تین بچیاں جھولوں کے ساتھ کھڑی ٹک ٹاک کے انداز میں گنگنانا رہی تھیں۔
چند منٹ پہلے ہی سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے وہ اس چھوٹے سے پارک میں داخل ہوئی تھیں۔ پہلے انھوں نے بال کھول کر سیٹ کیے اور اردگرد سے بے خبرگنگنانے اور ایکٹنگ کرنے لگیں۔
شاید وہ روزانہ یہی پریکٹس کرنے یہاں آتی تھیں کہ ان کے انداز میں معمول کی مانوسیت تھی۔ کھیلتے بچوں کی کھلکھلاہٹوں سے ملی توانائی اس منظر کی نذر ہوگئی۔
میں سوچنے لگی انسان کا نفس بھی کیا شے ہے، ذرا سے بڑھاوے پر توانا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ موجودہ میڈیا پر ایک تجزیاتی نظر بتاتی ہے کہ اس کا طے کردہ مقصد اوّل و آخر نفس امارّہ کو بڑھاوا دینا ہے۔ غلط کام دکھاکر معمول کا حصہ بنانا اس کا پس پردہ ہدف ہے۔
لہٰذا اخلاقی حدود و قیود سے بے پروا ریٹنگ کے نام پر ہر وہ گند دکھایا جاتا ہے جو نفس کو اوپر لے جاتا ہے اور ہر آوارگی کے بعد نئی آوارگی، ایک بے ہودگی کے بعد نئی بے ہودگی۔
اسی انتہا نے مغربی معاشرے میں بے حیائی کو قانون کا حصہ بنادیا کہ بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنا اب اُن کے بس میں نہ رہا تھا۔کوئی سزا، کوئی تحریک انہیں روکنے کے لیے کارگر نہیں رہی تھی۔
کسی نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اس وقت کے نفس پرست معاشرے کو حیوانی کہنا حیوانیت کی بھی توہین ہے کہ حیوان لذت پرستی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وہ عورت جو کسی اشتہار میں کبھی دوپٹے کے بغیر دکھائی جاتی تو حیادار نگاہیں جھکا لیتا تھا، آج کے اشتہارات کا یہ سفر بہت آگے جا چکا۔
اپنی ایک تحریر جس میں ایک شخص کا تذکرہ تھا جو اپنی بیگم کو چھپاکر تحفہ دے رہا تھا۔ یوتھ کے کمنٹس نے احساس دلایا کہ وہ اس جھجھک کا تصور بھی نہیں کر پا رہے جو جائز رشتوں میں بھی ہمارے معاشرے کا خوب صورت حصہ رہی ہے۔
میاں بیوی کا گھر کے بڑوں کے سامنے گپ شپ میں احتیاط سے کام لینا، اظہارِ محبت اور تحائف میں پرائیویسی انداز اختیار کرنا، خالص محبتوں کا منفرد انداز تھا جن میں کسی بھی دوسرے کی شرکت عیب شمار ہوتی۔
دس پندرہ سال میں میڈیا کی بے باکی نے گھروں اور رائج تصورات کو الٹ ڈالا۔ پرائیویٹ انداز پبلک ہوگیا۔ اظہار، لگاؤ کی خوب صورتی مادی اشیا اور قیمتی تحائف نے چھین لی کہ جو مالی لحاظ سے بڑے تحائف نہیں دے سکتا اس کی محبت بھی کسی کھاتے میں نہیں۔
یہ سب کچھ اسی رفتار سے جاری رہا تو آئندہ نسلیں مادّے کے بغیر اخلاص و محبت کا تصور نہیں کریں گی۔ شرم و حیا، غصِ بصر کے تصورات سمجھ نہیں پائیں گئی۔
غلطی یہ ہوئی کہ پیشگی خطرات محسوس کرکے وہ سسٹم نہیں بنایا جا سکا جو ذرائع ابلاغ سے تعمیر کا کام لے سکتا۔ تب وہی ہوا جو ہوسکتا تھا۔ آئیڈیل، نمونے، عزت کے معیار جو طے ہوئے وہ اسلام کے مخالف کیمپ کے تھے۔ انہی بھول بھلیوں میں ہم اپنی نسلیں داؤ پر لگا بیٹھے۔
خیر ہم اب بھی ان سے خیر کا کام لے سکتے ہیں۔ کچھ کوشش تو کرنے والے کررہے ہیں، اس میں اور زیادہ تیکنک اور باریک بینی درکار ہے۔ بقول سینیٹر مشتاق احمد: شوبز،کھیل، سیاست دان… آئیڈیل صرف ان تین میدانوں میں متعارف کرائے گئے۔
عزت، پروٹوکول، قدرافزائی شوبز، سیاست دانوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ خاص کردی گئی۔ نسلوں کی گمراہی یقینی تھی کہ عام لوگ آئیڈیلز کو ہی فالو کیا کرتے ہیں۔ شاید یہ بچیاں اور ایسی بہت سی بچیاں بھی انہی آئیڈیلز کے زیراثر ہیں۔