بجزو

361

جس گائوں کے ایک بزرگ کا حال سنانا چاہتا ہوں وہ شہر یا قصبے کی آبادی سے بہت دور ایک پہاڑی مقام میں واقع تھا۔ جہاں موجودہ زمانے کی نعمتوں سے اب تک کسی ایک کا بھی گزر نہیں ہوا تھا۔ مثلاً تعلیم، اسپتال، کوتوالی، الیکشن، ہندو مسلم فساد، گائوں سدھار اور اسی طرح کی ریڈیو قسم کی اور چیزیں۔ بجرو یہاں کے سردار تھے جن کے بارے میں لوگ صرف اتنا جانتے تھے کہ ان سے زیادہ مفید اور مضبوط آدمی گائوں میں کوئی اور نہیں… واقعہ بھی یہ ہے کہ ان سے زیادہ جہاں دیدہ اور کارکردہ آدمی وہاں کوئی اور تھا بھی نہیں۔ اس گائوں میں نہ کبھی چور آئے نہ وبا پھیلی۔ چور اس لیے نہیں آتے تھے کہ بجرو خود کسی زمانے میں ڈاکو رہ چکے تھے ایسے ڈاکو کہ ان کی زندگی میں چور اور تھانے دار دونوں نے عہد کرلیا تھا کہ کوئی بات ایسی نہ ہونے پائے جس سے بجرو سے سابقہ پڑنے کا امکان اور بیماری یوں پاس نہیں آتی تھی کہ بجرو کے حکم سے نہ تو کوئی شخص گائوں میں بیکار رہ سکتا تھا، نہ سورج نکلنے اور سورج چھپنے کے درمیان گھر کے اندر قدم رکھ سکتا تھا۔

بجرو بوڑھے ہوچکے تھے اس لیے سخت کام کرنے کے بجائے اب انھوں نے یہ مشغلہ اختیار کیا تھا کہ گائوں بھر کے لوگ دن میں کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف ہوجاتے تو یہ گائوں والوں کے چھوٹے بچوں کا چارج لے لیتے۔ ان کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے۔ کسی کے ساتھ کھیلتے کسی کو قصہ سناتے اور کسی کی گوش مالی کرتے۔ شام کو ان کی مائیں واپس آکر اپنے اپنے بچے ساتھ لے جاتیں اور مرد بیٹھ کر بجرو کو دن بھر کے کاموں کی تفصیل سناتے۔ یہ یہ ہوا یہ یہ دقتیں ہیں یہ یہ ہونے والا ہے، ہر ایک کے کام اور ہر ایک کی کارکردگی سے بجرو واقف تھے بجرو ہوں کرتے جاتے اور جہاں کسی نے واقعات میں گرہ لگانی شروع کی بجرو نے آنکھ اٹھا کر اس طور سے گھورا گویا وہ اس کے بیان کو سمجھنے سے معذور ہیں۔ اور معذور ہی نہیں بلکہ اس کو سزا دینے پر بھی آمادہ ہیں۔

ایک دن برسات کے موسم میں کئی دن مسلسل بارش ہوچکی تھی، بعض نوجوان دیہاتیوں نے بجرو سے کہنا شروع کیا۔ بجرو دادا سنا ہے کہ یہاں سے بہت دور ایک دیس ہے جہاں انوکھی باتیں ہوتی ہیں، بغیر کنویں یا تالاب کے پانی ملتا ہے۔ بغیر دیے کے روشنی ہوتی ہے، بغیر جانور کی سواریاں ہیں، بغیر خط پتر کے حال احوال معلوم ہوجاتا ہے، بغیر کھیتی باڑی کے غلہ ترکاری مل جاتی ہے، عورت مرد ہر وقت کھیلتے کودتے رہتے ہیں، بھوت پریت پکڑ لیے گئے جو ناچا گایا کرتے ہیں، ایک آدمی کسی کو مار ڈالے تو دس آدمی اسے مار ڈالتے ہیں اور پھر ان دسوں کو مارنے والا کوئی نہیں ملتا کھیتی کوئی نہیں کرتا، کھاتے سب ہیں، بجرو دادا! ایک دن ہم کو بھی لے چلو ہم بھی دیکھ آئیں۔

