پیٹ تو جانور بھی بھرلیتے ہیں،آج ہر شخص کی کوشش یہی ہےکہ نوکری اچھی مل جائے اور تنخواہ معقول سے زیادہ ہو،ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یادگار انٹریو
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے 20 نومبر 1903ء کو پٹیالہ ہندوستان میں آنکھ کھولی۔ والدکا نام قاضی صادق حسین قریشی تھا۔ اٹاوہ میں ’’البشیر‘‘ اخبار کے ایڈیٹر اور سرسید کی تعلیمی تحریک سے متاثر مولوی بشیر الدین نے ایک اسکول کھول رکھا تھا، جہاں سے آپ نے میٹرک اور سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے بی اے اور دلی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ سینٹ اسٹیفن کالج کے علاوہ دہلی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رہے۔ پاکستان بننے کے بعد نائب وزیر داخلہ‘ اطلاعات و بحالیات‘ وزیر مملکت برائے تعلیم و بحالیات اور کولمبیا یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر رہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر 1961ء سے 1971ء تک رہے‘ 1979ء میں مقتدرہ قومی زبان کے بانی صدر نشین مقرر ہوئے۔ 22 جنوری 1981ء کو وفات پائی اور گلشن اقبال کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونی ورسٹی کے گیارہ سال تک وائس چانسلر رہے۔ انہوں نے اپنی انتظامی صلاحیتوں سے یونی ورسٹی کو علمی اور تحقیقی اعتبار سے اس مقام پر پہنچا دیا کہ کراچی یونی ورسٹی کو ’’پاکستان کی کیمبرج یونی ورسٹی‘‘ کہا جانے لگا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک بلند پایہ محقق بھی تھے۔ ان کی انگریزی میں تصنیف کردہ اکثر کتابیں جن کا اردو ترجمہ ان کے رفیقِ کار ہلال احمد زبیری نے کیا‘ آج بھی علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان میں ’’برصغیر پاک و ہند کی ملتِ اسلامیہ‘‘، ’’سلطنتِ دہلی کا نظم حکومت‘‘، ’’جدوجہدِ پاکستان‘‘، ’’علماء سیاست میں‘‘ اور ’’پاکستان میں تعلیم‘‘ جیسی وقیع علمی اور تحقیقی کتب شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈراما نگار بھی تھے، انہوں نے نہایت عمدہ ڈرامے لکھے جو ادبی رسائل کی کسی زمانے میں زینت بھی بنے۔
میں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ڈاکٹر محمود حسین وائس چانسلر تھے۔ ان سے پہلے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اس منصب پر فائز رہے۔ ڈاکٹر قریشی کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ شدومد سے کیا جاتا تھا کہ اپنی وائس چانسلری کے زمانے میں وہ’’کٹر اسلام پسند‘‘ اور بائیں بازو کے اشتراکی نظریات سے سخت بیزار تھے۔ ان نظریات میں اتنی شدت پائی جاتی تھی کہ اپنے زمانے میں دورِ ایوبی کے یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت حاصل شدہ اختیارات کے تحت معراج محمد خان جیسے انقلابی طالب علم رہنما کو داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ان میں جو بھی سخت گیری تھی‘ وہ انتظامی لحاظ سے تو یونی ورسٹی کے لیے یقینا مفید ثابت ہوئی ہوگی لیکن یہ رویہ علمی اور جمہوری اعتبار سے کسی طرح بھی قابل قدر نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ جب میں ان سے اکتوبر 1977ء میں ایک طالب علم کی حیثیت سے انجمن طلبہ کے رسالے ’’الجامعہ‘‘ کے لیے انٹرویو کرنے گیا تو میں نے بلا جھجک اس حوالے سے ان سے یہ سوالات پوچھے جن کا انہوں نے برا مانے بغیر جوابات مرحمت فرمائے۔
بھٹو کے دورِ ستم کے خلاف پی این اے کی تحریک سے قبل ہی ڈاکٹر صاحب اصغر خان سے متاثر ہوکر تحریک استقلال میں شامل ہوگئے تھے۔ مجھے وہ دوپہر یاد ہے جب ڈاکٹر صاحب اپنے قائد اصغر خان کے ہمراہ یونی ورسٹی آئے تھے اور آرٹس لابی کے جلسے میں بھٹو کے خلاف دھواں دھار تقریر کی تھی۔ انہوں نے دھوپ کا چشمہ لگا رکھا تھا اور تقریر کرتے ہوئے وہ بار بار اپنا ہاتھ لہرا رہے تھے اور گلے کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ بھٹو سے ان کی نفرت کی غالباً ایک ذاتی وجہ بھی تھی کہ ایک مرتبہ بھٹو نے سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی عادت کے مطابق ڈاکٹر قریشی کو مخاطب کرکے دھمکی دی تھی کہ ’’میں تمہاری دوسری آنکھ بھی ٹیڑھی کردوں گا۔‘‘
