عارف الحق عارفؔ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں صاف ستھری اور اجلی صحافت کے نقیب رہے ہیں۔ آپ صحافت کے استاد ہیں اور آپ کی صحافتی خدمات کا دائرہ وسیع رہا ہے۔ آپ صحافت اور سیاست کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔کمال کی یادداشت رکھتے ہیں اور چیزوں کو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔
آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر سے اسلام آباد، ملتان، بہاول پور، لاہور، جہلم، گوجرانوالہ اور پھر لاہور سے کراچی پہنچے اور کراچی پریس کلب میں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد ہوئی جس میں انہوں نے ابتدائی زندگی سے صحافتی زندگی تک کے کئی اہم واقعات تفصیل سے بیان کیے جس پر ایک مکمل کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔
عارف صاحب 83 سال کی عمر میں بھی خاصے متحرک ہیں اور پوری دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر ایک نوجوان کی طرح کررہے ہیں۔ کبھی بوسنیا، کبھی البانیا، مونٹی نیگرو، کبھی کوسووا، کبھی سربیا، کبھی ترکی، کبھی مکہ، مدینہ اور کبھی دبئی میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والے صحافی دوست معوذ صدیقی تو انہیں آج کا ابنِ بطوطہ کہتے ہیں۔ ’’وائس آف امریکا‘‘ کے معروف صحافی اور براڈ کاسٹر اصفر امام کہتے ہیں کہ ان کے پاؤں میں پہیّے نہیں جمبو جیٹ کا انجن لگا ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ عارف صاحب کے شہر کراچی میں ابتدائی دن خاصے مشکل تھے، اُس دور میں انہوں نے خاصی مشکلات بھی اٹھائیں، لیکن اپنی محنت، لگن اور خودداری کے ساتھ اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کرتے رہے اور آج زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کررہے ہیں۔
آپ کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر کے ایسے علاقے سے ہے کہ جس کے پہاڑ اور گائوں کا ایک تہائی حصہ اب مقبوضہ کشمیر میں شامل ہے اور لائن آف کنٹرول سے کوئی ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ وادی نباہ کے مشرق میں بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان ’’پیر بڈیسر‘‘ کے دامن میں ’’مہل‘‘ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ آپ اسی گائوں میں1940ء میں پیدا ہوئے۔
عارف الحق عارف بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک غریب مگر مذہبی روایات کے حامل خاندان میں پیدا ہوئے، جہاں ان کا نام شروع میں ’’محمد شریف‘‘ رکھا گیا۔ پھر جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ایک بزرگ عالمِ دین حکیم نقشبند خان نے ان کا نام عارف الحق رکھا اور میٹرک کا امتحانی فارم بھیجتے وقت اُس وقت کے ہیڈ ماسٹر حاجی الف دین نے عارف کا مزید لاحقہ لگاکر عارف الحق عارف کردیا۔
تقسیمِ ہند کے وقت صورتِ حال خراب ہوئی تو ان کا علاقہ بھی خاصا متاثر ہوا تھا، اور پھرجب مشکلات میں بہت اضافہ ہوا اور زندگی تنگ ہوگئی تو آپ کے خاندان کو بھی ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت کے اس مرحلے میں آپ اور آپ کے خاندان کے لیے ٹھٹھرا دینے والی سردی اور انتہائی سخت حالات میں صرف اللہ کا سہارا تھا۔ آپ کے خاندان کو گھنے جنگلوں اور اونچے اونچے پہاڑوں سے گزرنا پڑا۔ یہ وقت خاصا سخت تھا، لیکن گزارنا پڑا۔ عارف صاحب بتاتے ہیں ’’دورانِ سفر کی صعوبتوں کے ساتھ بھارتی فوج اور ائرفورس کے حملوں کا بھی خوف دامن گیر تھا۔ لیکن کسی نہ کسی طرح تقریباً ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں آپ کا خاندان میرپور پہنچ گیا‘‘۔ آپ نے بتایا کہ پاکستان پہنچنے کے بعد چک جمال ضلع جہلم میں اقوام متحدہ کے مہاجر کیمپ کے ایک اسکول میں 1951ء سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، پھر ایک اور ہجرت 1952ء میں آزاد کشمیر کے موجودہ ضلع کوٹلی کے شہر کھوئی رٹہ کے نواحی گائوں ڈھیری صاحبزادیاں میں ہوئی اور خاندان نے وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
