قاضی حسین احمدؒ کے ساتھ بیتے ہوئے لمحاتِ حیات یادگار ہیں۔ اس عظیم شخص کی قیادت میں کام کرنے کا جو لطف آیا وہ آج بھی قلبِ حزیں میں موجزن ہے۔ میں مولانا مودودیؒ کے حکم پر 1974ء میں کینیا گیا تھا۔ 1985ء میں مرکز جماعت کے حکم پر کینیا سے واپس پاکستان آیا۔ مرکز جماعت میں آیا تو محترم میاں طفیل محمد صاحب نے مجھے حکم دیا کہ مرکزی نظم میں بطور نائب قیم ذمہ داری ادا کروں۔ میں نے امیر جماعت کے حکم پر سرِ تسلیم خم کردیا۔ اُس وقت قاضی صاحب قیم جماعت تھے اور محترم چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب ان کے ساتھ نائب قیم کے طور پر کام کررہے تھے۔ اس عرصے میں میری ذمہ داری فیلڈ میں تنظیمی و تربیتی امور سے متعلق اور ملک بھر میں مسلسل دورے اور پروگراموں میں شرکت تھی۔ اکثر قیم جماعت کے ساتھ اکٹھے سفر کرنے کا موقع ملا۔ کئی پروگراموں میں اُن کے ساتھ شرکت کیا کرتا تھا۔ سفر میں ان کی نفاستِ طبع اور بھی کھل کر سامنے آئی۔ ڈرائیور اگر بلاوجہ ہارن بجاتا تو سرزنش فرماتے کہ ہارن ناگزیر ضرورت کے بغیر بجانا تہذیب و ثقافت کے خلاف ہے۔ ان کے ساتھ چلنے والے ڈرائیور بہت محتاط ہوا کرتے تھے۔ غلط اوورٹیکنگ یا پیدل چلنے والوں کا خیال نہ رکھنے پر قاضی صاحب ناراض ہوا کرتے تھے۔ خوش خوراک تھے مگر میں نے بارہا دیکھا کہ نہایت سادہ اور روکھا سوکھا کھانا بھی ملا تو اسی طرح شوق سے کھایا جس طرح اپنے مرغوباتِ اکل و شرب شوق سے کھاتے پیتے تھے۔ کبھی کسی چیز کو ناپسند نہیں کیا۔
قاضی صاحب اور راقم پنجاب کے مغربی اور جنوبی اضلاع کے طویل تنظیمی دورے پر تھے، جب 1987ء میں امارتِ جماعت کے لیے انتخاب ہورہا تھا۔ مظفرگڑھ میں رات کے وقت ہمیں ٹیلی فون پر اطلاع ملی کہ امیر جماعت کے انتخاب کا نتیجہ آگیا ہے اور ناظمِ انتخاب نے امیر جماعت میاں طفیل محمد صاحب کی خدمت میں یہ پیش کردیا ہے۔ اس کے مطابق قاضی حسین احمد صاحب کو امیر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ خبر سن کر قاضی صاحب گہری سوچ میں پڑ گئے اور پھر اللہ سے اپنے لیے خود بھی استقامت کی دعا کی اور تمام دوستوں سے بھی یہی درخواست کی۔ جماعت کے حلقوں میں بحیثیتِ مجموعی اس نتیجے سے خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ فیلڈ میں کام کرنے والے کارکنان و ذمہ داران بالخصوص نوجوان چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کو زیادہ زور و شور سے میدان میں نکلنا چاہیے۔ قاضی صاحب نے اپنے بائیس سالہ دورِ امارت (1987ء تا 2009ء) میںجماعت کو عوامی اور پاپولر سیاسی جماعت بنانے کے لیے مختلف منصوبے شوریٰ کے سامنے پیش کیے۔
