پیسہ بھی کیا چیز ہے۔ اس کا اندازہ اس ہفتہ سوشل میڈیا کے اہم پلیٹ فارم ٹوئیٹر پر اُس کے نئے مالک ایلون مسک کی جانب سے ایک ’پول ‘پر بھی ہوا۔اُنھوں نے ٹوئٹر پر ایک رائے شماری کی کہ کیا اُنھیں ٹوئٹر کی سربراہی چھوڑ دینی چاہیے اور کہا کہ وہ اس کے نتائج پر عمل پیرا رہیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ ایلون ریو مسک نے 44 ارب ڈالر میں ٹوئٹر کا یہ پلیٹ فارم اپریل سے اکتوبر کے درمیان خریداتھا۔خریدنے کے بعد ایلون مسک نے نصف کے قریب ملازمین کو فارغ کر دیا۔جس کے بعد وہ خبروں میں بھی نمایاں طور پر آگئے۔پھر انہوں نے ویری فائیڈ اکاؤنٹس کی ایک فیس مقرر کرنے کا اعلان کیا تو بھی سب کے پسینے چھوٹ گئے،گوکہ مختلف نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ پروگرام فی الحال روک دیا گیا۔ان سب کے بعد وہ خاصے تنقید کی زدمیں رہے،چنانچہ اپنی تازہ رائے شماری میں کوئی 57 فیصد سے زیادہ افراد نے اُن کے یہ عہدہ چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا۔نتائج کے بعد اُنھوں نے کہا کہ ’جیسے ہی مجھے یہ عہدہ قبول کرنے والا کوئی بے وقوف شخص ملا میں سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔اس کے بعد میں صرف سافٹ ویئر اور سرور ٹیمز چلاؤں گا۔
اب سوال یہ اٹھاہے کہ 44 ارب ڈالر کیا اس کام کے لیے خرچ کیے تھے کہ لوگوں کی ناپسندیدیگی کی وجہ سے کمپنی چھوڑ دے گا؟ اس وقت یعنی دسمبر 2022 تک بھی ایلون مسک کی جانب سے ظاہر شدہ اثاثوں کی مالیت 164 ارب ڈالر ہے۔جنوبی افریقہ سے کینیڈا کا سفرپھر امریکہ میں جا کر مادی ترقی کے جھنڈے گاڑے۔بنیادی طور پر تو یہ ایک انجینئر کہلایاجا سکتاہے،وکی پیڈیا کے مطابق اس نے فزکس اور اکنامکس میں پینسلوینیا یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے،مگر اس کاپہلا منفرد کام آن لائن پیمنٹ ایجنسی PAYPALاور SPACEXکی تخلیق تھا۔یہ کام ا س نےایرو اسپیس انڈسٹری میں سستی خلائی پرواز کو حقیقت بنانے کے لیےبنایا تھا۔ یہ دنیا کی پہلی نجی کمپنی کہلائی جس نے اپنا طیارہ خلا میں کامیابی سے بھیجا اور واپس بھی لائے۔یہی نہیں اس کے بعد الیکٹرک کار (ٹیسلا) کابھی منفرد کام کر دکھایا۔ایلون مسک نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں یہ خوبصورت بات کہی کہ ’دولت کے پیچھے ضرور دوڑیے ’بشرطیہ کہ یہ اخلاقی اور اچھے انداز میں ہو‘لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز (دولت) اُن کی آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ان کا خیال ہے کہ ان کا بیشتر پیسہ مریخ پر اڈے کی تعمیر میں خرچ ہو گا،اور اگر اس منصوبے پر ان کی تمام جمع پونجی بھی لگ جائے تو انھیں حیرت نہیں ہو گی۔
بل گیٹس کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی زندگی کا خاتمہ ایسے ہو کہ ان کے بینک میں کروڑوں روپے جمع ہیں تو وہ اسے اپنی ناکامی سمجھیں گے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انھوں نے اس رقم کو بہتر انداز میں استعمال نہیں کیا تھا۔‘ تو ایک جانب یہ رویہ ہے،اب اس کی ایک اور شکل دیکھیں۔گذشتہ ہفتہ یہ خبر بھی سوشل میڈیا پرفلیش ہوئی کہ 40 سالہ معروف امریکی ڈانسر اسٹیفن ٹوئچ نے خودکشی کرلی۔لو بھئی اب اس نے کیوں خود کشی کرلی؟سب کچھ تو تھا اُس کے پاس جس کی کوئی امریکی معاشرے میں تمنا کرے۔مال، شہرت، سب کچھ اس نے کما یا ہوا تھا اور مستقل کما رہا تھا۔