خدا سب کا ایک ہے

389

پیرس میں ابراہیم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ مگر وہ بہت ایماندار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔ اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔
رستے میں آرام کرنے کے لیے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہیم کادروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہیم ان کی مناسب خاطرداری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھوکر جب ابراہیم کے گھروالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے توکھانے سے پہلے ابراہیم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لیے شکریہ ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔
مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑکر ابراہیم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینابند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اورایک وقت کا کھانا بچاکر مسافروں کے لیے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہیم کوبہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایماندار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچاہے۔
ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اورکمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑرہے تھے۔ اس نے ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹایا ابراہیم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جاکر بیٹھا دیا۔ کچھ دیرآرام کرکے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہیم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق ابراہیم نے دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہوکر دہرایا۔ابراہیم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے؟ تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی‘‘
بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘
اتناسن کر ابراہیم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نےکہا۔
’’اگرتم ہمارے خدا میں یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘
ابراہیم نے اسے کھانا دیئے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کرلیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہوکر کہا۔ ابراہیم یہ تم نے کیا کیا ؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پربھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے صرف اس لیے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اورسب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘
یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب توتم سمجھ گئے ہوگے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘
یہ سن کر ابراہیم کو بہت تعجب ہوا ۔کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

حصہ