اسکرین ٹائم کی زیادتی بچوں میں ورچول آٹزم کی علامات پیدا کردیتی ہے

451

ماہرینِ اطفال اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ بچے اور خاص کر چھوٹے بچے جو دن میں کئی گھنٹے فون، ٹیبلیٹ اور ٹی وی کے اردگرد گزارتے ہیں، ان میں آٹسٹک جیسی علامات پیدا ہوسکتی ہیں، جسے ورچوئل آٹزم کہا جاتا ہے۔ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں سوشل تعلقات اور رویوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب بچے کو بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیکھنے کو ملتا ہے تو اُس کے اندر آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر نہیں ہوتا بلکہ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر جیسی علامت ظاہر ہونی شروع ہوجاتی ہیں، سوشل کمیونیکیشن اور behaviour جیسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ تین سال سے کم عمر کے بچوں کو تین گھنٹے سے زیادہ اسکرین دیکھنے دیتے ہیں تو ان کے اندر اس طرح کی علامات آجاتی ہیں۔ اس میں بچے میں ہائپر ایکٹیویٹی دیکھتے ہیں۔
فکسیشین بہت اگریشن دیکھتے ہیں، بچوں کے اندر کمیونیکیشن ڈیلے دیکھتے ہیں، یا پھر ایسے بچے مختلف طریقے سے گفتگو کرتے ہیں اور بعض اوقات بالکل ہی نہیں کرتے، اور اس کے علاوہ اُن کا سوشل میل ملاپ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو والدین بچوں کو فون پکڑا دیتے اور وہ خود اُن کے ساتھ گفتگو نہیں کرتے، اِس سے بھی ان بچوں کے اندر ہائپر ایکٹیویٹی بہت بڑھ جاتی ہے ۔
ایسے بچے مختلف طریقوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ اسٹیمنگ ہوتا ہے جس میں یہ بچے کوئی بھی جملہ کسی بھی جگہ سے لے کر، کسی کارٹون یا فلم سے یاد کرکے بار بار دہراتے ہیں۔ وہ کچھ جملوں کی تکرار کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہماری اپنی زبان میں ہو یا دوسری زبان میں، وہ بھی دہراتے رہتے ہیں۔
یہ قابلِ علاج ہے مگر ایسے بچوں پر بہت زیادہ محنت لگتی ہے، خاص طور پر والد اور والدہ کی زیادہ محنت لگتی ہے، اور پھر تھراپی جہاں سے بھی لے رہے ہیں وہاں کا سب سے بڑا چیلنج تو یہی ہوتا ہے کہ بچے کو کیسے اسکرین سے دور رکھا جائے۔ جب آپ اسکرین سے اس کو بچانا شروع کردیتے ہیں پھر ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو رائمز پوئمز ایسی چیز جس کا تعلق اسکرین کے ساتھ ہو، اس کو ہم بچے سے ذرا دور کرتے ہیں، ہم بالکل نہیں سناتے، بالکل نہیں دکھاتے… اور کچھ بچوں کو چھ ماہ، کچھ بچوں کو ایک سال ان چیزوں سے دور رکھتے ہیں جن چیزوں کا تعلق اسکرین کے ساتھ ہو، تاکہ وہ سب کچھ ان کے دماغ سے دور ہوجائے، ختم ہوجائے، برین میں جو نیوروٹرانسمیٹرز کا اپ ڈائون ہورہا تھا وہ ختم ہوجائے۔