عارف صاحب نے اپنے بچپن کے متعلق بتایا کہ ’’ہمیں یاد ہے پانچویں جماعت تک ہمارے پاس پہننے کے لیے جوتے نہیں تھے۔ مسلسل ننگے پائوں چلتے دیکھ کر والد کس قدر رنجیدہ ہوتے تھے۔ ابا کے ایک دوست حسن محمد جو مرچنٹ نیوی کے جہاز پر کام کرتے تھے ایک بار چھٹیوں پر گائوں آئے تو والد صاحب اُن سے جوتے کا ایک پرانا جوڑا لائے۔اُس دن ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ یہ جوتا اتفاق سے ہمارے ناپ کا تھا اور ہم نے وہی جوتا پہنے رکھا۔ اپنے والدین کی غربت کا بھی احساس تھا اسی لیے محنت مشقت کرکے کچھ نہ کچھ کمانے کی تگ و دو کرتے رہتے تھے۔ ایک بار والد کو یہ خبر سنائی کہ ہم نے آپ کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے کتابوں کی جلد سازی کا کام شروع کردیا ہے، اب آپ کو ہماری فیس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس پر وہ کس قدر خوش ہوئے تھے! ان کی آنکھوں میں موتی کی طرح چمکنے والے آنسو آج بھی یاد ہیں۔‘‘
عارف الحق عارف کا باقاعدہ معاشی سفر کراچی سے شروع ہوا۔ آپ نے ابتدا میں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں معمولی ملازمت کے ساتھ تعلیمی سفر شروع کیا اور اس دوران کچھ وقت پرنٹنگ کا کام بھی کیا۔ ایک دور میں نوکری اور دیگر مسائل کا سامنا بھی رہا۔ اس دوران فرائیڈے اسپیشل کے مدیر یحییٰ بن زکریا کے والد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بہت حوصلہ دیا اور ایک انتہائی مشکل وقت میںکہ جب والد صاحب بھی اچانک کراچی آگئے اور میرے پاس رہنے کی اپنے لیے بھی مناسب جگہ نہیں تھی اور جیب میں بھی کچھ نہیں تھا تو انہوں نے شکل پر پریشانی اور اضطراب دیکھ کر جب وجہ پوچھی تو عارف صاحب کو دوسو روپے دیے جو اُس وقت بہت بڑی رقم تھی۔
عارف صاحب صحافت کے طالب علم تھے اور صحافت میں ماسٹرز کرنے کے بعد جنگ کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے تھے۔ ان کے ابتدائی دنوں کے استاد رشید بٹ کے مطابق ’’میں روزنامہ جنگ کراچی میں سٹی ڈیسک پر کام کر رہا تھا، ایک دن استاد یوسف صدیقی ایک نوجوان کو ساتھ لیے ہماری میز پر آئے اور مجھے یکسر ’’نظرانداز‘‘ کرتے ہوئے ظفر رضوی سے گویا ہوئے ’’ظفر! یہ عارف الحق عارف ہیں۔ اِن کو بطور اپرنٹس روزنامہ جنگ میں رکھا گیا ہے۔ آپ نے پہلے رشید بٹ کو اردو لکھنا پڑھنا سکھایا، صحافت کے رموز بتائے، اب جو آپ ایک کام سے فارغ ہوگئے ہیں تو میں آپ کے لیے دوسرا کام لے کر آگیا ہوں۔ اب یہ آپ کی شاگردی میں کام کریں گے۔ یہ کشمیری ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ عارف الحق عارف کو اپنے ساتھ ہی لیے اپنے کمرے میں چلے گئے۔‘‘
عارف صاحب بڑی محنت، لگن اور جانفشانی سے کام کرنے والے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کا شمار جلد بہترین اور ممتاز صحافیوں میں ہونے لگا اور آپ سے تعلقات کراچی کے چوٹی کے علما اور سیاست دانوں کے لیے بھی اہم ہوتے چلے گئے۔ جب آپ نے جنگ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا تو اُس وقت یوسف صدیقی سے پہلی ملاقات ہوئی اور پھروہاںسید محمد تقی، رئیس امروہوی، افضل صدیقی، اجمل دہلوی اور سید محمود احمد مدنی جیسے دبنگ ایڈیٹروں کے ساتھ بھی کام کیا۔ آپ کچھ عرصہ نیوز ڈیسک پر کام کرنے کے بعد رپورٹنگ کی طرف آگئے۔ اور اس دوران کی رپورٹنگ کے ان کے پاس کئی اہم واقعات ہیںجن کی تاریخی اہمیت ہے۔
