شمس الرحمٰن فاروقی کی یادگار گفتگو
یہ گفتگو کراچی سے شائع ہونے والے رسالے مکالمہ (مدیر: مبین مرزا) میں شائع ہوئی تھی۔ نیز ’’شب خون‘‘ 261 میں اس کا اضافہ شدہ اور ترمیم شدہ روپ شائع ہوا۔ موجودہ گفتگو وہی ہے جو شب خون میں شائع ہوئی۔
سوال: محمد حسن عسکری سے آپ کی ملاقاتیں رہی ہیں؟
شمس الرحمن فاروقی: اپنی زندگی میں اس کمی کا مجھے ہمیشہ رنج رہے گا کہ عسکری صاحب کو میں نے کبھی نہیں دیکھا، ان سے ذاتی ملاقاتوں اور مراسم کی تمنا ہی رہ گئی۔ میری ان کی مراسلت بہت رہی، خاص کر 1971ء کی ہند پاک جنگ سے پہلے کے زمانے میں۔ میں نے انہیں اور انہوں نے مجھے کئی کئی صفحوں کے خط لکھے ہیں۔ 1971ء کے واقعات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان ڈاک کی ترسیل بند ہوگئی۔ پھر انہوں نے لندن کا ایک پتا مجھے لکھا کہ اس کی معرفت خط کتابت کا سلسلہ رکھا جاسکتا ہے۔ کچھ خط ہم لوگوں نے اس طرح آپس میں ردوبدل کیے، لیکن وہ بات نہ رہی کہ کم و بیش ہر ہفتے ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے۔ آہستہ آہستہ لندن کا پتا ترک ہوگیا۔ جب مدتوں بعد ڈاک کھلی تو پھر مراسلت شروع ہوئی، لیکن اس بار میں پہلے جیسی باقاعدگی قائم نہ رکھ سکا۔ اس کا بھی افسوس رہے گا۔
سوال: آپ کے نام عسکری صاحب کے خطوط ہندوستان پاکستان دونوں جگہ چھپ گئے ہیں، کیا ان کے نام آپ نے جو خط لکھے ان کے چھپنے کا کوئی امکان ہے؟
شمس الرحمن فاروقی: میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان کے کاغذات کا وارث کون ہوا اور انہوں نے اپنے نام خطوں کے بارے میں کیا ہدایت چھوڑی۔ ممکن ہے انہوں نے میرے خط محفوظ بھی نہ کیے ہوں۔ اپنے خطوں کے بارے میں اکثر وہ مجھے لکھتے تھے کہ انہیں آپ کسی کو دکھائیں نہیں۔ عسکری صاحب کے انتقال کے بعد کئی لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یہ خط چھپ جائیں تو اچھا ہو۔ لیکن میں ان کی ہدایت کا لحاظ کرکے بات کو ٹال جاتا تھا۔ پھر کراچی میں مرحوم سلیم احمد نے بھی مجھ سے کہا کہ وہ خطوط چھپوا کیوں نہیں دیتے ہو، بجا کہ عسکری صاحب نے تم سے کہا تھا کہ میرے خط کسی کو نہ دکھائیے گا، لیکن وہ ان کی زندگی کی بات تھی۔ اب یہ خط قوم کا سرمایہ ہیں، انہیں عام ہونا چاہیے۔ تب میں نے وہ مکتوبات ’’شب خون‘‘ میں چھپوادیے۔ پھر وہ ’’روایت‘‘ لاہور میں شائع ہوئے۔
سوال: عسکری صاحب نے ایک خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’’لوگ آپ کا نام اب حالی کے ساتھ لینے لگے ہیں۔‘‘ اور بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ محمد حسن عسکری نے جہاں اپنا سفر ختم کیا، آپ نے اپنا سفر وہاں سے شروع کیا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محمد حسن عسکری کی بعض تحریروں میں بعض نکات صرف اشاروں کی شکل میں ہیں، آپ نے ان اشاروں کو مشرح بیان کیا اور ان کے لیے نظری دلائل بھی فراہم کیے۔ اس سلسلے میں آپ کچھ کہنا پسند کریں گے؟