جماعت اسلامی مکمل طور پر ایک شورائی اور جمہوری جماعت ہے۔ یہ تمام منصوبے حسبِ دستور، مشاورت میں کثرتِ رائے یا اتفاقِ رائے سے طے کیے جاتے رہے۔ ان میں پاسبان اور شباب ملّی کا قیام، پاکستان اسلامک فرنٹ کا قیام، ملّی یکجہتی کونسل، شریعت محاذ، ممبر سازی مہم اور مختلف دیگر پلیٹ فارم انھی کی کاوشوں کا نتیجہ تھے۔ ملک بھر میں کاروانِ دعوت و محبت اور مختلف مواقع پر دیگر عوامی کارواں اور ریلیاں قاضی صاحب کے ذہنِ رسا اور متحرک قیادت کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ قاضی صاحب کے دورِ امارت میں بہت عرصے کے بعد جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعاتِ عام مسلسل منعقد ہوئے۔ پہلا نومبر1989ء میں مینارِ پاکستان پر ہوا۔ دوسرا نومبر 1995ء میں پھر مینارِ پاکستان پر ۔ تیسرا اکتوبر1998ء میں فیصل مسجد اسلام آباد میں۔ چوتھا اکتوبر2000ء میں قرطبہ نزد چکری میں۔ پانچواں اکتوبر2004ء میں اضاخیل، نوشہرہ میں۔ چھٹا نومبر 2007ء میں شامکے بھٹیاں میں ارکان و امیدواران۔ ساتواں اجتماعِ عام اکتوبر2008ء میں مینارِ پاکستان میں ہوا۔ ان اجتماعات پر کافی اخراجات ہوئے اور مشاورتوں میں کئی احباب ان کے انعقاد کے خلاف بھی آرا دیتے رہے، مگر کثرتِ رائے سے فیصلے ہوئے اور سچی بات یہ ہے کہ ان اجتماعاتِ عام نے جماعت کے کام میں خاصی وسعت پیدا کی اور جمود ٹوٹا، تحرّک پیدا ہوا۔
2002ء کے انتخابات سے قبل قاضی صاحب کی کاوشوں سے دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد، متحدہ مجلس عمل وجود پذیر ہوا جس نے انتخابی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ قاضی صاحب کے ساتھ بطور امیر صوبہ بارہ سال، اور بطور نائب امیر جماعت چھے سال کام کرنے کا موقع ملا۔ قاضی صاحب سے کئی امور میں اختلاف بھی ہوتا تھا۔ جماعت میں اختلافِ رائے کی روایت موجود ہے اور ہر دور میں ہر امیر کے ساتھ حکمتِ عملی کے معاملات میں رفقا نے اختلافِ رائے کیا ہے۔ ایسے کئی مواقع آئے کہ اس اختلاف کی وجہ سے قاضی صاحب نے قدرے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ ان کی ناراضی وقتی ہوتی تھی، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ اپنے دل میں گرہ لگالیں کہ فلاں شخص میرا مخالف ہے۔ جو لوگ ہر معاملے اور فیصلے پر قاضی صاحب کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے تھے ان احباب اور ارکانِ جماعت کے خلاف بھی قاضی صاحب نے کبھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔
اپنا معاملہ تو یہ تھا کہ جن باتوں سے اتفاق ہوتا تھا اُن کی کھل کر حمایت، اور جن سے اختلاف ہوا اُن کی مناسب فورم کے اوپر مخالفت میں رائے کا اظہار کیا جاتا تھا۔ جب فیصلہ اس رائے کے برعکس ہوجاتا تو راقم نے ہمیشہ اس فیصلے کو اجتماعی فیصلہ سمجھتے ہوئے خوش دلی سے قبول کیا۔ مجھے دو تین مواقع یاد ہیں کہ جب قاضی صاحب نے مجلس میں سخت ردعمل کا اظہار کیا، مگر بعد میں اس پر معذرت بھی کی اور محبت و دل جوئی کے ساتھ تحسین بھی فرمائی۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ ان کی ناراضی بھی لوجہ اللہ ہوتی تھی اور رضا بھی لوجہ اللہ۔ ناراضی کے بعد جب وہ اعتذار کرتے تو بہت پیارے لگتے تھے!!