ایک ٹی وی شو سے ہی وہ اتنا مقبول ہو چکا تھا کہ اس کے دُنیاوی کیرئیر کے مزید روشن امکانات کھڑے تھے۔اُس کا من چاہالائف اسٹائل،من چاہی گاڑی، ڈانس کرتا تو لوگ اُس کے دیوانے ہوجاتے ۔اس کی بیوی نے اپنے بیان میں بتایا کہ،’اسٹیفن خاندان، دوستوں اور برادری کو سب سے بڑھ کر اہمیت دیتا تھا اور محبت اور روشنی کے ساتھ رہنمائی اس کے لیے سب کچھ تھا‘۔اُس نے ٹوئچ کو خاندان کی ریڑھ کی ہڈی،بہترین باپ اور شوہر قرار دیا۔ تو سوال اورمعمہ اپنی جگہ ہے کہ امریکی پولیس و تحقیقاتی ادارے اس خودکشی کی وجوہات و معلومات یا جمع نہیں کر پائے اور اگر کرلی ہیں تو عوام میں ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے کہ ہمارے پاس ذرائع تو وہی سی این این، وائس آف امریکہ و دیگر ہی ہیں، وہاں یہ خودکشی ہی ظاہر کی جا رہی ہے۔یہ پہلا کیس نہیں ہے، باقی بھی ایسے ہی ہیں۔شو بز، انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے افراد کی اموات دیکھیں تو ایسی شدید تکلیف دہ نظر آئیں گی کہ آپ کی روح کانپ جائے گی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جب میدان میں اُترتے تو لاکھوں لوگ اُن کے دیوانے ہو جاتے۔پردے پرآتے تو لو گ سیٹیوں، تالیوں سے استقبال کرتے۔آخر کون سی خواہش تھی جو ان کی پوری نہیں ہوتی۔آخر کون سی برانڈ کا کپڑا،کون سی خوشبو،کون سے لباس؟کون سا کھانا؟ کون سا مشروب؟کون سی دُنیا کا ملک شہر انہوں نے نہیں گھوما ہوتا، کون سی دُنیاوی عیش و عشرت اُن کو نصیب نہیں ہوتی۔مگر اِن کی اموات ایسی عبرت ناک رہیںکہ اگر زندوں نے عبرت نہیں پکڑی تووہ بھی ہمیشہ گمراہ رہیںگے اوربدترین انجام سے دوچار ہوں گے۔
2 سال سے مستقل سوشل میڈیا پر ، بھارتی نوجوان فلمی اداکار سوشانت سنگھ راجپوت اور ہالی ووڈ اداکار ہیتھ لیجرکی خود کشی معمہ بھی بنی ہوئی ہے، ہالی ووڈ اداکار کے لیے یہ بات تفتیش میں سامنے لائی گئی کہ اس نے شاید حادثاتی طور پر (ممنوعہ ، ڈپریشن )ادویات کی اضافی ڈوز لے لی تھی ، جبکہ سوشانت کے لیے تو وہ بات بھی سامنے نہیں آسکی۔بھارت میں جنوری سے دسمبر 2022 کے درمیان 6 شو بز کی خواتین کی خودکشی بھی موضوع ہے۔ان لڑکیوں میں ایک 18سالہ ماڈل بھی شامل ہے۔پاکستانی اداکاروں میں 1986 میں مشہور اداکارننھا ( رفیع خاور) کی خودکشی ہو، 1988میں وحید مراد کی پراسرار موت، 1993 میں اداکارہ رانی کی کینسر سے تڑپتے ہوئے موت ،1997 میں نصرت فتح کی موت، 2019 میں پاکستانی اداکارہ روحی بانو کی دردناک موت ،2021 میں عمر شریف کی اکیلے پن کے ساتھ انتہائی دردناک موت، عامر لیاقت کی عبرت ناک موت،خاصا تکلیف کی حالت میں زیر علاج رہنے کے بعد رشید ناز کی موت، 21 سال سے فالج پھر برین ہیمبرج کا شکارافضال احمد کی موت، ان کے بچے سب بیرون ملک تھے ۔اسماعیل تارا کی گردوں کے ناکارہ ہونے پر موت سمیت بے شمار مثالیں ہیں۔ویسے کہنے کو تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایسے تو سب ہی مرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ حالیہ دنوں مفتی رفیع عثمانی ؒ کابھی انتقال ہوا، مفتی نعیم کا بھی انتقال ہوا مگر کیا اُن کا جنازہ کسی نے دیکھا اور پھر موازنہ کیا؟ چاہے شوبز کے لوگوں کے کروڑوں فالور ہی کیوں نہ ہوں،مگر ان سب کی نماز جنازہ کی حالت دیکھ لیں تو خود ہی بات سمجھ آجائےگی ۔یہی نہیں نماز جنازہ کے شرکا سے اگر جنازے کی نماز کی دعا کا معلوم کرلیں تو لگ پتا چل جائے گا۔
