صبا اور عمر کی شادی کو محض چار ماہ ہی گزرے تھے کہ ان کی آپس کی نوک جھونک کی آوازیں کمرے سے باہر آنے لگیں۔ صبا لڑاکا طبیعت کی نہ تھی اور نہ ہی عمر غصے کا زیادہ تیز تھا، لیکن جب اُن کی آوازیں سن کر فوراً امی اور بڑی بھابھی ان کے کمرے میں داخل ہوئیں اور ہڑبڑاکر دونوں سے پوچھنے لگیں ’’کیا ہوا…کیا ہوا…کیوں لڑ رہے ہو…؟‘‘ تو ان کے اس انداز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں نوک جھونک سے باقاعدہ لڑائی پر اتر آئے اور غصے میں آپے سے باہر ہوکر ایک دوسرے کے خلاف شکایات کے انبار لگادیے۔
صبا نے محسوس کیا کہ اس کا تو یہاں کوئی پرسانِ حال ہی نہیں ، جھگڑے میں بن بلائے کودنے والی دونوں خواتین صرف اسے ہی مورد الزام ٹھیرا رہی ہیں اور عمر کو کندھے پر تھپکی دے کر صبر کی تلقین کرکے مظلوم و معصوم ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں، جس کے بعد عمر اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے سینہ چوڑا کرکے مزید اونچی آواز میں بولنے لگا۔ یہ سب کچھ صبا سے برداشت نہ ہوا۔ اگلے چند منٹوں میں سواری ان کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی، جس میں بیٹھ کر صبا اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ اب ایک ماہ ہونے کو ہے، صبا اپنے والدین کے گھر میں بیٹھی ہے۔ اسے اس کے والدین واپس بھیجنے پر راضی نہیں۔ اسے شوہر کی یاد آتی ہے اور گھر سے قدم باہر نکالنے کا پچھتاوا بھی ہے۔ عمر کو بھی صبا کی کمی محسوس ہوتی ہے اور اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن اس کے گھر والے صبا کو واپس لانے کے بارے میں ہنوز خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عمر کے آگے بڑھنے میں کچھ رکاوٹ اُس کی اپنی اَنا بھی پیدا کررہی ہے۔ مستزاد یہ کہ صبا حاملہ بھی ہے۔ اس صورت حال میں بھی اس کا روتے دھوتے ہی دن گزرتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اپنے آنے والے بچے کو ماں کی پریشان سوچ ہی دے رہے ہیں۔ ان کا گھر بس بھی پائے گا یا نہیں؟ ان دونوں نے تو جھگڑا کرنے کی غلطی کرلی، لیکن ان کے بڑے ان کا گھر بسانے میں کتنی فہم و فراست سے کام لے رہے ہیں؟ یہ گھر بسے گا یا ٹوٹ کر بکھر جائے گا اور آنے والے بچے کو اس کا کتنا خیمازہ بھگتنا پڑے گا؟
یہ صرف صبا اور عمر کی کہانی نہیں ہے بلکہ آج کل اکثر گھرانوں کی ہے۔ جب لڑکا اور لڑکی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں تو کم عمری کے علاوہ ناتجربہ کاری بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ چند دن خوابوں کی دنیا میں رہنے کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر ایک دوسرے سے الجھنا شروع کردیتے ہیں اور معاملہ جھگڑوں کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ کہیں تو ان جھگڑوں میں میاں بیوی کا صرف اپنا کردار ہی ہوتا ہے، اور کہیں فریقین کے دست و بازو پوری دل جمعی کے ساتھ شامل ہوتے ہیں اور اُس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھتے جب تک پانی پت کا میدان نہ سج جائے۔
بھئی چار دن کی زندگی ہے اور یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ حقوق العباد کے پرچے میں میاں بیوی کا ایک دوسرے پر حق اہم ترین ہے۔ یہ پرچہ مکمل کیے بغیر پلِ صراط پار ہی نہیں کرسکتے۔ اس پرچے کو حل کروانے میں میاں بیوی کے مددگار یا رکاوٹ ڈالنے والے بھی اپنے اپنے عمل کے مطابق جزا و سزا پا لیں گے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو میاں بیوی حتمی کوشش کریں کہ ان دونوں میں اگر کوئی اختلاف ہوجائے تو اپنا معاملہ خود حل کریں۔ کسی دوسرے فرد کو کانوں کان خبر نہ ہو، چاہے وہ دوسرا فرد ان کے والدین ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ میاں بیوی کا معاملہ جب باہر نکلتا ہے تو سنورتا کم اور بگڑتا زیادہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں اور لباس کا کام سردی گرمی سے بچاؤ ہی نہیں بلکہ عیب چھپانا اور ایک دوسرے کی زینت کا باعث بننا بھی ہے۔ میاں بیوی جب لباس کے مفہوم سے روگردانی کرتے ہیں تو ان کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ معاملہ بگڑتا ہے، دلوں سے ایک دوسرے کے لیے چاہت اور محبت ماند پڑنے لگتی ہے۔
