بچوں کے کھیل

540

بچے جب مل بیٹھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی کھیل ضرور شروع ہو جاتا ہے۔ خواہ کوئی ملک ہو یا کوئی موسم، بچوں کو کھیلنے سے باز نہیں رکھا جا سکتا۔ کچھ کھیل ایسے ہوتے ہیں جو کمروں میں کھیلے جاتے ہیں اور کچھ میدانی کھیل ہوتے ہیں۔ آپ بھی بہت سے کھیل کھیلے ہوں گے۔ آپ کی تفریح کے لئے کچھ اور کھیل بتائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کے لئے بالکل نئے ہوں۔ ایسی صورت میں آپ اور آپ کے ساتھی بہت لطف اندوز ہوں گے۔

اندھا مداری
یہ کھیل بہت دلچسپ اور آسان ہے۔ گھر کے اندر یا باہر کھیلا جاسکتا ہے۔ یورپ میں بچے اس کھیل کو بہت شوق سے کھیلتے ہیں۔

اس کھیل میں ایک بچے کی آنکھوں پر پٹّی باندھ دی جاتی ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھما دیا جاتا ہے، جسے مداری کا ڈنڈا کہا جاتا ہے۔ باقی سب بچے انگلیاں پکڑ کر مداری کے گرد حلقہ بنا کر ناچتے ہیں اور کوئی سا گیت گاتے ہیں۔ مداری اپنا ڈنڈا کسی بچے کی طرف کرتا ہے تو وہ بچہ حلقے کے اندر آکر ڈنڈے کا دوسرا سرا تھام لیتا ہے۔ اب مداری منہ سے تین بار بکری کے ممیانے، بلی کے میاؤں میاؤں کرنے یا کتے کے بھونکنے کی آواز نکالتا ہے، ڈنڈے کے دوسرے سرے پر لڑکا اس آواز کی نقل اتارتا ہے اور مداری اندازہ لگاتا ہے کہ دوسری طرف کون لڑکا ہے۔ اگر اس کا اندازہ ٹھیک ہو تو مداری حلقے میں چلا جاتا ہے اور دوسرا لڑکا مداری بن جاتا ہے۔ نہیں تو بچے پھر حلقے میں ناچنے اور گانے لگتے ہیں اور مداری پھر کسی بچے کو بلاتا ہے۔ ہر بار مداری مختلف جانوروں کی آوازیں نکالتا ہے۔ ایک بات کا دھیان رکھیں کہ ڈنڈا زیادہ لمبا یا نوکیلا نہ ہو کیوں کہ مداری کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور یہ ڈنڈا کسی کے منہ یا آنکھ پر لگ سکتا ہے۔

اندھیرے میں مچھلی پکڑنا
یہ کھیل چین میں بہت کھیلا جاتا ہے۔ ہر بچہ اپنا نام کسی مچھلی کے نام پر رکھ لیتا ہے۔ اب ایک کھلاڑی کو مچھیرا چن لیا جاتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔

مچھیرا ایک ہی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ اس کے گرد اندھیرا سمندر ہے، جس میں مختلف ناموں کی مچھلیاں تیر رہی ہیں۔ مچھیرا کھڑا ہے۔ مچھلیاں آتی ہیں اور اسے چھوکر نکل جاتی ہیں۔ مچھیرا انہیں پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی مچھلی اس کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کا نام پکارتا ہے۔ اگر مچھلی کہتی ہے ’غلط‘ تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اور پھر اندھیرے میں ٹٹولنے لگتا ہے اگر مچھلی ٹھیک پکڑی جائے تو مچھلی پٹی باندھ کر مچھیرا بن جاتی ہے اور مچھیرا مچھلی بن کر اندھیرے سمندر میں تیرنے لگتا ہے۔