شمس الرحمن فاروقی: وہ جملہ جس میں حالی کے نام کے ساتھ میرا نام جڑ گیا، وہ تو میرے خیال میں رواروی کی بات تھی۔ لیکن سب سے پہلے تو میں پوری وضاحت اور قوت سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں ہرگز یہ نہیں سمجھتا کہ عسکری صاحب نے اپنا کام جہاں ختم کیا، میں نے وہاں سے شروع کیا ہے۔ عسکری صاحب نے تنقید کو جن بلندیوں پر پہنچادیا ان پر اس کو قائم رکھنا ہی بڑا کارنامہ ہوگا، چہ جائے کہ ہم اس کے آگے جاسکیں۔ آج تو یوں ہی تنقید کا حال دگرگوں ہے۔ کچے پکے ادھورے خیالات فیشن کے طور پر اختیار کیے جارہے ہیں۔ اس بات پر کوئی دھیان نہیں ہے کہ یہ خیالات ہمارے ادب اور ہماری ادبی تہذیب کو سمجھنے یا اس کی تعبیر نو کے لیے کچھ کارآمد ہیں بھی کہ نہیں۔ اب تنقید نہیں لکھی جارہی ہے، طرح طرح کے ڈھول اور ڈنکے پیٹے جارہے ہیں۔
ہاں یہ بات ہے کہ بہت سی باتیں عسکری صاحب نے صفائی سے بیان کی تھیں اور بہت سی باتوں کے لیے صرف اشارے کیے تھے۔ تو شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو باتیں مضمر رہیں اور جن باتوں کی طرف انہوں نے صرف اشارے کیے تھے، ان میں سے کچھ کو لے کر میں نے وضاحت سے بیان کیا۔ مثلاً یہ کہ 1946کا ان کا خط ہے عبادت بریلوی کے نام، اس میں کہتے ہیں کہ بھائی اگر آپ کو جدید یورپین شاعری کو سمجھنا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اپنی کلاسیکی شاعری کو سمجھیے۔ اس بات کو انہوں نے واضح نہیں کیا کہ ایسا کیوں ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ خط لکھ رہے تھے، تنقیدی مضمون نہیں۔ لیکن بعد میں بھی انہوں نے کبھی اس معاملے کو کسی مضمون یا گفتگو میں مفصل نہیں بیان کیا۔ لیکن اس میں جو نکتہ، جو بصیرت پنہاں ہے، اس سے میں نے یقیناً فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح، عسکری صاحب کا یہ قول بھی ہے کہ ہر تہذیب کو حق ہے کہ اپنے ادبی اصول اور معیار خود متعین کرے، اور یہ نامناسب ہے کہ کسی ادبی تہذیب پر کسی غیر تہذیب کے معیارات مسلط کیے جائیں۔ یہ نکتہ میں نے صرف ان کے یہاں دیکھا۔ مغرب والا تو ایسی بات کبھی کہتا نہ تھا حالانکہ وہ اس سے واقف یقیناً تھا۔ لیکن اگر وہ اسے کہتا تو پھر تیسری دنیا پر، یا پہلے زمانے میں اپنی محکوم اقوام پر یہ دھونس کیوں کر رکھتا کہ ادبی تنقید اور تخلیق کے سارے اصول تو سارے ہمارے پاس ہیں؟ بہرحال، عسکری صاحب کی اس بات سے مجھے بڑی تقویت ملی۔ بہت ساری میری گرہیں کھل گئیں، راستے کھل گئے۔ کیونکہ مجھے بھی یہ بہت پریشانی تھی کہ اگر غزل کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہPoem English کی طرح سے نہیں ہے۔ یا Lyric Western کی طرح نہیں ہے، کمزور بلکہ نیم وحشی صنف سخن ہے، تو اس کا جواب کیا دیا جاسکتا ہے؟ یا ہمارے وہ اصناف سخن یا وہ اسالیب تحریر جو مغربی تحریر کے اسالیب و اصناف سے ہم آہنگ نہیں ہیں، کوئی انہیں غیرترقی یافتہ، یا ادبی حسن سے عاری سمجھے، تو اس کے خلاف دلیل کیا لائی جائے؟
