آگہی

183

حسبِ سابق آج بھی سردی اپنے عروج پر تھی۔ یخ بستہ سرد ہواؤں نے ماحول کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ رات گہری ہوتی جارہی تھی۔ موسم کی شدت کے باوجود خلافِ معمول آج گلی کوچوں اور عوامی مقامات پر گہما گہمی نظر آتی تھی۔ منچلے موسم کی شدت سے بے نیاز اپنی دنیا میں مست تھے۔ بظاہر چہرے پر چھائی مسرت کسی بڑی خوشی کا پتا دیتی تھی، لیکن درحقیقت ان کی سرگرمیاں لاحاصل مصرف کا نتیجہ معلوم ہوتی تھیں۔

وہ ایسی بے معنی مصروفیت سے لاتعلق اپنے نرم گرم بستر پر محوِ استراحت تھا کہ اچانک فضا میں گونجنے والی بے ہنگم آواز اس کی نیند میں خلل ڈالنے کا سبب بنی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ایک لمحے کو اس کے اوسان کچھ سمجھنے سے قاصر ہوئے۔ فضا میں گونجنے والی خوف ناک آواز دلوں کو دہلائے دیتی اور ذہن کو جکڑ رہی تھی۔ خوف کے تاثرات اس کے چہرے سے ہویدا تھے۔ ذہن مکمل بیدارہوا تو اُس نے ملگجی روشنی میں کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے سرہانے رکھے موبائل کوگرفت میں لیا اور نگاہ اسکرین پر جماتے ہوئے وقت کا تعین کرنا چاہا۔ ’’ہونہہ!جشن‘‘۔ وہ زیر لب بڑبڑایا۔ چہرے پر چھایا خوف بے زاری اور بے بسی میں تبدیل ہوا۔ رات کی خاموشی میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اس کی سماعت پر گراں گزر رہی تھی۔ اس نے موبائل جگہ پر رکھا اور گلاس میں پانی انڈیلنے لگا۔ تفکرات اس کے چہرے سے عیاں تھے۔ پانی پی کر وہ پھر سے لیٹ گیا لیکن ایک بار پھر گولیوں کی آواز نے اُسے بے سکون کیا۔ وجود میں اترتی گھٹن کو بند کھڑکی پر محمول کرتے ہوئے وا کیا۔ سرد ہوا کی لہر نے اس کا استقبال کیا۔ لیکن شاید ٹھنڈی ہوا اس کے وجود کی حدت پر غالب آنے سے قاصر رہی۔

نگاہیں بدستور وقفے وقفے سے بلند ہوتے شعلوں کے تعاقب میں تھیں لیکن اگلے ہی لمحے کسی خیال سے وہ چونکا۔ پیشانی پر تفکرات کی سلوٹیں ابھریں اور اس نے قدرے بیزاری سے کھڑکی کے پٹ بند کردیے جیسے ان مناظر سے اظہار برأت کررہا ہو۔ اس کی نیند اچاٹ ہوچکی تھی۔

اغیار سے لیے گئے کسی بھی دستور کا وہ مخالف تھا۔ اسے روایتی تہذیب و تمدن کی پاسداری میں ہی قوم کی بقا اور ترقی نظر آتی تھی۔ سو اُس نے اندھی تقلید کا دامن تھامنے کے بجائے اپنے ہم عصرسے معذرت کرلی تھی۔ وہ قیمتی لمحات جو امانت ہوں، کیسے نائٹ کلب اور ساحلِ سمندر پر ہلہ گلا کی نذر ہوسکتے ہیں! یہ دن انفرادی اور اجتماعی احتساب کے ذریعے کوتاہیوں کی جانب متوجہ کرنے کے لیے آتا ہے تاکہ ربِّ حقیقی سے تجدیدِ عزم ہو اور عزمِ نو ہی سال بھر ہمدم ہوں، دلائل توانا لیکن سننے والے کے نفس پر گراں۔ سو آج کی رات کے آخری پہر وہ بڑے اہتمام سے ربِ کے حضور حاضری لگاتا، اپنی اور اہلِ خانہ کی عافیت کا طلب گار ہوتا، دوست احباب کو دعاؤں میں یاد رکھتا، بھیگی آنکھوں سے ملکی مسائل کے حل کے لیے دستِ سوال پھیلاتا اور اُمتِ مسلمہ کو جسدِ واحد کی مانند دیکھنے کی خواہش بام عروج پر پہنچ جاتی۔

اگرچہ وہ ایک حساس طبیعت نوجوان تھا لیکن شعور کی اس منزل پر پہنچنے کا یہ سفر برسوں پر محیط ہے۔ جہاں روایات اپنی وقعت کھونے لگیں اور سطحیت در آئے آگہی کی منزل پر پہنچنا مشکل امر ہوجاتا ہے۔ سو اسے بھی رونما ہونے والے ملکی واقعات و حالات متاثر ضرور کرتے لیکن یہ بیداری وقتی ہوتی اور حالات کو معاشرے کی آنکھ سے دیکھنے پر مجبور ہوجاتا۔ یوںدل میں اٹھتی کسک کو تھپکنے کی کوشش کرتا۔

پھر ایک دن جب سارے طلبہ ایک دوسرے کو سالِ نو کی مبارک باد دے رہے تھے، اس کی ملاقات ایک ایسے نوجوان سے ہوئی جس کی آنکھوں میں اداسی کے ڈیرے تھے اور وہ کرب لیے مبارک باد دینے والے نفوس کو یوں دیکھتا جیسے اس کے دل کو چرکا لگا ہو۔ رضوان نعمانی کو وہ برسوں سے جانتا تھا، جو ناگوار بات کو بھی حکمت سے کہنے کا فن جانتا تھا۔ لیکن آج تو وہ لب سیے، اردگرد سے بے نیاز کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ اُسے رضوان نعمانی کے اس روپ سے پہلی مرتبہ آشنائی ہوئی تھی۔ سو تشویش ہوئی اور حالِ دل جاننے کے لیے متجسس ہوا۔ لیکن رضوان تذبذب کے عالم میں اسے گھورے گیا۔ اس کے سوال نے رضوان کو لب کھولنے پر مجبور کیا۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا ’’سال بھر اسٹریٹ کرائمز میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد کم تھی جو سالِ نو کے جشن میں بھی دسیوں لوگ زخمی ہوئے؟‘‘ اور لاکھ ضبط کے باوجود دو آنسو نکل کر اس کی داڑھی میں جذب ہوگئے۔ رضوان نعمانی کی بات میں کوئی نیا پن تو نہ تھا لیکن درد میں سمویا اندازِ تکلم اسے بے کل کر گیا اور آگہی کی راہ پر سفر آسان بنا گیا۔

حصہ