مسلم دنیا کی تاریخ کے تین بڑے سانحے ہیں: سقوطِ بغداد، سقوطِ دلّی اور سقوطِ ڈھاکا۔ لیکن ان سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ سقوطِ ڈھاکا ہے۔ اس کی چار وجوہ ہیں:
(1) سقوطِ بغداد اور سقوطِ دلّی داخلی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھے لیکن سقوطِ ڈھاکا میں مقامی آبادی دشمن کے ساتھ کھڑی ہوگئی یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا گیا۔
(2) سقوطِ ڈھاکا میں مسلم فوجوں نے تقریباً لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔
(3) سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے دشمن کی قید میں طویل مدت گزاری۔
(4) اس کے باوجود کہ پاکستان کا مغربی بازو پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود رہا، تاہم 42 سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین ہوا اور نہ اس سلسلے میں کسی کو سزا دی گئی۔
لیکن یہ کہانی شروع کہاں سے ہوتی ہے؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب وغریب پہلو یہ ہے کہ ملک اقلیتیں توڑتی ہیں۔ وہ اکثریت کی شکایت کرتی ہیں اور ملک سے الگ ہونے کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی، حالانکہ یہ اکثریت برصغیر میں مسلمانوں کے مفادات کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کرنے والی اور تحریکِ پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگا دینے والی اکثریت تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ دلّی‘ لاہور‘ کراچی یا پشاور میں نہیں 1906ء میں ڈھاکا میں قائم ہوئی تھی اور اُس کے بانیوں میں بنگالی قائدین کی اکثریت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگال میں انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر کا احساس شدید تھا اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنگالی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند تھی۔ بنگالیوں کا یہ سیاسی شعور تحریکِ پاکستان میں پوری طرح بروئے کار آیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن بنگالیوں نے 1947ء میں پاکستان بنایا تھا وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں مائل ہوگئے؟
پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قائداعظم کی اہمیت یہ تھی کہ وہ پاکستان بنانے والے تھے۔ پورے ملک کے عوام پر ان کا گہرا اخلاقی اور تاریخی اثر تھا اور عوام کی عظیم اکثریت ان سے محبت کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم پاکستان کی وحدت و سلامتی کی علامت تھے۔ وہ ہر طرح کی تقسیم سے بلند تھے اور ملک کے تمام طبقات ان پر بھروسا کرتے تھے۔ صرف قائداعظم میں یہ جرأت تھی کہ وہ ڈھاکا میں کھڑے ہوکر کہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ عام طور پر جماعتیں رہنمائوں کے بعد ان کا نعم البدل بن جاتی ہیں، مگر مسلم لیگ کی حالت خستہ تھی اور قائداعظم کے بعد ان کی جگہ لینے کے لیے نہ کوئی شخصیت موجود تھی نہ جماعت۔ لیکن قائداعظم کی عدم موجودگی سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا، 1948ء سے 1971ء تک اسے حقیقت بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، بلکہ اس کے برعکس ملک کا اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جو سیکولر تھے، لبرل تھے اور جن کو مذہب سے رتی برابر دلچسپی نہیں تھی۔چنانچہ مغربی اورمشرقی پاکستان کے درمیان قربت اور یگانگت کا وہ احساس پیدا ہی نہیں ہوسکا جو اسلام پیداکرتا ہے اور جس نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو نسل، زبان، جغرافیہ اور فرقہ و مسلک سے بلند ہونے پر مائل کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی کہانی ایک فقرے میں بیان کی جاسکتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مذہب کی قوت نے بنایا تھا اور مذہب کی قوت کی عدم موجودگی نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ لیکن اس کا ذمہ دار مذہب نہیں وہ حکمران طبقہ ہے جس نے پاکستان میں اسلام کو اپنے امکانات ظاہر ہی نہیں کرنے دیے۔ اسلام دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرسکتا تھا تو وہ اس ریاست کو سپر پاور بھی بناسکتا تھا۔ ریاست مدینہ کیا خلافتِ عثمانیہ تک اس کی ٹھوس مثال ہے۔ بعض لوگ مذہب کی اہمیت پر اس اصرار کو ’’مبالغہ آمیز‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کا مذہب سے تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو صرف عقائد و عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور جب ا سلام پر عمل ہوتا ہے تو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا پورا سانچہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسلام کا تصورِ عدل ہے جس کے بغیر اسلامی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں بھی عدل نظر نہیں آتا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اسی اعتبار سے پاکستان کے معاشی اور سماجی کیک سے حصہ فراہم ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے لوگوں سے کہا گیا کہ تمہیں مساوات یا Parity کے اصول کو تسلیم کرنا ہوگا اور وسائل میں تمہارا حصہ 54 فیصد نہیں صرف 50 فیصد ہوگا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے اس اصول کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا لیکن حسین شہید سہروردی نے پاکستان کی وحدت کے لیے اس اصول کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی اور وہ اپنی مہم میں کامیاب رہے۔ لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مساوات کے اصول پر بھی عمل نہ کیا۔ یہاں تک کہ حسین شہید سہروردی کی عزیزہ شائستہ اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں شکایت کی ہے کہ حسین شہید سہروردی نے مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنے سیاسی کیریئر کو دائو پر لگایا لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی اُن کی اس خدمت کا اعتراف کرنا تک پسند نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں معاشی استحصال کی شکایات عام ہوگئیں۔ ان شکایات کو عملی زندگی کے تجربات سے تقویت فراہم ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر بنگالی‘ آبادی کا 54 فیصد تھے لیکن برّی فوج میں ان کی موجودگی صرف آٹھ دس فیصد تھی۔ فضائیہ میں ان کی موجودگی زیادہ تھی مگر یہ بھی پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان ہجرت کرنے والے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان میں 50 تھانے تھے تو صرف پانچ چھ تھانوں کے سربراہ بنگالی تھے۔ باقی تھانوں کے ایس ایچ اوز پنجابی‘ پٹھان یا مہاجر تھے۔ پاکستان کی نوکر شاہی کا معاملہ بھی یہی تھا۔ بیوروکریسی میں بنگالیوں کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ یہ صورت حال بنگالی 24 سال تک اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، چنانچہ اُن میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف ردعمل پیدا ہونا فطری بات ہے۔ جنرل یحییٰ خان نے فوج میں بنگالیوں کی کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، مگر اُس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور جنرل یحییٰ کے اضافے سے بھی بنگالیوں کا فیصد برّی فوج میں دس سے بڑھ کر پندرہ بیس فیصد ہوجاتا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے پاکستان‘ اس کی فوج‘ اس کی پولیس اور اس کی بیوروکریسی پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کو ’’جہیز‘‘ میں ملی تھی اور اس جہیز میں بنگالیوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم کاز کے لیے بنگالی 1906ء سے جدوجہد کررہے تھے جبکہ پنجاب میں1946ء تک یونینسٹوں اور صوبہ سرحد پر سرحدی گاندھی کا قبضہ تھا۔ لیکن ناانصافی سے بھی زیادہ افسوس ناک چیز بنگالیوں کی تذلیل اور تحقیر تھی۔
اس تحقیر کا ایک پہلو ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ تھا جس کے تحت صرف چھ فٹ کے جوان فوج کے لیے موزوں سمجھے جاتے تھے، جبکہ بنگالی پستہ قد تھے، چنانچہ وہ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور مہاجروں کے برابر ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ تحقیر مغربی پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص فوجیوں میں اوپر سے نیچے تک موجود تھی۔ ایم ایم عالم پاک فضائیہ کے بے مثال شاہین تھے۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ میں دو منٹ میں بھارت کے چار جہاز گرائے تھے اور یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ چند سال پہلے وہ اے آر وائی پر انٹرویو دیتے ہوئے بتارہے تھے کہ جنرل ایوب کو جب میرے کارنامے کی اطلاع دی گئی تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کارنامہ انجام دینے و الا بنگالی ہے تو اُن کا چہرہ سرخ سے سیاہ ہوگیا۔ یعنی انہیں یہ بات پسند نہ آئی۔ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ سقوطِ ڈھاکا سے کافی عرصہ پہلے ڈھاکا پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک بنگالی نے ان کے لیے قلی کا کام انجام دیا۔ صدیق سالک نے اس بنگالی کو کچھ پیسے دینے چاہے تو ان کو ہوائی اڈے پر “Recieve” کرنے والے فوجی افسر نے کہا: ’’سر، ان حرام زادوں کا دماغ خراب نہ کریں‘‘۔ یعنی ہمارے فوجی افسر کے لیے ایک عام بنگالی ’’حرام زادہ‘‘ تھا۔ جنرل رائو فرمان علی مشرقی پاکستان کا ایک اہم کردار تھے۔ انہوں نے کئی برس پہلے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران میرے گھر میں کام کرنے والی ماسی نے مجھ سے کہا کہ صاحب آپ ’’غداروں‘‘ کا سر کچل دیں۔ یعنی بنگالیوں کے غدار ہونے کی داستان ان کے ’’غدار‘‘ بننے سے پہلے ہی عام کردی گئی تھی اور اس غداری کی اطلاع ’’ماسیوں‘‘ تک کو ہوگئی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بنگالیوں کی تذلیل کا کیسا سلسلہ مدتوں سے جاری تھا۔ اسلام نسل‘ رنگ‘ جغرافیے اور زبان کے جن بتوں کو توڑتا ہے پاکستان کے حکمران طبقے کے اراکین مشرقی پاکستان میں ان تمام بتوں کی پوجا کررہے تھے۔
