تمنا

358

آج میں اس کے گھر بغیر بتائے گئی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کے میاں ہفتے بھر کے لیے کسی دوسرے شہر گئے ہیں۔ کبھی کبھی بے تکلف سہیلیوں اور عزیزوں کے گھر بغیر اطلاع کے بھی چلے جانا چاہیے۔ فطرت سے، اصلیت سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ پہلے میں نے اسے فون کرنا چاہا تھا، پھر سوچا خود چل کر اس سے مل آتی ہوں، پاس بیٹھ کر بات چیت کرنے کا اور ہی لطف ہے۔ خاص کر جب میاں صاحب بھی گھر پر نہ ہوں پھر تو راوی چین ہی چین اور فراغت ہی فراغت لکھتا ہے۔
جیسے ہی میں اس کے گھر داخل ہوئی وہ خوشی سے کھِل اٹھی۔
’’ارے رملہ… تم! اس وقت…! یوں اچانک…! کیسی خوشی ہورہی ہے مجھے۔ نہ آنے کی تاکید کرنا، نہ انتظار کی گھڑیاں گزارنا۔‘‘ زینب تمتماتے چہرے کے ساتھ بولتی چلی گئی۔
میں نے اس کی غزالی آنکھوں میں جھانکا جہاں خوشی، چمک اور روشنی تھی مگر نمی بھی نمایاں تھی۔
میں نے بیٹھتے ہی پوچھا ’’کیا ہوا زینب! یہ آنکھیں کیوں نمدیدہ سی ہورہی ہیں؟ خیر تو ہے۔‘‘
’’ارے چھوڑو رملہ! آنکھوں کا اور کام ہی کیا ہے… گاہے بھیگ جانا، گاہے چمک اٹھنا۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے بات ٹالی۔
’’نہیں، یہ بات اپنی جگہ، مگر کچھ تو ہے، کیا مجھے نہیں بتائو گی؟ یقین کرو زینب! تم وہ سہیلی ہو، ساتھی ہو میری، جس سے مل کر میں نے ہمیشہ کچھ سیکھا ہے، اور ایک مَیں ہی کیا، ہر خاتون تمہارے گن گاتی ہے، جس سے تمہارا ذکر کروں وہ ایسے پیار اور محبت سے میری تائید کرتی ہے کہ مجھے تم پر رشک آنے لگتا ہے۔‘‘
’’بس آج بھی کچھ ایسی ہی بات ہے۔ پھر میں ذرا بشیراں کو چائے کا کہہ آئوں۔ کل ہی اس کے ساتھ مل کر سموسے اور رول بناکر رکھے ہیں، تمہیں یقینا پسند آئیں گے۔‘‘ یہ کہتے وہ چائے کا کہنے چل دی۔
واپس آئی تو میں اسی سوچ میں تھی۔
’’ہاں تو زینب! بتائو کیا ہوا تمہیں؟‘‘
’’ارے تم ابھی تک وہیں کی وہیں ہو…؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
’’بھئی ہوا کچھ بھی نہیں رملہ! صبح سویرے نماز، قرآن سے فارغ ہوکر بچیوں کے ناشتے اور اسکول بھیجنے کا عمل مکمل کرکے میں موبائل میں آئی اپنی ڈاک دیکھتی ہوں۔ ایک خاتون کی تھوڑی سی مدد کی تھی اُس کا میسج سب سے اوپر تھا آج:
’’زینب بی بی! اللہ آپ کو وہ سب کچھ عطا کرے جو آپ کے دل کی تمنا ہے۔‘‘
میں نے آمین کہنے کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور اپنی تمنا کا سوچنے لگی۔
میرے اللہ! آپ تو میری تمنا جانتے ہیں نا! آپ تو دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں۔ میری تمنا بلکہ تمنائوں کا بھی آپ کو علم ہی ہے۔ بس پوری کردیں نا۔ اس خاتون کی دعا سن لیں نا۔‘‘
اپنے آخری نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تمنا… قبر منور ہونے کی تمنا… آسان حساب کی تمنا… نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں ملنے کی تمنا… میزان میں دایاں پلڑا بھاری ہونے کی تمنا… پلِ صراط پر سے پلک جھپکنے میں گزر جانے کی تمنا… اور پھر جنت بلکہ جنت الفردوس میں جانے کی تمنا۔
یوں میں دل ہی دل میں اپنی تمنائوں کو تازہ کرتی رہی اور آنکھیں بھیگتی رہیں… بھیگتی رہیں۔‘‘
یہ سب بتاتے بتاتے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور میں سوچ رہی تھی کہ کتنی خوب صورت تمنائیں ہیں اس کے دل میں۔ ایسا جیتا جاگتا دل… صاف شفاف چمکتا دل اللہ ربِ کریم سب کو دے جس میں ہوسِ دنیا کے بجائے فکرِ آخرت کی تمنا حاوی ہے۔

حصہ