اُس نے جواب دیا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ مجھے مستقبل کی تاریک گزرگاہوں پر اُمید کا کوئی چراغ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن یہ وقت اِس موضوع پر بحث کرنے کے لیے موزوں نہیں۔ اگر مجھے یہ یقین نہ ہوتا کہ عاصم ایک حقیقت پسند انسان ہے تو میں اسے پریشان کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ میرے خیال میں ایک ایسے آدمی کو مستقبل کے خدشات سے آگاہ کرنا ضروری تھا جو قسطنطنیہ کو عافیت کا گھر سمجھ کر آپ کے ساتھ آیا ہے۔ اب مجھے اجازت دیجیے، خدا حافظ!‘‘۔
کلاڈیوس کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن ولیریس اُسے موقع دیے بغیر وہاں سے چل دیا۔
اگلی صبح کلاڈیوس بھی قسطنطنیہ سے روانہ ہوچکا تھا۔ اور چند دن بعد عاصم اور فرمس شہر سے باہر اپنی چھوٹی سی سرائے کا کام سنبھال چکے تھے۔
سرائے کا کاروبار، عاصم اور فرمس کی توقع سے زیادہ منفعت بخش ثابت ہورہا تھا۔ قسطنطنیہ میں پناہ گزینوں کے سیلاب کے باعث رہائش کا مسئلہ ایک نازک صورت اختیار کرچکا تھا اور جن لوگوں کو شہر میں جگہ نہیں ملتی تھی وہ مضافات میں سرچھپانے کے لیے جگہ تلاش کرلینا بھی غنیمت خیال کرتے تھے۔ فرمس نے مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے، دوسرے مہینے ایک خیمہ خریدا اور اُسے سرائے کے پاس نصب کردیا۔ تیسرے مہینے اُس نے ایک اور خیمہ خرید لیا اور اِس کے ساتھ ہی ایک کشادہ عمارت کی تعمیر شروع کردی۔ قسطنطنیہ کی بیشتر سرائیں آرمینی تاجروں کی ملکیت تھیں۔ اور وہ باہر سے آنے والے مسافروں کو دونوں ہاتھوں لوٹتے تھے، لیکن فرمس زیادہ نفع کمانے کی بجائے زیادہ گاہک پیدا کرنے کے مسلک پر کار بند تھا اور یہی وجہ تھی کہ جو مسافر ایک دن اُس کی سرائے میں ٹھہرتا تھا وہ دوسرے دن دوچار اور مسافر وہاں لے آتا تھا۔
ولیریس فرصت کے اوقات میں اکثر اُن کے پاس آیا کرتا تھا، فرمس اور عاصم کے کاروبار سے اُس کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ شہر میں ہر اجنبی کو اُن کی سرائے کا راستہ دکھانا اپنا فرض خیال کرتا تھا۔ فرمس جب اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے جاتا تو عاصم کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا۔
اپنی غیر حاضری کے پہلے مہینے کلاڈیوس نے انہیں جو خطوط بھیجے تھے، اُن میں یہ بات خاص طور پر دہرائی گئی تھی کہ مجھے عنقریب گھر آنے کے لیے چند دن کی چھٹی مل جائے گی، لیکن اِس کے بعد اُس کے تمام خطوط میں اِس قسم کی شکایات ہوتی تھیں کہ میں بے حد مصروف ہوں۔ دشمن نے فلاں علاقے میں مار دھاڑ شروع کردی، ہماری افواج فلاں قلعے پر دوبارہ قابض ہوگئی ہیں۔ آج دشمن کے لشکر نے اچانک فلاں چوکی پر قبضہ کرلیا۔ اب میں چند ہفتے گھر نہیں آسکوں گا۔ اس طرح چار مہینے گزر گئے۔