پاکستان میں اس کے اعداد و شمار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیوں کہ ابھی تک اس کے اوپر کوئی مکمل ریسرچ نہیں ملی ہے، لیکن یہ بہت زیادہ تعداد میں ہے۔ ابھی تک تو اتنی آگاہی بھی نہیں ہے والدین میں کہ وہ آکر بتائیں کہ ہمارے بچے کو ورچوئل آٹزم ہے۔ اور جو بچے ہمارے پاس آتے ہیں وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں، لیکن جو لوگ آتے ہی نہیں ہیں اس چیز کو لے کر، وہ اسی طرح کی علامات کے ساتھ بچے کو آگے لے کرچل رہے ہیں۔ ہمارے پاس آنے والے تیس سے چالیس فیصد بچے ورچوئل آٹزم کا شکار ہوتے ہیں،کیوںکہ کووڈ کے دوران بچوں کو بہت زیادہ اسکرین ٹائم دیا گیا۔
جب سے فون کا استعمال بڑھا ہے، خاص طور پر اینڈرائڈ فون کا… وہ بچوں کو بہت زیادہ پکڑا دیا جاتا ہے اور والدین بتاتے ہیں کہ ہم خود بچے کو فون دیتے ہیں، بچے کھانا نہیں کھارہا تو ہم اُس کے سامنے فون رکھ دیتے ہیں، پھر وہ کھانا کھالیتا ہے، یا بچہ یہ کام نہیں کررہا تو ہم اس کو فون پکڑا دیتے ہیں تو وہ چیخنے چلاّنے سے باز آجاتا ہے اور سکون سے بیٹھ جاتا ہے۔ اور اپنے اردگرد دیکھیں تو یہ بہت عام بات ہے کہ بچوں کو فون پکڑا دیا جائے گا اور وہ آرام سے بیٹھ جائیں گے۔
بہت سارے بچوں کا علاج ہو چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے، اور وہ مین اسٹریم میں چلے بھی جاتے ہیں، بس تھوڑی سی مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے کہ بچے کو اسکرین سے دور رکھا جائے، اور اکثر اوقات موبائل اور ٹیبلیٹ کے ساتھ ساتھ ٹی وی اسکرین سے بھی دور کردیا جاتا ہے تاکہ ان کی ایگریشن اور دوسری علامات بالکل ختم ہوجائیں۔
والدین کے لیے یہ پیغام ہے کہ خدارا اپنے بچوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے بہت زیادہ فکر کریں، ان کا خیال رکھیں، ان پر توجہ دیں… اور میں یہ کہوں گی کہ والدین کا بہت زیادہ قصور ہوتا ہے کہ ان کے بچے ان کی وجہ سے اس بیماری ورچوئل آٹزم کا شکار ہوتے ہیں، والدین خود اپنی مرضی سے اپنے بچوں کو اس بیماری میں مبتلا کررہے ہیں۔ اللہ نے انھیں صحت مند، نارمل اولاد عطا کی، مگر انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔
آج سے دس، بیس سال پہلے کی بات کرلیں… اس وقت بچوں کو اتنا زیادہ فون نہیں دیا جاتا تھا۔ اُن بچوں کی ڈویلپمنٹ اور آج کے بچوں کی صلاحیتوں میں زمین آسمان کا فرق اس طرح سے ہے کہ اب بچے حد سے زیادہ ہائپر ہیں۔ آپ کسی مال میںپلے ایریا میں چلے جائیں، آپ کو بچوں میں برداشت کی کمی اور کسی بھی چیز اور چھوٹی سی بات کو لے کر ہائپر ہوجانا نظر آرہا ہوتا ہے۔ تو والدین اس بات کو خدارا غورسے سنیں، سمجھیں کہ آپ کے بچے کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے یہ فون یا اسکرین ہے، کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہے۔ بچے کی تربیت آپ کو کرنی ہے یا اُس کا مدرسہ یا اسکول جہاں وہ جارہا ہے، تعلیم حاصل کررہا ہے، وہ کرے گا۔ حتیٰ کہ تعیلم کے لیے بھی اسکرین کا استعمال نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کو روایتی طریقوں سے تعلیم و تربیت دیں۔ بچوں کی روزمرہ زندگی میں اسکرین کے استعمال کو جتنا ممکن ہوسکے، کم کردیں، اور اُنھیں اسکرین دینے کے بجائے وقت دیں، محبت، پیار، شفقت اور ممتا نچھاور کریں۔ آپ کا بچہ خودبہ خود اسکرین کا استعمال چھوڑ دے گا۔

حصہ