یہ درست ہے کہ دلیل لانے کی کوششیں بہت ہوئیں۔ کلیم الدین احمد کے زمانے سے لے کر آل احمد سرور، خواجہ منظور حسین، فراق صاحب، اور بہت لوگوں نے کوشش کی۔ لیکن کوئی مسکت دلیل اس وقت تک کسی کی سمجھ میں ٹھیک سے نہیں آرہی تھی۔ عسکری صاحب کا یہ کہنا کہ ہر تہذیب کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے ادبی معیار خود متعین کرے، میرے لیے ایک بڑی بصیرت اور طاقت کا سبب بن گیا۔ میں نے سوچا کہ ہم سانیٹ (Sonnet) کے معیار پر غزل کو، رزمیہ کے معیار پر مرثیے کو، اوڈ کے معیار پر قصیدے کو پرکھتے ہیں کیوں؟ عسکری صاحب کے نکتے کی روشنی میں اپنے خیالات پر نظرثانی کرتے ہوئے میں نے اپنے ادب کی ایک نئی طرح کی ادبی معیار بندی کے بارے میں سوچا۔ یعنی میں نے کہا کہ جس طرح مغرب کو حق ہے کہ وہ سانیٹ کے لیے قاعدے مقرر کرے، اسی طرح ہمیں بھی حق ہے کہ غزل کے لیے قاعدے مقرر کریں۔ میں نے ایک بار لکھا کہ اگر کسی کو غالب سے شکوہ ہو کہ انہوں نے سانیٹ کیوں نہ لکھی تو ہمیں ورڈزورتھ سے شکوہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے غزل کیوں نہ لکھی؟
سوال: محمد حسن عسکری کا خیال تھا کہ یورپ کی تہذیب اپنی صنعتی اور مالی کامیابی اور سیاسی چمک دمک کے باوجود اپنے مرکز سے ہٹتی چلی گئی۔ حالی اور محمد حسین آزاد کی نظم جدید کی تحریک کو بھی عسکری صاحب اسی نقطہ? نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ تو زوال آمادہ یا گم کردہ راہ مغربی تہذیب کے لوازم ہیں۔ اردو کے لیے ان کی کوئی معنویت نہیں۔
شمس الرحمن فاروقی: یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے۔ عسکری صاحب نے ادب کو تہذیبی اظہار مانا اور یہ کہا کہ دراصل کسی بھی قوم کی جو ادبی تہذیب ہوتی ہے، وہ عطر ہوتی ہے اور خلاصہ ہوتی ہے اس کے تمام تہذیبی تصورات کا۔ اور یہی تصورات ادبی پیداوار پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تو اگر کوئی تہذیب ایسی ہے جو اپنے بنیادی تصورات سے ہٹ گئی ہے اور جن بنیادوں پر وہ قائم ہوئی تھی، وہ بنیادیں چھوڑ دی گئی ہیں، یا انہیں کھود کر پھینک دیا گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کے ادب میں زوال آئے گا۔ یا پھر اس کے ادب میں اس تہذیب کی جو اچھی چیزیں ہیں ان کے بھی عناصر کم نظر آئیں گے۔
عسکری صاحب کا کہنا تھا کہ مغرب اپنی تہذیبی روایت کو کھوچکا۔ اس بات کو پوری طرح صحیح یا غلط کہنا میرے لیے مشکل ہے، لیکن بڑی حد تک اس بات میں صداقت یقیناً تھی اور ہے کہ مغرب اپنی ا صل ادبی تہذیب، اپنی حقیقی روایت کو کھوچکا ہے، اور اگر کھو نہیں چکا ہے تو اسے بڑی حدتک مسترد ضرور کرچکا ہے۔ جو تہذیب اپنی بنیادی روایت کو مسترد کردے یا اسے ضائع کردے، وہ ادب کے میدان میں، ظاہر ہے ایک طرح سے گم کردہ راہ نظر آئے گی۔ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو افراتفری، جواتھل پتھل، جو توڑ پھوڑ ہمیں مغرب میں نظر آتی ہے، وسط انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک، اس کے پیچھے صرف مادی یا سیاسی زوال نہیں، بلکہ روحانی زوال بھی ہے۔ لیکن ہم ہندوستانیوں کو تو یہ خیالات گویا ماں کے دودھ کے ساتھ بچپن سے ہضم کرادیے گئے تھے کہ Wordsworth یا شبلی کی ایک نظم پورے دیوان غالب سے بہتر ہے۔ میکالی تو بہت پہلے ہی کہہ گیا تھا کہ مشرق کے تمام علوم ایک طرف اور کسی یورپین کی لائبریری کا ایک شیلف ایک طرف۔ ہم کو پڑھایا گیا کہ مغرب کے معمولی سے معمولی ناول نگار ہماری داستانوں سے بہتر اور برتر ہیں۔ پریم چند کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے مقابلے میں Fast Howard کتنا اچھا ناول نگار ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ہاورڈ فاسٹ تو درجۂ دوم کا آدمی تھا، بڑے ناول نگاروں کا تو پوچھنا ہی کیا تھا۔ کس کی ہمت تھی جو پریم چند کے ساتھ دوستوئفسکی (Dostoevsky) یا ڈکنس (Dickens) کا نام تو لے لے۔ تو اس ماحول میں یہ کہنا کہ یہ لوگ بڑے ادیب ہوں یا نہ ہوں، یہ الگ بات ہے، لیکن دوستوئفسکی، ڈکنس، بالزاک (Balzac) کوئی بھی ہو، یہ جس تہذیب کے نمائندے ہیں وہ اپنی بنیادی شناخت کو کھوچکی ہے، لہٰذا ان کے یہاں ایک طرح کی روحانی افراتفری نظر آتی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اس کو کہنے کے لیے ہمت چاہیے تھی اور اس بات کو دیکھ لینے کے لیے بھی ہمت چاہیے تھی اور علم اور بصیرت چاہیے تھی۔ عسکری کے سوا کون تھا جو ایسی باتیں کہہ سکتاتھا؟
میں یہ نہیں کہتا کہ میں عسکری صاحب کی اس بات سے پورے طور پر متفق ہوں کہ مغرب کا سارا جدید ادب، اور اس کی ساری جدید تہذیب، روحانی بحران کا شکار ہے، یا اس وقت تھی جب عسکری نے یہ بات کہی۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مغربیت کی تہذیبی تاریخ بہت پیچیدہ ہے اور اس میں کئی اچھی بری چیزیں شامل ہیں اور اس میں تبدیلیاں بہت کثرت سے آئیں۔ ان کی وجہ سے اس کی پیچیدگی اور بھی بڑھتی چلی گئی۔ یہ کہنا کہ ہم اس کے بارے میں کوئی ایک عمومی حکم لگاسکتے ہیں کہ وہ اپنی بنیادی اقدار کو یا اپنی بنیادوں کو سراسر کھوچکی تھی، اتنا آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان کے یہاں بہرحال بنیادی اقدار کو دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش بھی نظر آتی ہے۔ اب وہ کہاں تک اس میں کامیاب ہوئے، یہ الگ بات ہے۔ پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ ان کی بنیادی اقدار تھیں کیا؟
ممکن ہے ان کے یہاں نئے سیاسی فلسفوں اور صنعتی ترقی کی بنا پر جو سماجی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں، اور سائنس کی ترقی کی بنا پر جو ذہنی بحران پیدا ہوا، اس کا احساس ہم لوگوں کو نہ ہو۔ لیکن وہاں تو یہ عالم تھا کہ لوگوں کے ذہنوں میں اور ضمیر میں انقلاب سا آگیا، زلزلہ پڑگیا۔ مثال کے طور پر الفرڈ نوائز Alfred Noyes جوایک زمانے میں بڑا مشہور تھا اور انگلستان کا ملک الشعرا تھا، وہ لکھتا ہے کہ میری جوانی کے دن تھے جب میں نے ڈارون کی کتابیں پڑھیں The Origin of Speciesاور The Descent of Man تو دنیا میری نظر میں تاریک ہوگئی۔ ان کتابوں نے مجھے یہ بتایا کہ انسان کچھ نہیں ہے، محض اتفاقات اور ایک اندھے ارتقائی عمل، یعنی Chance اور NaturalSelection کا بندہ ہے۔ نہ اس میں کوئی اعلیٰ صفات ہیں، انسانی یا روحانی، اور نہ اس کے پاس کوئی لائحہ عمل اور ضابطۂ اخلاق ہے۔ محض فطرت کی اندھی طاقتوں کی توڑپھوڑ کی بناپر کئی کروڑ برس میں انسان کی نوع یعنی Species نے جنم لیا ہے۔ تو یہ جب میں نے پڑھا تو دنیا میری نگاہ میں تاریک ہوگئی۔ میں نے کہا کہ ہائے افسوس ہم لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ! ہم اپنے بارے میں گمان کرتے تھے کہ اشرف المخلوقات ہیں، وجہ تخلیق حیات و کائنات ہیں۔ اور آج صرف یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ہم اندھی قوتوں کے پیدا کیے ہوئے blind ذی حیات ہیں۔ اور ذی روح ہیں کہ نہیں، اس کے بارے میں شک ہے۔
اب ظاہر ہے کہ جس قوم نے، جس تہذیب نے، اتنا بڑا دھکا سہا ہو ذہنی طور پر، اس کے احساس گم کردہ راہی کا کیا عالم ہوگا؟ پھر یہ کہ انیسویں صدی کے آخر تک لوگوں کا یہ خیال تھا، بلکہ اکثروں کو تو یقین بھی تھا کہ سائنس کی دریافتوں اور نظریات کے ذریعہ ہم اسرار فطرت کو حل کرسکتے ہیں، کائنات کو جان سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بالآخر کائنات ایک بہت بڑا فارمولا یا Equation ثابت ہو، اور اس مساوات کی شکل بن کر ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔ لیکن جب صدی ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ 1896 میں ایٹم کی دریافت ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ قلیل ترین ذرہ بھی اپنے اندر ایک کائنات، ایک قوت، ایک توانائی، ایک نظام رکھتا ہے۔ جوہر(Atom) جامد نہیں ہے، بلکہ متحرک اجزا کا مجموعہ ہے، لایتجزیٰ نہیں ہے۔ (اور بعد میں عبدالسلام وغیرہ نے ثابت کیا کہ وہ ننھے اجزا، ایٹم جن کا مجموعہ ہے، وہ بھی لاتیجزی نہیں ہیں اور ان میں توانائی کا خزانہ ہے۔) ایسا کیوں ہے، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن جوہر کے ایسا ہونے کی وجہ سے کائنات کس طرح کی ہے، یا ہوگی، اس کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔
پھر 1905 میں آئن اسٹائن نے نظریۂ اضافت پیش کیا، جس کی رو سے کائنات کی ہر چیز روشنی کی رفتار کی تابع ہے۔ یعنی روشنی کی رفتار وہ حد ہے جسے کائنات نہیں توڑ سکتی۔ اگر توڑ دے تو زمان و مکان بے معنی ہوجائیں گے۔ کچھ برس بعد نیل بور ( Bohr Neils) نے دریافت کیا کہ روشنی ذروں کی صورت میں اپنے مخرج سے نکلتی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد De Broglie نے ثابت کیا کہ روشنی بیک وقت ذروں اور لہروں پر مشتمل ہے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو روشنی مجموعہ ہے جوہروں atoms کا، اور ایک طرح سے دیکھیں تو روشنی مجموعہ ہے لہروں کا۔