بجرو دادا پہلے تو چپ رہے۔ پھر تمباکو کا ایک نہایت آب دوز قسم کا کش لے کر چلم کو دوسرے کے حوالے کیا اور بولے بیٹا ٹھیک ہے ہمارا سب دیکھا بھالا ہے اس بستی کو شہر کہتے ہیں۔ ان شہروں کا عجیب حال ہے۔ میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ رہا ہوں اور انھیں خوب جانتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے ناواقف نہیں۔ ان کے مکانات بڑے مضبوط بڑے خوب صورت اور بڑے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ ان کو کھلی ہوا اور روشنی میسر نہیں کوٹھڑی میں نہاتے ہیں جہاں سوتے ہیں وہیں پاخانہ پھرتے ہیں۔ کام نہیں کرتے نہ ورزش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں کھانا دکان پر پکتا ہے وہیں کھایا بھی جاتا ہی، ان کے کھانا کھانے پکانے کا برتن بھی گندہ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ گندی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں یہ کھانا کھاتے ہیں۔ شہر کی دکان پر کھانا پکتا دیکھو تو تم کو کئی کئی دن بھوک نہ لگے اور ان کے یہاں کے غل غپاڑے سن پائو تو رات کو نیند نہ آئے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں درجنوں گھسے پلے سوتے، جاگتے، جیتے، مرتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے چوڑے راستے ہیں لیکن ہر روز اس میں کوئی نہ کوئی کچل کچلا کر مر جاتا ہے۔ جتنا کام نہیںکرتے اس سے زیادہ دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، خود لڑتے ہیں دوسرے صلح کراتے ہیں اس لیے ہر صلح دوسرے جھگڑے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

ان کے عجیب عجیب کھیل ہیں۔ تم کو تھوڑی دیر میں سارا حال کیسے بتائوں؟ کہاں سے شروع کروں؟ کہاں ختم کروں؟ اچھا آئو تم کو ان کے لڑنے کا حال سنائوں، ان کے ہاں لڑائی ایسے شروع ہوتی ہے۔

کسی نے کہا میں الو، دوسرے نے کہا میں چمگادڑ، تیسرے نے کہا میں نیل کنٹھ مہادیوا۔ ان میں سے ایک اس پر لڑنا جھگڑنا شروع کرتا ہے کہ دنیا میں سب کے سب الو کیوں نہیں ہوجاتے۔ دوسرا کہتا ہے، جہاں چمگادڑ ہو وہاں الو کا گزر کیوں ہو۔ تیسرا کہتا ہے نیل کنٹھ مہادیو کے ہوتے ہوئے الو اور چمگادڑ کو جینے کا کب حق حاصل ہے۔ کوئی ان احمقوں سے پوچھے کہ جس جنگل میں صرف الو، چمگادڑ اور نیل کنٹھ مہادیو ہی ہوں وہاں سادھارن سے رہن سہن کیسے ہوسکتی ہے؟ الو کو اس پر اصرار کہ ویرانہ میرا، چمگادڑ کہتا ہے ویرانہ تیرا ہو تو بسیرا میرا اور نیل کنٹھ مہادیو کا دھرم یہ کہ ویرانہ یا بسیرا سے مجھے سروکار نہیں نرم چارہ میرا، اس پر ان میں جنگ ہوتی ہے۔ ان کے یہاں ایک چیز ہوتی ہے جس کا نام انھوں نے اخبار رکھ چھوڑا ہے، سارے رگڑے جھگڑے کا گھر یہی ہے جس طرح وبا کے کیڑے ایک جگہ سے دوسری جگہ لائے جاتے ہیں، اسی طرح جھگڑے فساد کے کیڑے مکوڑے ان اخبارات سے ہر جگہ پھیلائے جاتے ہیں۔

