سندھ کے گائوں بکر جمالی میں قیامت خیز منظر

377

خبر نشر ہوئی کہ سندھ کے ایک گائوں بکر جمالی میں چند ہفتوں میں 30 سے زائد لوگوں کا انتقال ہو گیا اور بہت سے لوگ بیمار ہیں۔ اس خبر کے فوراً بعد کراچی کے ایک سینئر پرفیسرڈاکٹر سلطان مصطفی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ میں بھی اس ٹیم میں شامل تھا۔
خبر سنتے ہی 2 ہدف متعین کیے گئے:
-1 شدید بیماروں کی زندگی بچائی جائے۔
-2 مزید لوگوں کو بیماری سے بچایا جائے۔
ٹیم کراچی سے براستہ دادو جوہی پہنچی اور اگلی دن جوہی سے واہی پاندی کے راستے بکر جمالی گائوں پہنچی۔ صبح سے شام تک میڈیکل کیمپ کیا۔ مریضوں سے‘ سماجی کارکنان سے‘ گائوں کے لوگوں سے انٹرویو کیے اور مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور اصل مسئلے کو جاننے کی کوشش کی۔
ہم پہلے اس جگہ سے متعلق چند بنیادی معلومات دیتے ہیں۔ دادو ضلع دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ یہ تاریخی شہر سیہون سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ دادو کے قریب ایشیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر جھیل واقع ہے۔ منچھر جھیل میں پانی بارش کے بعد کیرتھر کے پہاڑوں سے آتا ہے۔ کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ کراچی کے علاقے گڈاپ سے شروع ہوتا ہے اور بلوچستان تک جاتا ہے۔ (یہ علاقہ سندھ کے مری جیسے ٹھنڈے علاقے گورکھ ہل اونچائی 5,800 فٹ کی دامن میں واقع ہے۔)
کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والا پانی جوہی شہر اور اس کے قریبی گائوں بکر جمالی وغیرہ سے گزرتا ہے۔ 1907ء تک جوہ واہی پاندی کراچی کا حصہ تھے اس کے بعد اسے دادو میں شامل کر دیا گیا۔ جوہی شہر کے گرد حفاظتی بند قیامِ پاکستان سے پہلے بنا لیکن دیگر گائوں کیرتھر کے پہاڑوں کی بارش کے بعد متاثر ہوتے ہیں۔
اس علاقے کا بڑا قصبہ واہی پاندی ہے۔ واہی پاندی میں ایک اسپتال MCH (ماں بچے کی صحت کا اسپتال) ہے اس اسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ یہ ویکسینیشن سینٹر بھی ہے۔ ویکسینیشن کے ذمے دار عرفان علی رستمانی نے بتایا کہ گزشتہ چار سے وہ اکیلے کام کرتے ہیں۔ 200 گائوں میں ویکسینیشن کرنا ان کے ذمے ہے۔ واہی پاندی میں ہر پیر کے دن BCG (ٹی بی سے بچائو کی ویکسینیشن) ہر پیر کو تقریباً 125 بچے ویکیشنیشن کے لیے آتے ہیں۔ BCG ویکسینیشن کو ایک مرتبہ کھولا جاتا ہے اور اسی وقت جتنے بچوں کو دے سکتے ہیں دے دیتے ہیں۔ دیگر ویکسینیشن کے لیے بھی بچے واہی پاندی آتے ہیں۔ عرفان علی رستمانی نے بتایا کہ 200 کے قریب چھوٹے بڑے گائوں میں ایک فرد کیسے ویکسینیشن کے عمل کو انجام دے سکتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز مدد کرتی ہیں۔ پولیو کے قطرے پلوانے میں لیکن اکثریت ویکسینیشن نہیں کرواتی۔ بکر جمالی بھی ان میں سے ایک بڑا گائوں ہے۔
