ٹپکتی مضبوط چھت

456

“صفیہ جلدی سے کھانا لاؤ۔ بہت بھوک لگی ہے۔” منیر کام سے آتے ہی ہاتھ دھو کر چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
“لیکن آج تو گھر میں کچھ پکا ہی نہیں ہے۔” صفیہ جو اسے گھر میں داخل ہوتے دیکھ چکی تھی اداسی سے اس کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔
“کیوں؟”
“کل آپ کو آخری بچے چاولوں کے بھی ختم ہونے کا بتایا تھا۔” صفیہ کی بات پہ منیر کی ساری بھوک ہی ختم ہوگئی۔ “بچے کہاں ہیں؟ انہوں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہوگا؟” اس نے بےچینی سے بچوں کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی۔
“آج جمیلہ بھابھی کے گھر سے خیرات کی روٹی آئی تھی۔ وہ انہیں کھلا کر مدرسے بھیجا ہے۔” بچوں کی طرف سے کچھ مطمئن ہوکر وہ اٹھ کر باہر جانے لگا۔
“اب کہاں جارہے ہیں؟”
“گھر کے راشن پانی کے لیے کچھ بندوبست کرنے۔”
…٭…
“بھا کریم تم سے ایک کام تھا۔” تھوڑی دیر ادھر ادھر کے حال احوال کے بعد منیر نے ہچکچاتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔
“ہاں ہاں بول یار۔” کریم نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اس کی ہمت بڑھائی۔”مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ دراصل گھر میں راشن بالکل ختم ہوگیا ہے اور کام سے پیسے ملنے میں بھی ابھی کچھ وقت ہے۔ اگر دو تین ہزار مل جائیں تو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی۔”
“میرے ہوتے ہوئے تُو فکر کیوں کرتا ہے۔ یہ لے چار ہزار روپے۔” کریم نے ہنستے ہوئے اپنے بٹوے میں پڑے ہزار ہزار کے چار نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائے جن کو دیکھ کر منیر کی آنکھوں میں چمک آگئی۔
“یار تیری بڑی مہربانی۔ جیسے ہی مجھے کام کے پیسے ملے میں تمہیں یہ لوٹا دوں گا۔” پیسے ہاتھ میں آتے ہی اس کے اندر میں توانائی آگئی۔
“ٹھیک ہے۔ جیسے تمہاری مرضی۔” منیر کو خوش دیکھ کر کریم بھی خوش ہوا۔ “لیکن میں پھر بھی تمہیں وہی بات کہوں گا۔”
“کون سی بات؟” نوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے منیر نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
“اپنے سر سے اس ایمانداری کے بھوت کو اتار کر سیمنٹ بجری کے مال میں تھوڑی ہیر پھیر کرو۔ پھر دیکھو کیسے تمہارے مالی مسائل حل ہوتے ہیں۔” منیر کو کریم کی دوستی پہ مان تھا۔ اس پہ جب بھی کوئی مشکل گھڑی آتی یا اسے پیسوں کی تنگی ہوتی وہ اپنے اسی دوست کے پاس آتا تھا جہاں سے وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن ہر بار وہ اسے یہی راہ دکھاتا تھا جس سے وہ چڑتا تھا اور اس کے پاس آنے سے کتراتا تھا۔
“تھوڑی سی ہیر پھیر کرنے سے مالی مسائل تو حل ہوجائیں گے لیکن دل کے سکون اور اطمینان کا کیا ہوگا؟” منیر کی اس بات پہ کریم ہنس پڑا۔
“تم بھی پاگل ہو۔ آجکل دل کا سکون اور اطمینان ہے کہاں؟ تم اپنی ہی حالت دیکھو۔ ان مالی مسائل کی وجہ سے تمہارا دل اور ذہن پریشان اور بےچین ہے یا نہیں؟” کریم کی بات پہ وہ خاموش رہا۔
“میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے پیشے میں ایمانداری کا راگ الاپتے الاپتے تھوڑی سی بےایمانی سے آج اپنے مفلسی کے دور سے نکل کر آسودہ حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔” کریم کی بات پہ منیر کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔ اسے اللہ کی ذات اور اس کی رضا کی خاطر اپنائی ایمانداری سے ملنے والے صلے پہ مکمل بھروسہ تھا۔
