سوشل میڈیا کوئی حد نہیں جنوں کی

338

2023 کا پہلا ہفتہ جہاں نئے شمسی سال کی آمد کےجشن میں ڈوبا نظر آیا ۔امریکہ میں کھلی آزادی کے مزے ہیں ، اس لیے نئے سال کے جشن کی آزادی کی شدت بھی وہیں نظر آئی ۔امریکہ میں کوئی 2 کروڑ افراد کا تخمینہ ہے جو اپنے پاس بندوق رکھتے ہیں،گزشتہ 10 برس میں 150 ملین یعنی 15 کروڑ بندوقیں امریکیوں نے خریدیں۔ایسے میں امریکہ میں یکم جنوری 2023 سے 4 جنوری 2023 تک گن وائلینس کے کوئی 10 واقعات سامنے آئے ۔ ان میں سب سے بڑا 8 افراد کی ہلاکت کا واقعہ 4 جنوری کو ہوا ۔مجموعی طور پر 40 افراد زخمی ہوئے ۔پہلا واقعہ یکم جنوری کے آغاز پر ہی الباما میں ایک قتل سے ہوا۔ اس میں دو تقسیم ہیں۔ ایک گن وائیلنس ہے یعنی گن سے مارنا، دوسرا ماس شوٹنگ ہے ، یعنی ایسے طریقے سے مارنا جس میں 4 یا زائد افراد نشانہ بنیں ۔واشنگٹن میں قائم گن وائلنس آرکائیو کے مطابق، امریکہ نے 2022 میں 600 سے زیادہ ماس شوٹنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ، جو چار سال پہلے ریکارڈ کی گئی تعداد سے تقریباً دوگنا تھے، جب وہاں 336 تھے۔اس میں جو مر گیا تو مر گیا مگر دوسرا المیہ طویل مدتی معذوری کے شکار لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہوتی ہے۔ماس شوٹنگ واقعات خبروں کی سرخیوںمیں بھی رہتے اور دہشت پھیلاتے ہیںحالانکہ گن وائلنس آرکائیو کے مطابق، 2022 میں امریکی بندوقوں سے ریکارڈ کی جانے والی اموات کی تعداد 40000 سے زیادہ ہے، واضح رہے کہ اس میں نصف خودکشی سے ہوئیں، یعنی بندوق کے ذریعہ خودکشی ، باقی زہر خورانی، پانی یا بلڈنگ سے کود کر، لٹک کر خودکشی کرنے والوں کی تعداد الگ ہے۔بہرحال سوشل میڈیا پرنئے سال و کرسمس تقریبات کے ضمن میں امریکہ میں اس ہفتہ یہ موضوع نمایاں طور پرنظر آیا۔

دوسری جانب پاکستان میں کرسمس اور نئے سال کی تقریبات منانے سے روکنے کی جانب بھی لوگ سوشل میڈیا پر خوب متوجہ کرتے نظر آئے۔ فیس بک کو بھی خاصی تکلیف تھی اس معاملے پر کئی کمنٹس جو کرسمس منانے کے خلاف تھے، اُن کو اُس نے اپنے کمیونٹی اسٹینڈرڈ کے خلاف قرار دے کر ڈیلیٹ بھی کرایا۔میں نوٹ کر رہا تھا کہ مسلم معاشرت میں تیزی سے پھیلتی لبرل اقدار کو روکنے کے لیے ’کرسمس‘ اور اس سے قبل ’ہیلوئین‘ کی تقریبات منانے کے خلاف بھی اب زبردست قسم کا رد عمل آنا شروع ہو گیا ہے۔یہ رد عمل سوشل میڈیا پر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو عین ممکن ہے کہ آگے چل کر شہر میں بینرز و مظاہروں کی صورت بھی پھیل سکتا ہے ۔ہو تایہ ہے کہ مختلف ’مذہبی رواداری‘ و دیگر لالی پاپ مغربی نعروںکی صورت مسلم معاشرت میں جگہ دی جاتی ہے پھر اس کی آڑ میں سب کچھ ہوتا ہے ۔ اس موضوع کے دلائل سمجھانے کے لیے سوشل میڈیا پر جاری دو طرفہ مباحث کے چند اہم نکات پیش ہیں۔

