غذا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، مگر انسان کے لیے روح کی غذا زیادہ اہم ہے۔ جسمانی نشوونما کے ساتھ روح کی تربیت جو اللہ تعالیٰ کی امانت ہے‘ اُس کی غذا بہترین تعلیم و تربیت ہے جس کی اساس سچائی اور ایمان، عدل و انصاف، حُسنِ سلوک، بردباری، صبرو تحمل، حقوق العباد، عفوو درگزر اور تہذیب ہے۔ والدین اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
بچہ پیدائش سے جوانی تک زیادہ وقت ماں کے پاس گزارتا ہے، ماں ہی بچے کی پہلی درس گاہ اور خاندان کی اکائی ہے، اسی لیے حدیث ہے کہ’’علم حاصل کرنا مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ عورت پر فرض اس لیے ہے کہ اُسے نسل کی آبیاری کرنی ہے تو علم کی بہ دولت وہ تدریس کے فرائض بہ خوبی ادا کرے گی۔ اگر ماں کے پاس دنیاوی علم کے ساتھ دینی علم ہوگا تو علم النافع بن سکتا ہے۔ بچوں کی بہترین پرورش سے ماں اُن کو معاشرے کا اچھا شہری بناکر نہ صرف معاشرے بلکہ گھرانے اور آنے والی نسلوں کو مستفید کرے گی۔
والدین کے بعد استاد ہیں، جو روحانی تربیت کرتے ہیں۔ روح کی غذا استاد ہی فراہم کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بیشتر حصہ بچہ اُن کی سرپرستی میں گزارتا ہے۔ استاد علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔ اچھے اور ایمان دار استاد تعلیم و تربیت مادیت پرستی کی ذہن سازی سے نہیں بلکہ علم کو عاقل و سمجھدار انسان بنانے پر توجہ مرکوز کرواتے ہیں۔
گھر میں والدین کے ساتھ جڑے رشتے دادا دادی، بہن بھائی، تایا، چچا، پھوپھی کے ساتھ گزارے لمحات بھی تربیت میں اہم حصہ ڈالتے ہیں۔ مگر اب چوں کہ خاندانی نظام دم توڑ رہا ہے، آج کی لڑکی شادی کے بعد علیحدہ رہنا پسند کرتی ہے، نتیجتاً جو کچھ لامحالہ رشتوں سے پروان چڑھنا تھا، وہ تربیت کے فقدان کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے۔
اب اس کا متبادل موبائل رکھا گیا۔ ایک سال کا بچہ ننھے ہاتھوں سے انگلیاں چلاتا رہتا ہے۔ کہاں وہ تصویریں بنانے، رنگ بھرنے اور قلم پکڑنے کی کوشش کرتا تھا، کتاب کی ورق گردانی کرتا اور وقت کے ساتھ الفاظ کو لکھنے اور سمجھنے کی تگ و دو کرتا، اس کے لیے تمام رشتے کسی نہ کسی موقع پہ سکھاتے ہوئے اپنا کرادا ادا کرتے جاتے۔ بچہ جب بڑا ہوتا تو اسکول، مدرسہ اور شام میں کھیل کے میدان یا محلے کی گلیوں میں کھیلتا ، یہ جسمانی ورزش اسے صحت مند رکھتی اور کسی جم کی ضرورت نہ رہتی۔ زندگی کے اچھے اطوار اپنانا بھی شخصیت سازی میں اہم ہے۔ بہترین دوست اللہ کی نعمت ہوتا ہے، بچپن سے کتاب میں پڑھا اور والدین نے نصیحت کی کہ دوست سوچ سمجھ کر بناؤ۔
مسجد کے منبر پہ امام بھی معاشرے کی اکائی ہیں، مگر ان سب نے اپنی ذمے داری کو نظرانداز کردیا ہے۔ جمعہ کا خطبہ اور صبح کا وعظ نمازیوں کی کم تعداد کی وجہ سے نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ خطیب حضرات کو اپنا کام جاری و ساری رکھنا چاہیے۔ تمام کردار تربیت کے اہم ستون کی مانند ہیں، اگر یہ ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں تو خاندان اور معاشرہ مضبوط اخلاقی بنیاد استوار ہوگا اور کامیاب مستقبل کی ضمانت بھی بنے گا۔