اس کے بعد جرمن سائنس داں ہائسن برگ (Heisenberg) کے مشہور زمانہ اصول غیر قطعیت Uncertainty Principle نے تو ستیاناس ہی کردیا۔ گزشتہ صدی کے وسط میں ڈارون نے کہا تھا کہ کائنات میں حیات کا وجود صرف اتفاق ہے۔ اب ہائسن برگ نے کہا کہ جب پانی اوپر سے گرتا ہے تو ہم یہ پیشین گوئی تو کرسکتے ہیں کہ عمومی طور پر پانی کہاں گرے گا۔ لیکن ہر ہر قطرے کے بارے میں پیشین گوئی غیر ممکن ہے کہ وہ کہاں، کس طرح اور کس رفتار سے گرے گا۔ اتنا ہی نہیں، ہائسن برگ نے ثابت کیا کہ جوہر (Atom) کے بارے میں مقام اور رفتار دونوں کا تعین بیک وقت نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم ایٹم کی رفتار بتائیں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت وہ ہے کہاں۔ اور اگر اس کی جگہ کا تعین کریں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی رفتار کیا ہے؟ اس طرح وہ Mechanistic Universeجو حیاتیات میں تھا، اب طبیعیات میں بھی کارفرما نظر آیا۔ یہ کائنات بہت ہی غیر یقینی ہے، بہ نسبت Newton کے Laws کے، جن کے ذریعہ ہمیں ایک مشینی کائنات Mechanistic Universeکے امکان کی بشارت ملی تھی۔ تو جس تہذیب نے اتنے بڑے دھکے کھائے ہوں اور جس نے اس طرح مجبور ہوکر اپنے پرانے مذہبی اور سائنسی عقیدوں کو ترک کیا ہو تو اس میں ظاہر بات ہے کہ وہ سکون اور اطمینان اور وہ ٹھہراؤ، بصیرت کا وہ اتحاد قائم ہی نہیں رہ سکتا۔
سوال: یعنی محمد حسن عسکری نے سولہویں صدی کے بعد کے یورپین ادب اور فکر کو کھنگالا اور اس کے عطر کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ لیکن پھر یورپ کے ہی افکار سے متاثر ہوکر انہوں نے یورپ کو رد کیا۔
شمس الرحمن فاروقی: اس میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں، بلکہ تین۔ ایک تو یہ کہ محمد حسن عسکری کو اپنی تہذیب اور روایت کے زندہ وجود کا شعور ہم سب سے زیادہ تھا۔ یعنی کیا کلیم الدین، کیا مجنوں گورکھپوری، کیا احتشام حسین، کیا آل احمد سرور، جتنے بڑے نام ہیں ہمارے یہاں، ان میں اور بھی ناموں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ یا کلاسیکی استادوں میں حالی، شبلی، آزاد، نظم طباطبائی، امداد امام اثر، ان سب کے مقابلے میں زیادہ احساس محمد حسن عسکری کو تھا اپنی تہذیب کا، اپنی ادبی روایت کا۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ یہ زندہ ہے اور متحرک ہے اور ختم نہیں ہوگی، جیسا کہ آزاد نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ختم ہوچکی ہے۔
آزاد نے ’’آب حیات‘‘ کے آخر میں کہا تھا کہ پرانی شاعری تو ختم ہوگئی۔ اب ہم کر ہی کیا سکتے ہیں، اس کو دوبارہ زندہ تو نہیں کرسکتے۔ یہ شاعری بڑی اچھی تھی، شہد جیسی میٹھی تھی۔ لیکن عشق تک محدود تھی، زبان کے چٹخارے تک محدود تھی۔ اب وہ ختم ہوچکی ہے۔ ’’آب حیات‘‘ کے آخری صفحات کو پڑھیں تو لطف یا رنج کی بات یہ نظر آتی ہے کہ محمد حسین آزاد کو اس سانحے پر بظاہر کوئی غم بھی نہیں ہے۔ سچ پوچھیں تو وہ کچھ بغلیں بجاتے ہوئے سے نظر آتے ہیں کہ بقول غنی کاشمیری
بلبل برداشت آشیاں را
گل گفت کہ خس کم و جہاں پاک
