تحفے کی قدر

512

اچھا ااا؟ پہلے تو زور و شور سے مجھ سے لڑ رہی تھی اور اب بیٹھ کر زور و شور سے رو رہی ہو۔۔آں ہاں! گڑیا جو ٹوٹ گئی تمہاری ۔۔۔ ہا ہا ہا ۔ فہد اپنی چھوٹی بہن کو کہہ رہا تھا ، کہہ کیا رہا تھا مذاق اڑا رہا تھا اس کا، اس کی گڑیا کا۔۔۔

دکھاؤ تو سہی کہاں چوٹ لگی ہے گڑیا کو؟ درد ہورہا ہے اس کو؟؟ فہد ایک بار پھر اسے تنگ کرتے ہوئے ہنسا ۔۔

اور پھر کمرے سے باہر نکل گیا: “اچھا سنو پلستر کر دینا اس کے ہاتھ پہ لگتا ہے فریکچر ہوگیا۔” جاتے جاتے بھی وہ کہتا ہوا گیا۔ جس سے فاطمہ کے رونے میں اور شدت آگئی ۔۔۔۔

ارے !! یہ کہاں سے آواز آ رہی ہے ؟ احمد صاحب ابھی ابھی آفس سے گھر آئے تھے بچوں کے کمرے سے رونے کی آواز آئی تو دیکھا تو ان کی پیاری بیٹی فاطمہ اپنی گڑیا کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی۔ وہ جلدی سے آگے بڑھے۔ فاطمہ! کیا ہوگیا میری بچی؟ “ابو جان!!” فاطمہ ان کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھنے لگی اور پھر ہچکیوں میں اس نے ساری بات بتادی۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ جیسا کہ روز ہی فہد اور فاطمہ کی کسی بات پہ ان بن ہوجاتی ہے اور پھر صلح بھی خود ہی ہوجاتی ہے تو آج بھی ان کی کسی بات پہ بحث ہوئی اور اس وقت فاطمہ کے ہاتھ میں اس کی چہیتی گڑیا تھی جسے وہ اکثر پکڑے رکھتی تھی تو لڑائی جب بڑھی تو فہد نے اس کی گڑیا کا ہاتھ پکڑا اور زمین پہ پٹخ دی۔۔۔ فاطمہ سکتے کی سی حالت میں گڑیا کو نیچے پڑا دیکھنے لگی اور پھر۔۔۔۔

احمد صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ یتیم خانے میں موجود تھے۔۔۔ وہ دونوں ہی خدا ترس انسان تھے، سب کے کام آنے والے،غریبوں کی خوشی میں ساتھ دینے والے اور ہر کسی کےکسی بھی دکھ میں سہارا بننا ان کی کوشش ہوتی تھی۔

یہ ان کی عادت بن چکی تھی کہ ہر مہینے ایک دن وہ ان اسکولوں کا چکر لگاتے جہاں غریب بچے پڑھتے ہیں ، وہاں وہ فنڈ بھی دیتے تھے، مہینے میں ایک دن اسپتال میں داخل مریضوں سے بات چیت، انکی دلجوئی ، اسی طرح ایک دن یتیم خانے میں موجود بچوں کے ساتھ گزارتے تھے اور ان میں تحائف تقسیم کرتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے۔۔۔۔

ہم یہاں فاطمہ کی بات کررہے ہیں تو ایک دن جب وہ دونوں میاں بیوی وہاں موجود تھے تو ان کی نظر ایک بچی پہ پڑی جو کم و بیش تین سال کی لگتی تھی۔ بہت معصومیت سے اپنے ہاتھ میں کھلونے کی گڑیا پکڑے کھڑی ان کو دیکھ رہی تھی۔ بیگم احمد نے اس کے پاس جا کر اس سے باتیں کیں اور پھر احمد سے کہا ۔۔۔۔” میں سوچ رہی ہوں۔۔” ” کہ اس بچی کو گھر لے چلیں۔” احمد صاحب نے مسکراتے ہوئے ان کا جملہ مکمل کیا۔ ارے آپ کو کیسے پتا؟” خیر اگر آپ منع کریں گے تو نہیں لے جائیں گے ، آپ کو پتا ہے مجھے بچیاں کتنی اچھی لگتی ہیں اور ہمارے دو بیٹے ہیں ماشاء اللہ، لیکن بیٹی نہیں تو ہم اس کو لے جاتے اگر۔۔۔۔” انہوں نے بات ادھوری چھوڑدی۔

“میں نے کب منع کیا؟؟ آپ نے بات کی بچی سے؟ کیا نام ہے اس کا؟ مجھے لگتا ہے یہ بول لیتی ہوگی۔۔۔۔” “ہاں لیکن ابھی تو بس سر ہی ہلا رہی تھی بات کا جواب نہیں دیا میری، شاید جھجک رہی ہو۔” “چلیں بات کرلیتے ہیں انتظامیہ سے۔” انہوں نے کہا اور پھر وہ دن اور آج کا دن وہ پیاری بچی ان لوگوں کے ساتھ ان کے گھر پہ ہے ان کی بیٹی بن کر، اس کا نام فاطمہ رکھ لیا، چار سال کی ہوئ تو اسکول میں داخلہ کروایا اور اب یہ چھ سال کی ہے۔

