چڑیوں کے پنکھ

290

ایک بادشاہ تھا ۔اس کی سات لڑکیا ں تھیں۔ وہ ان ساتوں سے بیحد محبّت کرتا تھا اور ان کے ہر آرام کا خیال رکھتا تھا۔
ایک بارجب دسترخوان سجا ہوا تھا وہ سب لوگ ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے بادشاہ نے ا پنی بیٹیوں سے ایک سوال پوچھ لیا۔ کہ تم لوگ مجھے کتنا چاہتی ہو۔
بڑی شہزادی نے کہا’’ با با! میں آپ کو گلاب جامن کی طرح چا ہتی ہوں‘‘۔ بادشاہ نے خوش ہوکر اس کو چار گاؤں دے دیئے۔
دوسری نے کہا’’ میں آپ کو بر فی کی طرح چاہتی ہوں‘‘۔ بادشاہ نے اسُ کو کافی بڑا علاقہ بخش دیا۔
تیسری لڑکی نے کہا’’ میں آپ کو امر تی کی طرح چاہتی ہوں۔۔۔ اس کو بھی بادشاہ نے بہت زمین جائیداد دے دی۔
اسی طرح وہ سب سے پوچھتا گیا اور سب کو مال ودولت ملتی رہی۔ ساتویں لڑکی سے جب بادشاہ نے پوچھا بیٹی تم مجھے کتنا چاہتی ہو تو اس نے بہت پیار سے کہا۔
’’ بابا میں آپ کو نمک کے برا بر چاہتی ہوں۔ یہ سن کر بادشاہ کو جلال آ گیا‘۔ کہنے لگے ’’سب مجھے اتنا چاہتے ہیں تم نمک کے برا بر؟‘‘ وہ بہت نا راض ہوئے اور چھوٹی بیٹی کو محل سے نکال دیا اور کہا اب کبھی یہاں قدم نہ رکھنا۔
وہ جنگل کی طرف چلی گئی اور پتوں اور لکڑیوں کو ملا کر ایک جھوپڑی بناکر وہاں رہنے لگی۔ بھوک لگتی تو پھل کھا لیتی سوکھے پتوں کا بستر بنا کر سو جاتی۔ ایک دن جب وہ سوکر اٹھی تو دیکھا کہ رنگ برنگی چڑیوں کے پر ہر طرف بکھرے پڑے ہیں اس نے ان پروں کو جمع کیا اور ایک چھوٹی سی پنکھیا بنالی۔ (چھوٹا پنکھا جو ہاتھ سے جھل سکتے ہیں ) اور گرمی میں اسی پنکھیا سے ہوا کر لیتی تھی پھر دوسرے دن اسکو اور پر مل گئے اس نے بہت سارے پر اکٹھا کیئے اور کئی پنکھیا بنا لیں اور جنگل کے کناری سڑک کے پاس جاکر بیٹھ گئی اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا۔ لوگ آتے گئے اور پنکھیا ں خرید تے گئے اتنی خوب صورت پنکھا انھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تو بھیڑ سی لگی رہتی۔
ایک بار ایک شہزادے کا ادھر سے گزر ہوا اس نے اتنے خوبصورت پنکھے کبھی نہیں دیکھے تھے سارے خرید لیئے پھر شہزادی سے پوچھا تم کون ہو۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اس کے خوبصورت ہاتھ بتا رہے تھے کہ اس نے کبھی کام نہیں کیا تھا پنکھیا بنا نے میں اس کی انگلیاں زخمی تھیں۔
شہزادہ اس کے پیچھے جنگل آ گیا اور جب اس کو پتا چلا کی وہ شہزادی ہے اور سزا کاٹ رہی ہے تو بہت غمزدہ ہوا۔
وہ اپنی سلطنت پر واپس گیا اور والدین سے سارا ماجرا کہہ سنا یا۔ ان لوگوں کو بھی دکھ ہوا اور وہ اپنے بیٹے کی بارات جنگل لے کر آ گئے۔ دونوں کی شادی ہو گئی مگر شہزادی اپنے والد کو بہت یاد کر تی تھی وہ خوش نہیں رہتی تھی۔
ایک دن اس نے شہزادے سے کہا کہ وہ اپنے والدین کی دعوت کر نا چاہتی ہے اور ان سے ملنا چاہتی ہے۔
شہزادے نے زبردست دعوت کا انتظام کیا اور بادشاہ کو دعوت دی۔
شہزادی نے کہا سارا انتظام آپ دیکھئے مگر اپنے والدین اور بہنوں کے لیئے کھا نا میں خود تیار کروں گی۔ سارے مہمان آ گئے کئی دستر خوان ایک ساتھ لگے اور بادشاہ اور شہزادیوں کے لیئے اندر انتظام کیا گیا۔ وہ جب کھا نا کھانے بیٹھے تو ان کی بیٹی سامنے آکر بیٹھ گئی۔ اس نے نقاب پہن رکھا تھا۔ جب بادشاہ نے پہلا نوالہ لیا تو کھانے میں نمک نہیں تھا۔ دوسری ڈش نکالی۔۔۔ وہ بھی بغیر نمک کے تھی تب ان کو بہت غصّہ آیا کہ مجھے بلا کر یوں بغیر نمک کا کھا نا کھلا یا گیا۔ تب چھوٹی شہزادی نے اپنی نقاب ہٹائی اور کہا۔
’’با با۔۔۔ میں آپ کو نمک کے برا بر چاہتی ہوں۔۔۔ یہی کہا تھا میں نے۔ نمک کے بغیر کسی چیز میں لذّت نہیں ہوتی۔‘‘
بادشاہ چونک اٹھا۔۔۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور اسُ کی آنکھیں بھر آئیں۔ بیٹی سے معافی مانگی تو شہزادی نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں بابا۔۔۔ اللہ تو سب کا ہے۔ آپ پر یشان نہ ہویئے میں اب بہت خوش رہتی ہوں۔‘‘ بہنوں نے بھی معافی مانگی اور گلے لگایا۔۔۔ اور شہزادی نے سب کو کھلے دل سے معاف کر دیا۔ مگر ان سب کو احساس دلا دیا کہ وہ غلطی پر تھے۔

حصہ