بچے کو پہلی تعلیم مادری زبان میں دینی چاہئے

378

پرنٹ میڈیا کا کام محفوظ شکل میں ہمیشہ موجود رہتا ہے
میرے دادا نیشنل بینک کے بانی اور گورنر اسٹیٹ بینک تھے
پس پردہ رہ کر بھی بہت کام کئے جاسکتے ہیں،میڈیا کو تربیت کا کام کرنا چاہئے معروف صحافی اور سابق نائب صدر کراچی پریس کلب شازیہ حسن سے گفتگو

دنیائے صحافت سے شازیہ حسن کا رشتہ بیس سے زائد برسوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کیریئر کا باقاعدہ آغاز پاکستان کے نامور انگریزی اخبار سے کیا۔ شازیہ حسن ہمہ جہت صلاحیتوں کی مالک ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صحافت کے تقریباً تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 2018ء میں پریس کلب کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ممبر گورننگ باڈی منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل وہ نائب صدبھی رہی ہیں۔ آج کل ایک بار پھر سے بطور ممبرگورننگ باڈی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ جسارت سنڈے میگزین نے ان سے ملاقات کی۔ اس دل چسپ نشست کا احوال قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

جسارت میگزین: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں۔

شازیہ حسن: میں ممتاز حسن کی پوتی ہوں۔ ممتاز حسن نیشنل بینک کے بانی اور اسٹیٹ بینک کے گورنر رہ چکے ہیں۔ ہجرت سے قبل انہوں نے بیوروکریسی کا امتحان پاس کیا، بعدازاں لیاقت علی خان کے سیکرٹری رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیکرٹری خزانہ بن گئے۔ انہیں ادب سے خاص شغف تھا۔ مجھے لکھنے کا شوق بھی انہی سے ملا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو والدہ بیمار ہوگئیں۔ والدہ کی وفات کے بعد ابو نے پالا۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ ابتدائی تعلیم میں نے کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی۔ میری والدہ مخلوط تعلیمی نظام کے خلاف تھیں مگر والد کا خیال تھا کہ دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اچھا ہے دیکھ لوں تاکہ سخت ہوجائوں۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ جو چاہے کرو، اور میں نے جو چاہا وہی کیا۔ عادتاً میں زیادہ جلدی گھلتی ملتی نہیں، مگر جب بھی تعلق بنایا قریبی ہی رہا۔ کوشش ہوتی ہے کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔

جسارت میگزین: صحافت میں کیسے آنا ہوا؟

شازیہ حسن: اسکول میں بہت وسیع لائبریری تھی، وہیں سے کتابیں پڑھنے کا شوق ہوگیا، خاص طور پر انگریزی کہانیاں پڑھنے کا جنون تھا۔ دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ نصابی کتابوں سے زیادہ غیر نصابی کتابوں میں دل لگتا۔ گھر والوں کو دکھانے کے لیے نصابی کتابیں کھول کر دوسری کتابیں درمیان میں رکھ لیتی۔ میری اردو اچھی ہوتی چلی گئی اور کہانیاں لکھنے کا شوق ہوگیا۔ میں نے کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ بزنس کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک سالہ تخلیقی لکھائی کا کورس امریکا سے کیا۔ ایک دن حکیم سعید نے ملاقات کے دوران میرے والد سے بچوں کی بابت دریافت کیا۔ انہیں پتا چلا کہ میں کہانیاں لکھتی ہوں، میری کہانی انہیں پسند آئی اور انہوں نے وہ کہانی مدیر ڈان اخبار احمد علی خان کو ارسال کردی۔ اس طرح میرے قلمی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ دورانِ پڑھائی ہی ڈان اخبار میں انٹرن شپ کا موقع مل گیا۔2000ء میں ڈان اخبار کے ہفتہ وار ’’دی ریویو‘‘ (The Review) میگزین کے لیے کام کیا۔ بعدازاں ادارے کے ہفتہ وار بچوں کے میگزین اور ادبی میگزین شامل کی ذمہ داری بھی ملی۔ 2005ء میں مجھے ادبی میگزین کی مدیرہ بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں کچھ برس میں نے بحیثیت اسپورٹس رپورٹر اور پھر سٹی رپورٹر خدمات انجام دیں۔ 2013ء میں مجھے اضافی ذمہ داری سونپی گئی اور کھیل کے صفحے کی مدیرہ بنادی گئی۔