اس کو اپنے امی ابو(احمد اور ساجدہ ) بہت اچھے لگتے ہیں اور دو بھائی فہد اور مصطفیٰ بھی مل گئے ہیں ۔ لیکن یہ اس گڑیا کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی ہے اور یہ بات اسے یا اس کے امی ابو کو پتا ہے کہ یہ کھلونوں کی گڑیا اس کو اس کے اپنے ابو نے دلائی تھی جب وہ تین سال کی تھی اس سے پہلے اور کھلونے بھی دلائے ہوں گے لیکن یہ گڑیا اسے بہت عزیز تھی ، وہ جانتی تھی کہ یہ محض ایک کھلونا ہے لیکن پھر بھی اسے اس سے ایک انسیت تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ کھلونا (اس کے ابو کی نشانی) اس سے دور ہو۔۔۔۔

اس کے ابو جان نے اس کی بات سنی اسے پیار کیا اور فہد کو آواز دی۔۔۔
“جی ابو جان آپ آ گئے۔” وہ دوڑتا ہوا آیا اور جب دیکھا کہ فاطمہ ان کے پاس رونی صورت بنائے کھڑی ہے تو چپ ہو کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ “فہد آپ کی بہن سے لڑائی ہوئی ہے؟ اور اس کی گڑیا کو آپ نے پھینکا ہے؟” احمد صاحب نے پوچھا ۔ ۔۔۔ “ابو جان وہ یہی فاطمہ لڑرہی تھی مجھ سے اور مجھے کیا پتہ گڑیا کیسے گری اس کی، یہ تو ہر وقت اس کے پاس ہوتی ہے آپ اس سے پوچھیں ناں۔۔۔۔” “میں پوچھ چکا ہوں اس سے اور اب آپ سے پوچھ رہا ہوں اور آپ جانتے ہیں غلط بیانی کرنا غلط بات ہے۔” احمد صاحب کچھ ترش لہجے میں بولے۔

“کیا ہوا ہے ؟” فہد اور فاطمہ کی امی ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ محلے میں کسی کی میت میں گئ تھیں اور ابھی واپس آئیں تو ان لوگوں کو اس طرح بات کرتے دیکھ کر پوچھا۔ “آپ تھوڑی دیر باہر کیا گئیں یہاں ان دونوں نے جنگ کا میدان بنا لیا۔” احمد صاحب نے اپنی اہلیہ کو بات بتائی۔ “کیوں بیٹا فہد آپ اچھے بچے ہو ناں تو اس طرح لڑتے تو نہیں ہیں اچھے بچے۔۔۔ چلو معافی مانگو فاطمہ سے اور دوستی کرو شاباش ۔” ان کی امی نے پیار سے سمجھایا۔ “امی جان میری گڑیا ٹوٹ گئی۔۔” فاطمہ روتی آواز میں بولی۔ “کوئی بات نہیں آپ کو ابو جان دوسری گڑیا دلادیں گے اچھی والی۔۔۔” فہد نے چھوٹی بہن کو تسلی دی اسے احساس ہوا کہ اس نے غلط کیا ہے۔۔
“نہیں مجھے یہی گڑیا چاہیئے، فاطمہ غصے سے بولی۔” “جی میرا بچہ یہی گڑیا، ابھی بن جاتی ہے۔” ابو جان نے اسکے ہاتھ سے اس کی کھلونا گڑیا لی اور اس کا ہاتھ اس کی جگہ واپس لگادیا۔ “اوہ جزاک اللہ ابو جان ۔ ۔۔۔ آپ نے اسے جوڑ دیا۔” فاطمہ خوشی سے اپنے ابو سے لپٹ گئی تو سب کے چہروں پہ مسکراہٹ آگئی ۔

بعد میں فہد کے پوچھنے پر اس کے ابو جان نے ان دونوں بھائیوں کو بتایا کہ چونکہ یہ کھلونا فاطمہ کو اس کے مرحوم ابو نے دلایا ہے تو یہ اسے بہت پسند ہے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد اس کے امی ابو کا ایک حادثے میں کا انتقال ہوگیا تھا تو شاید انتقال سے پہلے یہ آخری کھلونا تھا جو اسے اسکے والد کی طرف سے ملا۔
“بیٹا تحفہ کتنا ہی مہنگا یا کتنا ہی کم قیمت کیوں نہ ہو لیکن ہمارے لیے تحفے سے زیادہ اس کے دینے والے کی اہمیت ہوتی ہے۔” “اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ: آپس میں ہدیے (تحفے) دیا کرو۔” حدیث مبارکہ ہے “آپس میں تحفہ دو اور محبت عام کرو۔” تو ہمیں اپنے بہن بھائیوں، بچوں، ساتھیوں کو تحائف دینے چاہیئے اور کوئی ہمیں تحفہ دے تو اس کا احسان مند ہوتے ہوئے اس تحفے کی قدر کرنی چاہیے۔ ”
“ٹھیک ہے ابو جان! اب میں جاکر فاطمہ سے اس کی گڑیا کا حال پوچھ آؤں۔” فہد نے شرارت سے کہا تو اس کے ابو جان مسکرانے لگے۔

حصہ