اس نفسا نفسی کے دور میں میری نظر میں جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کے رہنما یا کارکن سب شریف و دیانت دار ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحبؒ کی بنائی ہوئی یہ جماعت دیانت داری سے ملک و قوم کی خدمت سر انجام دیتی رہی ہے اور دے رہی ہے۔ ملک آہستہ آہستہ دیانت دار اور ملک و قوم سے محبت کرنے والے رہنمائوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ 26 دسمبر 2012ء کو میرے والد محترم پروفیسر عبدالغفور احمد بھی اس دنیا سے پردہ کر گئے تھے لیکن اُن کی سیاسی جدوجہد‘ حقیقی رہنمائی آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ والد محترم (پروفیسر عبدالغفور احمد) کی عظمت یہ ہے کہ ان کی سیاسی جدوجہد ذاتی مفادات اور مقاصد سے پاک تھی یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر طبقے میں احترام ملا۔ ابا جی کی وفات پر روزنامہ جسارت میں اسلم سعید صدیقی صاحب نے کیا خوب کہا تھا:
ہمیں تو قوم و وطن پر نثار ہونا ہے
ہمارے پیش نظر اور کوئی کام نہیں
ابا جی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب کے انقلابی لٹریچر سے متاثر ہو کے اقامت دین کے نصب العین کو اپنا نصب العین قراردیتے ہوئے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور مرتے دَم تک اسی نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
والد محترم 1970ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ 1977ء میں دو بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کے قائد بھی بنائے گئے۔ یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک الائنس اورپاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت کے حکم کی تعمیل میں وفاقی وزیر صنعت رہے‘ 2002ء میں سینیٹر منتخب ہوئے‘ 1970ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد ابا جی کی سیاسی قد و قامت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا بلکہ اس وقت کے صفِ اوّل کے لیڈروں میں شمار ہونے لگا‘ ابا جی ملک کی سیاست کے ایسے لیڈر تھے جن سے نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ دوسری پارٹیوں کے لیڈر بھی مستفید ہوئے‘ اباجی ایک صلح جو اور بالغ نظر لیڈر تھے‘ نڈر اور بے باک طبعیت کے مالک جن کی مخالف پارٹیوں کے لیڈر بھی دل سے عزت کرتے تھے۔ ممتاز بزرگ سیاست دان سردار شیربازاری بڑی عزت کے ساتھ ابا جی کو اپنا سیاسی گرو مانتے تھے۔
1973ء میں سیاسی پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈروں کو پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر آکر خطاب کرنے کا موقع دیا گیا تو جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے ابا جی نے بہت سے معرکۃ الآرا خطاب کیا۔ یہ 28 جنوری 1973ء کی بات ہے۔ ابا جی کی تقریر اتنی جان دار اور مدلل تھی کہ انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ نے “The Jamat centar forward” کے عنوان سے اداریہ لکھا اور ابا جی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
اسی طرح لاہور کے ہفت روز افریشیا نے 18 مارچ 1977ء کو پروفیسر عبدالغفور احمد کو ’’اپوزیشن کے ماتھے کا جھومر‘‘ کے عنوان سے اپنے ادارتی نوٹ میں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ 21 جولائی 1977ء کو روزنامہ جنگ کے ممتاز صحافی زیڈ اے سلہری نے پروفیسر غفور احمد کو بھٹو دور کا بہترین پارلیمانی لیڈر قرار دیا تھا۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارا مک ابا جی جیسے مدبر‘ حلیم الطبع‘ سیاسی بصیرت اور دوربیں نظر رکھنے والے سیاست دانوں سے محروم ہو رہا ہے۔ ابا جی بہت رکھ رکھائو اور نپے تلے انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ سادہ غذا کھاتے‘ ہمیشہ سفید لباس زیب تن کرتے۔ ابا جی کی اس سیاسی کامیابی میں ہماری والدہ محترمہ کا برابر کا ہاتھ تھا۔ امی نے گھر کی ذمہ داری خود سنبھالی‘ کبھی ابا جی کو پریشان نہیں کیا اس کے ساتھ ساتھ ابا جی کی صحت و آرام کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ میری دعا ہے اللہ ہم بہن بھائیوں کو اپنے والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بنا دیں‘ آمین۔
مفکرِ اسلام بانی ٔ جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے برصغیر میں رہنمائوں اور کارکنوں کا جو گروہ تیار کیا تھا بے شک ابا جی اس کے ممتاز رکن تھے۔پچھلے دنوں میرا ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا وہاں کے اہل خانہ نے وہاں موجود مہمانوں کو میرا یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ یہ پروفیسر غفور صاحب کی صاحبزادی ہیں‘ وہاں مجھے جو احترام اور عزت ملی میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ بیشک ابا جی اللہ کیولی تھے‘ ابا جی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دس سال ہو رہے ہیں لیکن وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔ یقینا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ابا جی ایک معتبر نشانی کے طور پر زندہ و جاوید رہیں گے۔
جو بادہ کش تھے پرانے سب اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
آخر میں‘ میں ابا جی کے ڈرائیور لالہ (شاوت خان) کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جو ابا جی کی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے میری چھوٹی سی کوشش کو شائع کروانے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