کراچی کی سڑکوں پر روز سفر کرنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں کوئی چوک یا سگنل ایسا نہیں جہاں گداگروں کا قبضہ نہ ہو۔ شہر کی تمام بڑی چھوٹی شاہراہوں پر ان کی ٹولیاں موجود ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سگنل پر کھڑی گاڑیوں کا انہیں خیرات دیے بغیر گزرنا ممکن نہیں، شاید کوئی ٹریفک سارجنٹ بھی اتنی تیزی سے گاڑیاں نہ روک سکتا ہو جتنی پھرتی ان گداگروں میں ہوا کرتی ہے۔ لوگوں سے سوال کرتے ان بھکاریوں کا انداز ہی نرالا ہوتا ہے میرا مطلب ہے کہ خیرات مانگنے والے عوام سے کچھ اس انداز میں خیرات مانگتے ہیں جیسے دیے گیے ادھار کا تقاضا کیا جاتا ہے، گویا قرض خوروں سے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا جارہا ہو پورا خاندان رات دن سیزن کمانے میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ اندرون شہر بازاروں کی صورت حال تو اس سے بھی زیادہ خراب ہے اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کو خیرات دے دے تو ساری برادری اس کی جان کو آ جاتی ہے یعنی ایک کے بعد ایک آپ کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوگا۔ جب تک اس کے خاندان کے ہر ایک فرد کو کچھ نہ کچھ نہیں مل جاتا آپ کی جان نہیں چھوٹ سکتی۔ شہر میں بڑھتی ہوئی گداگری کو دیکھتے ہوئے میں نے اس مرتبہ اسی موضوع پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی ٹھان لی یعنی ان بن بلائے مہمانوں کی حرکات و سکنات سمیت ان سے متعلق تمام معلومات حاصل کر کے اسے تحریری شکل دینےکا پروگرام بنا لیا۔ میں جس روز یہ سنگ میل عبور کرنے نکلا اسی دن میری ملاقات میرے ایک دیرینہ دوست شاہد سے ہو گئی، شاہد ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی سے وابستہ ہے وہ انتہائی شریف نفس اور محنتی شخص ہے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر اس کی زندگی کی داستان ہے خاصے عرصے کے بعد ملاقات پر میں نے اس کے کام سے متعلق پوچھا اور ساتھ ہی اپنے پروگرام کا ذکر بھی کر ڈالا یعنی اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مجھے کسی ایسے علاقے کی تلاش تھی جہاں گداگروں کی بستیاں ہوں تاکہ میں ان کے قریب رہ کر ان کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھ سکوں بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے شاہد سے کسی ایسے علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی اس پر شاہد نے بتایا کہ وہ کسی ایسی بستی کے متعلق تو نہیں جانتا البتہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا۔
’’ایک روز سامان کی خریداری کے سلسلے مجھے فوری طور پر بازار جانا پڑ گیا میں جس دکان پر پہنچا وہاں پہلے سے موجود چند خواتین جو حلیے سے مانگنے والی دکھائی دے رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی رفو چکر ہو گئیں اور ان کے جاتے ہی دکان دار نے سامان چوری ہونے کا شور مچانا شروع کر دیا، دکان پر کام کرنے والے سارے ہی ملازم ان کی تلاش میں دوڑ پڑے میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا اور تھوڑی ہی دور جا کر ان ملازمین نے ان میں سے ایک خاتون کو پکڑ لیا پہلے تو اس نے الٹا ان نوجوانوں پر الزام عائد کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن چند ہی لمحوں بعد اس سے چوری کی گئی قیمتی اشیاء با آسانی برآمد کر لی گئیں۔ اس خاتون کی چالاکی میرے لیے حیرت کا باعث تھی۔ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ میں ایسے کئی گھرانوں کو جانتا ہوں جو پیشے کے اعتبار سے گداگر ہیں لیکن درجنوں بھینسوں کے مالک ہیں۔ یعنی سڑکوں پر خیرات مانگنے والوں نے نہ صرف بھینسوں کے باڑے بنا لیے بلکہ قصائیوں کے ساتھ مل کر جانوروں کی خریدوفروخت جیسے بڑے کاروبار سے بھی منسلک ہیں جبکہ ان گھرانوں کی خواتین آج بھی شہر کی کسی نہ کسی مصروف ترین شاہراہ پر بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔
شاہد کی باتیں سن کر میرے ذہن میں ان گداگروں سے متعلق اٹھنے والے سوالات مزید پختہ ہو گئے، کیوں کہ جو کچھ بھی میرے ذہن میں تھا اس کی جانب سے کی جانے والی باتیں اس کی تصدیق کر رہی تھی۔ خیر اس ملاقات کے بعد میں شاہراہ فیصل سے نیشنل ہائی وے کی جانب چل دیا اور ملیر ہالٹ تک آ پہنچا، میری اب تک کی معلومات کے مطابق گداگروں کی بڑی تعداد اسی سڑک کے دونوں اطراف مل سکتی ہے۔ میں ابھی ملیر کالا بورڈ جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ میری نظر گداگروں کے کنبے سے تعلق رکھنے والی خواتین پر پڑی میں نے ان سے بات کرنے کی اجازت طلب کی پہلے تو وہ بات کرنے کو تیار نہ تھیں۔ لیکن جب میں نے ان سے گداگروں کے مسائل معلوم کرنے اور ان کے حل میں مدد کرنے کی بات کی تو وہ راضی ہو گئیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے مرد منزل پیڑول پمپ نیشنل ہائی وے کے قریب آباد بستی میں موجود ہیں اگر ان سے ملنا ہے تو وہاں جاکر معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن میرے نزدیک زیادہ بہتر یہی تھا کہ پہلے ان سے بات کروں ان خواتین میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ ہمارے کوئی مسائل نہیں ہم خیرات مانگنے والے لوگ ہیں کسی کو اس سے کیا ہم جو بھی کرتے ہیں یہی ہمارا کام ہے تم نے خیرات دینی ہے تو دو ورنہ ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔ شام ہورہی ہے، ہم گھر جائیں گے اگر تم سے باتوں میں لگ گئے تو سارا وقت ضائع ہو جائے گا۔ یہ ہمارا خاندانی کام ہے کوئی کیا کہتا ہے اس سے ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا دنیا والے باتیں کرتے ہیں تو کریں جو بھی ہو ہم فقیر ہیں اور فقیر ہی رہیں گے، اسی میں خوش ہیں ان خواتین نے مجھے زیادہ وقت نہ دیا اور بازار کی جانب چلی گئیں۔ میں انہیں روک بھی نہیں سکتا تھا لہٰذا میں نے ان کی آبادی کی طرف جانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ ان کے مردوں سے ان کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کی کوشش کر سکوں۔ دوسرے دن میں نیشنل ہائی وے سے متصل اس بستی جا پہنچا جہاں بڑی تعداد ان گداگروں نے جھگیاں ڈال رکھی تھیں، جہاں ہر طرف گندگی اور کچرے کے ڈھیر تھے جبکہ گندے پانی کی وجہ سے وہاں کھڑا ہونا بھی دشوار تھا۔ چھوٹے بچے اس گندگی میں کھیل رہے تھے چاروں طرف سے آتی بدبو کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہونے لگی مرد و خواتین کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے بستی میں رہنے والے ایک شخص حبیب سے میں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد ان کے مسائل سے متعلق بات کرنی شروع کر دی جس پر حبیب نے میری تمام باتوں کا جواب دینے کی ہامی بھر لی اس نے بتایا۔
’’لوگ ہمیں گداگر کہتے ہیں اسی بنا پر شہر بھر کی انتظامیہ ہمارے خلاف ہو جاتی ہے اور آئے روز پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ آپ یقین کیجیے ہمارے خاندان کا کوئی فرد فقیر نہیں، ہم تو گانے بجانے والے ہیں گلیوں اور بازاروں میں اپنی آواز کے صدقے روزی کماتے ہیں۔ ہماری قوم میر عالم ہے ریشماں اور نصیبولال بھی ہماری قوم سے تعلق رکھتی ہیں، ہمارے پاس تعلیم نہیں ہے اسی لیے پیچھے رہ گئے ورنہ جو فن ہماری برادری کے پاس ہے اس کے حامل استاد کے کہلاتے ہیں۔ لوگ تو بنجاروں کو بھی ہمارے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ ہر قوم الگ ہے کسی کا کام مٹی کے کھلونے بنانا ہے، تو کوئی پتلی تماشا دکھانے والی قوم ہے، لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہماری خواتین محض اس لیے بازاروں میں جاتی ہیں کہ وہاں اپنے فن سے روزی روٹی کما سکیں ہم فن کار ہیں فقیر نہیں ہیں‘‘۔
’’ہم نے جہاں جہاں اپنی جھگیاں بنائیں بھائی ہر جگہ چائنا کٹنگ کر دی گئی ہے …اب ہم غریب لوگ … کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں ۔ہماری تین جھگیاں ہیں جن کا کرایہ پانچ ہزار روپے ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ملتان میں پنجاب حکومت کے تعاون سے ہماری برادری کو پلاٹ دیے گئے تھے یہاں کراچی میں ہماری قوم والے مجھے اپنی جھگیاں بھی نہیں بچا سکے ہم بھی انسان ہیں… ہماری بھی ضروریات ہے اب وہ وقت نہیں جب فنکاروں کی عزت ہوا کرتی تھی جب سے موبائل آیا ہے… لوگوں نے ہم جیسے فنکاروں کی عزت کرنا چھوڑ دی ہے ہر دوسرا شخص اپنے تئیں اداکار بنا بیٹھا ہے‘‘۔