9-10جون 2001ء میں منعقدہ مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک فیصلے میں طے کیا گیا کہ ہر سطح کے امرا دو میقات پوری کرنے کے بعد تیسری میقات کے لیے ذمہ داری پر مقرر نہیں کیے جائیں گے، البتہ امیر جماعت اور صوبائی امرا اس سے مستثنا ہوں گے۔ میں نے اس فیصلے سے قبل یہ رائے دی کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں، جماعتی مصالح کے مطابق جہاں تبدیلی ازحد ضروری اور ناگزیر ہو، وہاں استصواب کے بعد بالائی نظم کا دستوری حق محفوظ ہے کہ وہ ذمہ داروں کی تبدیلی کردیں۔ نیز اگر یہ فیصلہ کرنا ہی ہو تو امرائے صوبہ کو کس بنیاد پر استثنا دیا جارہا ہے! ان کا تقرر بھی تو استصواب ہی سے ہوتا ہے۔ امرائے صوبہ کو بھی دیگر ذیلی امرا کی طرح استصواب کے ذریعے امیر جماعت مقرر کرتے ہیں، اس لیے ان کی بھی دو میقات کی ذمہ داری کے بعد سبک دوشی ضروری قرار دی جائے۔ ہاں امیر جماعت کا تو انتخاب ارکانِ جماعت کی حتمی رائے کے عین مطابق ہوتا ہے، اس لیے اس میں دستوری لحاظ سے ردو بدل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا استثنا صرف امیر جماعت کو ہونا چاہیے۔ راقم اُس وقت پنجاب کا صوبائی امیر تھا۔ میری رائے کے برعکس چونکہ قرارداد منظور ہوچکی تھی، اس لیے میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ تاہم جماعتی دستور کے مطابق اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مجلسِ عاملہ اور مجلسِ شوریٰ کے اگلے اجلاسوں میں پھر یہ مسئلہ پیش کیا۔
قصہ مختصر، اجلاس مرکزی مجلسِ شوریٰ منعقدہ 7تا9 جنوری 2002ء میں بحث و دلائل کے بعد میری یہ تجویز منظور ہوگئی۔ اب اگلے صوبائی استصواب میں مولانا عبدالحق صاحب (امیر صوبہ بلوچستان)، پروفیسر محمد ابراہیم صاحب (امیر صوبہ سرحد)، اسد اللہ بھٹو صاحب (امیر صوبہ سندھ) اور راقم الحروف (امیر صوبہ پنجاب) اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوگئے۔ قاضی صاحب نے مجلس شوریٰ میں فرمایا کہ چاروں سابق امرائے صوبہ کو مرکز میں نائب امیر جماعت کے طور پر شامل کرلیا جائے۔ میں نے اصولی طور پر اس رائے کی مخالفت کی۔ میرا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ضرورت کے تحت کسی ساتھی کا تقرر بطور نائب امیر کرنے میں کوئی حرج نہیں، مگر یہ روایت کہ جو لوگ امارتِ صوبہ سے فارغ ہوئے ہیں، انھیں ہی یہ ذمہ داری سونپی جائے، درست نہیں ہے۔
محترم قاضی صاحب نے باقی تین حضرات کا تقرر فرما دیا اور مجھ سے [ایک مجلس میں بھی] اور انفرادی طور پر بھی پیار بھرا شکوہ کیا کہ میں نے اُن کے ساتھ اُن کی ٹیم میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے عرض کیا ’’حاشاو کلّا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں کہ میں آپ کی ٹیم کا حصہ نہیں ہوں۔ میں نے آپ کے ساتھ آپ کے نائب قیم کے طور پر کئی سال پوری دلجمعی سے کام کیا۔ پھر بارہ سال بطور امیر صوبہ بھی آپ کی زیر قیادت اپنی صلاحیت و اوقات کے مطابق مسلسل کام کیا۔ میں کیسے آپ کی قیادت پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرسکتا ہوں؟ آپ میرے قائد ہیں اور بطورِ امیر جماعت میں آپ کے حکم فی المعروف کا مکمل پابند ہوں۔ میں نے تو ایک اصولی بات کی تھی مگر آپ نے مشاورت سے اس کے خلاف فیصلہ فرما دیا۔ میں اپنی اس رائے کے باوجود آپ کے فیصلے کا دل و جان سے احترام کرتا ہوں‘‘۔ فرمانے لگے ’’آپ احترام کرتے ہیں تو نائب امیر کی ذمہ داری سے کیوں بھاگتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’بھاگ کے کہاں جانا ہے، جینا اور مرنا ان شاء اللہ اسی قافلے کے ساتھ ہے‘‘۔ فرمایا ’’تو ٹھیک ہے تمھارا تقرر بھی میں نے کردیا ہے، حلف اٹھائو اور کام کرو‘‘۔ میں نے سرِ تسلیم خم کردیا۔