قسطنطنیہ پہنچنے کے بعد عاصم نے اپنی زندگی میں جو خلا محسوس کیا تھا، اسے سرائے کے ایک محدود سے ماحول کی دلچسپیاں زیادہ عرصہ تک پُر نہ رکھ سکیں۔ اپنی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ حاصل کرنے کے بعد اُس کی حالت اُس مسافر کی سی تھی جو ایک لق و دق صحرا میں تھکاوٹ اور پیاس سے نڈھال ہونے کے بعد کسی نخلستان میں پہنچ جائے اور وہاں کسی چشمے کے ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھانے اور کسی درخت کی گھنی چھائوں میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اپنے دل میں ایک نیا اضطراب محسوس کرنے لگے۔ ایک خاموش اور پُرسکون زندگی پر قانع ہوجانا اُس آدمی کے بس کی بات نہ تھی، جس نے اپنی زندگی کی بیشتر منازل، ناہموار اور پُرخطر راستوں پر طے کی تھیں۔ ماضی کی تمام دلچسپیوں سے کنارہ کش ہونے اور مستقبل کے متعلق تمام امیدوں سے محروم ہوجانے کے بعد یہ سرائے جسے ابتداء میں اُس نے ایک گوشۂ عافیت سمجھا تھا، اب اُسے ایک ایسا قید خانہ معلوم ہوتی تھی جس کے باہر مشرق و مغرب کے تمام راستے اُفق کی تاریکیوں میں گم ہو کر رہ جاتے تھے۔ صبح و شام کی مصروفیت اُس کے لیے زندگی کی ایک ضرورت بن گئی تھی۔ وہ سرائے کے ملازموں کی طرح جن کی تعداد اب پانچ ہوچکی تھی، نہایت ادنیٰ کاموں میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا، لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی اُس کے دل کی گہرائیوں میں کوئی خیال اُٹھتا اور اُس کے ذہنی اور جسمانی قویٰ شل ہو کر رہ جاتے، وہ کوئی کام کررہا ہوتا اور اُس کے ہاتھ پائوں اچانک رُک جاتے۔ وہ کسی کی طرف دیکھتا اور اُس کی نگاہیں کسی موہوم اُفق کے دھندلکوں میں گم ہو کر رہ جاتیں۔ وہ کسی کے ساتھ بات کرتا اور اچانک اُس کی قوتِ گویائی سلب ہوجاتی۔ پھر سرائے کے کسی گوشے سے ایک جانی پہچانی آواز سنائی دیتی، ’’عاصم بیٹا، تم کیا سوچ رہے ہو۔ تم تھک گئے ہو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ آئو میرے پاس بیٹھ جائو۔ دیکھو، تمہیں ایندھن کے لیے لکڑیاں پھاڑنے، اور گھوڑوں کے آگے چارہ ڈالنے کی ضرورت نہیں، ان کاموں کے لیے ہمارے پاس نوکر موجود ہیں۔ اور عاصم ایسا محسوس کرتا کہ وہ کسی گہرے سمندر میں غوطے کھانے کے بعد اچانک ساحل پر پہنچ گیا ہے‘‘۔
فرمس ہر تیسرے یا چوتھے روز اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے اُس کے گھر جایا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ عاصم کو اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتا، لیکن عاصم کے طرزِ عمل سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اُسے کلاڈیوس کے گھر پائوں رکھتے ہوئے کوئی اُلجھن محسوس ہوتی ہے، اور وہ عام طور پر کسی نہ کسی بہانے وہاں جانے سے انکار کردیتا۔
ایک دن فرمس نے اُسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تو عاصم نے جواب دیا۔ ’’آج میں باسفورس کے کنارے گھومنا چاہتا ہوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’بیٹا یہ میرے ساتھ نہ جانے کے لیے کوئی معقول بہانہ نہیں۔ دیکھو، انطونیہ تم سے بہت خفا ہے۔ اور جولیا پچھلی مرتبہ بار بار تمہارے نہ آنے کی وجہ پوچھتی تھی۔ کلاڈیوس کے باپ نے بھی تمہارے متعلق پوچھا تھا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ انطونیہ مجھے ایک بہن کی طرح عزیز ہے، اور اُسے دیکھ کر مجھے ایک راحت سی محسوس ہوتی ہے لیکن جولیا کے سامنے جاتے ہوئے مجھے اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ جب میں وہاں تھا تو مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے قابل رحم سمجھتی ہے۔ اور اپنی غریب الوطنی، اور بے بسی کے باوجود میرے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ میں قابل رحم سمجھا جائوں۔‘‘
