افریقا اور ایشیا میں اپنے زرخیز علاقوں سے محروم ہونے کے باعث قسطنطنیہ کے عوام پہلے ہی قحط کا سامنا کررہے تھے، اب پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے بھوک اور افلاس کا مسئلہ زیادہ تشویشناک صورت اختیار کرچکا تھا۔ قیصر کی مایوسی اور بددلی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ ایک دن جب قسطنطنیہ کا اسقفِ اعظم سرجیس سینٹ صوفیہ کے عظیم الشان گرجے میں گریہ و زاری کررہا تھا، اُسے یہ اطلاع ملی کہ ہرقل قرطاجنہ کی طرف فرار ہونے کا فیصلہ کرچکا ہے اور اُس کا سازوسامان جہازوں پر لادا جارہا ہے۔ سرجیس کرب و اضطراب کے عالم میں گرجے سے نکلا اور ہانپتا کانپتا قیصر کے محل میں داخل ہوا۔ شہنشاہ اور ملکہ سفر کی تیاریوں میں مصروف تھے اور کسی کو ملاقات کی اجازت نہ تھی، لیکن پہریداروں کو قسطنطنیہ کے اسقفِ اعظم کا راستہ روکنے کی جرأت نہ ہوئی۔
ہرقل اپنا غم غلط کرنے کے لیے شراب پی رہا تھا۔ سرجیس کو دیکھ کر اُس کے ہاتھ سے سونے کا پیالہ گرپڑا اور اُس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’مقدس باپ مجھے معلوم ہے، آپ کس لیے آئے ہیں لیکن اب اس کا سے کوئی فائدہ نہیں، میں دارالحکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں‘‘۔
سرجیس اطمینان سے ہرقل کے سامنے بیٹھ گیا اور پھر قدرے توقف کے بعد بولا۔ ’’آپ اس لیے بھاگ رہے ہیں کہ قسطنطنیہ کے حالات مخدوش ہوچکے ہیں، لیکن یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر قرطاجنہ کو کوئی حادثہ اس پیش آیا، اگر ایرانی آواز وہاں پہنچ گئے تو آپ کہاں جائیں گے؟‘‘۔
ہرقل نے عاجز ہو کر جواب دیا۔ ’’مقدس باپ آپ مجھے بزدلی کا طعنہ نہیں دے سکتے۔ میں کئی برس ایرانیوں کے ساتھ لڑ چکا ہوں، اگر صرف کسریٰ کے لشکر کے ساتھ مقابلہ ہوتا تو شاید ہم چند برس اور انہیں آبنائے باسفورس کے پار روک سکتے تھے۔ لیکن ان نئے درندوں کو روکنا میرے بس کی بات نہیں۔ میرے سپاہی ان کے نام سے لرزتے ہیں۔ میرے سالار مایوس اور بددل ہوچکے ہیں۔ میرا خزانہ خالی ہے میں اپنے امراء اور اپنے عوام سے مزید قربانیوں کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ قرطاجنہ پہنچ کر مجھے تیاری کے لیے موقع مل سکتا ہے۔ مگر، بحری قوت کے بغیر وہاں نہیں پہنچ سکتے، اگر ایرانیوں نے وہاں تک ہمارا پیچھا کیا تو بھی ہمیں تیاری کے لیے مہلت ضرور مل جائے گی‘‘۔
سرجیس نے جواب دیا۔ نہیں، نہیں آپ اپنے آپ کو فریب دینے کی کوشش نہ کریں، آپ بازنطینی سلطنت کے حکمران ہیں اور قسطنطنیہ کے بغیر اس سلطنت کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ آپ سرکٹوانے کے بعد بھی کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ آپ اُن لوگوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جاسکتے، جن کے بیٹوں بھائیوں نے آرمینیا، شام اور مصر کے میدانوں میں آپ کے جھنڈے تلے جانیں دی ہیں، اگر آپ نے یہ غلطی کی تو قرطاجنہ کے لوگ آپ کے لیے اپنے خون کا ایک قطرہ بہانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ انطاکیہ، دمشق اور اسکندریہ چھن جانے کے بعد قسطنطنیہ اس دنیا میں عیسائیت کا آخری حصار ہے۔ اور اگر یہ حصار منہدم ہوگیا تو اِس دُنیا سے عیسائیت کے سارے چراغ بجھ جائیں گے۔ پھر ممکن ہے کہ آپ اِس ظلمت کدے کے کسی نامعلوم گوشے میں چند سال اور سسکتے ہیں، لیکن جو لوگ آزادی اور عزت کی نعمتوں سے آشنا ہیں، اُن کے لیے ایسی زندگی کا ہر لمحہ موت سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ہرقل جسے میں جانتا ہوں، جس کی فتح اور نصرت کے لیے آج ہر خانقاہ اور ہر گرجے میں دعائیں مانگی جاتی ہیں، جسے قدرت نے بدترین حالت میں ہمارا محافظ بنا کر بھیجا تھا۔ اور جس کے سر پر میں نے اپنے ہاتھوں سے تاج رکھا تھا، مجھے خدا اور اُس کے بندوں کے سامنے شرمسار نہیں کرے گا‘‘۔
ہرقل نے نڈھال سا ہو کر سرجیس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’مقدس باپ، آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ میں کیا کرسکتاہوں؟۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ سنیٹ ارکان کی اکثریت میرے فیصلے کی تائید کرچکی ہے‘‘۔
سرجیس نے جواب دیا۔ ’’سنیٹ کے ارکان کی اکثریت کی تائید سے ایک غلط فیصلہ صحیح نہیں ہوسکتا لیکن میں یہاں اِس مسئلے پر بحث نہیں کروں گا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں، آپ میرے ساتھ سینٹ صوفیہ کے مقدس گرجے میں تشریف لے چلیں، مجھے یقین ہے کہ وہاں بزرگان دین کی روحیں ہماری رہنمائی کریں گی‘‘۔
ہرقل تذبذب کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ سرجیس اُٹھا اور آگے بڑھ کر ادب کے ساتھ اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔ ’’آئیے!‘‘۔
ہرقل اپنی بھاری قبا سنھالتا ہوا، اُس کے ساتھ چل دیا۔ شہر کے عوام جو ہرقل کے ارادے سے باخبر ہوچکے تھے، محل کے دروازے کے سامنے جمع ہورہے تھے۔ اور بعض دل جلے پرجوش نعروں سے اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے تھے۔ پہریدار انہیں اپنے نیزوں کی مدد سے پیچھے ہٹانے کی کوشش کررہے تھے۔ شرم و ندامت اور خوف کے احساس سے ہرقل کو دروازے سے باہر پائوں رکھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ سرجیس ہجوم کا جوش و خروش دیکھ کر چند قدم آگے بڑھا اور بلند آواز میں چلایا۔ ’’بھائیو! راستہ چھوڑ دو، تمہارے شہنشاہ، تمہاری سلامتی کی دعا مانگنے کے لیے سینٹ صوفیہ کے مقدس گرجے میں حاضر ہونا چاہتے ہیں‘‘۔ ان الفاظ نے ہجوم پر جادو کا سا اثر کیا اور وہ راستہ چھوڑ کر اِدھر اُدھر سمٹنے لگے۔
ہرقل مسلح پہریداروں کی حفاظت میں گرجے میں داخل ہوا اور آن کی آن میں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ سرجیس نے ایک ولولہ انگیز تقریر کے بعد کلیسا اور سلطنت کے لیے فتح و نصرت کی دعائیں مانگیں اور پھر توجہ طلب نگاہوں سے ہرقل کی طرف دیکھنے لگا۔ ہرقل کے چہرے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس کی قوت فیصلہ جواب دے چکی ہے۔ اُس نے مغموم اور افسردہ نگاہوں سے لوگوں کی طرف دیکھا اور گردن جھکالی۔ جو سکتے کے عالم میں اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ سرگرشیاں کرنے لگے۔ سرجیس نے کہا۔ ’’عالیجاہ آپ کی رعایا اپنی قسمت کا فیصلہ سننا چاہتی ہے‘‘۔
ہرقل نے دوبارہ گردن اٹھائی، تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ چند ثانیے وہ حاضرین کی طرف دیکھتا رہا، اور پھر اچانک اسقفِ اعظم کے سامنے دوزانو ہو کر بولا۔ ’’مقدس باپ! میں کلیسا اور اپنی رعایا کے سامنے شرمسار ہوں۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں قسطنطنیہ کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ میری زندگی اور موت ان لوگوں کے ساتھ ہے۔ آپ دعا کریں کہ خدا مجھے ایک حکمران کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر ہونے کی ہمت دے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد جب ہرقل گرجے سے نکل کر اپنے محل کا رُخ کررہا تھا تو عوام مسلح پہریداروں کو اِدھر اُدھر دھکیل کر اُسے اپنی حفاظت میں لے چکے تھے۔ اور وہ جو تھوڑی دیر قبل اُسے ملامت کررہے تھے، اب انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اُس کی سلامتی اور فتح کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔
قسطنطنیہ کی خوشگوار آب و ہوا میں عاصم کی صحت آہستہ آہستہ ٹھیک ہورہی تھی۔ کلاڈیوس کے گھر میں اسے زندگی کا ہر آرام میسر تھا۔ مرقس جو شاید عام حالات میں ایک عرب کے ساتھ بات تک کرنا پسند نہ کرتا اسے اپنے بیٹے کا محسن سمجھ کر ہر ممکن طریقے سے اُس کی دلجوئی کیا کرتا تھا۔ انطونیا کی طرح جولیا بھی اُس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ ویریس جس کا جہاز باسفورس کے جنگی بیڑے کے ساتھ شامل کردیا گیا تھا، کلاڈیوس کی طرح اُس کا گرویدہ بن چکا تھا اور قریباً ہر شام اُس کے پاس آیا کرتا تھا۔ لیکن عاصم کو ایک مستقل مہمان کی حیثیت سے وہاں ٹھہرنا پسند نہ تھا۔ چناں چہ قسطنطنیہ میں قریباً ایک ماہ آرام کرنے کے بعد اُس نے مستقبل کے متعلق سوچنا شروع کر دیا۔ چند بار اُس نے کلاڈیوس کے ساتھ اِس موضوع پر گفتگو کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ ابھی تمہاری صحت ٹھیک نہیں ہوئی۔ تمہیں کچھ عرصہ اور آرام کی ضرورت ہے۔ جب تم تندرست ہو جائو گے تو تمہارے لیے کوئی موزوں کام تلاش کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ سردست تمہیں میرے گھر کو اپنا گھر سمجھنا چاہیے۔ عاصم کی طرح فرمس کو بھی اپنے داماد کو گھر میں ایک مستقل مہمان کی حیثیت پسند نہ تھی۔ معمولی کاروبار شروع کرنے کے لیے اُس کے پاس کچھ سرمایہ موجود تھا اور اُس نے قسطنطنیہ میں اطمینان کا سانس لیتے ہی گلیوں اور بازاروں کے چکر لگانے شروع کردیے تھے۔ عاصم کو اُس کے ارادے کا پتا چلا تو اُس نے اپنی ساری پونجی اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ مجھے اپنا شریک سمجھیں اور بلاتوقف کوئی کام شروع کردیں‘‘۔
ایک شام فرمس نے اُس سے کہا۔ ’’بیٹا میں نے ساری زندگی سرائے کا کاروبار کیا ہے اور قسطنطنیہ میں مجھے اپنے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موزوں مشغلہ نظر نہیں آتا۔ آج میں نے شہر سے باہر ایک کشادہ مکان دیکھا ہے، جسے معمولی ردّوبدل کے بعد ایک اچھی خاصی سرائے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اِس مکان کا مالک قسطنطنیہ کے حالات سے مایوس ہو کر اپنے بال بچے قرطاجنہ بھیج چکا ہے اور اب اپنی جائیداد ٹھکانے لگانے کی فکر میں ہے۔ میں اُس کے ساتھ قیمت کے متعلق بات چیت کرچکا ہوں۔ اور مجھے اُمید ہے کہ یہ مکان ہمیں بہت سستے داموں مل جائے گا۔ لیکن مجھے یہ اُلجھن ہے کہ رومی امراء اس قسم کے کاروبار کو پسند نہیں کرتے۔ کلاڈیوس، شاید میری مخالفت نہ کرے، لیکن اُس کا باپ یقینا یہ پسند نہیں کرے گا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’قسطنطنیہ میں یہ کام یقیناً آپ کے شایانِ شان نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کلاڈیوس آپ کے احترام کی وجہ سے خاموش رہے، لیکن اُس کے لیے اپنے احباب کا یہ طعنہ یقیناً ناقابلِ برداشت ہوگا، کہ اُس کا خُسر ایک معمولی سرائے چلا رہا ہے۔ اگر آپ مجھ پر اعتماد کرسکیں تو آپ کی طرف سے یہ کام میں اپنے ذمہ لینے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں میری حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں اگر جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کروں تو بھی مجھے کوئی ملامت نہیں کرے گا۔ اگر آپ پسند کریں تو میں بھی اپنی تھوڑی سی پونجی اس کاروبار میں لگانے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’بیٹا میں اپنی ذات سے زیادہ تمہارے مستقبل کے متعلق سوچتا ہوں، اِس عمر میں اگر میں کوئی کام شروع کرنا چاہتا ہوں تو اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں تمہیں اپنا شریک کار بنانا چاہتا ہوں۔ ایک بوڑھے آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لیے کسی بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں، لیکن تم ابھی جوان ہو اور تمہیں یہاں اپنی زندگی کے باقی دن گزارنے کے لیے کسی شغل کی ضرورت ہے۔ اگر تمہارے پاس ایک کوڑی بھی نہ ہوتی تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ برابر کا حصہ دار بنانے پر اصرار کرتا۔ جب تم اچھی طرح تندرست ہوجائو گے تو ہم کسی تاخیر کے بغیر یہ کام شروع کردیں گے۔ ابتدا میں تمہیں سارا کام سنبھالنا پڑے گا اور میں بظاہر ایک دوست اور مددگار کی حیثیت میں تمہارے پاس آیا کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصہ بعد کلاڈیوس اور اُس کا باپ ہمیں دو ساتھیوں کی حیثیت سے دیکھنے کے عادی ہوجائیں گے اور میں کھلے بندوں تمہارا شریک کار بن جائوں گا۔ لیکن پہلے میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم سچ مچ ہمیشہ کے لیے قسطنطنیہ کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرچکے ہو؟‘‘۔
عاصم نے کچھ دیر سرجھکا کر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ’’آپ کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آیا کہ ماضی کے ساتھ میرے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں؟‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’میں اکثر یہ سوچتا ہوں، تم قسطنطنیہ میں زیادہ عرصہ خوش نہیں رہ سکو گے اور کسی نہ کسی دن ماضی کی بعض حسین یادیں تمہیں آبنائے باسفورس کے پار لے جائیں گی‘‘۔
عاصم پھر تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا، بالآخر اُس نے گردن اُٹھا کر فرمس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ماضی کے دامن میں میرے لیے اب سپنوں اور یادوں کے سوا کچھ نہیں۔ میں ایک درخت کی ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح ہوں، جسے دریا کی طغیانیاں کوسوں دور کسی ٹاپو کے کنارے پہنچا دیتی ہیں۔ اب مجھے واپس جانے کے لیے حوادث کے اُس سیلاب کا رُخ بدلنا پڑے گا جو مجھے شام اور مصر کے راستے یہاں لے آیا ہے اور یہ میرے بس کی بات نہیں۔ اپنے ماضی کی گزرگاہ پر اگر میں نے کوئی نخلستان دیکھا تھا تو یہ میری نگاہوں کا فریب تھا۔ اگر میں نے کسی درخت کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھنے کی تمنا کی تھی تو یہ میری نادانی تھی۔ میں نے مایوسی کی تاریک آندھیوں میں جو چراغ جلائے تھے وہ بجھ چکے ہیں۔ اب میں اپنے آپ کو یہ فریب دینے کی کوشش نہیں کروں گا کہ آبنائے باسفورس کے پار کوئی میرا انتظار کررہا ہے‘‘۔
فرمس نے سوال کیا۔ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ تم اُس ایرانی لڑکی کو بھول جائو، جس کی ایک مسکراہٹ تمہیں اپنی جان پر کھیلنے پر آمادہ کرسکتی تھی‘‘۔
(جاری ہے)