علمائے کرام کا اپنا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں ہوتا ، وہ ایک وہیل چیئر پر مسجد یا مدرسے میں ہی رہتے ہوں مگر ان کی علمیت کا شور دنیا کے کونے کونے تک پہنچتا ہے۔میں ایک لاہور کے خادم صاحب کے جنازے کی مثال دوں تو بات سمجھی جا سکتی ہے۔پس یہ سوشل میڈیا کے بلبلے جیسی زندگی سے یہ بات جان لیں، دہرا لیںکہ یہ دنیا کی چند روزہ زندگی ، دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔غفلت میں ڈالے رکھا تم کو ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوششوں نے۔خوب جان لو کہ دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔‘اس غفلت کا حال یہ ہے کہ آج تک دنیا میں کوئی ایسا فلسفی پیدا نہیں ہو سکاجو ’ا سٹینڈرڈ آف لیونگ‘ کی definitionپیش کر سکے، کوئی تصویر کوئی مثال سے دے سکے، بس یہ ایک خیالی تصور ہے اور اس کے تصور میں انسان اپنے آپ کو ایک ایسی جہنم میں جھونک دیتا ہے، اپنے آپ ہی کو نہیں پھر اپنی اولاد کے لیے بچپن ہی سے ’فیوچر‘ کا تصور بالکل اُسی ’اسٹینڈرڈ آف لیونگ‘ سے جوڑ دیتا ہے جو کبھی کسی کو حاصل ہی نہیں ہوتا۔اوپر ایلون مسک سے لے کر عمر شریف تک کی مثالیں دیکھ لیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر عمران خان ، بدستور چھائے رہے، آڈیو لیک نے اپنے اثرات ضرور ڈالے مگر معاملہ یہ ہے کہ اُن کے چاہنے والے یہ طے کر چکے ہیں کہ مخالفین بھی اخلاقی حد سے نیچے جائیں گےتواب بات ہی ختم۔جو چاہو جیسی چاہوآڈیو لیک کر دو ، ہمیں تو ماننا ہی نہیں ہے۔’نیازی پورن اسٹار‘ اور ’غلیظ گھڑی چور‘ ، ’ہوس کا پجاری عمران‘ جیسے ٹرینڈ کے مقابلے میںٹوئٹر پر ’خان تیری جرات کو سلام‘ ، ’سازشیں مکاؤ، الیکشن کراؤ، ’کا ٹرینڈ یہی بتا رہا تھا۔ پی سی بی میں نئی تقرریوں میں شاہد خان آفریدی کی کمیٹی میں شمولیت کو بھی سراہا گیا کیونکہ حالیہ پاک برطانیہ ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی خراب کار کردگی پر بہت بات ہوئی۔ اب کرکٹ شائقین نیوزی لینڈ کے ساتھ سیریز پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔اس دوران ’افغانستان‘ سے آنے والی ایک اطلاع کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان نے دین پر عمل کرنے اور احکامات شرع کے نفاذ کی جانب کوئی ڈیڑھ سال بعد پہلا قدم بڑھاتے ہوئے کچھ خواتین کے لیے مخلوط جامعات میں داخلے کو روکا تو سب کو نامعلوم تکلیف شروع ہوگئیں،‘ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بناletherlearn، مغرب سے مرعوب زدہ لوگ فضول میں مغربی ایجنڈے کو بڑھاوا دینے لگے۔ مسلمانوں کو یہی بات سمجھ نہیں آرہی کہ اللہ کا حکم توڑ کر کوئی دنیا میں خیر کا کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔امارت اسلامیہ نے تو حکمت کے ساتھ یہ فیصلہ بہت تاخیر سے کیا ۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا تھا کہ جن کے داخلے ہیں ان کو پاس آؤٹ ہونے دیتے ، نئے داخلے سرے سے ہی ختم کر دیتے ، تاکہ جن خواتین کے کورسز باقی ہیں وہ پورے ہو جاتے ۔مگر ایسے میں مجھے نبی کرم ﷺ کے پاس آپ کے محبوب چچا حضرت عباس ؓ کی وہ سود کی حرمت کے اعلان سے ایک رات قبل کی وہ گذارش یاد آتی ہے کہ صبح مال کی بڑی ادائیگی ہونی ہےاگر صرف ایک دن کے لیے اعلان حرمت کو وقفہ دےد یں ، جبکہ انہوں نے صاف کہاکہ وہ مال ملنے کے بعد استعمال بھی نہیں کرینگے ،مگر ہم جانتے ہیں کہ صبح کےخطبہ میں نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے ہی چچا کا نام لے کر سارا سود ختم فرمایا۔ (صحیح مسلم) سعودی معاشرے میں سنیما، ہیلوئین کے بعد تواتر سے میوزک کنسرٹ کا سلسلہ بڑی تبدیلیاں لانے کو ہے۔ سعودی عرب میں اس کے آغاز کے اثرات مکہ کے گورنر خالد بن فیصل کی جانب سے ایسل سلے ( گلوکارہ) کی گرفتاری سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ 2020 میں اُس خاتون نے بنت مکہ یعنی مکہ گرل کے نام سے گانا یو ٹیوب پر لوڈ کیا۔ اس ویڈیو میں مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں رہنے والی خواتین کو ’طاقتور اور خوبصورت‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر مقامی عرب مسلمانوں کی غیرت کو دھچکا لگا تھا اور انہوں نے اس کو مکمل رد کیا، مگر یاد رہے کہ یہ سال 2020 کا جنوری تھا ۔ اب 2022 تک صورتحال کیا ہو چکی ہے، یہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں ، اس کو آپ سلو پوائزن کہیں یا جو کچھ نام دیں ،بہر حال اب صورتحال تیزی سے تبدیل ہو تی جا رہی ہے۔
سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں اکتوبر میں 2روزہ KCON میوزیکل کنسرٹ منعقد ہوا جس میں کورین گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ سعودی وزارت ثقافت کے زیر اہتمام کنسرٹ میں ہزاروں کی تعداد میں میوزک کے شوقین افراد نے شرکت کی ۔اس سے پہلے بھارتی گلوکاروں کاوفد بھی آ چکا ہے۔اب دسمبر کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب کے صحرا میں دُنیا کا سب سے بڑا میوزک پروگرام منعقد ہوا۔اس میوزک پروگرام یا کنسرٹ نے 7 لاکھ 30 ہزار سے زائد شائقین کو ترغیب دلائی اور الیکٹرانک سے لے کے ہپ ہاپ تک مختلف قسم کا میوزک پیش کیا گیا۔اس کے بعدسوشل میڈیا پر31دسمبر کے میوزیکل کنسرٹ کا بھی شور جاری ہے۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ موسیقی صرف موسیقی نہیں ہوتی، ا س کے اندرجو شیطانی پیغامات شامل ہوتے ہیں وہ ضرور سامنے آتے ہیں۔سوشل میڈیا پر اور دیگر ویب سورسز سے آنے والی خبروں کے مطابق خواتین کے احترام کو بالائے طاق رکھ دینا سوالیہ نشان ہے۔عرب دنیا کے سب سے بڑے میوزک پروگرامز میں خواتین کی ایذا رسائی اور ان کے استحصال کے واقعات نے عرب دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ خبر کے مطابق قاہرہ میں واقع ہالینڈ کے سفارتخانے میں کام کرنے والی الیکٹرانک میوزک کی دلدادہ اسکاوٹن، ساونڈاسٹارم پروگرام میں شرکت کے لئے اپنی ایک ساتھی کے ساتھ ریاض پہنچی تھیں۔اسکاوٹن کا کہنا ہے کہ جب وہ کنسرٹ میں پہنچی تب وہاں کئی مردوں نے ان کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور ان کو غلط طریقے سے چھونے کی کوشش کی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں کئی بار کھینچنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے وہ تین بار گر پڑیں، وہ چیخیں اور چلائیں لیکن کسی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔اب آپ دوبارہ تذکیر کرلیںکہ موسیقی کے ذریعہ شیطان فحش کی جانب لے جاتا ہے۔پس تذکیر کے لیے قرآن مجید سورۃ فاطر کی ایک آیت کو بغور پڑھیں اور سمجھیں ؕ’’درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔‘‘