غلط یا صحیح لیکن انسان کی ایک تعریف یہ ہے کہ انسان بنیادی طور پر جذبات کے جال کا نام ہے۔ جذبات کے اس جال کا تانا بانا مختلف جذبات سے مل کر بنا ہے۔ ان میں کچھ جذبے پسندیدہ ہیں اور کچھ ناپسندیدہ۔ کچھ خوب صورت ہیں اور کچھ بدصورت۔ مثال کے طور پر نفرت کو ایک ناپسندیدہ اور بدصورت جذبہ اور محبت کو ایک پسندیدہ اور خوب صورت جذبہ سمجھا جاتا ہے۔ جذبات کے بارے میں یہ رویہ کسی خاص قوم یا علاقے کا نہیں بلکہ اقوامِ عالم اور دنیا کے تمام علاقوں کا ہے یعنی انسان کی اجتماعی تہذیب میں انسان کے ان جذبات کے بارے میں یکساں رویہ پایا جاتا ہے۔ اس رویے میں انسانی تہذیب کے آغاز سے لے کر اب تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
افسوس کہ مجھے اس اجتماعی مؤقف سے اتفاق نہیں ہے۔ اس اجتماعی مؤقف کے برعکس میرا خیال ہے کہ انسان کا سب سے گھنائونا اور قابلِ نفرت جذبہ کوئی اور نہیں صرف محبت ہے۔ ’’ایک خاص طرح کی محبت‘‘ یہ محبت والدین کی بھی ہو سکتی ہے۔ بہنوں بھائیوں کی بھی اور دوست احباب کی بھی۔ تاہم عام طور پر یہ محبت والدین کی جانب سے ظہور کرتی ہے۔
محبت تو سبھی والدین اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں مگر کچھ والدین ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں۔ ان کی معمولی سے معمولی خواہش پوری کرتے ہیں ایسے والدین کی محبت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنے بچے کی شخصیت پر اثر انداز رہتے ہیں۔
والدین کی اس طرح کی محبت کے دو نتائج برآمد ہوتے ہیں یا تو ایسے والدین کے بچے ضدی اور ہٹ دھرم ہو جاتے ہیں یا پھر حد سے زیادہ نرم خو ہو کر مکمل طور سے اپنے والدین پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ یہ انحصار رفتہ رفتہ اتنا بڑھتا ہے کہ بچے اپنی انفرادی پسند و ناپسند کے ذائقہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے والدین کی پسند و ناپسند ہی ان کی پسند و ناپسند بن جاتی ہے۔ بہت سے بچوں میں اپنی عمر کے کسی حصے میں اس حقیقت کا شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے بچے اپنے ارادے اور فیصلے کی قوت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ کچھ اس میں کامیاب رہتے ہیں اور کچھ ناکام‘ جو کامیاب ہوتے ہیں ان کا ردِعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ پہلے والدین کے فیصلے پر جتنا انحصار کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ وہ والدین کے فیصلوں سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔ جو بچے اس جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوتے لیکن اس حقیقت کا شعور حاصل کر لیتے ہیں ان کی شخصیتیں مسخ ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ مستقل طور پر تذبذب اور ذہنی انتشار کا شکار رہتے ہیں۔
تاہم بچوں کی یہ دونوں اقسام ایک حد تک بہتر انسانی حالت میں رہتی ہیں۔ اس سے بدتر حالت میں وہ بچے رہتے ہیں جن میں مندرجہ بالا حقیقت کا شعور بیدار ہی نہیں ہوتا۔ یہ وہ بدنصیب ہوتے ہیں جو اپنے والدین کی محبت کے احسان تلے اتنا دب جاتے ہیں کہ ان کی قوت فیصلہ اور پسند و ناپسند کی صلاحیتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس طرح کی محبت کی ہولناکی اسی مرحلے و منزل پر ظاہر ہوتی ہے۔