فرمس نے کہا۔ ’’عاصم فرض کرو کہ وہ نیلی آنکھوں والی مغرور لڑکی صبح، شام انطونیہ سے تمہارے متعلق ایسی داستانیں سنتی ہے، جن کے باعث احترام اور عقیدت کے رشتے استوار ہوتے ہیں تو تم اِس کے متعلق کیا کہو گے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اس صورت میں مجھے اُس سے اور زیادہ دور رہنا چاہیے‘‘۔
فرمس نے پوچھا۔ ’’یہ خودپسندی ہے یا احساسِ مرعوبیت؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ اب میں اُن راستوں پر چلنے کی جرأت نہیں کروں گا، جن کی کوئی منزل نہ ہو۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس راستے کی کوئی منزل نہیں ہوسکتی‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’بیٹا تم نے مجھے غلط سمجھا، میرا یہ مطلب نہ تھا کہ جولیا تمہارے دِل میں جگہ لے سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم اس قدر نادان نہیں ہو۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے دل سے تنہائی اور بے بسی کا احساس دور کیا جائے، اور جب تمہیں یہ محسوس ہونے لگے گا کہ یہاں تمہیں جاننے پہچاننے اور تمہارا احترام کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو ماضی کی تلخیاں تمہارے لیے اس قدر تکلیف دہ نہیں ہوں گی‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’کیا آپ میرے لیے کافی نہیں؟‘‘۔
لیکن میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔ میرے راستے کی آخری منزل اب زیادہ دور نہیں‘‘۔
عاصم کچھ دیر کرب و اضطراب کے عالم میں فرمس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’جب آپ میرے ساتھ نہیں ہوں گے تو میں یہ سمجھوں گا کہ زندگی کے ساتھ میرا آخری رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ پھر میری جگہ یہ سرائے نہیں ہوگی‘‘۔
’’تم کہاں جائو گے؟‘‘ فرمس نے مغموم لہجے میں سوال کیا۔
’’مجھے معلوم نہیں، آج مجھے اِس سوال کا جواب سوچتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’عاصم جو انسان دوسروں کے لیے جینا اور مرنا جانتا ہو اُسے اپنے ماضی پر نادم، حال سے پریشان اور مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیا تم اپنے ماضی کے واقعات کے متعلق سوچتے وقت یہ محسوس نہیں کرتے کہ بعض فیصلہ کن مراحل میں تمہارے اپنے شعور سے زیادہ قدرت کی ان دیکھی اور ان جانی قوتوں نے تمہاری رہنمائی کی ہے اور یہ قوتیں آئندہ بھی تمہاری رہنمائی کرتی رہیں گی؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اپنے ماضی سے میں نے صرف یہ سبق سیکھا ہے کہ میں نے اپنے موہوم سپنوں کو حقیقت سمجھ لیا تھا۔ میں اِس خود فریبی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ میں وقت کی آندھیوں کا رُخ بدل سکتا ہوں۔ لیکن میری کوششوں کے نتائج میری توقعات کے خلاف تھے۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ وہ زمین جہاں میں محبت کے پھولوں کی آبیاری کرنا چاہتا ہوں، صرف انگاروں کو جنم دے سکتی ہے۔ میں نے یثرب کو اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لیے امن کا گہوارہ بنانے کی تمنا کی تھی، لیکن میری کوششوں کا ماحصل یہ تھا کہ اِس حسین وادی کے لیے میرا وجود ناقابل برداشت ہوگیا۔ پھر جب میں وہاں سے نکلا تو زندگی کی تمام خواہشوں سے کنارہ کش ہوچکا تھا۔ اپنی کمزوری اور بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے میں نے اپنی تلوار پھینک دی تھی۔ فسطینہ اور اُس کی والدہ کی مصیبت نے مجھے ایک نئے طوفان کے سامنے سینہ سپر ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر میں نے اپنے نئے راستے پر جتنے قدم اُٹھائے وہ سب غلط تھے۔ میں اس پر خوش تھا کہ میں مصیبت میں کسی کے کام آرہا ہوں، لیکن اِس کے بعد خودنمائی کا جذبہ میری ہر نیک خواہش پر غالب آچکا تھا۔ وہ ضمیر جو ایک رات اپنے زخمی دشمن کی قابل رحم حالت دیکھ کر بیدار ہوا تھا، فلسطین، شام اور مصر کے میدانوں میں سو چکا تھا۔ ایرانی فوج میں شامل ہونے کے بعد میری فتوحات میرے اِس یقین کی آخری شکست تھیں کہ میں عام انسانوں سے مختلف ہوں۔
’’اگر تم عام انسانوں سے مختلف نہ ہوتے تو اپنے قبیلے کی روایات کے خلاف بغاوت کا جھنڈا نہ اُٹھاتے اور اس کے بعد ایرانی فوج کا ساتھ چھوڑ کر یہاں نہ آتے۔ عاصم تم اس بات پر فخر کرسکتے ہو کہ تمہارے اندر ایک غلط راستہ چھوڑ کر ایک صحیح راستہ اختیار کرنے کی جرأت موجود تھی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’شاید آپ کو میری بات پر یقین نہ آئے، لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مجھے یقین ہے کہ قدرت کا کوئی معجزہ مجھے چند سال پیچھے لے جائے۔ اور میں اپنا سفرازسرنو شروع کروں تو میں پھر ایک بار ماضی کی تمام غلطیوں کو دہرانے کی کوشش کروں گا۔ میں پھر ایک زخمی دشمن کو اُٹھاکر اُس کے گھرلے جائوں گا اور مجھے اس بات کی پروا نہیں ہوگی کہ میری ہمدردی اُس کے خاندان کی تباہی کے دن قریب لارہی ہے۔ میں سمیرا سے محبت کروں گا اور مجھے اس بات کی پروا نہیں ہوگی کہ میری محبت کے پھول اُس کے لیے انگارے بن جائیں گے۔ میں انتہائی مایوسی اور بے چارگی کی حالت میں یروشلم کے قریب ایک سرائے میں پہنچنے کے بعد فسطینہ کی اعانت اور دلجوئی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لوں گا۔ پھر وہی نادان لڑکی میری نگاہوں کامرکز بن جائے گی۔ اور مجھے اس بات کا احساس تک نہیں ہوگا، میں اپنے آپ کو فریب دے رہا ہوں۔ اس کے بعد میرا ضمیر مجھے ظلم کرنے والوں کی مخالفت یا مظلوموں کی حمایت پر نہیں اُکسائے گا، بلکہ میں وحشت اور بربریت کے سیلاب کا راستہ صاف کرنے والوں کا ساتھی بن جائوں گا اور جب تک میرے بازو شل نہیں ہوجائیں گے اور میری ہمت جواب نہیں دے جائے گی مجھے اپنی قبا پر بے گناہوں کے خون کے دھبے شرمسار نہیں کریں گے۔ میں نے اپنی نگاہوں سے ہمیشہ مختلف اور متضاد راستے دیکھے ہیں۔ کیا وہ نوجوان جو صرف اپنے خاندان کے دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے زندہ تھا، اُس نوجوان سے مختلف نہ تھا جو اپنے قبیلے کو امن اور رواداری کا درس دے رہا تھا اور اپنے دشمن کی حفاظت کے لیے اپنے عزیزوں اور بھائیوں کے خلاف سینہ سپر ہوگیا تھا؟۔
(جاری ہے)