رشید خان رشید ایک کہنہ مشق شاعر تھے‘ ان کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے۔ انہوں نے تمام صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ان کی غزلوں کی دو کتابیں شائع ہوئی ہیں ایک کتاب کی تقریب اجرا ان کی زندگی میں جب کہ دوسرے مجموعہ کلام کی تعارفی تقریب ان کے انتقال کے بعد ہوئی۔ وہ وضع دار انسان تھے‘ ان کی شاعری میں غزل کے روایتی مضامین بھی ہیںاور جدید لفظیات و استعارات بھی۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و صحافی اختر سعیدی نے رشید خان کے مکان پر منعقدہ مشاعرے میں کیا۔ اختر سعیدی نے مزید کہا کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے جس سے رشید خان مالا مال تھے انہوں نے زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی نام کمایا وہ سادہ طبیعت اور ملن سار آدمی تھے۔ قاسم جمال نے کہا کہ رشید خان رشید نے ادبی تقریبات میں بھرپور کردار ادا کیا ہے‘ ان کی موت سے ادارۂ فکر نو بہت غم زدہ ہے۔ صادق آباد سے تشریف لائے ہوئے ملک بشیر نے کہا کہ صادق آباد میں بھی اردو دب کے لیے رشید خان رشید کی سربراہی میں ادبی پروگرام ہوتے تھے وہ ہر دل عزیز انسان تھے‘ وہ محبتوں کے سفیر تھے۔ محمد علی گوہر نے کہا کہ رشید خان زندہ دل انسان اور سچائی کے پیروکار تھے۔ راقم الحروف نثار احمد نے کہا کہ رشید خان رشید ہمہ جہت شخصیت تھے‘ وہ شاعر‘ صحافی‘ اسکائوٹ ماسٹر اور ماہر تعلیم تھے۔ وہ مشاعرہ میں نظامت کے فرائض اس انداز سے ادا کرتے تھے کہ مشاعرے کا ٹیمپو کہیں بھی نہیں ٹوٹتا ھا۔ وہ اپنے جملوں سے محفل کو گرمائے رکھتے تھے‘ ان کی شاعری میں لفظوں کی سچائی بھی ہے‘ احساس کی رعنائی بھی‘ جذبوں کی توانائی بھی‘ روحِ عصر بھی ہے اور روایت کی چاشنی بھی ہے‘ زمانے کی تلخیاں بھی ہیں۔ غرض یہ کہ ہر موضوع ان کی شاعری میں نظر آتا ہے‘ ان کے اشعار میں کلاسیکی رچائو ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے مسائل بھی لکھے ہیں اور زمانے کی ناہمواریاں بھی تحریر کی ہیں۔ انہوں نے زندگی کے سرد و گرم دیکھے ہیں‘ وہ زمانے سے نبرد آزما رہے۔ مشاعرے کے صدر انور انصاری نے کہا کہ ان کی شاعری کی موضوعات بھی وہی ہیں جو عام طور پر غزل کی روایت کا حصہ ہیں لیکن ان کے لہجے کی تازہ کاری انہیں منفرد مقام عطا کرتی ہے‘ وہ اپنے ہم عصر شعرا میں معتبر و مستند شاعرے تھے انہوں نے غمِ دوراں سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا اور غمِ جاناں کی چھائوں میں بھی زندگی کی حرارت اور رعنائیوں کو تلاش کیا ہے‘ وہ کہنہ مشق اور منفرد انداز کے حامل شاعر تھے وہ نوجوان نسل میں متاعِ علم و فن تقسیم کرتے رہے۔ مشاعرے کے ناظم شاہد اقبال نے کہا کہ رشید خان ایک بہترین انسان تھے ان کی شاعری دل میں اتر جاتی ہے‘ وہ آسان لفظوں میں اپنا نکتہ نظر بیان کرتے تھے‘ ان کی سہل ممتنع کی غزلیں زیادہ مؤثر ہیں۔ وہ تعلیم کے میدان میںبھی سرگرم عمل تھے‘ وہ جہالت کے خلاف جہاد کر رہے تھے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنکے درجات بلند فرمائے۔ اس مشاعرے میں انور انصاری‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ محمد علی گوہر‘ شاہد اقبال‘ عزیز الدین فانی‘ یوسف چشتی‘ کاوش کاظمی‘ کامران صدیقی اور زبیر صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔ فرید احمد خورشیدی نے حمدیہ اور نعتیہ کلام پیش کیا۔