کیا اِس قدر حقیر تھا اس قوم کا وقار
ہر شہر تم سے پوچھ رہا ہے، جواب دو!
یہ شعر 16دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پس منظر میں لکھی گئی نظم ”استفسار“ کا ہے جس کے خالق مشہور شاعر، فلسفی، سوانح نگار جون ایلیا ہیں۔ یہ نظم عبیداللہ علیم نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے خصوصی طور پرلکھوائی تھی۔ یہ اُس دور کے عوامی جذبات کی آواز بننے والی نظم تھی۔ جون کا یہ شعر بھی کیا خوب ہے کہ
دلِ ناکام میں کہاں جاؤں
اجنبی شام میں کہاں جاؤں
جون ایلیا اپنے عہد کے اہم اور منفرد شاعر تھے۔ آپ ذرا مختلف اور انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے الگ شناخت رکھتے تھے جو بہت سراہے جاتے تھے، جن کی شاعری آج بھی پوری طرح زندہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ جون ابھی زندہ ہیں۔ وہ کہیں گئے نہیں بلکہ اپنی شاعری سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ بقول مبین مرزا ”جون ایلیا شاعر تھے،اول و آخر، ظاہرو باطن شاعر“۔ جون ایلیا کا شمار اُن شاعروں میں ہوتا ہے جنہیں غزل کے فن کے ساتھ نظموں میں بھی مہارت حاصل تھی-
آپ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ کے ایک علمی، ادبی اور نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا کے چار بھائی تھے اور وہ سب شاعر تھے۔ والد اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے ماہر تھے، تو اس طرح کا علمی گھرانا جون نے پایا تھا۔ جون کے ایک بھائی دانشور، شاعر اور صحافی رئیس امروہوی تھے، وہ جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھتے تھے، اسی سے انہیں شہرت حاصل ہوئی تھی، لیکن 22 ستمبر 1988ء کو کراچی کے متمول علاقے گارڈن ایسٹ میں واقع اپنے ہی گھر میں قتل کردیے گئے تھےٍ جس کے بعد ہی جون ایلیا عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔ عرفان جاوید کے مطابق ”جون اکثر رات کو جذباتی کیفیت میں رئیس امروہوی کی قدِآدم تصویر کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے، روتے تھے اور اپنے بال نوچتے ہوئے بڑے بھائی کو ملامت کرتے ہوئے کہتے تھے ’’تُو کیوں مرگیا، تُو ڈرامے باز ہے۔ جان کر ڈرامے کا اختتام ایسے کیا کہ سب تڑپ کر رہ گئے۔‘‘
دوسرے بھائی سید محمد تقی ممتاز صحافی و دانشور، روزنامہ ’جنگ‘ کے مدیر رہے۔ ممتاز مصور اور خطاط صادقین جون کے بھانجے تھے۔ جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آٹھ برس کی عمر سے ہی وہ شعر کہنے لگ گئے تھے۔21برس کی عمر کو پہنچے تو باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے۔1957ء میں انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو مستقل رہائش کے لیے پسند کیا، جس کے بعد وہ تیزی کے ساتھ شہر کے ادبی حلقوں میں مشہور اور مقبول ہوتے چلے گئے۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے متنوع، وسیع مطالعے کا مظہر ہے۔ جون ایلیا کو باغی، اقدار شکن، نراجی کہا گیا اور کہا جاتا ہے۔ آپ کا شمار اُن لکھنے والوں میں ہوتا تھا جو بہت محنت سے لکھتے تھے اور ڈوب کر لکھتے تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی بہت دلچسپی نہیں رہی ، اور یہی وجہ ہے کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ جب وہ 60برس کی عمر کے ہوچکے تھے اُس وقت شائع ہوا تھا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’یعنی‘‘ ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا، اور یہی دو ابتدائی مجموعے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ان مجموعوں کو خود مرتب کیا تھا، باقی تو پھر اور لوگوں نے شائع کیے، لیکن ان کی زندگی میں ایک ہی مجموعہ شائع ہوا تھا۔ آپ کا تیسرا مجموعہ ’’گمان‘‘ 2004ء میں شائع ہوا۔ آپ کا مجموعہ ”لیکن‘‘ 2006ء اور ’’گویا‘‘ 2008ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ جون ایلیا کے مختصر مضامین کا مجموعہ ’’فرنود‘‘ 2012ء میں منظرِعام پر آیا۔
