بے ہوشی شامل ہے۔
ان اقدامات کی مدد سے فالج کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے:
’’نمک کا استعمال کم کیا جائے۔ سگریٹ، تمباکو نوشی، پان اور گٹکے سے پرہیز کیا جائے۔ باقاعدگی سے ورزش کی جائے اور سال میں ایک مرتبہ بلڈ پریشر، شوگر اور کولیسٹرول چیک کروایا جائے، اور اگر یہ بڑھا ہوا ہو تو اسے کنٹرول کیا جائے۔‘‘
اگر کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ یا ہاتھ یا پاؤں کام کرنا چھوڑ دیں، زبان میں لکنت یا بولنے میں مشکل پیش آئے، ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی چلی جائے تو یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ اس پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ اگر مریض کو اس حملے کی صورت میں فوراً اسپتال پہنچایا جائے تو اس سے بھی فالج سے ہونے والی اموات کی شرح میں قابلِ ذکر حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
خاص طور پر پہلے 24 گھنٹوں میں مریض کے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا، اسے انفیکشن سے بچانا۔ اب ایسی ادویہ بھی آگئی ہیں کہ اگر مریض کو حملے کے تین گھنٹوں میں اسپتال پہنچا دیا جائے تو ان دوائیوں کی مدد سے جمنے والے خون کو تحلیل کردیا جاتا ہے اور اس سے مریض کی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔
دنیا کے علاوہ پاکستان میں بھی انسانی معذوری کی سب سے بڑی وجہ فالج ہی ہے، اور اس کی شرح میں تیزی سے اضافے کو روکنے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کے علاوہ لوگوں کا اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔
نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن (نارف) گزشتہ دس سال سے فالج اور دیگر اعصابی امراض کے حوالے سے آگہی، علاج اور تدارک کے لیے کام کررہی ہے تاکہ عوام الناس میں شعور بیدار کرکے ان امراض میں اضافے کی شرح کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پایا جاسکے۔