تم کو وہ مثل تو یاد ہوگی۔ ایک نے کہا کوا کان لے گیا، اب یہ کوئی نہ دیکھے گا کہ کان موجود بھی ہے یا نہیں۔ ہاتھ دھو پنجے جھاڑ کوے کے پیچھے ہولیں گے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوے کے پیچھے جانے سے پہلے کان موجود تا لیکن کوا گوہار کے بعد دیکھتے ہیں تو کان تو غائب ہی ہیں۔ اس کے ساتھ کسی کی ناک کٹی ہوئی ہے تو کسی کا ہونٹ، کسی کی دم بٹے کھاتے ہیں۔اس کوا گوہار پر بغلیں بجائی جاتی ہیں۔ ایک دفعہ میں بھی اس میں پھنس گیا تھا، مجھ سے کہنے لگے تمہیں الو پسند ہے یا چمگادڑ یا نیل کنٹھ مہادیو۔ میں نے کہا اس سے تمہارا مطلب کیا۔ کہنے لگے جنگل کی سرداری کا چنائو درپیش ہے۔ میں نے کہ ظاہر ہے کہ میں الو کا ساتھی ہوں، اس پر چمگادڑ نے کہا۔ الو کیوں بنتے ہو میرا ساتھ دو۔ میں نے کہا یہ کیوں؟ کہنے لگے مجھ میں خاصیت الو کی ہے اور ولولہ نیل کنٹھ کا اتنے میں نیل کنٹھ مہادیو ٹائیں ٹائیں کرتے آئے اور میری پگڑی جھپٹ کر چل دیے الو نے یہ دیکھا لپک کر ایک ٹھنٹھ پر جا بیٹھا چمگادڑ الٹا لٹک گیا اور میں سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔

ان کے یہاں عورتیں بھی ہوتی ہیں، ان میں بعض تو ایسی ہیں جنہوں نے سورج اور آسمان بھی نہیں دیکھے ہیں۔ گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں، فاقہ کرتی ہیں، بچے پالتی ہیں۔ اور چکی پیستی ہیں یہاں تک کہ ایک دن در و دیوار کی چکی خود انھیں پیس ڈالتی ہے بعض ایسی ہیں جو صرف پان کھاتی ہیں، چھالیہ کترتی ہیں، شوہر کو گالی دیتی ہیں اور اپنے میکے والوں کی پرورش کرتی ہیں، اب اس میں ایک اور قسم پیدا ہوگئی ہے۔ یہ انگریزی بولتی ہیں، ساڑی پہنتی ہیں اور سینما دیکھتی ہیں، شوہر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ گھروں کی چہار دیواری سے بھاگ کر انھوں نے پارک کی جھاڑی میں پناہ لی ہے۔

شہروں میں ایسے ایسے گھر بنے ہیں، جہاں ہر قسم کے جنگلی جانور اور پرند پکڑ پکڑ کے رکھے گئے، جن کو یہ چڑیا گھر یا جانوروں کا عجائب خانہ کہتے ہیں۔ میں ان شہر والوں کی تعریف کروں گا کہ انھوں نے ہر چوپایہ یا پرندے کے لیے ایسی جگہ بنادی ہے گویا وہ اسی حالت میں اور اسی مقام پر ہیں جہاں کہ وہ پکڑے جانے سے پہلے تھے۔ جانوروں کو شہری بنانے کی کوشش کرتے کرتے ان کے دل میں یہ سما گئی ہے کہ شہریوں کو جنگلی بنایا جائے۔ ان میں جو سب سے زیادہ مہذب اور تعلیمی یافتہ سمجھے جاتے ہیں، انھوں نے اعلان کردیا ہے کہ اب تک جو لوگ خیالات کے ننگے تھے، ان کو جسم کا بھی ننگا ہونا چاہیے چنانچہ ان شہریوں میں جو سب سے زیادہ مہذب ہے وہ سب سے زیادہ ننگا ہے، ان کے مرد عورتوں نے کپڑے اتار کر پھینک دیے ہیں اور اب جنگلوں میں ننگے پھرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس سے تندرستی بڑھتی ہے اور مرد عورت کے تعلقات سدھرتے رہتے ہیں۔ ننگا پن سات سمندر پار سے آیا ہے۔ اب تک ہندوستان میں بھوکوں کی کیا کمی تھی کہ اس میں ننگوں کا اور اضافہ ہوا۔ یہ ننگوں کا عجائب خانہ ہوا۔