کرسمس کے حوالے سے اپنے پڑوسیوں یا ساتھ کام کرنے والوں کو مبارک کہتے ہوئے عمومی طور پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اِس طرح بولنے سے اُن کے مذہب کی تائید ہو جاتی ہے؟عیسائی عیسی کو خدا کا بیٹا مان کر خوش ہوتے رہیں لیکن ہم اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کا نبی مان کر خوش ہو سکتے ہیں ان کا اپنا مذہب ہے اور ہمارا اپنا۔اصولی بات ہے کہ جب کسی غیر مسلم کوعام معاشرت میں ’السلام علیکم ‘ کہنا سختی سے منع ہے توپھر آپ مزید کیا چاہ رہے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پورا دین بیان فرما دیا، خود رسول اللہ ﷺ قرآن کی عملی تفسیر ہیں ، پھر ایک پوری ترتیب عملی ہے۔تو اب قرآن میں اہل کتاب سے شادی کی اجازت سے لیکر پناہ ، ہجرت ، تجارت، تحائف قبول کرنا ،ذبیحہ کھانا یا دیگر معاملات ہوں، رسول اللہ ﷺ نے جن چیزوں کے بارے میں رخصت دی وہ صا ف صاف بیان کر دیں، جن معاملات میں نہیں تھی ،اُ ن کو بیان نہیںکیا۔جب روزے اور داڑھی کی مشابہت بھی قبول نہیں تھی تو صاف صاف منع کیاگیاتو اب ایسی چیز جس کا کوئی اشارہ نہیں ہوتو اُس پر ہزار عقلی دلائل دینے کے بعد بھی وہ کام قبول نہیں کیا جا سکتا جس کا حکم یا عملی تواتر ہمیں نہ ملے ۔فرمان نبی ﷺ ہے کہ ’میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفاء راشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں ان کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو‘‘۔

اب ایسے میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کا مشہور فرمان کافی ہے بات سمجھانے کو کہ ’’اُن کے خاص ایام آئیں تو ان سے مقاطعہ کرو، اُن سے ربط قائم نہ کرو، اُن کے کلیساؤںمیں داخل نہ ہوکہ وہاں اللہ کا عذاب برس رہا ہوتا ہے۔‘‘یہ بات 1400 سال قبل کہی جا رہی ہے خلیفہ وقت کی جانب سے ، اب اُن سے بہتر تو کوئی نہیں قرآن سمجھتا ہوگا ۔یہ 1400 پہلے کے غیر مسلم تھے ، آج 2023 والے تو اپنے عقائد کے اعتبار سے پہلے سے زیادہ بدتر حالت میں ہیں، تو کیسے ممکن ہے کہ اُن کے ساتھ ایسا معاشرتی کمپرومائز یا ایسی خاص ’مذہبی رواداری‘ کیا جائے جس کے بعد انسان اپنے ہی دائرہ ایمان سے باہر ہوجائے ؟

اس حوالے سے 2 اور باتیں یاد رکھیں کہ مسلمان ابتدائے اسلام کے وقت مکہ میں بھی اقلیت تھے ، غلبہ اسلام کے بعد بھی عالمی سطح پر عددی اقلیت ہی رہی ، جہاں جہاں فتوحات کو گئے، یہاں تک کہ برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان ہمیشہ اقلیت رہے ہیں ، مگر حکومت میں رہے ہیں۔مسلم معاشرت علما کرام کے ہاتھوں میں رہی ہے، چاہے حکمران عملی طور پر کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔عیسائی پورے یور پ میں تھے، عیسائی برصغیر میں بھی تھے انگریز کی شکل میں، یہاں تک کہ انگریز وں کے ہاتھ اقتدار چلا گیا، پھر بھی آپ کوکفار کے ساتھ ایسی ’مذہبی رواداری ‘ کی مثالیں نہیں ملیں گی۔ (اکبر کے علاوہ، مگر اکبر کے اقدامات پر جو شدید ترین رد عمل آیا تھا ، وہ نہ بھولیں)۔