جون ایلیا کے بارے میں سحرانصاری کہتے ہیں کہ ”میں نے جون کی گھریلو اور شاعرانہ زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا۔ جب جون ایلیا 1957ء میں امروہہ سے پاکستان آئے، تو اُن کے بڑے بھائی رئیس امروہوی نے اُنہیں مجھ سے متعارف کرایا۔ اور یوں ہماری رفاقتوں کا آغاز ہوا۔ جون بنیادی طور پر رومانوی مزاج رکھتے تھے اور ساتھ ہی معاشرے کی ناہمواری اور انسانی حقوق کی پامالی پر بھی بہت دکھی رہتے تھے۔‘‘
سحر انصاری اپنے تعلق کی بنیاد پر یہ بھی کہتے ہیں کہ ”بعض افراد کے بارے میں میرا تجربہ رہا ہے کہ وہ سیدھی سادی یا خطِ مستقیم کی شخصیت نہیں ہوتے۔ ان میں ایک نوع کی پیچیدگی او ژولیدگی پائی جاتی ہے، جون ایلیا بھی اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ خطِ مستقیم کی شخصیت نہیں تھے،اس لیے ان کے بارے میں بندھی ٹکی آرا سے کام نکالنا مشکل ہوتا ہے، جون ایلیا نے اپنی ساری زندگی موڈ کے تابع گزاری، ان کے موڈ موسموں کی طرح بدلتے رہتے تھے اور ان کا اظہار شاعری میں اسی طور اور تناظر میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے رویّے میں شدید تھے اور جہاں کہیں شدت آجاتی تھی، اسے وہ سفاکی کی حد تک شاعری میں ڈھال دیتے تھے، جون کہا کرتے تھے میں غصے میں بھرا رہتا ہوں لیکن اظہار کم کر پاتا ہوں۔‘‘
مثلاً یہ شعر دیکھیں:
اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
٭
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
٭
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
٭
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم
٭
چبا لیں کیوں نا خود ہی اپنا ڈھانچہ
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
شکیل عادل زادہ نے لکھا تھا ’’جون ایلیا کو گفتگو میں انوکھے اچھوتے فقروں، نت نئی تاویلوں سے مخاطب کو لاجواب کردینے میں ملکہ حاصل تھا۔ برجستہ ایسے سفاک اور جارحانہ فقرے چست کرتے، ایسی دلیل وضع کرتے کہ تن بدن میں آگ لگادے، آدمی آئینے سے چہرہ چھپانے لگے۔ کبھی ایسا شوخ و شگفتہ، ایسا زاویہ طراز، معنی خیز فقرہ کہ آدمی دیکھتا رہ جائے اور دادو تحسین کرتے بھی نہ بنے۔‘‘
عقیل عباس جعفری نے جون ایلیا کے ساتھ گزرے ایام کو یاد کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک گفتگو میں بتایا ’’کچھ لوگ عام طور پر جون بھائی کی کامیابی کا سبب ان کی وضع قطع، مشاعروں میں پڑھنے کے ڈھب اور اُن کے رومانوی قطعات کو بتاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سب نہ ہوتا تو بھی جون اتنے ہی بڑے اور توانا شاعر ہوتے۔ انہوں نے غزل میں بالکل سامنے کے تجربات کو جس پرکاری کے ساتھ تحریر کیا، وہ اُنہی کا خاصا تھا۔‘‘
عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ ’’جون صاحب کے چار قریبی دوست تھے جو ممتاز سعید، حسن عابد، راحت سعید اور محمد علی صدیقی تھے۔جون ان چاروں کو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف کو ملا کر انہیں ’محرم‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔‘‘
جون ایلیا نے مضامین، انشائیے اور اداریےبھی بہت لکھے جو بعد میں ماہنامہ انشا، عالمی ڈائجسٹ، 1990ء میں جشنِ جون ایلیا کے موقع پر شائع ہوئے، ایک جگہ جون لکھتے ہیں:
’’پاکستان کے باشعور عوام اور مخلص دانشوروں میں اس امر کا شدید احساس پایا جاتا ہے کہ قوم میں ابھی تک قومی شعور پیدا نہیں ہوا۔ قومی شعور جو کسی قوم کی تاریخی، تہذیبی اور اجتماعی انا سے عبارت ہوتا ہے، وہ قومی حمیت اور تہذیبی غیرت جس نے تحریکِ آزادی کو جنم دیا تھا جس کے باعث ہم آزادی سے بہریاب ہوئے، آزادی کے بعد تقریباً مفقود ہوچکی ہے۔ آج ہمیں دیکھ کر کسی طرح بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے صرف قومی شعور کے بل بوتے پر مغرب کے جابرانہ استعمار اور قاہرانہ اقتدار پر فتح حاصل کی تھی۔ سچ ہے ہم نفسیاتی، اخلاقی اور تہذیبی طور پر مسخ ہوچکے ہیں۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ملک کا بااثر طبقہ قوم کی تاریخی اور تہذیبی اساسوں میں استحکام پیدا کرنے کے بجائے انہیں طرح طرح سے کمزور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ جو لوگ ملکی اور ملّی مسائل سے دل چسپی رکھتے ہیں اُن کا سماجی طور پر کوئی اثر نہیں۔ جو شخص قومی اندازِ نظر سے جتنی زیادہ وابستگی رکھتا ہے اُسے سماجی طور پر اتنا ہی ناکام اور بے حیثیت زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ قوم پرستی اور بااثر سماجی زندگی کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔ وہی لوگ خوش ہیں جو ملک کے مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے اور اُنھیں لوگوں کو سماج میں اثر رسوخ حاصل ہے جنہیں سماج سے کوئی سروکار نہیں۔“
معروف ادیب، فلاسفر احمد جاوید جون ایلیا کے کام کو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ وسیع تناظر میں سمجھتے تھے۔ 2019ء میں معروف اینکر انیق احمد کے گھر پر ایک تقریب میں فرمایا تھا کہ ”جون ایلیا پھکڑ بازی میں بھی جواب نہیں رکھتے۔ ان کی ایک پس پردہ نفرت ہوتی ہے جو بڑے حقائق کے تمسخر پر ختم ہوتی ہے۔ وہ انکار میں فیل ہوجاتی ہے، تمسخر میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک شعر اور بہت مزے کا ہے۔ اس میں ایک طنز ہے، ایک پھکڑ پن ہے۔ مطلب ہے کہ
شعر بڑا خوب صورت، بہت چُست اور جتنا طنزیہ دکھانا چاہ رہے ہیں وہ پورا طنز ظاہر کرنے پر قادر ہے۔ اور آدمی اگر تھوڑا سا کمزور لمحے میں ہو تو بہت پُرلطف اور بہت نشاطیہ شعر ہے۔ تو طنز جس پر کیا جائے اُس کے لیے وہ چیز نشاط بن جائے، یہ بڑی فنکاری ہے۔ طنز کے مخاطب کو بھی یہ جھومنے پہ مجبور کررہے ہیں“۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ ’’شاعروں میں دو قسم کے شاعر ہوتے ہیں۔ ایک وہ کہ جن کے شعر کی تفہیم کے لیے ان کی شخصیت کا علم ضروری نہیں۔ دوسری قسم کے شعرا وہ ہوتے ہیں جن کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ان سے واقفیت بہت ضروری ہے اور بہت decisive(فیصلہ کن) ہے۔ جون ایلیا، شعراء کی اس دوسری قسم میں ہیں کہ اگر آپ ان کی شخصیت کو جانتے ہیں تو ان کے شعر کی تحسین، ان کے شعر کے درست فہم اور ان کی شعریات کی تشکیل کے مراحل کو دیکھنے میں آپ کو آسانی ہوجائے گی۔ جون ایلیا کے معاصرین میں شاید کوئی شخص ان کی طرح نہ ہو کہ جس کی شاعری کا مادۂ معنویت اور جوہرِ کیفیت خود وہ (شخص) ہو۔ ان کی شاعری کو ان کی شخصیت سے الگ کرنے کے نتیجے میں ہم اُسے واہ کرنے کے لیے بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے اور آہ کرنے کے لیے بھی اچھی طرح گرفت میں نہیں لا سکتے۔‘‘ اسی نشست میں کسی نے سوال کیا ”انہوں )جون) نے بڑے شعر کہے ہیں؟“ جس پر احمد جاوید نے جواب دیا ’’نہیں، بڑے شعر کہنے والے آخری آدمی عزیز حامد مدنی اور بڑی نظم لکھنے والے آخری آدمی ن۔ م۔ راشد تھے۔‘‘
