میں بچپن سے سنتی آرہی ہوں کہ لکھاری ہو یا شاعر بڑے حساس دل کے مالک ہوتے ہیں آس پاس مثبت یا منفی صورت حال کو جلدی نہ صرف محسوس کرتے ہیں اور ان کا قلم متحرک ہو جاتا ہے لہٰذا میں ناقص علم بھی اسے موقعوں پر ضرور کچھ نہ کچھ اپنے قارئین سے شیئر کرتی رہتی ہوں… آج بھی ٹی وی کے ایک مارننگ پروگرام کی صرف پانچ منٹ کی جھلکی دیکھی تو دل بڑے بے چین ہو گیا کہ یہ ہمارے آس پاس کیا کچھ ہو رہا ہے… ویسے تو ندا یاسر کے مارننگ پروگرام کے بارے میں سنتی رہتی تھی کہ بالکل بے کار پروگرام ہے جس میں صرف فیشن، اور میک اپ وغیرہ کے بارے میں زیادہ گفتگو ہوتی ہے لڑکے لڑکیوں کا جگمٹا اور لغوبیکار مقابلے اور گفتگو جو بے معنی ہوتی ہے صبح کے وقت بے شک گھریلو خواتین جس میں الحمدللہ پڑھی لکھی خواتین کی بھی اکثریت ہوتی ہے گھر کے کام کاج کے ساتھ چند گھڑیاں کوئی مفید اور کار آمد اور دلچسپ پروگرام دیکھنا چاہتی ہیں کیا اس نوعیت کے پروگرام خواتین کی پسند کا باعث بن سکتے ہیں؟ میرے پوچھنے پر خواتین کی اکثریت نے اس سلسلے میں ’’نفی‘‘ میں گردن ہلا دی۔
خیر بات ہو رہی تھی اس دن کے پروگرام کی جس کی جھلکی میری نظروں سے گزری دس بارہ خواتین اور چھ سات مرد میوزک پر بے ہنگا بہودہ ڈانس کررہے تھے، شور ہنگامہ اور یہ بہودہ ڈانس گانے مردوں عورتوں کے مخلوط قہقہے… کیا سکھایا جا رہا ہے اس قوم کے نوجوانوں کو؟ کہنے والے تو میری بات کی مخالفت بھی کر سکتے ہیں کہ کیا ایسے مارننگ پروگراموں میں ہم صرف درس قرآن دیں؟ جی نہیں ہم ایسا نہیں کہہ رہے ہیں لیکن اسلامی حدود سے روگردانی کی کہیں گنجائش نہیں پھر اس پروگرام کی اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ سوشل میڈیا پر وائرل ایک لڑکی کے بیہودہ ڈانس سے اس قدر یہ چینل متاثر ہوا کہ اسے خصوصی طور پر نہ صرف مدعو کیا گیا بلکہ اسے خوب سراہایا گیا کہ جیسے اس نے انسانیت کی خدمت کے لیے کوئی اہم کارنامہ انجام دے دیا ہو ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کامیابی پر اس کے سر پر تاج پہنایا جائے اس کی اس قدر شاندار طریقے سے پزیرائی دیکھ کر ہزاروں جوانوں کے منہ میں پانی آگیا ہو گیا کہ ہم بھی جلد کوئی اس قسم کا کارنامہ انجام دے کر شہرت کی بلندیوں کو چھو لیں۔ اور یقیناً بہت سو نے ہاتھ پائوں بھی مارنے شروع کر دیے ہوں گے… اور اس ’’لڑکی‘‘ نے آج ان کی رول ماڈل کی حیثیت حاصل کر لی ہو گی بلکہ بات یہیں تک نہیں رکے گی آنے والے وقت میں اس لڑکی کے اس بے باکانہ بیہودہ ڈانس اور پرفارمس سے متاثر ہو کر اسے کئی ڈارموں وغیرہ میں اور اشتہارات کی زینت بھی بنایا جائے گا کیونکہ آج کل اشتہارات وغیرہ میں بھی ٹھمکوں وغیرہ کی بڑی اہمیت سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے اس لڑکی کا ’’مستقبل روشن‘‘ نظر آرہا ہے اس کے دیکھا دیکھی ہزاروں یہ راستہ اپنانے میں فخر محسوس کریں گے کہ پیسہ بھی ہاتھ میں اور شہرت الگ… کہنے والوں سے یہ سن کر افسوس ہوا کہ پندرہ پندرہ بیس بیس سال تعلیم میں سر کھپانے سے بہتر ہے یہ ’’شارٹ کٹ‘‘ کامیابی حاصل کرنے کے لیے… پھر اس عریانی لغو سرگرمیوں کی جھلک آج ہمیں اپنے چاروں طرف معاشرے نظر آرہیں ہیں شرقاء کے گھرانوں میں بھی شادی بیاہ کے مواقعوں پر ایسی مخلوط پارٹیاں جس میں ڈانس ناچ گانے عام ہو گئے ہیں اور اسے ’’اسٹیٹس سنبل‘‘ سمجھا جا رہا ہے میں سب کی بات نہیں کررہی لیکن ایسا اب شروع ہو گیا ہے ایک ’’مڈل کلاس شریف‘‘ فیملی کی شادی میں شرکت کا موقع ملا باقاعدہ اسٹیج بنا ہوا تھا سامعین اور حاضرین میں مرد و خواتین شامل تھے صرف رشتے دار ہی لیکن آس پڑوس والے، دوست و احباب سب شامل تھے اور ان کے سامنے دلہا کی بہنیں کزن بیہودہ انڈین گانے پر ناچ رہی تھیں جیسے ’’مجرا‘‘ ہو اور سامنے بیٹھے باپ بھائی سب داد دے رہے تھے مجھے دیکھ کر حیرانی کے ساتھ بڑا دکھ ہوا کہ عورت کو اس طرح بیچ چوراہے میں لانے والے اور نچوانے والے اپنے بھائی باپ شوہر اور بیٹے ہی ہیں جنہیں میرے دین نے عورت کے لیے مضبوط سائبان بنایا ہے… صرف اس بیہودگی والے مناظر یہیں تک محدود نہیں بلکہ اب تو تعلیمی اداروں میں بھی ایسے مناظر نظر آتے ہیں اس طرح مخلوط تعلیمی اداروں میں اس قسم کے پروگراموں کی ترویج سے آئے دن نئے نئے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں… لڑکے لڑکیوں کی دوستی محبت کی داستانیں وغیرہ کسی سے چھپی ڈھکی نہیں اور شرفاء اپنی اولاد کو ان تعلیمی اداروں میں بھیجتےہوئے ڈرنے لگے ہیں میں نے پچھلے دنوں ایک معروف عالم دین کی بات سنی کہ اگر آپ کی ان چند یونیورسٹیوں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے وہاں، تو آپ اپنی بیٹیوں کو ان اداروں میں کبھی نہ بھیجیں۔بحیثیت ایک اسلامی ریاست کے یہاں کے حکمرانوں اور صاحب اقدار طبقے کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے پیمرا کو مثبت اقدامات کے ذریعے اصول و ضوابط مرتب کرنے چاہیے کہ آپ سے پروگراموں اور نشریات کی کیا حدود ہونی چاہیے۔
اے آر وائے (ARY)کے سلمان صاحب جو ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں خصوصی طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے حدود اسلامی کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین اور حضرات (ناظرین) کی دلچسپی کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کار آمد نشریات پیش کی جائے کیا ایسا ممکن نہیں ہو سکتا یقیناً ایسا ممکن ہے۔ بے لگام گھوڑے کو چھوڑ دیا جائے تو وہ سرپٹ دوڑے گا تو آگے آنے والی کھائی میں گر سکتا ہے اسی طرح ہر ادارے کی لگام متعلقہ ذمہ داران کے ہاتھ میں ہونی چاہیے کہ ’’عملہ ‘‘ حدود کو پار نہ کر سکے…
میرے نبی کریمؐ کا ان بیہودہ ناچ گانوں اور موسیقی کے بارے میں ارشاد ہے ’’کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کو دوسرے نام سے موسوم کریں گے ان کے سروں پر گانے والی عورتیں آلات موسیقی کے ساتھ گیت گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا (سنن ابن ماجہ)
استغفراللہ اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر ان بے حیائی اور بیہودہ سرگرمیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کی سزا کیا ہو گی لیکن افسوس مسلمان ان واضح احادیث کو سن کر بھی خوف خدا نہیں کر رہے ہیں کیونکہ یہ دنیا تو چند روزہ ہے اس آخرت کے ابدی گھر کے سکون و آرام کا بندے کو احساس کرتے ہوئے اپنی ذات کو ہراس برائی سے بچانا چاہیے جس سے ان کا رب ناراض ہو…
اللہ رب العزت ہمیں حدود اسلامی کے دائرہ میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)