مجالس کی گفتگو اور بحث کے علاوہ دو تین اور امور پر بھی قاضی صاحب کو مجھ سے اور مجھے اُن سے اختلاف ہوتا تھا، مگر اپنے اختلاف کے اظہار کے باوجود ہماری باہمی عقیدت و محبت اور احترام میں کبھی ذرّہ برابر بھی رخنہ نہ پیدا ہوا۔ میرے کسی فقہی عمل پر انھوں نے مجھے کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ البتہ ان معاملات میں وہ اپنی رائے پر اصرار ضرور کرتے تھے۔ بطور چیئرمین شہدائے اسلام فاؤنڈیشن، میں اُن شہدا کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا کرتا تھا جن کے جسدِ خاکی افغانستان میں یا وادیٔ کشمیر میں شہادت کے بعد وہیں دفن کردیے جاتے تھے۔ محترم قاضی صاحب غائبانہ نمازِ جنازہ کے حق میں نہیں تھے، اور وہی کیا، تمام حنفی علما اس بارے میں اختلاف رکھتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ رائے دی کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا عمل ثابت ہے تو میرے نزدیک فقہا کی رائے کے مقابلے میں وہ زیادہ ارجح و اولیٰ ہے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کے بعد کبھی اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ اگر کوئی عمل مباح ہو اور اس کے ساتھ مصالح عامہ کے تحت کوئی دینی فائدہ حاصل ہوتا ہو تو اس پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں البتہ اگر کوئی شخص وہ عمل نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے مجبور بھی نہیں کرنا چاہیے۔ جن خاندانوں کے نوجوان شہادت پاجاتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لختِ جگر کا جنازہ پڑھ سکیں۔ پھر اس جنازے کے ذریعے ایک بڑی تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ موقع محل اور شہادت کے واقعات ایسے ایمان افروز ہوتے ہیں کہ مجمع کے سامنے اسلامی دعوت اور جہاد کو اجاگر کرنے کا مؤثر ذریعہ بن جاتے ہیں۔ مرحوم کی وسعتِ قلبی کا اس سے پتا چلتا ہے کہ بعد میں چند مواقع پر خود قاضی صاحب نے غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت فرمائی، اور اللہ نے ان کی رحلت کے بعد پانچ براعظموں میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا بھی اہتمام فرمایا۔ اللہ یہ سب دعائیں اپنے مجاہد بندے کے حق میں قبول ومنظور فرمائے اور ان کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں۔
دوسری بات نمازِ جنازہ میں دعا بالجہر کا معاملہ تھا۔ میں جنازے میں سِرّی اور جہری دونوں طریقوں پر موقع محل کی مناسبت سے عمل کرتا ہوں، کیونکہ یہ دونوں طریقے سنّت سے ثابت ہیں، اس لیے مسنون ہیں۔ قاضی صاحب بھی ایسے مواقع پر جنازے میں شرکت فرماتے تھے مگر خود جہری دعا کے ساتھ جنازہ پڑھانے کے قائل نہ تھے۔ تیسرا معاملہ سفر کے دوران جمع بین الصلوٰتین کا تھا۔ وہ اس کے قائل نہیں تھے۔ بہرحال کبھی کبھار سفر کی نوعیت و کیفیت ایسی ہوتی کہ وہ بھی اس پر عمل فرما لیتے۔ مگر ایسے مواقع بہت شاذ دیکھنے میں آئے۔ قاضی صاحب کے پیش رو میاں طفیل محمد ؒ بھی جمع بین الصلوٰتین نہیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی امور میں اختلافِ رائے ہوتا تھا مگر ان کی محبت اور میری عقیدت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہوا۔ وہ بہت عظیم انسان تھے۔ ان کا دل سمندر کی طرح وسیع و عمیق تھا اور ان کا حوصلہ ہمالیہ سے بلند تر تھا۔ وہ محبت فاتح عالم کی تفسیر تھے۔ اقبال کا یہ شعر ان کی زبان پر بھی ہوتا تھا، ان کے دل میں بھی اور ان کے طرزِ عمل میں بھی ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں!