ادب کو سرسبز و شاداب رکھنے اور وجوانوں میں ادبی ذوق پروان چڑھانے کی غرض سے ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے پاکستان کی 75 سالہ دور میں ادب کا مقام کے موضوع پر اردو مذاکرے کا اہتمام کیا جس کے پروڈیوسر محمد عارف اور میزبان اقبال قاضی تھے۔ مذاکرے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ زندگی کی پیچیدگیوں کے اظہار کو ادب کہتے ہیں‘ ادب زندگی کے تمام شعبہ جات کو ساتھ لے کر چلتا ہے‘ پہلے ادب کی گود میں صحافت پروان چڑھتی تھی مگر آج صحافت کی گود میں ادب پروان چڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دانش ور ہی قوم بناتے ہیں‘ سیاست دان قوم نہیں بناتے۔ جب تک ہم پاکستانی بیانیے کو نہیں اپنائیں گے ترقی نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے 75 سالہ دور میں ادب کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ناظم امتحانات حیدرآباد بورڈ ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب حیدرآباد میں ایک ادبی کہکشاں ہوا کرتی تھی۔ ہر اسکول و کالج میں طلبا و طالبات کو ادب کی خصوصی تربیت دیجاتی تھی‘ بیت بازی اور تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے جن سے طلباء و طالبات میں خود اعتمادی پیدا ہوتی تھی۔ اب حالات بدل گئے ہیں‘ اب ادب مختلف انداز میں کام کر رہا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ادب کی ترقی کے لیے کام کریں۔ کنیز فاطمہ نے کہا کہ موجودہ دور میں کتابوں کی جگہ موبائل فون آگئے ہیں لیکن جو لطف کتب بینی میں ہے وہ الیکٹرونک میڈیا میں نہیں ہم لوگ مطالعہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ جب سے ہمارے نقادوں نے کھری اور سچی تنقید سے ہاتھ اٹھایا ہے تب سے معیاری تخلیقات کم ہو گئی ہیں اب تنقید نگاری کے بجائے دوستی نبھائی جا رہی ہے۔ تنقید نگار کسی بھی فن پارے کی خرابیاں اجاگر نہیں کر رہے بلکہ وہ تخلیق کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جب تک ہم اس روش کو تبدیل نہیں کریں گے ادب کی ترویج و اشاعت نہیں ہو سکے گی۔ فیاض الحسن نے کہا کہ ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘ ادب برائے زندگی ہے۔ ہم نے 75 سال میں بہت کچھ سیکھا ہے اب ہم اپنے اشعار میں جدید لفظیات اور نئے نئے استعارے لا رہے ہیں‘ ہم الیکٹرونک میڈیا سے بھی فائدے حاصل کر رہے ہیں‘ ہماری تشبیر کا معیار اور طریقہ کار تبدیل ہو گیا ہے‘ ہم نے 75 سال میں ادب کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر میزبان تقریب ندا اقبال قاضی اور پروڈیوسر محمد عارف کی کاوشوں سے ادب کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔ مذاکرے کے بعد ڈاکٹر شاداب احسانی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ڈاکٹر مسرور احمد زئی‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ شاہدہ عروج نے اپنا کلام پیش کیا۔