جنگ لندن کراچی کے اصل معمار یہی عارف صاحب ہیں، بہت عرصے تک اس کے سربراہ رہے، اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً آپ کا نام جنگ میں کبھی کسی مضمون، سیاسی یا غیر سیاسی اہم شخصیت کے انٹرویو کے ساتھ بھی سامنے آتا رہا۔
جب جیو ٹی وی کا آغاز ہوا تو ان کو جیو ٹی وی میں شامل کرلیا گیا جہاں وہ سنسر بورڈ اور مذہبی پروگرام کے شعبوں کے سربراہ کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ جنگ گروپ سے ساٹھ کی دہائی میں منسلک ہونے والے عارف الحق عارف کم و بیش 55 برس بعد آج بھی اسی ادارے سے وابستہ ہیں اور امریکی ریاست کیلی فورنیا میں جنگ اور جیو کے نمائندۂ خصوصی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات دوبارہ حاصل کرنا ان کی صلاحیتوں کا بڑا اعتراف ہے۔ وہ گزشتہ دس برس سے امریکا میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کی اولاد نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بلکہ سب اپنے اپنے شعبے میں بہترین پوزیشن پر ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ڈاکٹر بھی ہیں جن کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔
عارف الحق عارف کی صحافت کا پاکستان اور بالخصوص سندھ کی سیاست سے گہرا اور عمیق تعلق رہا ہے۔ آپ سندھ اور کراچی کی جوڑتوڑ کی سیاست کے نہ صرف چشم دید گواہ رہے ہیں بلکہ کئی اہم فیصلوں میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔ عار ف صاحب نے پریس کلب کی نشست میں محمد خان جونیجو کی بحیثیت وزیراعظم نامزدگی کی پوری کہانی بتائی، کیوں کہ وزیراعظم بنانے کے لیے پیر پگارا کو سب سے پہلے آپ نے ہی جونیجو کا نام دیا تھا۔ پھر آپ نے جس وقت جونیجو کا ذکر بھی نہیںتھا اور وہ وزیر اعظم بھی کئی سال بعد بنے تھے لیکن ان کا نام وزیر اعظم کی فہرست میں عارف صاحب کی جنگ میںچھپنے والی خبر سے ہی سامنے آیا، اور کیونکہ آپ نے ہی پیرپگارا کو سندھ سے جونیجو کا وزیر اعظم کے لیے نام دینے کا کہا تھا اور پھر اس کے بعد پیر پگارا نے انتخابات سے قبل یہ بات کہہ بھی دی تھی کہ ہم وزیر اعظم کے لیے محمد خان جونیجو ادھار پر دے دیں گے، اُس وقت وزارتِ عظمیٰ کے ظاہری طور پر دو اور اصل امیدوار پانچ تھے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کا تعلق بلوچستان سے، محمد خان جونیجو اور الٰہی بخش سومرو کا تعلق سندھ سے، محمد اسلم خان خٹک کا سرحد سے اور مخدوم حامد رضا گیلانی کا پنجاب سے تھا۔ لیکن جونیجو ہی وزیراعظم بنے، اور اس کی مزید بھی تفصیلات ہیں کہ کس طرح پیر پگارا کنگ میکر بنے، اس میں جنگ اخبار اور عارف صاحب کا بڑا کلیدی کردار تھا۔ یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ جونیجو جب وزیر اعظم نامزد ہوئے اور پیر پگارا سے آشیرباد لینے 22 مارچ 1985ء کو کنگری ہاؤس اسلام آباد آئے تو پیر پگارا نے انہیں الگ کمرے میں بلایا جہاں صرف وہ اور عارف صاحب موجود تھے۔ جونیجو نے کہا کہ سائیں یہ کامیابی اللہ کے فضل و کرم اور آپ کی کوششوں سے ہوئی ہے۔ پیر صاحب اُن کی بات توجہ سے سنتے رہے اور پھر گویا ہوئے ’’اللہ کے فضل کے بغیر تو کوئی کام نہیں ہوسکتا، اس کے بعد جو جدوجہد کی ہے وہ ہمارے سائیں عارف نے جنگ اخبار کے ذریعے کی ہے، اِن کی کوششوں کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’جونیجو! اس لحاظ سے عارف سائیں تمہارے محسن ہیں، ان کا خیال رکھنا۔‘‘
