کئی چوریوں کا کھوج کامیابی کے ساتھ لگانے کی وجہ سے جمال اور کمال کا اعتماد بہت ہی زیادہ بڑھ چکا تھا۔ ان کی اس صلاحیت کے قائل گھر والے اور اہلِ محلہ تو تھے ہی، علاقے کے پولیس اسٹیشن کےانسپکٹر حیدر علی بھی جمال اور کمال کی صلاحیتوں کے قائل ہو گئے تھے کیونکہ گزشتہ دنوں ہونے والی دو وارداتوں کے مجرموں کو پہچاننے میں اِن ہی دونوں نےانسپکٹر حیدر علی کی مدد کی تھی۔
جمال اور کمال پڑھائی میں تو بہت اچھے تھے ہی لیکن ان کو نصابی کتابوں سے ہٹ کر بھی بہت کچھ سیکھنے کا شوق تھا۔ ایک دن انھوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ ہم نے اپنے ایک دوست کے خط کے سب سے اوپر 786 لکھا ہوا دیکھا تھا۔ کیا بتا سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب بسم اللہ الرحمن الرحیم ہوتا ہے۔ وہ کیسے؟، دونوں نے بیک سوال کیا۔ والد صاحب نے ذرا دیر سوچا اور پھر نہایت دھیمے لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اردو کے جتنے بھی حروفِ تہجی، الف سے لیکر ی تک ہوتے ہیں، ان سب کے کچھ نمبر یا ان کی قدر ہندسوں میں بھی ہوتی ہے جیسے “ا” بحساب عدد 1 ہوتا ہے جبکہ “غ” کے اعداد 1000 ہزار ہوتے ہیں۔ اسی طرح سب حروف کے اعداد مقرر ہیں۔ اب اگر تم بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہر حرف کی مقررہ قدر ہندسوں میں لکھنے کے بعد انھیں جمع کروگے تو ان کا کل مجموعہ 786 بنے گا۔ جو بات میں تم دونوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ تمہاری عمروں کے مطابق مشکل ضرور ہے لیکن جو فہم اور سمجھ تمہیں اللہ نے دی ہے اس کے مطابق مجھے یقین ہے کہ تم میری بات کو خوب اچھی طرح سمجھ گئے ہوگے یا جلد سمجھ جاؤ گے۔ جمال اور کمال دونوں نے کہا کہ ہم آپ کی باتوں کا مطلب تو بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں لیکن ہمیں اردو کے ہر حرف کے مقرر کئے گئے اعداد کا علم کیسے ہوگا۔ یہ سن کر والد صاحب پہلے تو سوچ میں پڑ گئے پھر کچھ دیر بعد کہنے لگے کہ میں تم کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ سارے حروف لکھ کر دیتا ہوں۔ تم ان سب حروف کو اسی ترتیب کے ساتھ الگ الگ لکھ کر ایک دو تین سے پڑھنا شروع کرنا جب نو تک پہنچ جاؤ تو اگلے ہر حرف کو دس بیس تیس کر کے پڑھنا۔ اسی طرح نوے تک پہنچنے کے بعد ہر حرف کو سو دو سو تین سو سے ایک ہزار تک پڑھنا۔ اس طرح ساری گنتی بھی مکمل ہو جائے گی اور ہر حرف کی قدر اعداد میں بھی آجائے گی۔ بچوں نے کہا ٹھیک ہے، اب آپ ہمیں وہ ترتیب بتائیں جن کو بعد میں ہم الگ الگ لکھ کر ہر حرف کی اصل قدر ہندسوں میں جان سکیں۔ ان کے والد نے ان کو اردو الفاظ کی ترتیب کو کچھ اس طرح لکھ کر دیا ” ابجد۔ ہوز۔ حطی۔ کلمن۔ سعفص۔ قرشت۔ ثخذ۔ ضظغ”۔ جب بچوں نے اسی ترتیب کے ساتھ سارے حروف لکھنے کے بعد ہر ہر حرف کے عدد یا اعداد جاننے چاہے تو 1 سے 9 کے بعد دس بیس تیس سے لیکر 90 تک پھر 100 سے شروع کیا تو ہزار تک ختم کرنے کے بعد ان کو اس بات کا علم ہو گیا کہ اردو کا ہر حرف اعداد کے لحاظ سے کتنی قدر رکھتا ہے۔ چند ہی گھنٹوں کی محنت کے بعد وہ اچھی طرح اس بات کو سمجھ سکتے تھے کہ ان کے، ان کے والد صاحب کے اور دیگر گھر والوں کے ناموں کے الگ الگ کتنے کتنے اعداد ہوتے ہیں۔
کوئی بھی بات سیکھ لی جائے تو وہ زندگی میں کبھی نہ کبھی بہت کام آتی ہے۔ ان کو کیا خبر تھی کہ والد صاحب سے سیکھا گیا “علم الاعداد” کبھی ان کے کسی کھوج میں بھی کام آ سکتا ہے۔ اب تک جتنے بھی کار ہائے نمایاں وہ انجام دیتے رہے تھے وہ تو اپنی خداداد صلاحیت “پہچان” کی بنیاد پر ہی دیتے آئے تھے۔ وہ جس شکل کو بھی دیکھ لیتے، خواہ وہ انسانوں، جانداروں یا اشیا کی ہوتی، وہ کسی بھی دوسری جگہ دیکھ کر فوراً پہچان لیا کرتے تھے۔ سب بچے بڑے اچھی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ کسی بھی واردات کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ کا ایک شعبہ مجرموں کی پہچان کے لیے کچھ اشکال شائع کرتا ہے جو عینی شاہدوں کی یادداشت کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہیں۔ پھر جب کچھ مجرم پولیس پکڑ لیتی ہے تو جن جن افراد نے پولیس میں شکایات درج کرائی ہوتی ہیں، ان کو پہچان کے لیے بلایا بھی جاتا ہے۔ ان بچوں کو اللہ تعالیٰ نے اتنی صلاحیت دی ہوئی تھی کہ ایک بار کسی کو دیکھ لینے کے بعد اگر وہی شکل دوبارہ دکھائی دے تو وہ فوراً اس کو پہچان لیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پولیس کےانسپکٹر حیدر علی بھی اکثر ان بچوں کی مدد لینے آ جایا کرتے تھے اور مختلف تصاویر دکھا کر یہ معلوم کیا کرتے تھے کہ آیا ان افراد کو انھوں نے کہیں دیکھا ہے۔ دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوا کہ انھوں نے ایسے چہروں کی نشاندہی کی اور وہ پکڑے بھی گئے لیکن اس مرتبہ معاملہ چہروں کا نہیں ایک ایسی تحریر کا تھا جو مشتمل تو دو تین سطروں پر ہی تھی لیکن تمام کی تمام اعداد پر مشتمل تھی۔ نہ جانے واردات کی جگہ سے ملنے والی کاغذ پر لکھی یہ تحریر حیدر علی کو کوئی خفیہ پیغام کیوں لگ رہی تھی جبکہ وہ لکھے جانے والے انداز سے بچوں کی کوئی شرارت ہی دکھائی دیتی تھی۔انسپکٹر حیدر علی کے دل میں اچانک بچوں کا خیال آ گیا اور اس نے سوچا کہ جن بچوں کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے کئی صلاحیتوں عطا کی ہیں ممکن ہے کہ وہ اپنی ذہانت سے اس خفیہ تحریر کو بھی ڈی کوڈ کر سکیں، یہی سوچ کر انھوں نے ان بچوں سے مشورہ لینے کا ارادہ کر لیا۔
بچوں نے جب تحریر کو دیکھا تو انھوں نے کہا کہ حیدر انکل، لگتا تو ہمیں بھی ہے کہ یہ کوئی خفیہ پیغام ہی ہو گا لیکن کیا آپ ہمیں اس کی کوئی نقل دے سکیں گے کہ ہم اسے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کریں۔انسپکٹر حیدر علی نے کہا کیوں نہیں، میں اس کی نقل ساتھ لایا ہوں، تم دونوں کوشش کرو کہ یہ ڈی کوڈ ہو جائے۔
تحریر تمام کی تمام ہندسوں پر مشتمل تھی۔ ایک دن تو انھیں ان کی ترتیب سمجھنے میں لگا۔ ایک دن کے بعد انھیں کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا کہ شاید کچھ بات بن جائے۔ یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے 786 کی طرح بھی نہیں تھی اور نہ ہی ابجد اور ہوز کی طرح جس کی وجہ سے اس تحری کو سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ یہ بھی امکان تھا کہ شاید یہ کوئی خفیہ تحریر ہی نہ ہو لیکن دل کہتا تھا کہ نہیں اس تحریر میں کوئی خفیہ پیغام ضرور ہے۔ جمال اور کمال سے کہا کہ دیکھو اوپر کے ہر عدد یا اعداد کو اگر حرفوں میں لکھا جائے تو لگتا ہے جیسے یہ کوئی نام ہو لیکن کیا نام ہے، یہ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اچانک جمال نے نعرہ مارا، سمجھ میں آ گیا، ہم کامیابی کے قریب پہنچ گئے۔ کمال نے کہا کچھ بتاؤ بھی تو، جمال نے کہا کہ یہ تحریر الٹی جانب سے لکھی گئی ہے۔ آؤ اسے آئینے میں دیکھ کر پڑھتے ہیں۔ جب انھوں نے آئینے کے قریب پہنچ کر دیکھا تو لکھا تھا “لکشمن داس”۔ وہ دونوں اپنی اس پہلی کامیابی پر اچھل پڑے اور یک زبان ہو کہنے لگے کہ ہم نے پا لیا ہم نے پا لیا۔ اس کے بعد چند ہی گھنٹوں میں انھوں نے ساری کی ساری تحریر ڈی کوڈ کر کے رکھ دی۔ یہ ایک پیغام تھا لکشمنی داس کےلیے کہ ٹھیک اتنے بجے فلاں گھر میں واردات ہو گی۔ تم باہر کی نگرانی کرنا اور ہر قسم کے خطرے سے واردات کرنے والوں کو الو کی آواز نکال کر آگاہ کرنا۔ یہ کاغذ کا ٹکڑا شاید اس کے ہاتھ میں ہی دبا ہوا تھا جو غلطی سے ہاتھ سے گر کر وارادت کی جگہ پر ہی پڑا رہ گیا تھا۔
جب انسپکٹر حیدر علی نے ڈی کوڈ کیا ہوا یہ پیغام پڑھا تو جیسے اچھل پڑا اور جمال و کمال کو اس طرح بوسے دینے لگا جیسے کوئی زائر ہجرِ اسود کو بوسے دے رہا ہو۔ اب اس کے لیے مجرموں تک پہنچنے کا ہر راستہ کھل چکا تھا۔ مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے بعد وہ جمال اور کمال کے والدین سے ملا اور کہا کہ اللہ آپ کے بچوں کی حفاظت کرے۔ یہ میرا نہیں ان کا کارنامہ ہے لیکن میں اس لئے اس حقیقت کی تشہیر نہیں کر سکتا کہ کہیں ان کی اور آپ سب کی جان خطرے میں نہ پڑ جائے۔ میں نے نہایت قابل اور اہل اہکاروں کو تعینات کر دیا ہے جو کسی کو نظر نہ آتے ہوئے بھی ان کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کریں گے۔ یہ بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، اللہ ان کا محافظ ہو۔