لیکن ان سب سے زیادہ انوکھا عجائب خانہ وہ ہے جس کو ان شہریوں نے اسکول، کالج، یونیورسٹی یا بورڈنگ ہائوس کا نام دے رکھا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو اصول انھوں نے چڑیا گھر میں ملحوظ رکھتا تھا، اس کو انسانوں کے اس عجائب گھر میں بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ یہاں ان کو ایک قسم کا منتر پڑھاتے ہیں اور ایک ہی قسم کے سانپ سے کھیلنا سکھاتے ہیں۔ اس عجائب گھر کے عجوبے اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان انسانی جانوروں کو ان کے نگراں ایک ہی طرح کی فضا میں رکھتے ہیں، ایک ہی قسم کا راتب دیتے ہیں، ایک ہی قسم کا کام لیتے ہیں اور ایک ہی قسم کے مداری رکھتے ہیں جو ایک ہی قسم کے کرتب سکھاتا ہے۔ کوئی پوچھے، احمقو! جو جانور اپنے اصلی گھر میں شکار پر زندگی بسر کرتا تھا، اسے مُردار کیوں کھلاتے ہو، جو میدان میں گھومتا پھرتا تھا، چاند، سورج، پھل، پھول، گرمی، سردی، محنت، مشفقت کی گردش میں پلا ہے اس کو کالے انچھر بھینس برابر کا سبق کیوں پڑھاتے ہو، جو نقش و نگینے کا کام کرتا تھا، اس سے مگدر کیوں ہلواتے ہو۔ جو کھیت جوتتا تھا، اسے گورکنی کیوں سکھاتے ہو۔ جو تیل بیچتاتھا اسے فارسی کیوں پڑھاتے ہو، جو مہا بھارت میں شریک تھا اس سے شکنتلا کا ناٹک کیوں کھلواتے ہو۔ جو ہندوستان میں پیدا ہوا ہو، اسے یورپ کا خواب کیوں دکھاتے ہو۔ ہرن پر گھاس لادنے سے کیا حاصل، مجنوں کو منطق سے کیا سروکار لیکن ی بات اس کی سمجھ میں نہ آئیں گی۔البتہ اب جب کہ اس کو انسانوں کے اس چڑیا گھر سے نکل کر روٹی کی تلاش ہوئی تو معلوم ہوا کہ تیلی کا بیل بجلی کی طاقت نہیں بن سکتا۔ اب بھوکوں مرتے ہیں۔ روتے ہیں کہ روزگار نہیں ملتا۔

چڑیا گھر والے چونکے تو معلوم ہوا کہ چڑیا چگ گئیں کھیت! مرض کی تحقیقات ہورہی ہے، اب ان کو کون بتائے کہ بھوک کا مرض تحقیقات سے نہیں خوراک سے جاتا ہے لیکن چڑیا خانے کا روگ ان کو اس طرح لگا ہے کہ روٹی سے پیٹ پھرنے پر اکتفا نہ کریں گے۔ جب تک روٹی کے ساتھ بوٹی نہ ہو۔ کیوں کہ تم جانتے ہو کہ چڑیا گھر میں ہاتھ پائوں ہی شل نہیں کردیے جاتے، ذائقہ بھی خراب ہوجاتا ہے، چٹخارے کا لپکا پڑ جاتا ہے اور تم جانور پیٹ تو بھرا جاسکتا ہے لیکن ذائقہ بہت دیر میں سدھرتا ہے۔