عارف صاحب نے پیر سائیں کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’سائیں! مجھے اِن کے کسی احسان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب جونیجو سائیں سیکورٹی کے حصار میں آگئے ہیں۔ ایک تو اِن سے ملاقات بہت مشکل ہوگی اور ہمیں ان سے ڈیوٹی کے علاوہ ملنا پڑے گا۔ ہماری ملاقات اُس وقت ہوگی جب یا تو جونیجو سائیں اپنی مدت ِاقتدار پوری کرلیں گے یا جب ان کو اقتدار سے کسی وجہ سے بے دخل کردیا جائے گا‘‘۔ لیکن عارف صاحب نے اُن سے ایک درخواست ضرور کی کہ ’’جب آپ حکومت کو مستحکم کرلیں تو جنگ کو پہلا پینل انٹرویو ضرور دیں۔ یہ ہمارا حق بھی ہے۔‘‘ اس طرح انہوں نے جنگ کے لیے اسلام آباد میں پینل انٹرویو کا وعدہ لے لیا اور یہ انٹرویو ہوا، جس کے پینل میں عارف صاحب کے علاوہ میر خلیل الرحمن، ارشاد احمد حقانی، پروفیسر وارث میر اور حنیف خالد شامل تھے۔
عارف الحق پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان، مفتی محمود سمیت صفِ اوّل کے دیگر تمام سیاست دانوں سے تو خصوصی اور ذاتی تعلق رکھتے ہی تھے لیکن پیر پگارا کے بہت زیادہ قریب تھے اور اُن کے چند بہترین اور قابلِ اعتماد دوستوں میں ان کا شمار کیا جاتا تھا۔ پیر پگارا ہر اہم سیاسی و گھریلو معاملے میں بھی دوسروں کے ساتھ ساتھ ان سے بھی مشورہ کرتے تھے۔ آپ کی رپورٹنگ میں کامیابی کا اہم سبب لوگوں سے خصوصی تعلق اور مسلسل رابطہ تھا، یہی وجہ ہے کہ خبر آپ کی راہ دیکھ رہی ہوتی تھی۔
عارف صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جماعت اسلامی سے نظریاتی تعلق کے باوجود کسی خبر میں اپنی پارٹی وابستگی کی رنگ آمیزی نہیں کرتے تھے۔ رپورٹنگ کرتے اور خبر بناتے وقت وہ اپنے ذاتی نظریات کو الگ رکھ دیتے اور صرف حقائق کو مدنظر رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی رپورٹنگ کی پوری تاریخ میں آپ کی بنائی ہوئی خبر، رپورٹنگ، کالم یا مضمون پر کبھی کسی نے انگلی اٹھائی اور نہ کبھی اعتراض کیا۔ متحرک ذہن رکھنے والے عارف الحق عارف ساٹھ برس پرانے اپنے دوستوں اور ان کی اولادوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے موبائل فون میں آٹھ ہزار کے قریب نمبر موجود ہیں اور فیس بک کے ہزاروں دوست اس کے علاوہ ہیں۔ عارف صاحب کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے تمام اہم سیاسی، سماجی اور صحافتی لوگوں کے انتقال پر ان کے ساتھ گزرے لمحات کی یادیں تازہ کرتے ہیں، ’’مرگ نامہ‘‘ کے نام سے فیس بک، اخبارات اور رسائل میں لکھتے ہیں اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہیں، ان کی زندگی کا خاکہ لکھتے ہیں۔ مرگ نامہ میں اب تک سو سے زائد شخصیات پر لکھ چکے ہیں جن میں شفیع عقیل، قاضی حسین احمد، عبدالستار افغانی، نعمت اللہ خان، سید منورحسن، عبدالحمید چھاپرا، پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، عمران اسلم، ارشاد راؤ، یوسف مستی خان کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ ’’مرگ نامہ‘‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ آپ اپنی داستانِ حیات پر مبنی کتاب ’’عارف نامہ‘‘ پر بھی کام کررہے ہیں جس کی اشاعت کے ہم سب منتظر ہیں۔ یہ کتاب یقیناً اُن کی زندگی کے نشیب و فراز، صحافتی جدوجہد، سیاست اور صحافت کے مختلف ادوار کے بارے میں طالب علموں کے لیے اہمیت کی حامل ہوگی۔