اس محبت کی ہولناکی یہ ہے کہ یہ محبت فرد کے فطری جوہر کو فنا کر دیتی ہے۔ اگر ہمارے علمائے کرام اور اہلِ علم حضرات اس مسئلے پر غور کریں تو پائیں گے کہ یہ اتنا ہولناک ہے کہ اسے گناہ کبیرہ میں شامل کیا جانا چاہیے کیوں کہ انسان کا اپنے فطری جوہر سے محروم ہونے کا مطلب ہے اس کا منصب انسانی سے محروم ہونا یعنی انسان سے شے میں تبدیل ہونا۔
اسلامی فلسفہ حیات میں قوت پرستی‘ اقتدار پرستی اور دولت پرستی کی مذمت اسی لیے کی گئی ہے اور ان سے گریز کی تلقین اسی واسطے کی گئی ہے کہ یہ چیزیں رفتہ رفتہ انسانی جوہر کو فنا کر دیتی ہیں اور یوں اسے شرف انسانی سے محروم کر دیتی ہیں۔
مجھے تسلیم ہے کہ نفرت کی انتہا بھی انسانی جوہر کو Distort کرکے فنا کر دیتی ہے لیکن نفرت پر محبت والا اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ نفرت تو ہے ہی ایک منفی جذبہ‘ لیکن نفرت کی منفیت کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان اس کے اثرات سے ذرا چوکنا رہتا ہے۔ لیکن محبت کے مثبت پن کے عام تاثر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرد اس سے چوکنا نہیں رہتا اور یہ جذبہ اپنی خاص شکل میں اس کے وجود میں حلول کرکے اس پر قابو پا لیتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے جوہر کو فنا کر دیتا ہے۔
اس مختصر سی بحث سے ثابت ہو چکا ہے کہ محبت کی یہ صورت حد درجہ غیر صحت مند ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی محبت کے ظہور کا نفسیاتی پس منظر کیا ہوتا ہے؟ یعنی والدین یا دیگر افراد اس طرح کی محبت کیوں کرتے ہیں؟
میرے نزدیک ایسے والدین میں دوسروں پر Rule کرنے کا شدید جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن چونکہ انہیں اپنی حاکمیت کو دوسروں پر نافذ کرنے کے مواقع حاصل نہیں ہوتے اس لیے وہ اپنے اس جذبے کو اپنی اولاد پر ٹھونستے ہیں۔ بچوں کے سلسلے میں یہ جذبہ حاکمانہ انداز میں اس لیے ظاہر نہیں ہوتا کہ حاکمیت کے جذبے کی صورت میں اسے قبولیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف ظالمانہ اور آمرانہ عادات رکھنے کے طعنوں کا الگ خطرہ رہتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے والے سب والدین ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کچھ والدین واقعی اپنے بچوں سے اتنی شدید محبت کرتے ہیں۔ مگر ان کو اپنی اس طرح کی محبت کے نتائج کا احساس نہیں ہوتا۔ عام طور پر یہ وہ والدین ہوتے ہیں جنہیں اپنی زندگی میں اپنے متعلقین سے وہ محبتیں میسر نہیں آتیں جو ان کا حق تھیں۔ چنانچہ وہ اپنے بچوں کو ایسی محبت دے کر محرومی کے خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال اس رویے کا پس منظر چاہے کچھ بھی ہو اس کے نتائج اکثر صورتوں میں خطرناک ہی برآمد ہوتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی محبت ہمیشہ فرد کے اصول نمو اور اس کی شخصیت کے امکانات کو تسلیم کرتی ہے۔ محبت پابند نہیں آزاد کرتی ہے اور اگر پابند بھی کرتی ہے تو اس لیے کہ آزاد کرسکے۔ محبت کرنے والا اپنے محبوب کے گرد دائرہ کھینچتا ہے تو خود کو اس دائرے سے باہر نہیں رکھتا۔ یہ محبت کا صحت مند تصور ہے اسی محبت کے بارے میں شاعر نے کہا ہے:
محبت ہی بنا دیتی ہے مشتِ خاک کو انساں
قوامِ آب و گل سے بھی کہیں انسان بنتے ہیں؟