یا حالی نے ’’یادگار غالب‘‘ کے آخر میں لکھا ہے کہ جس شاعری کے، جس شعریات کے نمائندہ غالب تھے، ہر چند کہ اب اس ملک میں اس شاعری اور شعریات کا کوئی مستقبل نہیں رہ گیا ہے، لیکن پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ غالب کی چیزیں محفوظ کرلی جائیں، کہ اب ان جیسا پیدا بھی نہ ہو گا۔ یعنی ایک طرح سے یہ دفاعی کارروائی تھی کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے، چلو غالب کو ہی بچاکر رکھیں، اگرچہ ان کا اب کوئی مصرف رہ نہیں گیا، صرف تاریخی یادگار ہے۔ اور یہ تو سوال ہی نہیں تھا کہ غالب کے سوا کسی اور کو بچالے جانے کی امید بھی کی جائے۔
ان سب کے علیٰ الرغم، محمد حسن عسکری کے یہاں یہ احساس بہت پختہ تھا کہ میری تہذیب مکمل طور پر زندہ ہے، کم سے کم میرے اور مجھ جیسے اور لوگوں کے ذہن اور حافظے اور روح میں زندہ ہے۔ اب ان پر crisis یہ آئی (جو بعد میں ہم لوگوں پر بھی آئی)، کہ جب انہوں نے انگریزی اور انگریزی کے بعد فرانسیسی زبان پڑھی، اور پھر ان زبانوں کے توسط سے انہوں نے مغرب کا بہت سارا ادب پڑھا، بہت سارے افکار کا مطالعہ کیا، تو انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ جس طرح کے ذہنی پیچ و تاب اور اضطراب سے گزر رہے ہیں، اور ان کی جو تصورات کی تاریخ ہے یعنی جو History of Ideasہے، اس میں نئے سے نئے تصورات چلے آرہے ہیں، اور کائنات کے نقشے میں تبدیلیاں، اور کائناتی نظر میں تبدیلیاں آتی چلی گئی ہیں، سائنس کی بنا پر، عالمی جنگوں کی بناپر، کمیونزم کی بناپر، فرائڈ کی بناپر، ان کی وجہ سے زندگی کا جو نقشہ اور دھارا یکسر بدلا ہے، تو وہاں سوال یہ ہے کہ اس کے ساتھ ادیب کیسے معاملہ کرے؟
جب عسکری نے دیکھا کہ مغربی ادب میں، انگریزی ادب میں، یہ کوشش جاری ہے، اور ہمارے یہاں انہوں نے یہ کام نہیں دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ ان سے پوچھیں کہ تم کس طرح یہ کام انجام دے رہے ہو؟ وہی کام ہم کرکے دیکھیں۔ مثلاً عسکری صاحب نے سوچا کہ بودلیئر نے کائناتی تصورات کو اپنے شعر میں حل کیا اور انسان کے اندرون میں، بطون میں جو خوف و ہراس ہے، جو پیچیدگیاں ہیں، جو تشکیک اور شکوک ہیں، ان سے جس طرح اس نے اور اس کے معاصروں نے معاملہ کیا، ان کی چھان بین کی، بھلے اور برے دونوں کو جانچ اور تجربے کے عمل سے گزارا، ویسا ہم لوگ کیوں نہیں کرتے؟ یہ انہوں نے بار بار کہا اور اس سلسلے میں ان کی نگاہ خاص کر کے فرانس کے Symbolist شعرا پر پڑی۔ ان شعرا نے ایک حد تک مغرب کی پرانی روایتوں سے انحراف بھی کیا تھا اور ایک حد تک ان سے سلسلہ جوڑا بھی تھا، یعنی نوافلاطونی تصورات سے۔
ادھر بیسویں صدی کے وسط میں ہم لوگ بھی بہت سی تبدیلیوں سے دوچار ہو رہے تھے۔ آزادی کی لڑائی، اور پھر اس کے نتیجے میں ملک کی تقسیم، اس نے مسلمانوں کے لیے کچھ ایسے مسائل پیدا کیے جن کا تجربہ کسی کو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، اوراکثریتی طبقہ تو ان مسائل کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔
دوسری طرف وسط صدی آتے آتے یہ بھی ہوا کہ دنیا چھوٹی ہوگئی تھی، ایک کا مسئلہ، دوسرے کا مسئلہ بن گیا تھا۔ اب مغرب کی ٹیکنالوجی سے زیادہ مغرب کے تہذیبی اور فلسفیانہ تصورات اور اقتصادی نظام سے اثرپذیر ہونے کی بات تھی۔ لہٰذا عسکری نے کہا کہ مغرب کے اثر میں آجانے کے بعد آپ کے پاس دو راہیں ہیں۔ یا تو مغربی تصورات اور تہذیبی بحران کو پورا پورا اختیار کرلیجیے۔ آپ کے یہاں ٹھہراؤ آگیا ہے، جمود آگیا ہے۔ آپ کے یہاں اس طرح کا تحرک نہیں۔ آپ کے یہاں اس طرح کے سوال نہیں اٹھائے جارہے ہیں جیسے کہ ہم فرانس میں دیکھتے ہیں، یا اٹلی میں دیکھتے ہیں، یا انگلینڈ میں دیکھتے ہیں۔ انسانی وجود کا کیا مقام کائنات میں ہے؟ اس کا کوئی نیا تصور آپ کے یہاں نہیں ہے، اور نہ پرانے تصور پر آپ کوئی سوالیہ نشان لگانا چاہتے ہیں۔ اور وہاں اس طرح کا سوال روزانہ اٹھ رہا ہے، انیسویں صدی کے اواخر سے اٹھ رہا ہے۔ دستوئفسکی (Dostoevsky) اور نطشے (Neitzsche) کے وقت سے اٹھ رہا ہے۔ دستوئفسکی (Dostoevsky) اپنے ناول میں پوچھتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی کسی اخلاقی جواز کے بغیر کسی کا قتل کردے؟ یا اگر کوئی فوق الانسان ہے، Superman ہے تو اس بناپر کیا اسے یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ اپنے سے کم تر لوگوں کا بے وجہ قتل کردے؟ جیسا کہ وہ پوچھتا ہے Crime & Punishment میں۔ تو یہ سب آپ کے یہاں ہے نہیں۔ اب اگر آپ کو جدید بننا ہے تو آپ یہ سب وہاں سے لے آئیے۔ لیکن جب وہاں سے آپ یہ تصورات لے آئیں گے تو پھر آپ کو اپنی تہذیبی روایت، اپنی علمی روایت، اپنی تاریخ، سے تعلق قطع کرنا پڑے گا۔ اچھا آپ نہیں لاتے اس کو، تو پھر اپنی تاریخ و تہذیب کو زندہ کیجیے۔
عسکری نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی ادبی تہذیب و تاریخ کو زندہ کریں۔ توایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں کوئی تضاد ہے۔ تضاد ان کے یہاں بالکل نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں تین منازل ہیں۔ پہلی منزل میں وہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی ادب میں تصورات کے بدلنے کی وجہ سے، یا سائنس کے اثرات کی بناپر اور اس کے نقصانات کی وجہ سے، انقلاب اور عدمیت (Nihilism) کے تصورات کی وجہ سے، کمیونزم، فرائڈ، اور عالمی جنگوں، پھر سرد جنگ کی وجہ سے، ان باتوں کی وجہ سے زندگی میں ایک برا ہلچل کا ماحول ان کے یہاں محسوس ہو رہا ہے۔ تو اگر ہمیں جدید ہونا ہے تو ہم بھی اس طرز فکر کو اختیار کریں، اس میں اپنا حصہ لیں، ہم بھی جدید دنیا میں داخل ہوں، اس کی برکتوں اور بحرانات، دونوں سے بہرہ اندوز ہوں۔
دوسری منزل ان کی یہ ہے کہ انہوں نے یہ دیکھا کہ اس طرح کی چیز ہمارے یہاں بن نہیں پارہی ہے، یعنی ہمارے یہاں وہ ہلچل نہیں ہے، وہ تحرک نہیں ہے۔ کائنات، اور انسان کی تقدیر، اور خدا کے بارے میں وہ سوال جواب نہیں ہو رہا ہے جو ہم یورپ میں دیکھتے ہیں۔ چونکہ وہ تہذیب الگ ہے اورہماری تہذیب الگ ہے، تو ان تصورات اور رجحانات کو اپنے یہاں درآمد کرنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوگی ہمیں۔ ابھی ہمیں اپنی تہذیب کو، اپنی روایت کو، اپنی ہی خرد کی روشنی میں دریافت کرنا چاہیے۔
(جاری ہے)