رات پھر محفل جمی، ایسی کچہری لگی کہ دل باغ باغ ہوگیا… اور کیوں نہ ہوتا! جس جگہ عمر فاروق قادری موجود ہوں وہ بیٹھک محفل مذاکرات میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسے عمر فاروق قادری کی شخصیت کہیں یا اُن کا کمال…لیکن یہ بات طے ہے کہ اسلامی تعلیمات پر بولنا، معاشرتی برائیوں خاص طور پر منشیات فروشوں اور لینڈ مافیا کے خلاف مزاحمت کرنا ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ رات بھی ایسا ہی کچھ ہوا، نعیم صدیقی ملکی سیاسی حالات اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناانصافیوں پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے:
”ہمارے ملک کی سیاسی صورتِ حال ابتر ہوتی جارہی ہے، ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، کوئی بھی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کو تیار نہیں، سیاست دان محض حصولِ اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، نظام مملکت ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ نہ انصاف ہے، نہ ہی امن وامان کی بہتر صورتِ حال۔ معیشت بھی انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ خدا پاکستان کو اس نازک صورت حال سے جلد سے جلد نکال دے۔“
نعیم صدیقی کی باتیں سن کر کوئی بھی ذی شعور انسان خاموش نہیں رہ سکتا تو ایسے میں بھلا عمر فاروق کیسے لب کشائی نہ کرتے! اپنے مخصوص انداز میں بولے:
”زبانی کلامی کچھ نہیں ہوتا، ساری رات دعائیں مانگتے رہنے سے بھی حالات نہیں بدل سکتے۔ ستّر سال سے کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے دعائیں مانگی جارہی ہیں، لیکن مظالم بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو دعا کے ساتھ دوا بھی کرنی ہوگی۔“
”کیا مطلب؟“ نعیم صدیقی نے پوچھا۔
”ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، مزاحمت کرنی ہوگی، تبھی دعائیں بھی رنگ لائیں گی اور اللہ کی مدد بھی تبھی نصیب ہوگی۔“
”لیکن یہ تو ریاست کا کام ہے، اس میں ہمارا کیا کردار ہے؟“ نعیم نے کہا۔
”ریاست…؟ کون سی ریاست کی بات کررہے ہو جسے ریاست کا درجہ دیا جائے! اگر ہمیں اصل بات سمجھ میں آجائے تو وہ ریاست بھی بن جائے گی اور ہمارے کردار بھی اعلیٰ ہوجائیں گے۔ دیکھو بات لمبی ہے اس لیے توجہ سے سنو۔ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا میں بھیجا، عقل و شعور عطا کیا، اور ساتھ ہی ایک ضابطۂ حیات(القرآن) دے کر یہ بھی بتادیا کہ وہ ان اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے۔ خدا کی طرف سے دیے گئے اس ضابطۂ حیات پر عمل کرکے ہی فلاح پائی جا سکتی ہے، بصورتِ دیگر زندہ تو رہا جا سکتا ہے مگر اس جینے کو اگر خسارے کی زندگی میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔“
”آپ نے جو کہا اس کی مخالفت تو کوئی بھی نہیں کرسکتا، لیکن یہ ہوگا کیسے؟“
”تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ہر شخص ان باتوں سے واقف ہے، سب جانتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔ ان پر عمل کروانے کے لیے قوانین کا نفاذ کرنا پڑتا ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر آنے والے نبیؑ نے ایک ہی پیغام لوگوں تک پہنچایا جس کے مطابق خدا کے بتائے ہوئے قوانین کا احترام اور ان کے تحت ہی زندگی کی گاڑی کو چلانا ہے۔ خدا کے بتائے ہوئے قوانین پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسا آئینِ حیات ہے جس میں کسی قسم کی کمی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اضافہ۔ یہ ایک ایسا مکمل آئین ہے جو بنی نوع انسان کو کامیابی کے ساتھ منزلِ مقصود تک لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسانی ذہن سے تخلیق کردہ آئین انسانوں کو تقسیم در تقسیم کرتا چلا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب کسی نے اپنے نظریات لوگوں پر مسلط کرنے کی کوششں کی تو مسائل نے جنم لیا اور کاروبارِ دنیا الجھتا گیا، نتیجتاً خطۂ زمین پر بسنے والے نہ صرف گروہوں میں بٹے بلکہ رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے۔ فرعون ہو، نمرود ہو یا پھر قارون… قرآن نے ہمیں بتا دیا کہ دنیا پر حکمرانی کا خواب لیے یہ ظالم عذاب کے مستحق ٹھیرے۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے۔ بے شک اس آئین پر عمل کرتے ہوئے ہی حکمرانی کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسی حکومت قائم کی جا سکتی ہے جس میں انسانیت کی تقسیم نہ ہو، جہاں عدل ہو، جس کا حاکم عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اُن کا مسیحا ہو، ایسی مملکت جہاں لوگ تعلیم سے محروم نہ ہوں، ایسا معاشرہ جہاں زکوٰۃ دینے والے تو ہوں مگر لینے والا کوئی نہ ہو، جس میں طاقت ور کمزور پر ظلم نہ کرسکے، جہاں انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے… یہ تبھی ممکن ہے جب انسان اپنے رب کی طرف سے دیے گئے آئین(قرآن) کے مطابق زندگی بسر کرے۔ مدینہ میں قائم کی جانے والی حکومت نے دنیا کو بتادیا کہ قرآنی معاشرہ کس طرح کامیاب ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے آج کا مسلمان قرآن سے دوری اختیار کرتے ہوئے دنیا کی رونقوں میں گم ہوتا چلا گیا اور قوانینِ خداوندی کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے ہوئے آئین پر عمل کرنے لگا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر، تو کہیں زبان کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہوتا چلا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ مذہب کے نام پر تعصب کو بڑھاوا دیا جانے لگا، خدا کی طرف سے انسان کو زندگی گزارنے کا جو اصول دیا گیا تھا اسے اپنی اپنی قوم کے لیے تصور کیا جانے لگا۔ ساری دنیا کی بات چھوڑیے، مملکتِ خداداد پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک میں جہاں خدا کا نظام نافذ کرنے کی نوید سنائی گئی تھی پہلے دن سے تیرے میرے کی جنگ ہونے لگی۔ یہاں بھی انسان نے اپنے ذہن کا استعمال کیا اور قرآن کو چھوڑ کر انسانی نظریات کی کسوٹی کے مطابق بنائے جانے والے نظام کو نافذ کردیا، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، یعنی قیامِ پاکستان کے چند برسوں بعد ہی زبان کی بنیاد پر ملک دولخت ہوگیا۔ زبان کا تعصب سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ زبان کی بنیاد پر بڑی تیزی سے تقسیم ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیش کا قیام بتاتا ہے کہ لسانیت کس تیزی سے اپنا کام کرتی ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ حکمران ایسے اقدامات کرتے جن سے نفرتوں اور تعصبات میں کمی آتی، لوگوں میں محبتیں بڑھتیں.. اس کے بجائے تعصب کی آگ کو ہوا دی جانے لگی۔ پنجابی، پختون، بلوچی اور سندھی کے نام پر عوام کو تقسیم کیا جانے لگا۔ اس نازک صورتِ حال میں مختلف جماعتوں نے پاکستانی قوم کے ساتھ جو سیاست کی مجھے یہاں اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں تو اس سانحے کے بعد جو کچھ ہوا اُس کا ذکر کررہا ہوں، اُس متعصب ذہنیت کی بات کررہا ہوں جس نے سیاست کے نام پر تعصب کو بڑھاوا دیا، خدا کے آئین کو چھوڑ کر آئینِ پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسی شق ڈالی گئی جو پاکستانیوں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتی چلی گئی۔ اور تو اور صوبائی خودمختاری کے نام پر پاس کی گئی آئینی ترمیم نے تو کام تمام کرکے رکھ دیا۔ اختیارات کی صوبائی حکومتوں کو منتقلی کے نام پر اس آئینی شق نے ہر صوبے کو اپنے تئیں ایک ملک کا درجہ دے دیا جس سے لسانیت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ مرکزی سیاست کرنے والی جماعتیں بھی صوبائی سیاست کرنے لگیں، زبان کی بنیاد پر اپنے اپنے آبائی علاقوں میں ترقیاتی کام کروائے جانے لگے، کسی سیاسی جماعت کو اب ضرورت نہ رہی کہ وہ وطنِ عزیز کے چپے چپے کے لیے ترقیاتی منصوبے بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صوبہ مرکز پر الزام لگاتا ہے، تو مرکز صوبوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ وفاق کی سیاست کرنے والی جماعتوں کا یہ رویہ دیکھ کر ایک عام سیاسی کارکن نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ بھی اپنے صوبے میں ہم زبان قائدین کا ہی ساتھ دے گا، جس سے لسانی جماعتوں کو تقویت ملی۔ ان حالات میں قومی جماعتوں نے بھی اسی ڈگر کا انتخاب کیا اور انہوں نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ وہ بھی صوبائی سیاست کریں، لہٰذا وہ بھی علاقائی سیاست کرنے لگیں، جبکہ معتبر سیاسی قائدین نے بھی پاکستان میں بڑھتی لسانیت پر آنکھیں بند کرلیں۔ پھر کیا تھا، جو ہونا تھا وہی ہوا، یعنی ملک کے چپے چپے میں تعصب نے وہ پنجے گاڑے کہ آج ہر طرف حقوق حقوق اور اختیار اور بے اختیار کی آوازیں بلند ہوتی سنائی دے رہی ہیں۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر پاکستانیوں کے درمیان تعصب کی وہ لکیر کھینچ دی گئی ہے جس کو مٹانے کا مطلب زبان سے غداری تصور کیا جانے لگا ہے، یعنی اگر آپ اس نام نہاد صوبائی خودمختاری پر بات کرنے کی کوشش کریں تو ہر صوبہ اسے اپنے اوپر حملہ تصور کرنے لگتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ صوبائی خودمختاری کے نام پر پاس کی جانے والی آئینی شق سے نہ صرف صوبائیت میں اضافہ ہوا بلکہ ایک صوبے میں برسوں سے آباد مختلف قومیتوں کے درمیان دوریاں بھی بڑھنے لگیں، سندھی زبان بولنے والوں نے سندھ کو اپنی جاگیر بنالیا تو پنجابی زبان کے اعتبار سے پنجاب کے حاکم بنے ہوئے ہیں، یہی کچھ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے جب آپ زبان کی بنیاد پر صوبے بنائیں گے اور اس پر صوبائی خودمختاری جیسی متعصب ترین شق لائیں گے تو ملک کو لسانی طور پر تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا، جس کی تازہ ترین مثال اوپر بیان کردہ ثقافت کے نام پر منایا جانے والا دن یا تہوار ہے۔ میں مانتا ہوں کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زبان اور ثقافت پر فخر کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہوتا کہ زبان اور لباس کی بنیاد پر لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے اپنی حکمرانی کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ حکمرانوں کا کام مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان محبتیں بانٹنا ہے، عوام ایک مرکز کی طرف لے جانے ہے جس سے ملک مضبوط ہوا کرتے ہیں۔ اگر حکمران خود ہی ایسے قوانین بنائیں جن سے تفریق پیدا ہو تو ان کی عقلوں پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے! ابھی بھی وقت ہے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی صوبائیت روک دیا جائے، وگرنہ یقین جانیے اس کے نتائج بڑے بھیانک نکل سکتے ہیں خاص کر خطے کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے، جہاں بھارت مستقل ہمارے خلاف کارروائیاں کررہا ہے۔ ہمیں اندرونی و بیرونی حالات کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا، حکمرانی کا وہ انداز اپنانا ہوگا جس سے نہ صرف عوام کو مطمئن کیا جا سکے بلکہ عصبیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔ میری ناقص عقل کے مطابق اس سلسلے میں اگر ڈویژن کی سطح پر اختیارات دیے جائیں تو خاصی حد تک تعصب اور نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔ جب ڈویژن کی سطح پر اختیارات منتقل کردیے جائیں گے تو عوام بااختیار ہوں گے اور لوگ صوبہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بجائے اپنے اپنے ڈویژن کا نام لیں گے۔ اس سے سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچی زبانوں پر الزام آنے کے بجائے وفاق مضبوط ہوگا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ہم صوبائی خودمختاری کے نام پر پاس کی گئی اس آئینی شق پر نظرثانی کریں جس کے باعث صوبائیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے کے بجائے اُس راستے کا انتخاب کیا جائے جس پر چل کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوا جا سکے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنا ہوگی کہ عوام کو لڑاکر چور دروازے سے حکومت میں آنے سے بہتر ہے کہ عوام کی امنگوں کے مطابق قوانین بنائے جائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی حکومتیں جمہوری ہوا کرتی ہیں جو خدا کے بنائے ہوئے قوانین کا نفاذ کریں، بصورتِ دیگر انسان کے تخلیق کردہ قوانین انسانیت دشمن تو ہوسکتے ہیں، انسان دوست نہیں۔“
عمر بھائی کی بات تو ختم ہوگئی لیکن ہماری ذمے داری بڑھ گئی، یعنی ہمیں بھی ملک میں خدا کے بتائے ہوئے نظام کے نفاذ کے لیے پوری قوت کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوگی۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو وہ دن ضرور آئے گا جب ہمارا ملک حقیقی طور پر مملکتِ خداداد کہلائے گا۔