شہر والے اس پر بڑا ناز کرتے ہیں کہ ہم نے ایسی ایسی کلیں ایجاد کرلی ہیں کہ ہم کو اپنے جسم کے کل پرزوں کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں۔ چناں چہ اب ہرچیز کل سے بنائی جاتی ہے۔ ہاتھ لگانا حرام ہوگیا ہے، ہونا، جوتنا، کاٹنا، بُنتا، بنانا، بھرنا، لانا، لے جانا، ہنسنا، بولنا، لڑنا، جھگڑنا، بگڑنا، سنورنا، مرنا، جینا سب مشین سے ہوتا ہے۔ جو ہاتھ پائوں سے کام کرسکتے تھے ان کو کام نہیں ملتا۔ جن کو کام مل سکتا ہے ان کو ہاتھ پائوں چلانا نہیں آتا۔ شرافت اور ذلت، عفت و عصمت، بہادری و بزدلی، قابلیت اور ناقابلیت ہر ایک کی پشت پناہ مشین بن گئی ہے۔ مجھے اس وقت ہنسی آتی ہے جب شہر والے ہمارے حال پر ترس کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم گائوں والے جاہل ہوتے ہیں۔ ہماری بے وقوفی اور غریبی نے ہمیں تباہ کر رکھا ہے۔ ان کو کون بتائے کہ جب تک وہ ہماری فکر میں رہیں گے ہماری حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خود ان کے حال پر ترس کھائیں اور ذہن و دماغ کی گمراہیوں نے انھیں جس تاریک دلدل میں پھنسا دیا ہے اس سے ہم اپنے ہاتھ پائوں کی فیض بخشیوں سے ان کو نجات دلائیں۔ان میں بڑے بڑے ودوان لوگ ہیں جن کے سامنے آکاش اور پاتال کی کوئی حقیقت نہیں، ان کی نت نئی ایجادات نے قدرت کے کھیلوں کو ماند کردیا ہے لیکن زندگی کے کھیل نے ان کو زچ کردیا ہے ، وہ زندگی کے کھیل کو بے ایمانی سے جیتنا چاہتے ہیں۔ ہم دیہاتی زندگی کا کھیل کھیلتے ہیں وہ کھیل کی زندگی پر مرتے ہیں۔ وہ ایجاد کرسکتے ہیں ، ایثار سے محروم ہیں ہم ایثار کو سب کچھ سمجھتے ہیں ایجاد کے چکر میں نہیں پھنستے۔

ان کی ایک بڑی ایجاد روپیہ ہے جس کو انھوں نے یہ خاصیت دے رکھی ہے کہ اس سے ضرورت کی تمام چیزیں خرید سکتے ہیں۔ پیدا کرنے کو تو انھوں نے روپیہ پیدا کرلیا لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ اس کو خرچ کیسے کیا جائے؟ اب دنیا کی دقت یہ نہیں ہے کہ پیٹ کے لیے غلہ کیسے پیدا کیا جائے بلکہ روپیہ کا کیا کیا جائے۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ روپیے کے اعتبار سے غلے کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے۔ حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ غلے کے اعتبار سے روپیے کی قیمت گھٹتی بڑھتی۔ غلہ کاشتکاروں کی چیز ہے، روپیہ دولت مندوں کی، تم جانتے ہو کہ اس کھیل میں کس کا پلہ بھاری رہے گا۔جو روپیہ کا حال یہ ہے کہ اس کا گھٹنا بھی برا اور بڑھنا اس سے برا شہر والے اب تک کوئی ایسی تدبیر نہیں سوچ سکے ہیں، جس سے پیداوار اور روپیے میں تعلقات ہموار رکھے جاسکیں۔ ہماری تباہی اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم غلہ پیدا کرتے ہیں۔ ہم مریض یا جاہل ہیں بلکہ اس کا سبب یہ کہ شہر والے روپیہ ایجاد کرتے ہیں۔ اب تک ہم کو صرف اس مصیبت سے سابقہ تھا کہ بارش وقت پر نہیں ہوتی یا سیلاب آگیا لیکن سب سے بڑی مصیبت اب یہ ہے کہ شہر والے جب چاہتے ہیں روپیہ کا رخ بدل دیتے ہیں اور ہماری تمام کوشسیں دم کی دم میں رائیگاں ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی پوری کوشش اس پر صرف کرتے ہیں کہ غلہ پیدا کرنے کے جتنے جدید ترین اصول ہیں ہم ان کو کام میں لائیں لیکن ان کو کون سمجھائے کہ ان کو پوری کوشس اس پر صرف کرنی چاہیے کہ روپیہ ایجاد کرنے کے جتنے جدید ترین اصول ہیں انھیں بھول جائیں۔ ہم کو وہ ہمارے فرائض طرح طرح سے ریڈیو پر سناتے ہیں اور اس ہنسی دل لگی سے اپنا اور بعض دوسروں کا جی بہلاتے ہیں لیکن ان کے فرائض جب ہوائی جہاز اور مشین گن سے ان کو سناتے ہیں تو ہم کو ان پر بڑا ترس آتا ہے۔

