ہم کیوں مسلمان ہوئے

220

سیف الدین ڈرک والٹر موسگ (ارجن نائن)
میں 1943ء میں برلن (جرمنی) کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ یہ وہ پُر آشوب دور تھا جب دوسری جنگ ِ عظیم نے عذابِ خداوندی کی مانند پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسی عذاب کے خوف سے میرے والدین نے 1943ء ہی میں وطن کو چھوڑا اور اسپین چلے گئے‘ جہاں سے 1948ء میں ارجنٹائن (جنوبی امریکہ) میں منتقل ہو گئے۔ میں نے پرائمری اور ثانوی تعلیم ارجنٹائن کے شہر قرطبہ (Cordoba) کے ایک رومن کیتھولک اسکول میں حاصل کی چنانچہ جیسا کہ ہونا چاہیے تھا میں نو عمری ہی میں کٹر کیتھولک بن چکا تھا بلکہ بہ ذات خود پادری بننے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ اس کے لیے میں روزانہ کیتھولک مذہب پر لیکچر سنتا اور گاہے گاہے مذہبی امور میں پادریوں کی معاونت کرتا۔

مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ سراسر اس کا فضل اور کرم ہے کہ ایک روز میرے دل میں قرآن کو دیکھنے اور پڑھنے کی تمنا بیدار ہوئی۔ میں نے قرآن کا ایک ہسپانوی ترجمہ لیا اور کھول کر پڑھنے لگا۔ میرے والد نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا‘ ان کا خیال تھا کہ قرآن کا مطالعہ میرے مذہبی عقائد کو مزید پختہ کر دے گا‘ لیکن انہیں اور خود مجھے بھی کوئی خبر نہ تھی کہ آئندہ تھوڑی دیر میں کیا انقلاب آنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں کیا فیصلہ کر لیا ہے۔ یوں سمجھیے کہ جب میں نے قرآن کو کھولا تو ایک متعصب عیسائی تھا‘ مگر اس کے مطالعہ مکمل ہونے تک میں اسلام کی آغوش میں جا چکا تھا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن پاک کا مطالعہ کرنے سے قبل اسلام کے بارے میں میری رائے ہرگز اچھی نہ تھی‘ میں نے اس کتاب کو ہاتھ میں لیا تو تجسس غالب تھا اور کھولا تو دل و دماغ پر نفرت و حقارت کے جذبات مسلط تھے‘ ارادہ محض یہ تھا کہ اس کے موضوعات کی خوف ناک غلطیوں‘ مضحکہ خیز تضادات‘ بے بنیاد اوہام اور کفریات کی نشاندہی کروں گا۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں‘ میں مذہب کے معاملے میں خاصا متعصب ہو چکا تھا لیکن ابھی نوجوان تھا اس لیے تعصب کا رنگ پختہ ہو کر بغض اور عناد کی صورت اختیار نہ کرسکا تھا۔ چنانچہ میں نے ابتدا ہی سے اس کا مطالعہ شروع کیا تو طبیعت پر ہچکچاہٹ کا عالم طاری تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ کیفیت اشتیاق کی صورت اختیار کر گئی اور آخر میں یہ حالت شدید پیاس کی شکل میں سامنے آگئی۔ یوں لگتا تھا کہ اگر صداقت کا چشمۂ صافی نہ ملا تو میری جان نکل جائے گی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے مجھ پر خاص کرم فرمایا اور جلد ہی وہ لمحہ آیا جب اس نے خود میری رہنمائی فرمائی۔ میں توہم پرستی سے حقیقت کی دنیا میں‘ جھوٹ سے سچ کی حالت میں‘ گھٹا ٹوپ اندھیروں سے روشن اجالوں‘ یعنی عیسائیت سے اسلام کی آغوش میں آگیا۔ میں نے قرآن پاک کے مقدس و مطہر اوراق میں اپنے مسائل کا حل پا لیا۔ میری ساری روحانی حاجتوں کی تسکین ہو گئی اور میرے سارے شکوک و شبہات ہوا میں تحلیل ہو کر یقین کی صورت اختیار کر گئے۔ اللہ نے اپنے نور کی طرف کچھ اس انداز سے رہنمائی فرمائی کہ مجھے مزاحمت کا یارا ہی نہ رہا اور میں نے نہایت خوش دلی کے ساتھ سرِ تسلیم خم کر دیا۔ قرآن کے حکیمانہ اسلوب نے ہر چیز نکھا کر رکھ دی۔ اب ہر شے میں مجھے اس کی حکمت نظر آنے لگی۔ میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ کائنات کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی اور اس کے خالق و مالک کی حیثیت متعین ہو کر سامنے آگئی۔