عمران خان کی مقبولیت کے جواب میں مستقل جھٹکوں کا سلسلہ سوشل میڈیا پر جاری رہا، عمران خان نے سابق آرمی چیف قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے خلاف جو محاذ کھولا وہ انتہائی حیرت انگیز تھاکیونکہ اب تو چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں۔آڈیو لیک کا کوئی ڈھنگ کا جواب عمران خان اینڈ کمپنی کے پاس اس لیے نہیں تھا کہ صرف یہی جواب دیا گیا کہ جعلی ہے۔مگر ایک اور جواب ہوتا ہے وہ یہ کہ اگر میں چور ہوں ، اس لیے مطعون ہوں تو بس اگر میں یہ ثابت کردوں کہ آپ بھی چور ہیںتو بات ختم ۔پی ڈی ایم کی یہی کوشش رہی کہ اپنے آپ کو صاف کہنے والے عمران کو بھی چور ثابت کر سکیں۔ اب خان صاحب نے اپنے دیگر ’شوق ‘ کا اقرار بھی کیا اور آڈیو لیک کی از خود تصدیق کی تو باری خان صاحب کی تھی تو اُنہوں نے بھی وہی کیا ۔

ہوا یہ کہ مشہور پاکستانی اداکاراؤں کے بارے میں ایک پاکستانی ریٹائرڈ میجر عادل راجہ نے وی لاگ بنایا اور کسی خاتون کا نام لیے بغیر 1970 میں ’جنرل رانی ‘ طرز کے واقعات 2022 میں بھی جاری ہونے کے انکشافات کیے ۔’ سولجر اسپیکس ‘کےنام سے یو ٹیوب چینل پر اُن کے کوئی 3 لاکھ سے اوپر سبسکرائبر ہیںٹوئٹر پر کوئی ساڑھے چھ لاکھ فالوورز رکھتے ہیں۔چونکہ پاکستان کو’’حقیقی آزادی‘ دلانے کی بات کرتے ہیں تو سامعین کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس کیمپ کے آدمی ہیں۔ویسے وہ بار بار اپنی وڈیوز اور پوسٹوں میں خود فرماتے ہیں کہ وہ ایک محب وطن پاکستانی سپاہی ہیں،مگر اب برطانیہ میں مقیم ہیں۔اُن کے دھماکے دار وی لاگ کے بعد کچھ اداکارائیں ، فیک وڈیو و دیگر عنوانات سے قبل از وقت جواب دینے اُتر آئیں ۔وی لاگر نے تو صرف چند حروف جیسے ، ایم یچ، کے کے ، ایس اےہی بتائے تھے ، از خود ان حروف کو معنی پہنا کر میدان میں جوابی کارروائی کے لیے جو اداکارائیں اُترآئیں ،لوگوں نے محسوس کیا کہ واقعی اُن کے دل میں لازمی کوئی چور ہے۔کئی ساتھی اداکار بھی اُن کی حمایت میں آئے ۔مگرشائقین اور سوشل میڈیا تماش بین یہی نوٹ کر رہے تھے کہ یہ کونسی وڈیوز ہیں جن کا ذکر یہ خواتین قبل ا ز وقت کر رہی ہیں۔معاملہ کیا ہے ، بات کیا ہے؟پھر یہی نہیں ہوا، متعلقہ اداکاراؤں کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ بھی بن گئے ۔حد تو یہ ہوئی کہ بات یہاں تک گئی کہ سورۃ حجرات کے حوالے لگائے گئے کہ ’فاسق کی بات کا اعتبار نہ کرو‘۔ اب بھلا کوئی بتائے کہ ریٹائر میجر ہی سہی ، ادارے کے اندر کی بات ہی بتا رہا ہے تو فاسق کیسے ہوگیا؟ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو لندن میں رہتا ہے ، اُس کا کیا تعلق ،مگر خوب جان لیجیے کہ فوجی کبھی ریٹائر نہیںہوتا۔دوسرا یہ دیکھیں کہ فوراً ’’قرآنی حوالہ یاد آگیا‘‘۔یہی نہیں ’قوم کی بیٹیاں ، قوم کو فخر ہے تم پر‘ کا بھی نعرہ لگایا گیا، وزارت اطلاعات نے بھی پاکستانی اداکاراؤں کی کردار کشی کرنے والے عناصر کی شدید مذمت کر ڈالی۔