حالات کی سنگینی محکمہ صحت کی EPI جیسے پروگرام کے لیے افراد مہیا نہ کرنا ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ بکر جمالی گائوں واہی پاندی سے تیس‘ چالیس منٹ کی مسافت پر ہے یہاں کی سڑکیں بہت خراب ہیں۔ بکر جمالی کی آبادی تقریباً 3,000 ہے‘ 18 سال سے بڑے افراد مر ووٹرز 781‘ خاتون ووٹرز 687‘ کُل تعداد 1,468 ہیں لیکن لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطابق 1,570 عورت‘ مرد ہیں۔ ایک سال کے 25 بچے‘ 3 سال تک 102 بچے‘ 5 سال کے 174 بچے ہیں۔ اس طرح گائوں میں 485 بچے ہیں۔ 1000 کے قریب افراد پانچ سے اٹھارہ سال کی عمر کے ہیں۔ حالیہ بارشوں کے بعد بکر جمالی کا شہر سے رابطہ کٹ گیا‘ تیزی سے بہتے پانی نے جو کیرتھر کے پہاڑوںسے آرہا تھا‘ فصلوں کو متاثر کیا۔
٭ پینے کے پانی کی آلودگی سے پیٹ کے کیڑے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پیٹ کے کیڑوں کی وجہ سے خون کی کمی ہو جاتی ہے۔
٭ غذائی قلت کی وجہ سے لوگوں میں کمزوری ہے۔
ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ چیئرمین دعا فائونڈیشن عامر خان‘ کریسنٹ ریلیف آسٹریلیا کے نمائندے ممتاز عالم‘ عباسی شہید اسپتال کے بچوں کے وارڈ کی ویلفیئر چائلڈ ہیلتھ اینڈ گروتھ ویلفیئر آرگنائزیشن کی ٹیم پروفیسر ڈاکٹر سلطان مصطفی کی قیادت میں شریک تھی۔
بکر جمالی کے مقامی سماجی رہنما اسد اللہ خان جمالی نے معاونت کی۔ پریس کلب واہی پاندی کے صدر آصف جمالی‘ صحافی مشتاق تھیم‘ جوہی کے سماجی کارکنان غلام مصطفی اور عبدالرشید لغاری نے کیمپ منعقد کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کیمپ میں لیبارٹری سروس مہیا کی گئی۔ جس میں ہیموگلوبن ٹیسٹ کی مشین‘ ملیریا‘ ڈینگی‘ کورونا اور بلڈ شوگر کے ٹیسٹ کیے گئے۔
٭ پیما کراچی کی جانب سے ہیموگلوبن مشین اور کٹس فراہم کی گئیں۔
٭ ڈاکٹروں نے 500 سے زیادہ مریضوں کا معائنہ کیا۔
٭ ٹیسٹ کے نتیجے میں پتا چلا کہ ڈینگی اور کورونا کا کوئی مریض نہیں ہے۔
٭ خون کی کمی کے مریض عورتیں اور بچے زیادہ تھے۔
٭ ملیریا کی خطرناک قسم Falciparum Malaria کے پچاس فیصد مریض ملے۔
٭ سانس کی بیماری اور ٹی بی کے مریض بھی ملے‘ بیس سے پچیس مریض سانس کی بیماری کے ملے۔
سانس کی بیماری دمہ وغیرہ کے لیے تمام مریضوں کو ایک سے تین ماہ تک کی دوائیں دی گئیں تاکہ وہ سردیوں میں سانس کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔ دمہ کے لیے دوائیں الخدمت کراچی نے مہیا کی تھیں۔
سانس کی بیماری کے مریضوں میں سے کئی افراد کو کون کی کمی بھی تھی۔ اگر ان دنوں خون کی کمی اور دمے کا علاج شروع نہ کیا جاتا تو اس کا امکان تھا کہ یہ افراد مزید سردی بڑھنے پر خطرناک حد تک بیمار ہوجاتے اور سانس کی شدید تکلیف کی وجہ سے زندگی متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے۔
ہیموگلوبن کی کمی کے مریضوں میں سے 6 افراد کا ہیموگلوبن 5 سے کم تھا۔
اتنے کم ہیموگلوبن کے مریضوں کو خون چڑھایا جاتا ہے لیکن یہاں سے ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد اسپتال میں بھی عملاً بلڈ بنک نہیں تھا۔ اس علاقے میں کوئی ایمبولینس نہیں ہوتی۔ پرائیویٹ گاڑی ایک طرف کا آٹھ سے دس ہزار روپے لیتی ہے۔ جو ان غریبوں کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے شدید ہیموگلوبن کی کمی اور 8-7 ہیموگلوبن والے تمام مریضوں کو آئرن اور وٹامنز کی دوائیں دی گئیں۔ خون کی کمی کی دوا ایک مہینے کے لیے دی گئی۔
٭ ملیریا کی قسم Falciparum Malaria شدید ترین ملیریا ہوتا ہے۔ خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔
ملیریا کے تمام مریضوں کو اس خطرناک ملیریا کی ادویات دیں۔ پورا کورس دیا گیا۔ (واضح رہے کہ شدید ملیریا کی دوا مہنگی اور ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتی۔)
پروفیسر سلطان مصطفی بچوں کے لیے ملیریا کا سیرپ بھی لے کر گئے تھے اس طرح تمام ممکنہ مریضوں کا علاج مکمل کرنے کی کوشش کی۔
٭ سیلاب کے بعد آلودہ پانی کے استعمال سے پیٹ میں کیڑے کی بیماریاں عام تھی۔ پانچ سال سے چھوٹے بچوں کو کیڑوں سے نجات کی دوا پلائی گئی۔ اس کے علاوہ پیٹ کی دیگر تکالیف کو بھی دور کرنے کے لیے دوائیں دی گئیں۔
کیمپ کے بعد پروفیسر سلطان مصطفی کی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ:
-1 سیلاب کے بعد غذائیت کی کمی کی وجہ سے آبادی کے افراد میں خون بننا کم ہو گیا‘ خون کی کمی ہو گئی‘ خون کی کمی سے قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے۔
-2 آلودہ پانی کی وجہ سے پیٹ میں کیڑے ہو جاتے ہیں‘ کیڑوں کی وجہ سے جسم میں موجود خون ضائع ہونے لگا جس سے خون کی کمی واقع ہوئی۔
-3 خطرناک ملیریا Falciparum Malaria کی وجہ سے مزید خون ٹوٹ پھوٹ گیا۔ شدید ترین کمی ہوگئی۔
-4 خون کی شدید کمی کی وجہ سے مریض Failure میں چلا جاتا ہے۔
بہت سے مریضوں کو جب پرائیویٹ کلینک یا کسی اسپتال لے جایا گیا تو انہیں ڈرپ لگا دی گئی۔ اس علاقے میں معالج لال پیلی ڈرپ لگانا ضروری سمجھتے ہیں اور مریضوں کو بھی یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ڈرپ لگائے بغیر علاج نہیں ہوسکتا۔
شدید خون کی کمی کے مریض کو ڈرپ لگنے سے شدید نقصان ہوتا ہے اور مریض Anemic Failure میں چلا جاتا ہے۔ سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ زندگی شدید خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ان میں سے اکثر مریضوں کو اسپتال لے جایا گیا تو ڈرپ لگائی گئیں جب کہ ضرورت خون چڑھانے کی تھی۔ قریبی اسپتال واہی پاندی میں کوئی ڈاکٹر نہیں اور جوہی شہر تک لے جانے کے لیے سواری کا کرایہ اکثریت برداشت نہیں کر پاتی۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جائے؟
-1 محکمہ صحت سے اپیل ہے کہ وہ ان بیماریوں کے لیے جن سے بچا جا سکتا ہے‘ محکمہ صحت سے افراد مہیا کرے‘ ہر چند گائوں کے لیے ایک ویکسین انچارج مہیا کیا جائے اور اسے ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی فراہم کی جائے۔
-2 صاف پانی کے متعلق آگاہی دی جائے‘ پانی ابال کر پلانے کی تاکید کی جائے ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہونے والی بیماری کے متعلق بتایا جائے۔
-3 ایک موبائل لیب ہو جو گائوں گائوں جا کر لوگوں کے خون کے ٹیسٹ کرسکے۔
-4 ڈاکٹر کی وزٹ کا کوئی سسٹم بنائے‘ واہی پاندی اسپتال میں ڈاکٹرز ہوں‘ موبائل ٹیم جو گائوں میں جا کر وزٹ بھی کرسکے۔
-5 گائوں کے سادہ لوح مریضوں کو اتائی ڈاکٹروں سے بچایا جائے اور انہیں ڈرپ لگانے سے ہر صورت روکا جائے۔
کرنے کے کام:
اس علاقے میں ایک کمرے پر مشتمل ایک پرائمری گرلز اسکول ہے اس اسکول میں اساتذہ اور طالبات ک لیے ٹوائلٹ کی ضرورت ہے۔
اس علاقے کے شدید مسائل کا حل کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں۔ تمام ویلفیئرز اداروں‘ این جی اوز سے اپیل ہے کہ وہ مل کر کام کریں اور قیمتی جانیں بچائیں۔

حصہ