ایسا محسوس ہوتا ہے پاکستان میں نظامِ تعلیم کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے، مختلف نظام ہائے تعلیم سے والدین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ انہیں سمت کے تعین میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو ایک سمت دینی ہے اور یہ اردو زبان کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ اردو ہمارے علمی و ادبی، ثقافتی اور مذہبی علوم کی امین ہے۔
اساتذۂ کرام جو یونیورسٹی کے طالب علموں کو پڑھاتے ہیں یا اسکولوں اور کالجوں میں، اور خاص کر وہ استاد جو پرائمری یا پری پرائمری کے بچوں کو پڑھاتے ہیں خدارا! دوراندیشی سے کام لیں۔ آپ پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اردو ہماری پہچان ہے، اس سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دیجیے، اردو کے پودے جگہ جگہ لگا دیں، آنے والے اس کا پھل کھائیں گے۔
اسکولوں اور کالجوں میں جبراً انگریزی زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور بتایا گیا کہ تمہاری قومی زبان دنیا کی بے کار ترین زبان ہے۔ اسے کسی بڑے ادارے یا بڑی کمپنی میں جاکر بولو گے تو شرمندگی اٹھانا پڑے گی اور تمہاری قابلیت پر بھروسا نہیں کیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے طالب علموں کو انگریزی کے امتحان میں پاس ہونے کے لیے بھی English is the Key of Success کے مضمون رٹائے گئے۔ قابلیت کو انگریزی زبان پر تولنے والوں نے ہماری نسل کو احساسِ کمتری میں مبتلا کیا۔ اگر کوئی طالب علم ریاضی، طبیعیات، کیمیا میں اسّی فیصد نمبر، جبکہ انگریزی میں چالیس فیصد نمبر حاصل کرتا ہے تو اس کی قابلیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے زیادہ نمبر لینے والے مضمون میں آگے بڑھنے کے بجائے ’’انگلش لرننگ سینٹر‘‘ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ’’انگلش لرننگ سینٹر‘‘ جوکہ سارے شہر میں جگہ جگہ اس طرح نظر آتے ہیں کہ بارش کے ساتھ آسمان سے برسے ہوں، جہاں تین ماہ میں فرفر انگریزی بولنے کا ماہر بنانے کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ بے چارے طالب علم ان کے جھانسے میں آکر اپنا وقت اور پیسہ دونوں برباد کرتے ہیں اور وہاں سے آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نکلتے ہیں۔ You know بولتے ہوئے عجیب طریقے سے ہاتھوں کو گھماتے ہوئے، تیوری پر بل ڈال کر ان کی گفتگو شروع ہوتی ہے اور آگے بڑھتے ہوئے اردو اور انگریزی کی کھچڑی پکتے پکتے آخر میں ’اوکے… بائے‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ جگہ جگہ جہاں انگلش لرننگ سینٹر قائم کیے جا سکتے ہیں وہاں اردو مراکز بھی قائم ہوسکتے ہیں جن میں اقبالیات کی تعلیم دی جا سکتی ہے، مودودی کے افکار سکھائے جا سکتے ہیں۔ ڈراما نگاری، افسانہ نگاری، تحقیقی مضامین لکھنا اور شاعری کے عروض سکھائے جا سکتے ہیں۔ جسے جو بھی زبان آتی ہے اسے اردو زبان میں تراجم کرنا سکھائے جا سکتے ہیں۔ اردو قواعد سیکھنے اور سکھانے کے مراکز قائم ہوسکتے ہیں جہاں سے اردو کی ترقی کے لیے نئی جہتیں نکلتی ہوں۔ ہمارے ملک کی نئی مائیں آداب، شائستگی اور نفاست کا آپس میں میل جول یعنی اردو کی شیریں گفتگو شروع سے ہی اپنے بچوں کے کانوں تک پہنچائیں۔ ’’بے بی شارک ڈو ڈو ڈو‘‘ کے بے ہنگم لفظوں کی جگہ علامہ اقبال اور صوفی غلام مصطفی تبسم کی نظموں سے اپنے بچوں کے کانوں میں رس گھولیں۔