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ تھا مگر اس کے باوجود مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے یہ تصور عام کیا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں وہ فوجی قوت موجود ہی نہ تھی جو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے ناگزیر تھی۔ اس پہ طرہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں تعینات فوجی مشرقی پاکستان کو اپنا گھر ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ میں ڈھاکا پہنچا تو مجھے میرے فوجی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ رہنے کے لیے بھاری سامان نہ خریدنا کیونکہ پتا نہیں ہمیں کس وقت یہاں سے جانا پڑ جائے۔ چند برس پہلے جنرل (ر) حمیدگل سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ ہماری فوج کا ڈسپلن بڑا زبردست ہے، یہ ٹوٹتا نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ کیسا ڈسپلن ہے کہ ملک ٹوٹ جاتا ہے مگر ڈسپلن نہیں ٹوٹتا! جنرل (ر) حمیدگل نے ہمارا سوال سنا تو کہنے لگے کہ آپ کے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس مثال کو مشرقی پاکستان کے حالات پر منطبق کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار فوجیوں میں ایسے دس پندرہ ہزار فوجی تو ضرور ہونے چاہیے تھے جو کہتے کہ ہمارا ملک ٹوٹ رہا ہے اس لیے ہم مرجائیں گے مگر دشمن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ لیکن ادھر جی ایچ کیو سے ایک حکم آیا اور اُدھر تمام فوجیوں نے ڈسپلن کی پاسداری کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ بلاشبہ دس پندرہ ہزار فوجیوں کے ہتھیار نہ ڈالنے سے کچھ نہ ہوتا، لیکن ایک مثال تو قائم ہوتی اور ہم آج فخر سے کہتے کہ ہمارے کچھ فوجیوں نے مشرقی پاکستان کا دفاع ٹھیک اس طرح کیا جس طرح مادرِ وطن کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر کا دفاع کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کا اصول اکثریت ہے اور 1970ء کے انتخابات میں اکثریت شیخ مجیب الرحمن کو حاصل ہوگئی تھی، چنانچہ انہیں ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اقتدار منتقل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہ بھٹو نے اُن کی اکثریت کو تسلیم کیا، نہ جنرل یحییٰ نے۔ لیکن اس صورتِ حال کے اصل ذمے دار جنرل یحییٰ تھے۔ فوج ان کے ہاتھ میں تھی، اکثریت کا اصول ثابت ہوچکا تھا، چنانچہ اگر وہ بھٹو سے کہتے کہ شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرو تو بھٹو کے پاس اُن کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا، بالخصوص اس صورت میں جب کہ بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان شیخ مجیب کے چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر اتفاقِ رائے کی خبر گرم تھی۔
لیکن جنرل یحییٰ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ لوگ کہتے ہیں سقوطِ ڈھاکا کے ذمے دار تین لوگ ہیں: اندرا گاندھی، بھٹو اور یحییٰ۔ لیکن اگر ایسا ہے تو بھٹو اور یحییٰ پر کبھی ملک توڑنے کے الزام میں مقدمہ کیوں نہیں چل سکا؟ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو ایک شخص کے مشتبہ مقدمے میں سزائے موت دے دی لیکن ان پر سقوطِ ڈھاکا میں ملوث ہونے کا الزام کبھی نہیں لگایا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو پر ملک توڑنے کا مقدمہ چلاتے تو پھر ان کے فوجی بھائیوں کا کردار بھی ضرور سامنے آتا۔ بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان الگ نہیں ہوسکتا تھا مگر بھارت کی مداخلت کے لیے سازگار حالات ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کیے تھے۔ بھارت پہلے دن سے پاکستان کی تاک میں تھا اور مشرقی پاکستان میں ہندوئوں کی بڑی آبادی تھی، چنانچہ ہمیں مشرقی پاکستان کو زیادہ محبت‘ زیادہ انصاف اور زیادہ مہربان بن کر چلانا چاہیے تھا، لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس کے برعکس طریقے سے مشرقی پاکستان کو چلایا۔ المناک بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں خلیج حائل تھی اورہمارے ذرائع ابلاغ مشرقی پاکستان میں سب ٹھیک ہے کا سرکاری راگ الاپ رہے تھے، چنانچہ سقوطِ ڈھاکا ہوا تو مغربی پاکستان کے لوگ حیران رہ گئے۔
لیکن سقوطِ ڈھاکا کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس کہانی کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اس طرح فراموش کیا جیسے 16 دسمبر 1971ء کو ملک نہ ٹوٹا ہو، قمیص کا بٹن ٹوٹا ہو۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو متحدہ پاکستان کی جنگ صرف جماعت اسلامی نے لڑی۔ اس کے رہنمائوں اورکارکنوں نے ملک بچانے کے لیے 1971ء میں بھی قربانیاں دیں اور اس کے بعد فوج کا ساتھ دینے کے طعنے سہے، یہاں تک کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں آج بھی پاکستان کے تحفظ کی جنگ کی قیمت ادا کررہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس کے رہنمائوں پر جھوٹے مقدمات چلارہی ہے اور خود ساختہ عدالتیں انہیں موت اور عمرقید کی سزائیں سنا رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اور حکومت جس طرح 1971ء میں جماعت اسلامی کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوئی تھیں اسی طرح آج حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ اظہارِ ہمدردی تک کی توفیق فراہم نہیں۔ یہ سقوطِ ڈھاکا کا تسلسل نہیں تو اور کیا ہے؟