قرآن نے مجھے اس امر سے آگاہی بخشی کہ میں اب تک گمراہیوں میں بھٹک رہا تھا۔ یہ سوچ کر مجھے بے حد دکھ ہوا کہ مذہب کے نام پر اب تک مجھے دھوکا دیا جا رہا تھا اور میرے محبوب اساتذہ کے الفاظ سفید جھوٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ میرے خیالات و تصورات کی دنیا ایک آن میں تہہ و بالا ہو گئی جس پر میں نے تائیدِ ایزدی سے نئی خوب صورت عمارت کھڑی کر لی۔ مجھے اس بات نے لافانی مسرتوں سے ہمکنار کیا کہ بالآخر میں نے اپنے مالکِ حقیقی کو پہچان لیا ہے۔ میرا دل محبت اور احسان مندی کے جذبات سے بھر گیا۔ میں کسی طرح بھی اس کے فضل و کرم کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ اگر اس کی رہنمائی شاملِ حال نہ ہوتی تو میں ساری عمر جہالت و حماقت کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا رہتا۔

بہرحال جونہی میں اسلام کی حقانیت سے آگاہ ہوا‘ خوشی اور ولولے کے بے پایاں احساس کے ساتھ میں اپنے والدین‘ اساتذہ‘ ہم مکتب ساتھیوں‘ عزیزوں اور واقف کاروں کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور باری باری انہیں اس نعمتِ عظمیٰ سے آگاہ کیا جو اللہ نے مجھے عطا کی تھی۔ میری خواہش تھی کہ یہ لوگ بھی جہالت و تعصب سے چھٹکارا پا کر اس روشنی کو اپنے سینوں میں بھر لیں جس سے محروم رہ کر یہ لوگ ہمیشہ خسارے میں رہیں گے اور جس سے دور رہ کر یہ کبھی سچی مسرتوں سے ہمکنار نہیں ہو سکیں گے۔ مگر آہ! میں نے دیکھا کہ میرے اور ان لوگوں کے درمیان بہت اونچی اور موٹی دیواریں حائل ہوگئی ہیں۔ یہ تنگ نظری اور کور باطنی کے ایک ایسے قلعے میں بند ہیں جہاں تک میری کوئی آواز نہیں پہنچتی۔ ان کے دل پتھروں سے زیادہ سخت ہیں‘ جن پر حق و صداقت کا کوئی تیشہ کام نہیں کرتا۔ انہوں نے میری باتوں کے جواب میں شدید نفرت اور بے زاری کا اظہار کیا‘ مجھے ذہنی اذیت دینے کیں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور معاشرے میں میرا اٹھنا بیٹھنا دوبھر کر دیا۔ ان کی غیر معمولی مخالفانہ روش سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ہدایت صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اسی لیے میرا دل ہر وقت اس احسان کے سامنے جھکا رہتا ہے جس نے اپنے فضلِ خاص سے مجھے اپنے دینِ کامل اسلام کے حصار میں پنا دی۔

آخر میں‘ میں یہ عرض کرتا چلوں کہ معلومات کی خاطر میں نے دوسرے مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور ہر اعتبار سے اسلام ہی کو مکمل اور قابلِ عمل ضابطۂ حیات پایا ہے۔ اسلام کے سامنے دوسرے مذاہب کی مثال وہی ہے جو سورج کے سامنے ماچس کی تیلی کی ہوتی ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ جو شخص بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھے گا وہ ان شاء اللہ اسلام قبول کر لے گا بشرطیکہ اس نے ذہن کو حق شناسی کے لیے بالکل بند نہ کر لیا ہو۔ سلامتِ طبع رکھنے والا غیر متعصب شخص قرآن کو پڑھ کر بے دینی کے اندھیروں میں رہ سکتا ہی نہیں۔

حصہ