حکومتِ پاکستان نے 2000ء میں جون ایلیا کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغا برائے حُسنِ کارکردگی عطا کیا۔ آپ کی معروف مصنفہ زاہدہ حنا سے شادی بوجوہ چل نہ سکی اور 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ یہ رفاقت 8 سال رہی۔ ان سے جون ایلیا کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک بیٹی فینا نے لکھا تھا کہ ”مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ لوگ یہ کیسے سمجھے کہ جون ایلیا میرے پسندیدہ شاعر ہیں! وہ میرے والد ہیں، میں ان کے اشعار میں زندگی نہیں ڈھونڈ سکتی، وہ میری زندگی تھے، ہمیں شاعر کی نہیں، اپنے والد جون ایلیا کی ضرورت تھی، اور ہمارے والد کہیں کھو گئے تھے۔ میرے والد کہتے تھے کہ شاعر کا کام روزمرہ کے گھریلو کاموں میں مشغول ہونا نہیں ہے، لیکن معاملے کی سچائی یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے اپنی ذمے داریوں سے بھاگنا۔‘‘
انوراحسن صدیقی نے اپنی کتاب ’’دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے‘‘ میں لکھا کہ ’’جون ایلیا نے ایک بار کہیں اپنے اکلوتے بیٹے زریون کو دیکھا جو اب ایک نوعمر لڑکا تھا۔ جون اس کو بالکل ہی نہیں پہچان سکے۔ اور بیٹے نے ان کو پہچان لینے کے باوجود ان کی جانب کسی خصوصی التفات کا مظاہرہ نہیں کیا۔
جون حد درجہ دل شکستہ و ملول ہوئے، اور اسی رات انہوں نے آنسوؤں میں ڈوب کر اپنی نظم ’’درختِ زرد‘‘ لکھی۔ جون نے یہ نظم لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی اور کسی کو نہیں سنائی تھی۔ پھر انہوں نے فون کرکے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ مجھے ایک نظم سنانا چاہتے ہیں۔ کوٹھی کے پچھواڑے اس اجاڑ اور ٹوٹے پھوٹے کمرے میں، جہاں بہت سارے کاٹھ کباڑ کے ساتھ جون کا پلنگ بھی پڑا ہوا تھا، جون نے مجھے پہلے تو اس نظم کا پس منظر سنایا اور پھر یہ نظم سنانی شروع کی۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دھاروں دھار روتے جاتے تھے اور نظم پڑھتے جاتے تھے۔ اس طویل نظم میں جتنے مصرعے تھے، ان سے کہیں زیادہ آنسو جون نے اس نظم کو سنانے میں بہائے ہوں گے۔ میں انہیں چشم تصور سے اپنی نہایت منفرد اور کمال نظم درختِ زرد میں اپنے بیٹے زریون سے مکالمہ کرتے
ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس نظم کے چند اشعار مندرج ہیں:
نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگی
وہ کن خوابوں سے جانے آشنا نا آشنا ہوگی
تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے
تمہیں کیسے گماں ہوں گے تمہیں کیسے گلے ہوں گے
تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو
تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو
نہ جانے کون دوشیزہ تمہاری زندگی ہوگی
نہ جانے اس کی کیا بایستگی شائستگی ہوگی
اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہے ہو گے
نہ جانے تم نے کتنی کم غلط اردو لکھی ہوگی
یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے
یہ صنفِ نثر ہم نابالغوں کے فن کا حصہ ہے
کہا جاتاہے کہ آخری دنوں میں وہ مزاروں میں سکون کی تلاش میں رہے۔ دِلّی،کراچی، سیہون اور لاہور کے مزاروں کا طواف کرنا ان کے معمولات کا حصہ رہا۔پھرتنہائی کے باعث جون ایلیا کی حالت وقت کےساتھ خراب ہوتی چلی گئی اور طویل علالت کے بعد 8نومبر 2002ء کو کراچی میں آپ کا انتقال ہوگیا۔
جون ایلیا کی قبر پر لکھا ہے :
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں