بھائی جان کا قلم قلم

397

بچو! بچپن میں سب کی ہی پٹائیاں ہوتی ہیں لیکن بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بے جرم و خطا ہوتی ہوں۔ بعض اوقات جرم، خواہ دانستہ ہوا ہو، نادانی میں ہوا ہو، جانے بوجھے کیا گیا ہو یا انجانے میں، پٹائی کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ہوتی ضرور ہے۔ کبھی کبھی صرف شک کی بنیاد پر بھی سزا بھگتنا پڑتی ہے لیکن گھر کے بڑوں کا ہم پر شک کرنے میں بھی ہماری اپنی گزشتہ کارستانیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ آپ سب نے یہ محاورہ تو سنا ہی ہوگا کہ بد اچھا بدنام برا۔ بس یہی وجہ ہے کہ کسی اور کا جرم بھی اکثر ہم سے ہی وابستہ کر دیا جاتا ہے اور یوں بے جرم و خطا بھی ہم زیرِ عتاب آ جاتے ہیں۔ مثلا کسی کو نہایت چپکے سے چھیڑ دینا ہماری عادت بن چکا ہو اور یہ بات گھر کے کسی بھی بڑے کے علم میں آ چکی ہو تو شرارت میں کوئی اور بچہ کسی کے ساتھ ایسی ہی حرکت نہایت خاموشی کر گزرے یعنی اس کی شرارت کی خبر کسی کو نہ ہو سکے تو بڑوں کا شک ہم پر ہی جاتا ہے اور پھر چہرے یا پیٹھ پر پانچوں انگلیوں کے نشانات چھپ جایا کرتے ہیں۔

بتانا یہ مقصود تھا کہ کچھ ایسی ہی شرارتیں بھائی جان کے چھوٹے بھائی بھی کرنے کے عادی تھے۔ اتنی صفائی کے ساتھ کسی کے چٹکیاں بھر لیا کرتے تھے کہ کسی کو کان و کان خبر تک نہ ہوتی۔ بچے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کسی کی آنکھ شاید ان کی نگرانی کر ہی نہیں رہی ہوگی لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ گھر کے جو بھی بڑے ہوتے ہیں، ان میں سے کسی نہ کسی کی آنکھ خفیہ کیمرے کی طرح ذہن کے ٹی وی اسکرین پر ہماری پوری مووی بنا رہی ہوتی ہے اور بوقتِ ضرورت اس مووی کو ہمارے سامنے منہ زبانی چلا بھی دیا جاتا ہے اور یوں بعض اوقات کسی اور کی ایسی ہی شرارت، اسی مووی کے حوالے سے ہمارے گلے پڑ جاتی ہے۔

جس طرح ہر گھر میں بچے شرارتوں کے حوالے سے بہت بدنام ہوتے ہیں بالکل اسی طرح کسی نہ کسی کے بھائی جان اپنے غصے کی وجہ سے اپنے چھوٹے بھائیوں کے دلوں میں دہشت کی علامت بن جاتے ہیں اور جونہی وہ اسکول یا کالج سے گھر آتے ہیں، سب چھوٹے بھائیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ سب اپنی اپنی شرارتیں چھوڑ کر مختلف کونوں کھدروں میں ایسے بیٹھ جاتے ہیں جیسے بھائی جان کی نظر پڑتے ہی شامت آ جائے گی۔ بے شک سب ہی چھوٹے بھائی بہن ساری شرارتیں چھوڑ چھاڑ کر خاموشی کے ساتھ اپنی اپنی دلچسپیوں یا پڑھائی میں مصروف ہو جاتے ہیں لیکن اس کو کیا کیجیے کہ اچانک ایک شور و غل برپا ہونے پر سب کے دل دھڑ دھڑ کرنے لگتے ہیں۔ غل غپاڑے کی یہ آوازیں اگر بھائی جان کی ہوں تو ہر بچے کے ذہن میں اپنے پیٹھ پر انگلیوں کے چھپے ہوئے نشانات تصور ہی تصور میں ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر ہوتا یوں ہے کہ بھائی جان جب اپنی چیزوں میں سے کسی بھی شے کو غائب پاتے ہیں یا گھر کی صفائی ستھرائی کے دوران ان کی کوئی چیز ان کی مقررہ جگہ سے ہٹ جاتی ہے یا تلاش کرنے پر فوری طور پر نظر نہیں آتی تو ان کا پارہ ایک سو آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ بلند ہو جاتا ہے اور وہ نہایت غصے کے عالم میں ایک ایک بچے سے جواب طلبی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی خواہش کے مطابق جواب نہ پا کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ بھائی جان کی گرجدار آواز کے ساتھ ہی سارے بچوں کی چہرے ایسے فق ہو گئے جیسے ان سب کو تھانے میں طلب کر لیا گیا ہو۔ بھائی جان چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ان کا قلم کہاں ہے۔

بھائی جان ایک تو اسکول میں دیئے گئے گھر سے کرنے کے کام کو کبھی التوا میں نہیں ڈالا کرتے تھے اور دوئم یہ کہ ویسے بھی بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور ڈرامے لکھنے کا ان کو بہت شوق تھا۔ اس کے علاوہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا، ان کو کبھی کبھی تفریح گاہوں میں لے جانا جیسی خوبیوں کے بھی مالک تھے۔ اگر ان میں کوئی بہت ہی بری عادت تھی تو یہ تھی کہ اکثر ذرا ذرا سی باتوں پر آگ بگولا ہو جایا کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بہن بھائی ان کے غصے سے اس لئے خوفزدہ رہتے تھے کہ جب غصہ چڑھ جاتا تھا تو پھر مجال ہے کسی کی بات بھی سن لیں۔ حتیٰ کہ امی بھی کہتی رہ جاتیں کہ اب چپ بھی ہو جاؤ لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ یہی بھوت اس وقت بھائی جان کے سر پر سوار تھا۔ آندھی طوفان کی طرح وہ ایک ایک بچے سے پوچھتے پھر رہے تھے کہ بتاؤ میرا قلم کہاں ہے۔ ان کی گھن گرج کی وجہ سے ایک بچہ بھی ان کی جانب دیکھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا سب کا ڈر کے مارے برا حال تھا اور سب کے لبوں پر ایک ہی جواب تھا بھائی جان ہمیں کوئی علم نہیں، ہم نے تو آپ کی کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔

ہاں ہاں جب بھی میری کوئی چیز اِدھر اُدھر ہوتی ہے تم سب یہی کہتے ہو۔ بچوں کے انکار میں جواب سن کر تو ان کا دماغ اور بھی گھوم گیا اور پھر باری باری سب کی کمر پر ہاتھوں کی انگلیاں چھپنا شروع ہو گئیں لیکن بچوں نے اگر واقعی قلم اٹھایا ہوتا تو وہ لازماً بتا ہی دیتے۔ ایک تو بھائی جان کی چیخم دھاڑ اور پھر بچوں کا رونا دھونا، گھر میں ایک شورِ قیامت بر پا ہو گیا۔ اتنا شور و غل سن کر امی جان بھائی جان کو ڈانتی پیٹتی کمرے میں داخل ہوئیں اور بھائی جان سے تیز آواز میں بولیں کہ تم نے کیوں اتنا غل غپاڑا مچایا ہوا ہے۔ کیوں اپنے چھوٹے بھائیوں کو مارے جارہے ہو۔ آخر تم پر ذرا ذرا سی باتوں پر جن کیوں چڑھ جاتا ہے۔ بھائی جان امی کا غصہ دیکھ کر کچھ ٹھنڈا ہونا شروع ہوئے اور امی سے کہنے لگے کہ میں اپنا ہوم ورک کر رہا تھا۔ اتنے میں مجھے واش روم جانا پڑا۔ واپس آیا تو میرا قلم میری میز پر نہیں تھا۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ اگر میرا قلم انھوں نے نہیں لیا ہے تو پھر کیا کوئی بھوت پریت لے گئے ہونگے۔

قلم، امی نے ایک تیز سانس بھر کر بھائی جان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ میں بتاتی ہوں تمہارا قلم کہاں ہے لیکن پہلے تم سب بھائیوں سے معافی مانگو اور ان کو آئس کریم کھلانے کا وعدہ کرو یا پھر تیار ہو جاؤ کہ سب بھائیوں کی جانب سے میں تم کو سزا سناؤں۔ یہ سن کر پہلے تو بھائی جان ہکا بکا سے رہ گئے لیکن جب امی کو سخت جلال میں دیکھا تو بھائیوں کو پیار بھی کیا اور آئس کریم کھلانے کا وعدہ بھی۔ امی جان کا غصہ یہ سن کر اتر چکا تھا لیکن پھر بھی نہایت غصے کا انداز بنا کر بھائی جان کی جانب بڑھیں تو بھائی جان کی آنکھوں میں خوف کے سائے سے لہرانے لگے۔ امی ان کے قریب گئیں اور ان کے اپنے کان میں دھرے قلم کو ہاتھوں سے پکڑ کر بھائی جان کے حوالے کردیا۔ یہ منظر دیکھ کر امی سمیت سارے بچوں کی ہنسی نکل گئی اور بھائی جان سر جھکائے اپنی بھول پر ندامت کا شاہکار بنے نظر آنے لگے۔

حصہ