“اگر تم کہو تو میں تمہیں ایسے ٹھیکیداروں سے ملواؤں جو مستری کو مہینوں میں تمام مالی مسائل سے نجات دلا دیتے ہیں۔”
“تمہارا مطلب ہے کہ میں اپنے اور اپنے بچوں کے آرام کے لیے دوسروں کو جانی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچاؤں؟”
“ارے یار ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں تقریباً ہر عمارت ایسے ہی مٹیریل سے تو بنی ہے۔ یہ اتنی بڑی بڑی بلڈنگز جو تم دیکھتے ہو یہ بھی اسی ناقص مٹیریل سے بنی ہیں لیکن دیکھو سوائے چند ایک کے سب ہی اتنے برسوں سے پوری شان سے کھڑی ہیں۔”
“نہیں بھا کریم۔ تم کچھ بھی کہو میرا دل مطمئن نہیں ہورہا۔ میں اپنے بچوں کے پیٹ میں ایسی روزی نہیں ڈالنا چاہتا۔” اس کی جیب میں ابھی کریم کے دیے پیسے موجود تھے اور وہ نمک حرامی نہیں کرنا چاہتا تھا سو کریم کو کوئی تلخ جواب دینے سے خود کو روکا۔
“اچھا چل۔ کوئی بات نہیں۔ تمہارا دل مطمئن نہیں تو چھوڑ اس بات کو۔” کریم نے ہمیشہ کی طرح اس کے گریز کو سمجھ کر ہنستے ہوئے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔
…٭…
“ایسے چھت کو کیا دیکھ رہے ہیں؟” ساتھ والی چارپائی پہ پانچ سالہ احمد کے ساتھ لیٹے منیر کو فکرمندی سے کمرے کی چھت کو دیکھتے پاکر صفیہ نے اس سے استفسار کیا۔ تو اس نے چھت سے نگاہیں ہٹا کر اپنے ساتھ ہر حال میں صبر و شکر سے رہنے والی اپنی پیاری بیوی کو دیکھا۔ “دیکھ رہا ہوں کہ یہ چھت اس دفعہ کی بارشیں سہار نہیں پائے گی۔ سو کچھ پیسے ہوجائیں تو سامان لے کر خود ہی اس کی مرمت کرلوں۔” منیر کی فکر پہ صفیہ ہنس پڑی۔
“ارے اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ اللہ کی مہربانی سے یہ چھت پچھلے چھ سالوں سے اسی حالت میں ہر موسم کو برداشت کرتے ہوئے ہمارے لیے آسرا اور سائبان بنی ہوئی ہے تو اب بھی اللہ اپنا کرم کرے گا۔” ہر حال میں اللہ پہ بھروسہ رکھنے والی بیوی کے حوصلہ دینے سے بھی اس کی پریشانی کم نہیں ہوئی۔
منیر پیشے کے اعتبار سے مستری تھا جس کے سر پہ دوسروں کے گھروں کی بنیادیں اور چھتیں مضبوط بنانے کی دُھن کے ساتھ ساتھ کھلے صحن کے بیچوں بیچ بنے اپنے گھر کے اکلوتے کمرے کی روز بروز نیچے بیٹھتی چھت کی بھی پریشانی سوار تھی۔ اپنے پیشے میں دیانتداری کے سبب اس کو اپنے کام سے ملے پیسے گھر کے راشن پانی اور قرضہ اتارنے میں ہی ختم ہوجاتے تھے اور چھت ویسے کی ویسے ہی رہ جاتی تھی۔”نہیں صفیہ۔ مجھے اس دفعہ لگ رہا ہے کہ بارشوں میں یہ چھت ضرور بیٹھ جائے گی۔ میں روز کام کے لیے گھر سے جاتا ہوں تو مجھے تمہاری اور بچوں کی فکر لگی رہتی ہے۔” منیر نے ہر فکر معاش سے بےخبر ساتھ سوئے احمد اور صفیہ کے ساتھ سوئی ہانیہ کو پیار بھری فکرمندی سے دیکھا تو صفیہ بھی معصوم سی بےخبر نیند میں سوئے اپنے معصوم بچوں کو دیکھتے ہوئے بےساختہ مسکرا پڑی۔
“صحیح ہی کہتے ہیں درزی کے اپنے کپڑے سلے ہوئے نہیں ہوتے۔ موچی کے اپنے جوتے ٹوٹے ہوتے ہیں اور مستری کے اپنے مکانات کچے اور چھتیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ سچی سے اب یہ ایمانداری سزا بنتی جارہی ہے۔” منیر کا لہجہ تلخ ہوگیا۔ منیر کے لہجے کی تلخی اور آخری بات میں کچھ غیر معمولی پن محسوس کرکے صفیہ چونک پڑی۔
“نہیں منیر۔ ایسی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہمارا امتحان ہے۔”
صفیہ کی بات پہ وہ خاموش ہوگیا لیکن اس کی سوچ میں بدلاؤ آگیا تھا۔ اللہ کی ذات پہ اس کا یقین کچھ ڈگمگایا تھا۔
…٭…
“بھا کریم مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی۔” جھجھکتا ہوا منیر پھر سے کریم کے سامنے کھڑا تھا۔
“ہاں بول یار۔”
“گھر کی چھت بہت کمزور ہوگئی ہے۔” وہ نہیں جانتا تھا کہ کمزور گھر کی چھت نہیں بلکہ اس کا ایمان ہوگیا تھا۔
“گھر کی چھت کے لیے پیسے چاہییں؟ بول کتنے چاہییں؟”
“نہیں یار پیسے نہیں چاہییں۔” وہ اپنا اصل مطالبہ بتاتے ہوئے شش و پنج میں مبتلا تھا۔”وہ دراصل تم نے مجھ کو کسی ایسے ٹھیکیدار سے ملوانے کی بات کی تھی جو مستری کو مہینوں میں مالی مسائل سے نجات دلادیتا ہے۔” نظریں جھکائے منیر کے مطالبے نے کریم کو حیران کردیا۔ “تو پھر؟”
“میں ایسے ٹھیکیدار سے ملنے کے لیے تیار ہوں۔” منیر نے اپنے بےچین ہوتے دل اور ضمیر پہ اپنے نفس کا پاؤں رکھ کر اپنے گھر کی مضبوط چھت بنانے کے لیے دوسرے بہت سارے لوگوں کے گھروں کی چھتوں کو کمزور بنانے پہ کریم کو اپنے راضی ہونے کا عندیہ دیا۔
“اوئے شاباشے۔ یہ ہوئی نا عقلمندوں والی بات۔” کریم نے خوشی سے اس بدلے منیر کا جوش سے کندھا تھپکایا۔ پھر وہ اسے اپنے ایک ٹھیکیدار دوست کے پاس لے گیا جو اپنے ہاتھ پاؤں بچا کر اپنے زیر سایہ کام کرتے مستری اور مزدوروں سے سیمنٹ، بجری، لوہے وغیرہ میں حسب منشاء ملاوٹ کروا کر اپنا کام بہ احسن و خوبی کروانے میں مہارت رکھتا تھا۔ “یعنی اسے ساری گڑبڑی الف تا یے سکھانی پڑے گی۔” کریم کے زبانی منیر کی داستان سن کر ٹھیکیدار نے گھبرائے ہوئے منیر کو بغور دیکھا۔”نہ صرف سکھانی پڑے گی بلکہ گاہے بگاہے پیٹھ بھی تھپکانی پڑے گی۔” کریم نے ٹھیکیدار کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ ان کے بیچ بیٹھا منیر ناسمجھی سے ان کی باتیں سمجھتا رہا۔ اس کے بعد کریم، منیر کے اندر کے خوف اور بےچینی کو مطمئن کرنے اور اس کے سوتے جاگتے ضمیر کو بار بار نیند کی دوائی دینے کے لیے چند دن مسلسل کام پہ اس کے ساتھ ہی رہا اور ٹھیکیدار نے بھی اپنا ایک آدمی بطور مزدور اس پہ نظر رکھنے کے لیے اس کے ساتھ لگا رکھا تھا۔
کچھ دن بعد ہی ٹھیکیدار کی طرف سے اس کے ہاتھ میں آئی رقم نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کردی اور اس نے حیران ہوکر ساتھ کھڑے کریم کو دیکھا تو کریم نے ہنستے ہوئے ان نوٹوں کو اس کے کام کے عوض حلال کمائی کہہ کر اس کی جیب میں ڈال دیے اور منیر خوشی خوشی چھت کے ساتھ ساتھ پورے گھر کی مرمت از سر نو کروانے کے خواب آنکھوں میں سجا کر گھر کی طرف چلا۔ راستے میں اس نے بیوی اور بچوں کے لیے پھل بھی خریدلیا۔
جب وہ گھر پہنچا تو گھر کے سامنے لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا۔ “اوئے منیرے جلدی آ۔” منیر کو آتے دیکھ کر کسی نے ہانک لگائی۔ وہ دوڑتا ہوا حواس باختہ سا لوگوں کو ہٹاتا گھر کے اندر داخل ہوا۔ سامنے ہی گھر کے اکلوتے کمرے کو زمین بوس دیکھ کر اس کی سانس سینے میں اٹک گئی۔ لیکن ذرا فاصلے پہ ہی محلے کی عورتوں کے ساتھ سہمے گھبرائے ہوئے صفیہ، احمد اور ہانیہ کو کھڑے دیکھ کر اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ پر اندر سے اسے انجانی سے ضربیں لگنے لگیں۔
منیر کو دیکھ کر وہ تینوں روتے ہوئے اس کی طرف بھاگے آئے۔ احمد اور ہانیہ منیر سے چمٹ گئے۔ “منیر! اللہ نے بڑا کرم کیا ہے۔ جس وقت کمرے کی چھت گری اس وقت بچے تو صحن میں کھیل رہے تھے لیکن میں اسی وقت باروچی خانے میں جانے کے لیے کمرے سے نکلی تھی۔” گھر کے واحد کمرے سے ہاتھ دھونے کے بعد کھلے صحن میں آجانے کے باوجود زندگی کے ہر پہلو سے اللہ کی رحمت ڈھونڈ نکالنے والی صفیہ نے روتے ہوئے اپنے اتنے بڑے نقصان پہ بھی اللہ کا کرم ڈھونڈ نکالا۔ جبکہ منیر اپنے ذہن پہ لگتی انجانی ضربوں سے ماؤف ہوتے ذہن کے سبب خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتا صرف یہ سوچ رہا تھا کہ
جو چھت اتنی خستہ حالت کے باوجود اتنے سال نہیں گری وہ یوں اچانک سے کیسے گرگئی؟ منیر کو نوٹوں سے بھری جیب بہت وزنی محسوس ہونے لگی۔
دو دن وہ کام پہ نہیں جاسکا تھا۔ کریم، ٹھیکیدار اور مزدور اس کی دلجوئی اور تسلی کے لیے آئے تھے اور اپنے مکمل ساتھ کا یقین بھی دلا گئے تھے۔
دو دن سے وہ بہت الجھا ہوا پھر رہا تھا۔ کوئی چیز اسے اندر سے چیر رہی تھی۔ جس کا تدارک کرنے وہ آج مولوی صاحب کے پاس آیا تھا۔ “آؤ منیر۔ میں ابھی تمہاری طرف ہی آنے والا تھا۔” سب نمازیوں کے جانے کے بعد مسجد کے خالی صحن میں بیٹھے مولوی صاحب نے منیر کا خوشدلی سے استقبال کیا۔ منیر ان کے سامنے سر جھکا کر احترام سے بیٹھ گیا۔
“کیا بات ہے منیر؟ پریشان ہو؟” منیر کو کوئی بات کرنے کے لیے الفاظ سوچتے دیکھ کر مولوی صاحب نے اس کی مشکل آسان کی۔
“جی مولوی صاحب۔” اپنی بات کہنے کے لیے اس کی گردن نہیں اٹھ رہی تھی۔
“مولوی صاحب یہ ایمانداری کیا چیز ہوتی ہے؟”
“ہمیشہ رہنے والی زندگی کی عافیت کے لیے اس فانی زندگی میں اللہ کی طرف سے دی گئی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش۔”
“اور بےایمانی؟”
“اللہ کی رحمت سے ناامیدی اور اپنے نفس کی پیروی کرنا۔” مولوی صاحب نے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا۔ منیر کے چہرے پہ ابھی بھی الجھن دیکھ کر مولوی صاحب نے مزید وضاحت کی۔
“دیکھو منیر پہلی بات تو بےایمان کے دل کے کسی کونے میں اپنے پکڑے جانے کا ڈر اور اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے۔” مولوی صاحب کی بات پہ منیر نے اپنی چوری پکڑی جانے کے اندیشے سے گھبرا کر مولوی صاحب کو دیکھا تو مولوی صاحب بےساختہ مسکرا پڑے کیونکہ منیر کے چہرے پہ پھیلی کشمکش اور اس کے سوال سے وہ منیر کی اندرونی کیفیت کا کچھ اندازہ لگا چکے تھے۔ “جبکہ ایماندار کا دل ایسے ڈر اور خدشے سے پاک ہوتا ہے۔ اس کا دل اور ضمیر مطمئن رہتا ہے۔
