آن لائن جال

258

وہ آج پھر آن لائن تھا۔ رابعہ نے اسٹیٹس دیکھا تو بات کرنے کے بہانے سے فوراً میسج داغ دیا: ’’ہیلو سر! اصل میں کام سمجھ نہیں آرہا تھا تو سوچا آپ سے پوچھ لوں۔‘‘

رابعہ نے جھٹ سے سوال پیش کردیا۔ وہ بلا کی ذہین تو تھی ہی، ساتھ ہی لوگوں کو متاثر کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اس کے شوہر احمد ایک نجی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ پندرہ برس کی ازدواجی زندگی نے تین ننھے پھولوں کے علاوہ بہت کچھ رابعہ کی جھولی میں ڈال دیا تھا… وہ سب بھی، جس کا دوسروں نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ اگر نہیں تھا تو وہ سکون تھا۔ رابعہ اب بھی سمجھتی تھی کہ اس کی اپنے شوہر کے ساتھ وہ ذہنی ہم آہنگی نہ تھی جس کی وہ خواہش کیا کرتی تھی۔ اس کے شوہر مزاجاً سخت تھے اور گھر کے ہر معاملے پر اُن کا گہری نظر رکھنا رابعہ کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر سب کو ڈانٹنا ڈپٹنا احمد کی عادت تھی جس سے رابعہ سخت نالاں رہتی تھی۔ وہ اکثر احمد کو سمجھایا کرتی تھی اور وہ وقتی طور پر مان بھی لیتے، مگر بعد میں پھر وہی سب دوبارہ شروع ہوجاتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ رابعہ نے بھی کڑھنا چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو مختلف آن لائن جابز میں مصروف کرلیا۔ ایک دن یونہی ایک آن لائن اشتہار دیکھ کر رابعہ نے جھٹ سے اپنا سیمپل وہاں پوسٹ کردیا۔ اگلے ہی دن جواب میں اُس کے کام کی تعریف کے ساتھ ساتھ مزید کام بھی مل گیا۔ کام دینے والے نے ساتھ ہی اپنا نمبر بھی دے دیا تاکہ مزید کام بھیجا جا سکے۔ اگلے دن ہی رابعہ نے کام جمع کروا دیا۔ رابعہ کے نئے ایمپلائر نے رابعہ کے کام کو بہت سراہا اور اس کی قابلیت کی دل کھول کر داد دی۔ احمد نے اس کے کام پہ کوئی اعتراض نہ کیا۔

’’جی بتائیے کیا سمجھ نہیں آیا آپ کو؟‘‘ دوسری طرف سے سوال پوچھا گیا۔

ایک دن یونہی رابعہ نے موبائل اٹھایا تو اپنے نئے ایمپلائر کا میسج دیکھ کر چونک گئی۔ میسج میں اس نے رابعہ سے اس کے شہر کا پوچھا تھا۔ رابعہ نے اسے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں رہتی ہے۔ جواباً باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ اس کے نئے ایمپلائر کا نام عامر تھا اور وہ بھی اسلام آباد کا رہائشی تھا۔ وہ شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا۔ اس کی بیوی پروفیسر تھی جو اسلام آباد کی کسی نجی یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی۔ اب باتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا تھا۔ عامر نے بتایا کہ اس کی اپنی بیوی سے ذہنی ہم آہنگی بالکل نہیں تھی اور بس ایک کمپرومائز تھا جو چل رہا تھا۔

عامر طبیعت کا خاصا نرم تھا، اور اس کی یہی ادا رابعہ کو بھا گئی۔ وہ رفتہ رفتہ رابعہ کے دل پر اثرانداز ہوتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ رابعہ کو اُس کے بغیر زندگی بے کار لگنے لگی۔ اس کا دل کسی چیز میں نہ لگتا تھا۔ وہ ہر چیز سے بیگانہ ہوگئی۔ اسے نہ گھر کی فکر تھی، نہ ہی بچوں کا ہوش… اور پھر ایک دن یہی سب اس نے عامر سے کہہ دیا۔ عامر تو جیسے اس سب کے لیے تیار بیٹھا تھا، اُس نے رابعہ کی خلوص بھری اپنائیت کا بھرپور جواب دیا کہ اس کے جذبات اس کے لیے بہت قیمتی ہیں۔

رابعہ کے اندر اِس تبدیلی کو احمد نے بھانپ لیا تھا مگر پھر بھی وہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر تھے۔ دوسری طرف رابعہ عامر کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہوچکی تھی۔ ایک دن عامر نے باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ اس سے پہلے بھی کسی عورت کے بہت قریب تھا مگر بعد میں ان کی نبھ نہ سکی۔ رابعہ نے اس بات کو بالکل نظرانداز کردیا تھا کیونکہ وہ محبت میں سوالات کی قائل نہ تھی۔ کہتے ہیں نا محبت اندھی ہوتی ہے، تو وہ شاید محبت میں اندھی ہوچکی تھی۔ پھر ایک روز عامر نے اسے اپنے ساتھ کافی پینے کی دعوت دی۔ رابعہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ دل ہی دل میں اس نے سب ہی منصوبے بنا لیے تھے۔

اس روز اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ وہ اٹھی اور دروازہ کھولا۔ سامنے احمد کھڑے تھے۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا ’’آج اتنی جلدی کیسے آگئے؟‘‘

احمد بولے ’’آج آفس میں کسی کولیگ کی سالگرہ تھی تو سوچا وہاں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی پیاری سی بیگم کے ساتھ کیوں نا وقت گزاروں!آج کھانا باہر کھائیں گے اور بچوں کو راستے سے ہی پک کریں گے۔ نماز کا وقت بھی ہوگیا ہے، ایسا کرتے ہیں نماز پڑھ کر نکلتے ہیں۔‘‘

اور وہ، جو کچھ دیر پہلے کچھ اور ہی پلان کررہی تھی کہ کیسے عامر سے ملاقات کرے، شش و پنج میں مبتلا ہوگئی۔ اس کا محرم رشتہ… اس کا شوہر… اس کو زمانے کے سرد وگرم سے بچانے والا محافظ… اس کے لیے اپنی سوشل ایکٹیوٹیز چھوڑ کر اسے اوّلیت دینے والا…

نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا کہ اس کی سوچوں کا رخ بدل گیا، اس نے سوچا ’’کتنا فرق ہے ان میں اور عامر میں؟‘‘ اس کے ذہن میں عامر کے الفاظ گونجنے لگے کہ وہ پانچ برس پہلے بھی کسی سے یونہی قریب تھا… جو اپنی بیوی کا وفادار نہیں وہ کسی دوسری عورت کا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ سوالات کا نہ تھمنے والا طوفان تھا جس نے اس کے دماغ کو جکڑ لیا تھا۔

نماز کے لیے وضو کرتے ہوئے بھی اسے سوچوں نے آ لیا تھا ’’یااللہ یہ مجھ سے کیا ہوگیا تھا؟ یااللہ میں اتنی خوف ناک دلدل میں کیسے دھنس گئی؟ مانا کہ زندگی میں مسکراہٹیں کم تھیں لیکن خوشیوں نے ہمیشہ آنگن میں بسیرا کیے رکھا۔ کیا حرام راستے پر چل کر بھی کبھی اللہ راضی ہوجاتا اور خوشیاں نصیب ہوتیں؟ یااللہ میں نے کیوں تیری رحمت سے منہ موڑ کر ایک انسان کی عارضی محبت میں پناہ لے لی؟‘‘

راستے بھر بھی سوالات کا ایک نہ تھمنے والا طوفان تھا۔ ایک طرف احمد تھے جو کبھی کسی عورت پر نظر بھی نہ ڈالتے تھے۔ بے شک مزاج کے سخت تھے مگر ہزاروں خوبیوں کے مالک تھے، رابعہ کی کوئی خواہش رد نہیں کرتے تھے۔ اور ایک طرف عامر‘ جسے بیوی کے سوا ہر عورت سے پیار تھا۔ راستے میں اشارے پر گاڑی رکی تو برابر والی گاڑی میں سورہ مومنون کی تلاوت چل رہی تھی:۔

’’یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں، جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں، جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

رابعہ کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا تھا جسے برابر میں بیٹھے احمد نے بھی دیکھ لیا۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر رابعہ کا ہاتھ تھام لیا اور بولے ’’کیا ہوا؟‘‘

رابعہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ گھر پہنچتے ہی رابعہ نے اپنا فون نکالا اور سب سے پہلے عامر کے نمبر کو بلاک کیا۔ پھر قرآن مجید کھول کر کچھ ٹٹولنے لگی۔ بچوں کے لڑنے کی آواز سن کر جلدی میں قرآن بند کرکے سر اٹھایا تو سامنے احمد کو کھڑے پایا۔

’’بتائو گی نہیں کیا بات ہے؟‘‘ احمد نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ ’’میرے پاس بیٹھو اور بتائو کیوں پریشان ہو؟‘‘

اس نے اپنا سر احمد کے کندھے پر رکھ دیا اور زور زور سے رونے لگی۔ ’’میری طبیعت ٹھیک نہیں آج۔ سر میں درد ہے۔‘‘ اس سے اور کوئی بہانہ نہ بن پڑا۔

احمد نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے دوائیوں کے بکس سے درد کی گولی نکال کر اسے تھما دی، پھر اسے سہارا دیتے ہوئے کمرے تک لائے اور بستر پر بٹھا دیا اور سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے۔

’’کچھ دیر سو جائو… آرام کرو گی تو ٹھیک ہوجائو گی۔‘‘
زندگی میں پہلی بار اسے احمد بہت اچھے لگے۔ دنیا کے سب مردوں سے اچھے! بالکل ویسے جن کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے ’’یقینا مومنین فلاح پا گئے۔‘‘

حصہ