سوم منگل
یہ میدانی کھیل گیند سے کھیلا جاتا ہے اور بچوں میں بہت چستی پیدا کرتا ہے۔ اس کھیل کے لئے کم ازکم سات بچے ہونے چاہئیں۔ اگر بچے سات سے زیادہ ہوں تو کھیل کا نام سوم منگل کی بجائے جنوری، فروری ہو جاتا ہے۔ کھیلنے والے بچوں کو اگر وہ سات ہوں تو ہفتے کے ساتھ دنوں کے نام دیئے جاتے ہیں۔ اگر سات سے زیادہ ہوں تو مہینوں کے نام دے دیئے جاتے ہیں۔ اب سوم ایک نرم ربڑ کی گیند لے کر اسے سامنے کی دیوار پر پھینکتا ہے اور باقی بچے اس کے گرد گیند کو پکڑنے کے لئے تیار کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن دیوار سے ٹکرا کر آنے والی گیند صرف وہی بچہ دبوچے گا جس کا نام سوم گیند پھینکتے وقت پکارے گا۔ جس لڑکے کا نام لیا گیا ہے اگر وہ گیند کو پکڑ لیتا ہے تو وہ کسی اور لڑکے کا نام لے کر گیند کو دیوار سے ٹکرائے گا۔ اگر وہ گیند نہیں پکڑ سکا تو سوم ہی گیند کو پکڑ کر باقی لڑکوں میں سے، جو اب سب بھاگ گئے ہوں گے، کسی ایک کو گیند کا نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ اگر وہ کسی کو نشانہ بنا لیتا ہے تو سب لڑکے واپس آ جائیں گے اور پھر سوم جس لڑکے کا نام پکار کر گیند دیوار پر مارے گا۔ لیکن اگر وہ نشانہ نہیں لگا سکا تو وہ گیند چھوڑ دے گا اور منگل گیند سے کھیل شروع کرے گا۔ جو بچہ تین بار گیند کا نشانہ بن جائے وہ آؤٹ سمجھا جائے گا۔

مسکراہٹ
یہ انتہائی پرلطف کھیل جرمنی کے بچوں میں بہت مقبول ہے۔ اس سے اجنبی بچے بھی بہت جلد ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ اس کھیل میں سب بچے ایک دائرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یا بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ سب نہایت سنجیدہ اور گمبھیر شکلیں بنا لیتے ہیں۔ اب ایک کھلاڑی مسکرانا شروع کر دیتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ اپے منہ پر ہاتھ پھیر کر مسکراہٹ اتارتا ہے اور اپنے سامنے بیٹھے ہوئے کسی کھلاڑی کے منہ پر دے مارتا ہے۔ وہ خود سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ اب جس بچے پر مسکراہٹ پھینکی گئی ہے اس کا فرض ہے کہ وہ مسکرانے لگے اور کچھ دیر بعد چہرے سے مسکراہٹ اتارکر کسی اور بچے کی طرف پھینک دے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک صرف ایک کھلاڑی باقی رہ جائے۔ اس کھیل کا ضروری اصول یہ ہے کہ صرف وہی کھلاڑی مسکرائے جس کی طرف مسکراہٹ پھینکی جائے۔ اگر کوئی اور کھلاڑی ہنسے یا مسکرائے گا تو اسے دائرے سے خارج کر دیا جائے گا۔ اس میں بچوں کے لئے ہنسی ضبط کرنا اور اسی دم سنجیدہ ہو جانا بہت مشکل بات ہے اور دیکھنے والے بھی اس کھیل سے خوب لطف اٹھاتے ہیں۔

ہنسی کا کھیل
اس کھیل میں کمرے کے درمیان ایک پردہ لٹکا دیا جاتا ہے۔ بچے دوبرابر کی ٹولیاں بنا لیتے ہیں۔ ایک ٹولی پردے کے ایک طرف اور دوسری پردے کے دوسری طرف کھڑی ہو جاتی ہے۔ ایک ٹولی کا ہر کھلاڑی باری باری زور سے ہنستا ہے۔ اگر پردے کے دوسری طرف کے بچے اس کو پہچان لیں تو وہ بچہ بھی ان کی طرف چلا جاتا ہے، نہ پہچان سکیں تو اس سے اگلا بچہ ہنستا ہے۔ اس طرح ایک ٹولی ہنستی اور دوسری پہچانتی ہے۔ بچے مصنوعی ہنسی ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹولیوں کے بچے اس طرح کم اور بڑھتے رہتے ہیں جو ٹولی دوسری طرف کے سب بچوں کو ساتھ ملا لے وہ جیت جاتی ہے اس کھیل میں بچے ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح پہچان جاتے ہیں۔ اس کھیل کا نام ہے ’’کون ہنسا؟‘‘۔