مخصوص لوگ مخصوص تعلیم حاصل کریں اور جبراً ہمارے رہنما بن جائیں، اس کے بعد جس طرف چاہیں ہمارے معاشرے کا رخ موڑ دیں۔ وگرنہ ہمارے رہبر تو وہ علم والے تھے جن کے عہد میں دینِ اسلام اور سائنس الگ نہ تھے۔ دینی اور سائنسی تعلیم ایک ہی مکتب میں دی جاتی تھی جو کہ زیادہ تر عربی زبان میں ہوتی تھی۔ دونوں زبانوں یعنی عربی اور اردو زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے، کیونکہ اردو میں 80 فیصد الفاظ عربی کے شامل ہیں۔
بہت بڑا اسلامی سرمایہ اردو زبان میں موجود ہے۔ عربی کے بعد اردو ہی وہ زبان ہے جس میں کثیر تعداد میں مایہ ناز اسلامی کتابیں موجود ہیں، بلکہ اردو زبان میں ایسی اسلامی شاہکار کتابیں تخلیق کی گئی ہیں جن کا ترجمہ عربی زبان میں کیا جا رہا ہے۔ عربی کے بعد اردو مسلمانوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ صرف ہندوستان یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عربی کے بعد اردو زبان مسلمانوں کی پہچان ہے۔
قانون سے بالاتر ہوکر ہمیں اس طرح الجھا دیا گیا ہے کہ ہمیں اردو کو عدالتی، دفتری اور تعلیمی زبان بنانے کے لیے لڑنا پڑ رہا ہے اور اردو کو اُس کے صحیح مقام پر لانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ اردو زبان کی حیثیت کو پامال کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ فطری لسانیت کسی بھی معاشرے کے لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے۔
ہمارا مطالبہ کوئی انوکھا یا خودساختہ نہیں۔ اردو کو تعلیمی، عدالتی، دفتری زبان بنانے کے عملی اقدام پر بلاوجہ اور لمبی تاخیر سے نفاذِ اردو، بحالیِ اردو، فروغِ اردو، اردو بچاؤ مہم نے جنم لیا ورنہ بربادیِ وقت نہ ہوتی اور فہم و فراست اور ذہنی صلاحیتوں کے درست استعمال سے اردو کے علمی خزانے میں بیش بہا اضافہ ہو چکا ہوتا۔
اردو نافذ کرنے والے اور اسے نقصان پہنچانے والے دونوں ہی یہ جان لیں کہ اس پر سیاسی طبع آزمائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اردو کا ارتقا یا جغرافیہ کیسے وجود میں آیا اس بحث میں بھی نہ الجھیں، اور نہ دوسروں کو الجھائیں، کیونکہ یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اگر ہم طالب علموں کی فہرست میں ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری ملازم ہیں، یا ایسے پیشوں سے منسلک ہیں جو براہِ راست معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے ڈاکٹر، اساتذہ یا کاروباری افراد… وہ اردو زبان کے تحفظ کو مدِنظر رکھتے ہوئے متعلقہ لوگوں کو نفاذِ اردو کی تحریک کی معاونت کی دعوت دے سکتے ہیں۔ ہمیں روحانی تسکین کے لیے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔
سرکاری کاغذات میں اگر کہیں اردو کا استعمال ہے بھی تو وہ بہت مشکل الفاظ کے ساتھ ہے۔ لوگوں کی اردو سے دوری کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے۔ سرکاری کاغذات و غیر سرکاری کاغذات میں اردو کے آسان الفاظ کا استعمال کیا جائے تاکہ عام آدمی اُن کو سمجھ سکے۔ عدالتی اور دفتری معاملات میں اردو کو پامال کرنے کے بجائے آسان اردو بحال کیجیے اور اس کے تحفظ اور فروغ کی ضمانت دیجیے کہ رومن اردو کی اردو زبان میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک عالمگیر زبان ہے جو مختلف زبانیں بولنے والوں کو… جن کی ثقافت، تہذیب، مذہب مختلف ہیں… ایک دوسرے کے قریب لاتی اور آپس میں ملاتی ہے۔ اردو زبان فرقہ واریت کی نفی کرتی ہے۔