شہر والوں نے ہماری دیکھا دیکھی اپنے گرد آلود دھواں دھار شہروں میں چھوٹے بڑے باغ اور پارک بنا رکھے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ کبھی کبھی ان کو صاف ہوا اور کھلی جگہ مل جایا کرے۔ ان کے پھل پھول کی کیاریاں بھی اتنی ہی مصنوعی ہوتی ہیں جتنے کہ ان کے مرد و عورت اپنی زندگی، اپنے رہن سہن اپنے لباس اور وضع اور اپنی شکل و صورت کے اعتبار سے مصنوعی ہوتے ہیں۔ ان کو وہ تفریح کہاں نصیب جو گائوں والوں کے حصے میں آئی ہے۔ ہم محنت کرتے ہیں اور اپنے باغ و کھیت خود بناتے ہیں اور پھر ان کی شادابی نمو اور فراوانی پر خوش ہوتے ہیں یہ خوشی ہمارے جسم اور روح دونوں کو تازہ کرتی اور قوی بناتی ہے، اور ہمارے پیڑ پودے ہمارے رنج و راحت سے متاثر ہوتے ہیں، شہر والوںکو شہر کے پارک میں یہ چیزیں کہاں نصیب ان وہ رابطہ اور وابستگی کہاں پیدا ہوسکتی ہے جو زندگی کے دھارے پر ہم کو ابھارے رہتی ہیں۔ہم بیمار پڑتے ہیں تو اپنے ہی گھاس پات سے اپنا علاج کرتے ہیں۔ یہ بیمار ہوں تو جب تک ولایت کی دوائیں اور ولایت کے اسلحے میسر نہ آئیں یہ اچھے نہیں ہوسکتے اگر ایسا ہوکہ کسی وجہ سے ولایت سے یہ چیزیں آنی بند ہوجائیں تو شہزادے کتنے دن تک زندہ رہیں۔ یہ ہماری بیماری پر بڑا شور مچاتے ہیں اور ہر روز ہمیں بیماری سے بچنے کی ترکیبیں بتایا کرتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم ان کے صحت مندوں سے ہمارے بیمار اچھے ہیں۔ اگر تحقیقات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم میں تندرستوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔

شہر والوں کو سب سے بڑا فخر اس پر ہے کہ وہ مہذب ہیں اور انھوں نے دنیا کی ترقی میں بڑے کارہائے نمایاں کیے ہیں۔ ان کے علم، ان کے ادب، ان کی سائنس نے دنیا کی نعمتوں میں اضافہ کیا ہے اور ہم دیہاتی جہاں کے تہاں پڑے ہوئے ہیں اور دنیا کی لذتوں سے بے خبر ہیں یہ دیہات کا قصور نہیں ہے ممکن ہے دیہاتیوں کا ہو، وہ بھی ہندوستان کے دیہاتیوں کا۔

لیکن انجام کے اعتبار سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون خسارے میں ہے اور کون فائدے میں، کون غلط راستے پر اور کون صحیح راستے پر، دنیا کی تاریخ اور دنیا کے تمدن دونوں پر ابھی اتنی مدت نہیں گزری کہ ہم زندگی کے نیک انجام یا نافرجام ہونے پر کوئی صحیح حکم لگاسکیں۔

حصہ