اگر معاملہ دونوں کے والدین تک پہنچ جائے تو وہ اپنی ذمے داری احسن طریقے سے نبھائیں۔ جب والدین شروع سے اپنے بچوں کو پالنے یا پروان چڑھانے میں اپنی جان مار دیتے ہیں تو ان کا گھر بسانے میں بھی تھوڑی محنت اور ایثار و قربانی سے کام لیں۔ بہو کے آنے سے پہلے ہی بیٹے کو اس سے متعلق ذمے داریوں کا احساس دلائیں۔ شادی کے بعد بیٹے کو اتنی آسانی ضرور دیں کہ وہ ٹھیک سے اپنی بیوی کا خیال رکھ سکے۔ کوشش کریں کہ ان کے معاملات میں دخل اندازی کم سے کم ہو۔ گھر میں موجود بھابھیاں اور نندیں بھی اپنے عمل اور زبان سے نئی آنے والی کو ٹہوکے نہ لگائیں، اور نہ ہی دیور یا بھائی کو بیوی کا خیال رکھنے پر زن مریدی کے طعنے دیں یا تمسخر اڑایں۔ اگر کبھی وہ اپنی بیوی کے لیے کچھ لا رہا ہے تو تاکا جھانکی مت کریں۔ یقین مانیں بہت سارے مرد اسی تمسخر اور طعنوں سے ڈر کے اپنی بیویوں کا خیال نہیں رکھ پاتے۔ یہ بیویاں پہلے تو اپنے دل ہی دل میں کڑھتی رہتی ہیں، پھر کئی بار دوسروں کا یہی غصہ وہ شوہر پر نکالتی ہیں جس سے میاں بیوی کے جھگڑے جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں اور ایک عرصہ گزرنے کے بعد انہی تمسخر اڑانے والوں کی وہ مخالف بھی بن جاتی ہیں۔
لڑکے کے گھر والے نئی آنے والی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنی محبت کے دامن میں لپیٹ لیں تاکہ وہ ان کی پکی سچی دوست اور بیٹی بن جائے۔ شروع میں اس کا خیال رکھ کر اسے سدا کے لیے اپنا خیرخواہ بنا لیں۔ بہت کم والدین یہ خیال کرتے ہیں، لیکن اگر بیٹے کا گھر پُرسکون اور شادو آباد رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بیٹے کو احساس دلائیں کہ ساس، سسر بھی اب تمہارے والدین کی فہرست میں شامل ہیں، ان کو اپنا پن دے کر اور ان کا خیال رکھ کر ان کی دعائیں لو۔ اگر دور ہیں اور ان سے جلدی نہیں مل سکتے تو باقاعدگی سے فون پر ان کی خیریت دریافت کرو۔ بیوی کے بہن بھائیوں کو اپنے بہن بھائیوں جیسی عزت اور محبت دو۔ انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دو اور ان کی تکریم کرو۔ یہ سب چیزیں تمہارے حق میں بیوی پر خوشگوار اثرات چھوڑیں گی۔
اسی طرح لڑکی پر فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھوٹی چھوٹی باتیں اپنے والدین کو بتائے اور اپنا گھر اُن کی ہدایت کے مطابق چلائے، بلکہ اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ اس گھر کے معاملات اور راز و نیاز تمہارے پاس امانت ہیں، ان میں خیانت نہ کرنا۔ اس گھر کو اپنا سمجھ کر اس کی عزت کا پاس رکھنا۔ ساس سسر کو اپنے والدین کی جگہ پر رکھنا اور ان سے منسلک رشتوں کو اپنی ذمے داری سمجھ کر نبھانا۔ شوہر کے ساتھ وفا شعاری کو سدا اپنائے رکھنا۔ گھر کو اس کے لیے ایسا سکون کدہ بنانا کہ اس کا دل سب سے زیادہ اپنے گھر میں ہی لگے۔ داماد بھی رب کی طرف سے بیٹا ملتا ہے۔ ہٹو بچو والے سسرالی استقبال کے بجائے اسے وہی مخلصانہ چاہت اور محبت دیں جو والدین کے دل میں بیٹوں کے لیے ہوتی ہے۔
اپنے بچوں اور دوسرے پیاروں کو گھر بسانا سکھائیں اور گھریلو امور چلانے میں ان کے معاون بن کر اپنی نسلوں کو سنوار لیں تاکہ سکون اور خوشیاں آپ کا مقدر بن جائیں اور یہ سنوری ہوئی نسلیں آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائیں۔