دوسری بات بےایمانی کا راستہ ایسا راستہ ہے جو ہمیں بظاہر پرکشش اور آسودہ حالی کا لگتا ہے لیکن دراصل یہ راستہ پرخطر اور کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کے سبب ہمارے اندر بہت سی اخلاقی اور سماجی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو کہ ہمیں اور ہمارے اردگرد رہنے والوں کو بظاہر نظر نہیں آتی ہیں اور نہ ہی محسوس ہوتی ہیں لیکن وہ نامحسوس انداز میں ہمارے اندر اور ہمارے ماحول میں سرایت کرتی جاتی ہیں اور خاموشی سے ہماری نسلوں تک کی جڑوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ پھر جب اچانک سے وہ ظاہر ہوتی ہیں تو ہم گھبرا اور بوکھلا جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت تک ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا کیونکہ بےایمانی کی صورت ہم اپنا آپ انہیں دان کرچکے ہوتے ہیں۔جبکہ ایمانداری کا راستہ بظاہر دشوار گزار اور کانٹوں سے بھرا لگتا ہے لیکن درحقیقت یہی راستہ ہمیں آسودگی اور کامیابی کی منزل کی طرف لے جاتا ہے۔ ایماندار کی زندگی تنگ اور مشکلات اور مسائل سے بھری ہوتی ہے۔ کئی ایماندار لوگوں کی زندگی ان کے لیے وبال بھی بن جاتی ہے لیکن ان کے اوپر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔ وہ لوگ اللہ کی آزمائش میں ہوتے ہیں اور اللہ صرف اپنے خاص بندوں کو ہی آزماتا ہے۔ اللہ کی کسی بھی آزمائش میں مبتلا لوگ اس بات کو دل سے محسوس کریں تو وہ آزمائش انہیں کبھی تکلیف دہ نہ لگے بلکہ پیاری لگنے لگے۔”
“لیکن کچھ لوگ اس ایمانداری سے گھبرا بھی تو جاتے ہیں؟” منیر کے ذہن سے۔ گرہ ابھی مکمل نہیں کھلی تھی۔
“ہاں۔” مولوی صاحب پرسکون لہجے میں بولے۔ “ایماندار لوگوں پہ اللہ کی خاص مہربانی یہ بھی ہوتی ہے کہ جب کبھی وہ اپنے حالات سے عاجز ہوکر آسودہ حال دکھائی دیتی بےایمانی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو اللہ انہیں چھوٹے نقصان کے ذریعے بےایمانی کے سبب ملنے والے بڑے نقصان سے بچا کر انہیں اپنے راستے پہ دوبارہ آنے کا موقع دیتا ہے۔ اگر وہ دل سے سیدھی راہ کے متمنی ہوتے ہیں تو اس چھوٹے نقصان سے ہی سنبھل جاتے ہیں۔”
تو کیا اتنے سال اتنی خستہ حالت کے باوجود نہ گرنے والی چھت کے اچانک گرنے کا سبب اللہ کی اس کے اوپر یہ خاص مہربانی تھی؟ مولوی صاحب نے تحمل اور سبھاؤ سے اس کے اندر کی الجھنوں کو تو سلجھا دیا تھا لیکن مولوی صاحب کی سچی باتوں نے اس کے اوپر گھڑوں پانی بھی ڈال دیا تھا۔ اللہ کے خوف اور شرمندگی سے اس کے ہر مسام سے پسینہ بہنے لگا۔ مولوی صاحب کی باتوں کے دوران اس کا اٹھا سر پھر سے جھک گیا تھا۔مولوی صاحب نے منیر کی ظاہری کیفیت سے اس کی اندرونی جنگ سے واقف ہوجانے کے باوجود اس سے کوئی بازپرس نہیں کی بلکہ دل میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگے کہ ان کے دیے علم سے شاید کوئی سیدھی راہ پہ آنے والا ہے۔ پھر کچھ یاد آجانے پہ مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔ “منیر تم نے اچھا کیا کہ خود ہی آگئے ورنہ میں بھی تمہاری طرف آنے والا تھا۔”
منیر نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا تو وہ ہلکی آواز میں ہنس پڑے۔ “میرے ایک جاننے والے ہیں۔ الحمد للہ اللہ نے انہیں بہت نواز رکھا ہے۔ وہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے چار منزلہ ایک گھر بنوانا چاہتے ہیں۔ جس کے لیے اسے ایک سچے اور ایماندار مستری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مجھ سے مدد چاہی تو میرے ذہن میں تمہارا خیال آگیا۔ وہ تمہیں تمہاری ایمانداری کا اچھا معاوضہ دے گا۔”
“اللہ تیری ہم پہ کتنی خاص رحمت ہے۔” احساس ندامت اور احساس تشکر سے منیر زاروزار رونے لگا۔

حصہ