چوہا بلی
یہ ایک آسان اور پرلطف کھیل ہے جسے چھوٹے بچے بڑی دلچسپی سے کھیلتے ہیں۔ اس کھیل میں بچے دو برابر کی ٹولیوں میں بٹ کر آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بیچ میں کافی جگہ کھلی رہ جاتی ہے۔ اب دونوں ٹولیوں میں سے ایک ایک بچہ بیچ میں آ جاتا ہے۔ دونوں کی آنکھوں پر ہٹی باندھ دی جاتی ہے۔ ایک بچہ چوہا ہوتا ہے اور دوسرا بلی۔ بلی ایک سرے سے اور چوہا دوسرے سرے سے چلتا ہے۔ بلی کا کام چوہے کو پکڑنا ہے دونوں ٹولیاں اپنے ساتھی کو بتاتی جاتی ہیں کہ وہ داہنی طرف ہو جائے، آگے ہوجائے یا بائیں طرف ہوجائے، تاکہ وہ بلی کے ہاتھ سے بچ سکے اور بلی اسے پکڑ نہ سکے۔ خوب جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اگر بلی چوہے کو پکڑ لے تو مخالف پارٹی کا ایک رکن کم ہو جاتا ہے اور وہ ایک اور چوہا پیش کرتی ہے۔ اگر بلی ہار جائے تو جیتنے والی پارٹی بلی اور ہارنے والی پارٹی چوہا بھیجتی ہے۔ اس طرح یہ دلچسپ کھیل کافی دیر تک چلتا ہے۔

ریچھ آیا
یہ اسکاٹ لینڈ کا ایک دلچسپ کھیل ہے جسے کھلے میدان یا مکان میں کھیلا جاتا ہے جہاں چھپنے کے لئے کافی جگہ ہو۔ اس کھیل میں ایک بچے کو ریچھ بنایا جاتا ہے۔ اسے کہیں چھپ جانے کی اجازت ہے۔ باقی بچے اس کی طرف نہیں دیکھتے۔ پچاس یا سو تک گنتی کے بعد سب بچے اپنے گھر سے ریچھ کو تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ جو بچہ پہلے کہیں ریچھ کو دیکھ لیتا ہے وہ شور مچا دیتا ہے ’’ریچھ آیا، ریچھ آیا‘‘ اور سب بچے گھر کی طرف بھاگتے ہیں۔ ریچھ ان کا پیچھا کرتا ہے۔ جو بچہ گھر نہ لوٹ سکے اور پکڑا جائے وہ بھی ریچھ بن جاتا ہے۔ اب دو ریچھ چھپنے جاتے ہیں اور باقی بچے انہیں تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح ریچھوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ کئی بار صرف ایک بچہ ہی تلاش کرنے والا رہ جاتا ہے اور سب ریچھ اسے گھیر لیتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ سب ریچھ ہی پیچھا کرنے کے لئے نکلیں۔ اگر تھوڑے بچے رہ جائیں تو ریچھ بھی تھوڑے ہی باہر نکلتے ہیں۔ جب کوئی بچہ نہ رہے تو سب ریچھ اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلتے ہیں اور کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ بچے ایک ہی بار میں تھک نہ گئے ہوں، کیوں کہ اس کھیل میں بہت ورزش ہوتی ہے اور بچے اتنے تھک جاتے ہیں کہ ان میں ’’ریچھ آیا، ریچھ آیا‘‘ کی آوازیں لگانے کا دم بھی باقی نہیں رہتا۔(ماخذ :’’کھلونا‘‘نئی دہلی)

حصہ