جسارت میگزین: پریس کلب کی صدر کیسی بنیں؟

شازیہ حسن: ایک دفعہ میں پریس کلب کسی کام سے گئی تو کسی نے پریس کلب کے صدر سے ملوا دیا۔ وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے اور کئی مرتبہ اس سلسلے میں رابطے کی کوشش بھی کرچکے تھے۔ جب انہوں نے مجھے آفر کی تو میں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ مجھے سیاست نہیں آتی۔ بعدازاں اُن کے اصرار پر ہامی بھر لی۔ 2018ء اور 2019ء میں ممبر گورننگ باڈی کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2021ء میں نائب صدر کا عہدہ بھی سنبھالا اور رواں سال ممبر گورننگ باڈی ہوں۔ پریس کلب میں گزرا پہلا سال مجھ میں بہت تبدیلیاں لے آیا۔ 2018ء میں بہت کچھ سیکھا۔ نئے نئے لوگ ملے۔ لوگ کس طرح بات چیت کرتے ہیں، اختلاف کے باوجود ٹھیک ہوجاتے ہیں، ان تمام روّیوں نے مجھے بھی بہت مضبوط کردیا۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ پس پردہ رہ کر بھی آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

جسارت میگزین: کیا آج کا میڈیا اپنا کام ٹھیک طرح سے کررہا ہے؟ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں سے کہاں مزید ذمہ دار رویّے دکھانے کی ضرورت ہے؟

شازیہ حسن: میرا خیال ہے کہ ملا جلا رجحان ہے۔ میڈیا میں ایسے لوگ بھی آگئے ہیں جو محض وقت گزاری کی غرض سے کام کررہے ہیں اور گلیمر کے چکر میں آجاتے ہیں، مگر بہت سے لوگ سنجیدگی سے اس شعبے سے منسلک ہیں۔ جہاں تک دونوں کے بہتر کام کرنے کا تعلق ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا سے قدرے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ہم جتنا بھی کہیں کہ پرنٹ میڈیا مر رہا ہے، مگر وہ محفوظ شکل میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ چینل سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو کسی کے خاص علم میں نہیں آتی، وہ معذرت کیے بنا ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ پرنٹ میڈیا میں غلطی پر معذرت ضروری امر سمجھی جاتی ہے۔

جسارت میگزین: کیا آج کی عورت مضبوط ہوئی ہے؟ مزید مضبوط کیسے ہوسکتی ہے؟

شازیہ حسن: عورت اتنی مضبوط ہے کہ آج کے دور میں وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو پہلے زمانے میں نہیں کرسکتی تھی۔ آج عورت کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ جس طرح چاہے، جو چاہے کرے۔ لیکن اس لحاظ سے اس کی ذمہ داری بھی بے انتہا بڑھ جاتی ہے کہ بہت سوچ بچار کرے اور پھر قدم اٹھائے کہ اسے کیا اور کیسے کرنا ہے اور کیسے نہیں کرنا۔ معاشرے کو بہتر کرنے کی ذمہ داری عورت پر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

جسارت میگزین: صحافت میں کون سا کام سب سے زیادہ پسند ہے؟

شازیہ حسن: مجھے اسپورٹس کا شعبہ ہمیشہ سے بہت پسند تھا۔ ابتدا میں میری کوشش بھی رہی کہ ڈان اخبار میں اس کے لیے علیحدہ میگزین کا اجرا ہوسکے۔ آج کل میں شہر کی خبروں کی رپورٹنگ کررہی ہوں، اسے کرنے میں بھی بہت مزا آیا۔ نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ والدہ کی وفات کے بعد والد نے ہمیں حد سے زیادہ سنبھال کر رکھا کہ جیسے ہم نے دنیا کی زندگی دیکھی ہی نہ ہو۔ پھر جب ادارے سے وابستہ ہوئی تو نئے تجربات ہوتے‘ میں حیران رہ جاتی۔ ہر چیز ایسے لکھتی جیسے بچے کی آنکھیں ہوتی ہیں نا، بالکل اسی طرح ہر چھوٹی سی بات کا احاطہ بھی کرتی۔

جسارت میگزین: کون سے نئے منصوبے زیر غور ہیں؟

شازیہ حسن: میرا ایک یو ٹیوب چینل ہے، اس پر ہی کام کررہی ہوں، کیوں کہ اب اگلا دور سوشل میڈیا کا ہے۔ سو میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ سوشل میڈیا کو صحیح طرح سے لے کر چلوں۔ سوشل میڈیا میں آپ خود اپنے جج ہیں، سب کچھ اپنے ہاتھ میں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ سوشل میڈیا پر اگر پڑھے لکھے لوگ آجائیں جو ذمہ داری سے اس کا بھرپور استعمال کریں تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔

جسارت میگزین: صبر و برداشت بڑھانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

شازیہ حسن: اس سلسلے میں پرنٹ میڈیا تعلیم کے ذریعے سکھا سکتا ہے۔ بتایا جائے کہ یہ رویہ غلط ہے۔ کچھ لوگ اس طرح کے منفی رویوں کی منطق پیش کرتے ہوئے اسے درست قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ غلط کررہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا ایسے نہیں چلتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب مطالعہ بہت کم ہوگیا ہے، اس لیے الیکٹرانک میڈیا کو ذمہ داری دکھانا ہوگی۔ آگہی کے لیے پروگرام اور ڈرامے تشکیل دینے ہوں گے۔

جسارت میگزین: بچوںکی تربیت کے حوالے سے میڈیا کے کردار سے مطمئن ہیں؟

شازیہ حسن: بچوں کی تربیت ہمارا میڈیا نظرانداز کررہا ہے۔ کوئی ایسا پروگرام نہیں جو خاص نئی نسل کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جارہا ہو، یہاں تک کہ کارٹون بھی ڈبنگ کے ساتھ چلا رہے ہیں جس میں ظاہر سی بات ہے ہمارا کلچر قطعی نہیں جھلکتا۔ بچے غلط چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

جسارت میگزین: کوئی یادگار واقعہ؟

شازیہ حسن: واقعات تو بہت سے ہیں‘ یہ ابتدائی دنوں کی بات ہے جب میں نے ڈان اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ ہم چونکہ سمندر کے کنارے رہائش پذیر تھے‘ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے سمندر کی زمین چوری کی جا رہی ہے تو دیکھو وہاں واقعتاً ایسا کچھ ہے؟ میں نے بتایا کہ بالکل ہو رہاہے۔ میں اُس وقت زمانۂ طالب علمی میں ہی تھی۔ پھر یہ اسٹوری میں نے کی اور وہ اس طرح کی کہ میں اور میرا بھائی فٹ بال لیے سمندر کنارے پہنچ گئے۔ وہ غیر ملکی باشندے تھے، انہوں نے دیکھا کہ یہ بچے ہیں، ہمارے ساتھ انہوں نے فٹ بال بھی کھیلی اور تصاویر بھی بنوائیں۔ بعد میں وہ تصاویر تفصیلی اسٹوری کے ساتھ اخبار میں شائع ہو گئیں اور انہیں کیس کی صورت کافی کچھ بھگتنا پڑا۔ یقینا بعد میں انہوں نے سر پیٹا ہوگا۔

جسارت میگزین: کیا اردو زبان نظر انداز ہو رہی ہے؟ اس طرح نظر انداز کرنا چاہیے؟

شازیہ حسن: بالکل، اردو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عالمی زبان اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے مگر میرا خیال ہے کہ بچے کو پہلی تعلیم اس کی مادری زبان میں دینی چاہیے تاکہ اسے بات سمجھ میں آجائے، کیوں کہ بچہ جب گھر کے ماحول سے پہلی دفعہ باہر نکلتا ہے تو اُسے سمجھانے کے لیے مادری زبان ہی مؤثر طریقہ کار ہے۔ جب وہ سمجھنے کے قابل ہو جائے تو آہستہ آہستہ اسے قومی اور بین الاقوامی زبان کی جانب لانا چاہیے۔

جسارت میگزین: پسندیدہ مصنف اور کتاب؟

شازیہ حسن: مجھے شروع سے بچوں کی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔ پھر میں نے ڈینیل اسٹیل (Danielle Steel) کے ناول پڑھنا شروع کیے اور آج تک وہی میرے پسندیدہ مصنف ہیں۔ اُن کی تقریباً تمام کتابیں ہی میں دل چسپی سے پڑھتی ہوں۔

جسارت میگزین: لڑکیوں کو صحافت میں آنا چاہیے؟ لڑکیوں کے لیے کیا پیغام ہے؟

شازیہ حسن: اب تو ہر شعبہ ہی کھلا ہے۔ لڑکیاں اپنی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے جو چاہے وہ کریں۔ کوئی شعبہ برا نہیں ہوتا، خود کو ٹھیک رکھو اور اپنا کام کرتے چلے جائو۔ دو کی بات ضرور سنیں مگر صحیح اور غلط کا ادراک رکھتے ہوئے آخری فیصلہ کریں۔

جسارت میگزین: آپ کے وقت کا بہت شکریہ

حصہ