یونیورسٹی کےزمانے میں ہونے والے بک فیئرز میں ایک کتاب دیکھ کر ہمیشہ شرم سی آتی تھی، کہ وہ اکثر بڑے اسٹالز پر نمایاں رکھی ہوتی او ر ہم کوشش کرتے کہ یہ کتاب سامنے سے ہٹائی جائے ۔ اس کتاب کا نام تھا ’ پارلیمنٹ سے بازار حسن تک‘، میں نے یہ کبھی پڑھی نہیں ، مگر اسکے بارے میں گزرتے وقت کے ساتھ معلوم ہو تا ہی چلا گیا۔اپنے اُن بزرگوں سے پوچھیں کہ جو 1950 یا اس سے کچھ قبل کی پیدائش ہوں۔1971۔ 1970 میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر بدنام ہونے والی خاتون ’’اقلیم اختر رانی ‘‘ملک کے گوشے گوشے میں ’جنرل رانی‘کے نام سے کیوںمشہور ہو گئی تھیں؟پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ کس تعلق میں شمار ہوتی تھیں؟پاکستان کے مشہور پاپ گلوکار، فخر عالم اور عدنان سمیع، اسی ’جنرل رانی ‘کے نواسے ہیں ، مگر ان کے نانا کا نام کوئی نہیں جانتا۔ جنرل رانی کی بیٹی عروسہ عالم جو فخر عالم کی والدہ ہیں ۔وہ طویل عرصہ بھارتی پنجاب کے ایک سیاستدان امریندر سنگھ کے ساتھ رہتی رہیں اور بعد ازاں مشہور ہوا کہ انہوں نے امریندر سنگھ سے شادی کرلی،مگر یہ شادی کبھی اناؤنس نہیں ہوئی۔ بھٹو دور میں جنرل رانی کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنےکی کوشش کی گئی۔ خاتون نے کسی طرح معروف صحافی شورش کشمیری تک رسائی لی اور حکمران طبقے سول و ملٹری بیورو کریٹوں، سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کی عیاشی بھری زندگی کے مخفی گوشوں کی تصاویرتھیں۔اس بات کی صداقت کا ایک اشارہ جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹرفرید پراچہ کی کتاب میں جنرل رانی کی زبانی بھی یوں لکھا ہے کہ ،’بھٹو نے مجھے جیل میں اس لئے ڈالا ہے کہ میرے پاس اس کی اور یحییٰ کی گفتگو کی کیسٹ ہے۔‘مطلب جنرل رانی ، 1970 میں بھی خفیہ ریکارڈنگ،خفیہ تصاویر کا سلسلہ رکھتی تھیں۔ یہ مختصر داستان بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اُس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا ،مگر شوق تب بھی وہی تھے اور اب بھی وہی ہیں کچھ جدت کے ساتھ۔اچھا یہ صرف ہوائی خبریں نہیں ، بلکہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ سے بھی سارے حوالے مل جائیں گے۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ انسان شیطان کے اس قدر نرغے میں ہوکہ خوب حرام کھائے ، اپنے قول و فعل میں فاسق و فاجر ہو، خوف خدا اس کی زندگی میں کہیں جھلکتا ہی نہ ہو ، تو کیسے و کیوں کر وہ باقی گناہ سے پرہیز کرے گا۔ وہ حرام جو اس کے جسم میں جائے گا تو کیوں نہ اثر دکھائے گا۔تو پاکستانی سیاست کا یہ بدترین پہلو ہے ، جو 1970 سے ہمارا پیچھا کر رہا ہے، یہ ضرور ہے کہ درمیان میں صدر ضیا کے دور میں اس پر بڑی حد تک روک لگی تھی۔اس کے بعدمشرف دور میں جس ان لائنمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ سب کو پیچھے چھوڑ گیاکہ ٹیکنالوجی میں خاصی آگے جا چکی تھی۔

حصہ