گداگروں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر حبیب نے بتایا’’فقیروں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں ان کے ٹھیے بکتے ہیں ہر کسی کا اپنا علاقہ ہوتا ہے۔ ایک فقیر دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتا اگر کوئی ایسی کوشش کرتا ہے تو دشمنی ہو جاتی ہے، یہ ایک دوسرے کو جگہ فروخت کرتے ہیں جگہ زیادہ خیرات ملے وہ جگہ قیمتی کہلائی جاتی ہے گداگری باقاعدہ نظام کے تحت چلائی جاتی ہے پولیس کو بھی بھتہ دیا جاتا ہے پولیس کی مرضی کے بغیر کسی چوک پر بیٹھنا ممکن نہیں سب کو مل کر چلنا ہوتا ہے یہ ہمارا کام نہیں فقیروں کا کام ہے ہم تو فنکار ہیں‘‘۔
حبیب ہر مرتبہ خود کو فنکار کہہ رہا تھا میں بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہا تھا لیکن گداگروں کی مشکوک سرگرمیوں پر حکومتی کاروائی سے متعلق پوچھے گیے سوال پر وہ آگ بگولہ ہوگیا انتہائی جذباتی انداز میں کہنے لگا۔
’’کیا کاروائی؟ کون کرے گا کاروائی؟تم کہہ رہے ہو کہ ان کے خلاف حکومت کی جانب سے کارروائی کی جانی چاہیے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرے گا کون؟ یعنی ان گداگروں کے خلاف کوئی گداگر کس منہ سے کارورائی کر سکتا ہے۔ دیکھو بات سیدھی سی ہے،کراچی سمیت پورے ملک کی سڑکوں،محلوں اور تجارتی مراکز پر بھیک مانگنے والے تو ہمیں نظر آتے ہیں،مگر وہ حکمران کیوں دکھائی نہیں دیتے جو کشکول لیے ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔سڑکوں پر گھومتے گداگر اپنی اولادوں کو صرف بھکاری بناتے ہیں،جبکہ ہمارے حکمرانوں کی گداگری نے نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی مقروض بنا ڈالا۔متوسط طبقے کا یہ حال کر ڈالا کہ وہ بھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اصل گداگر کون ہیں؟ معاشرے میں دھکے کھاتے غریب یا پھر ہمارے حکمران؟ماضی بعید کے حکمرانوں کا قصہ ایک طرف،ماضی قریب کی حکومت نے تو انتہا کردی تھی،اپنے پہلے ہی سال 20 لاکھ لوگوں کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیا تھا،جبکہ آنے والے برسوں میں یہ تعداد مزید بڑھتی چلی گئی،اور رہی سہی کسر لنگر خانے کھول کر پوری کردی تھی۔تبدیلی سرکاری کی تبدیلی کے بعد تو حالات اور بھی زیادہ گمبھیر ہو گئے ہیں تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح سڑکوں کے کنارے دیہاڑی دار طبقہ مزدوری کی تلاش میں بیٹھا نظر آتا ہے،اور مزدوری نہ ملنے پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا دکھائی دیتا ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ دورانِ گفتگو ایک شخص ہمارے قریب آیا جو حلیے سے مزدور دکھائی دے رہا تھا،کہنے لگا کہ ’’بھائی صاحب! صبح سے کام کی تلاش میں ہوں،شام ہونے کو آگئی ہے کوئی کام نہیں ملا،سوچتا ہوں اگر ایسا ہی رہا تو کیا کروں گا؟ گھر میں دو چھوٹے بچے ہیں،دیہاڑی لگ جائے تو چٹنی روٹی کا بندوست ہو جاتا ہے ورنہ بھوکے پیٹ کروٹیں بدلتے رات گزارنی پڑتی ہے،میری تو خیر ہے بچوں کو بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، کچھ مدد کردو گے تو تمہاری مہربانی ہوگی،میں پیسے نہیں مانگ رہا،بچوں کے لیے سالن روٹی دلوا دو‘‘۔
اب تم ہی بتاؤ اُس شخص کو جو واقعتاً مزدور دکھائی دے رہا تھا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر کس نے مجبور کیا؟ ان حالات میں اُس کے گھر کی کفالت کس کی ذمہ داری ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں،یہ ریاست کا کام ہے،ریاست ماں ہوتی ہے۔ملک سے غربت،بھوک و افلاس کا خاتمہ حکومتوں کی اوّلین ترجیح ہوا کرتی ہےاور اگر بے ضمیر حکمران خود ہی گداگری کی راہ پر چل پڑیں تو ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث تیزی سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے انتہائی مجبوری کے عالم میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے کون روکے گا؟
حبیب کی جانب سے کی جانے والی باتوں میں کوئی صداقت ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے بارے میں اس نے جو کچھ بھی کہا وہ سو فیصد درست ہے۔ اس کی رائے سن کر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی… راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے،طرز حکمرانی ایسا کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے۔ یہ حضرت عمر فاروق ہی تھے جن کا فرمان ہے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ) سے اس بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘آج مسلمان حکمران تو ہیں لیکن ریاست مدینہ نہیں ۔