یہ انٹرویو اُس زمانے میں کیا گیا تھا جب جنرل ضیا، بھٹو کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آچکے تھے۔ صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے یہ انٹرویو جس طرح لکھا اور جیسے یہ شائع ہوا، اسے لفظ بہ لفظ اسی طرح پیش کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ ہو:
وہ کرسی پر خاموشی سے بیٹھے اپنی کمزور آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ پیکسی ان کا پالتو کتا ستون سے لگ کر بڑی وفاداری سے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر اس کے دونوں بڑے بڑے کان جھکے آرہے تھے۔ برآمدے میں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور گملے میں پھولوںکے پودے اُگے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر انہوں نے کہا ’’آپ لوگوں نے بہت دیر کردی۔ آپ اپنی قوم کی طرح نہ بنیں جو ہمیشہ دیر کردینے کی عادی ہے۔‘‘ میں نے بہت پہلے ان کی جو تصویریں دیکھی تھیں اس وقت وہ ان سے بہت مختلف لگ رہے تھے۔ مضمحل اور بجھے ہوئے۔ وہ یقینا کبھی شفاف چہرے‘ روشن آنکھوں اور بارعب شخصیت کے مالک تھے‘ اصولی معاملات میں بے حد سخت اور متنازع۔ بہت سی روایتیں آج بھی مشہور ہیں، جھوٹ سچ کا نہیں پتا۔ ایک قصہ وہ بھی تھا جب انہوں نے ایک طالب علم رہنما کو اپنی ٹھوکروں پر رکھا تھا۔ وہ بھوک ہڑتال پہ تھا اور ایک روز شدتِ بھوک سے بے حال ہوکر ان کی کار کے نیچے لیٹ گیا تھا۔ پھر اسی طالب علم نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں آکر ڈاکٹر قریشی کو مذبح کا قصاب کہا تھا۔ جامعہ میں طلبہ اور طالبات کے درمیان تین فٹ کے فاصلے کا قانون ان ہی سے منسوب کیا جاتا ہے، اور یہ کہ ترقی پسند طلبہ اور شاید اساتذہ کو بھی انہوں نے اپنے عتاب کا نشانہ بنایا۔ ان کی ترقیاں روک دیں اور طلبہ کے ساتھ انصاف روا نہ رکھا۔ الزام اور حقیقت کے درمیان تفریق قائم کرنے کا میں اہل نہ تھا لیکن میرے ذہن میں ان ہی باتوں کے تعلق سے ان سے ملتے ہوئے ایک ایسے ڈکٹیٹر کا امیج محفوظ تھا جو کبھی اختلاف برداشت کرنا نہیں جانتا تھا، جس کے کان کبھی ’’نہیں‘‘ سننے کے عادی نہیں ہوتے‘ میں نے انہیں بہت سے جلسوں میں تقریریں کرتے ہوئے بھی سنا تھا۔ عوامی جلسوں میں ان کی معمر لیکن پاٹ دار آواز گونجتی تھی۔ جب ان کی کنپٹی کی رگیں اس طرح کھنچ جاتی تھیں جیسے وہ اپنی پوری قوت سے ایک فرسودہ معاشرے کی کھوکھلی عمارت کو گرانے کی کوشش کررہے ہوں‘ وہ اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتے تھے جیسے ان کے ہاتھ آزادی اور انصاف کا پرچم بن جانا چاہتے ہوں۔ ان کی زندگی مجھے ایک ایسے جرنیل کی طرح محسوس ہوتی ہے جو فتح اور نصرت کی جلدی میں ایک غیر تربیت یافتہ فوج کے ہمراہ ہوجاتا ہے‘ لیکن فتح کے بعد کی منزل سے پہلے ہی فوج منتشر ہوجاتی ہے اور جرنیل تنہا رہ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی سیاسی زندگی ہمیشہ فوری تبدیلی کی خواہش کے پیچھے چلی ہے اور وہ اپنے نظریات میں ہمیشہ شدید اور انتہا پسند رہے ہیں۔ لیکن اس شدت اور انتہا پسندی کے پیچھے ان کا علم‘ تجربہ‘ مشاہدہ اور قوتِ متخیلہ سبھی نے کام کیا ہے۔ جب وہ محض اسکول کے طالب علم تھے تب بھی متحدہ ہند میں چلنے والی عدم تعاون کی تحریک کے سپاہی تھے، اور آج بھی جب ایک کٹے پھٹے پاکستان کی سلامتی کے لیے جنگ لڑی جا رہی ہے اس میں بھی وہ اپنے ضعیف جسم اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ شریک ہیں۔ ڈاکٹر قریشی نے دوسرے سیاسی اور علمی شعبدہ بازوں کی طرح کبھی منافقت اور مفاد پرستی کی راہ نہیں اپنائی۔ وہ ہمیشہ بے باک اور نڈر انسان کی طرح زندگی کے بارے میں اپنے مؤقف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ کبھی اپنے عہدے اور اپنی شہرت کے لیے دوسرے بیوروکریٹس کی طرح سب کو خوش رکھنے کی پالیسی پر نہیں چلے۔ کانٹ اور ہیگل کو انہوں نے بھی پڑھا تھا لیکن طلبہ کے مسائل حل کرنے کے لیے کبھی انہوں نے ادبیات عالیہ کے خوش رنگ لفظوں کا سہارا نہیں لیا۔ وہ ٹھوس حقائق پر یقین رکھتے تھے اور اب بھی مسائل کو ان کے حقیقی رنگ ہی میں دیکھنے کے عادی ہیں، اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جامعہ کراچی کے تعلیمی اور انتظامی ماحول کو انہوں نے جس طرح سے بگڑنے سے بچایا ہوا تھا ان کے بعد کے آنے والے منتظمین اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکے۔ ٹیلی فون پہ ملاقات کا وقت طلب کرتے ہوئے بھی دوسرے بڑوں سے مختلف تھے۔ انہوں نے ہمیں انتہائی سادگی اور بے تکلفی سے ملنے کا وقت دیا تھا۔ جب میں اور سرور معیز ان کی کوٹھی کے گیٹ پر پہنچے تو وہ برآمدے میں بچھی ہوئی کرسی پر سکون سے بیٹھے تھے اور باہر پھیلی ہوئی دھوپ کے درمیان سے دن گزر رہا تھا۔ ان ہی گزرتے ہوئے دنوں نے انہیں ضعیف اور ان کے قویٰ کو مضمحل کردیا تھا۔ گفتگو کے درمیان جب کامیابی کا تذکرہ آیا تھا تو انہوں نے بڑے دکھ سے کہا ’’کامیاب تو وہ شخص ہوتا ہے جو کچھ کرکے دکھاتا ہے۔ میں نے کیا کیا؟ اور اب کچھ کرنے کا وقت آیا تو قویٰ مضمحل ہوگئے۔ کیا کروں؟ بس بیٹھا دل بہلاتا رہتا ہوں۔‘‘
اور یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا تھا جس کی ساری عمر اپنی قوم اور اپنے ملک کے لیے سوچتے اور عمل کرتے ہوئے گزری ہو، لیکن جس کا نتیجہ بہت حوصلہ افزا نہ ہو۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
طاہر مسعود: اپنی تعلیم اور اپنی زندگی کے بارے میں ہمیں کچھ بتایئے۔
ڈاکٹر قریشی: زندگی تو بڑی طویل ہے، کہاں سے ابتدا کی جائے، بس یوں سمجھ لیں جب میں بہت چھوٹا تھا تو والد اس وقت الٰہ آباد میں تھے۔ ہم اُس وقت کنگ روڈ میں رہتے تھے۔ مکان کے قریب دو اسکول تھے، ایک ہندو اسکول تھا جس میں داخلہ صرف ہندوئوں کو ملتا تھا اور دوسرا بنگالی ہائی اسکول تھا۔ والد کی خواہش تھی کہ گھر کے قریب ہی اینگلو بنگالی اسکول میں داخل کردیا جائے تاکہ پیدل اسکول جا سکوں۔ اس لیے انہوں نے مجھے اینگلو بنگالی اسکول میں داخل کرا دیا۔ اسی زمانے میں‘ میں بنگالی اچھی خاصی سیکھ گیا۔ میرے کافی دوست بنگالی تھے۔ میرے چچا نیپالی ضلع ایٹہ میں رہتے تھے۔ ان ہی دنوں ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ایک دن جب کہ میں اسکول ہی میں تھا‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ والد صاحب نے تمہیں گھر بلایا ہے۔ میں جب گھر پہنچا تو دیکھا وہ باہر ہی ٹہل رہے تھے۔ والد صاحب ہمیں لے کر چچا جان کو دیکھنے گئے۔ اس کے بعد والد صاحب کو الٰہ آباد آنا نصیب نہ ہوسکا۔ جب میں نے آٹھویں کلاس پاس کرلی تو گھر والوں نے اسلامیہ ہائی اسکول اٹاوہ میں داخل کرا دیا۔ کچھ ہی عرصے بعد عدم تعاون کی مشہور تحریک چلی جس کی وجہ سے میں نے پڑھنا وغیرہ چھوڑ دیا اور تین سال تک ایک نوجوان کی حیثیت سے عدم تعاون کی تحریک میں سیاسی کام کیا۔ ان ہی کاموں کے سلسلے میں‘ مَیں عرصے تک دیہات میں جاتا رہا۔ اُس زمانے میں میرے دو قریبی دوست ہوتے تھے۔ جب عدم تعاون کی تحریک ختم ہوئی تو ہم تینوں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی جس میں یہ طے کیا گیا کہ اب تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ تینوں کے لیے مختلف تعلیمی ادارے تجویز کیے گئے، میرے حصے میں سینٹ اسٹیفن کالج آیا جہاں سے میں نے بی اے کیا۔ پھر دلی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرکے سینٹ اسٹیفن کالج میں پڑھانا شروع کیا۔ اس کے بعد دلی یونیورسٹی میں ریڈر بنا اور پھر پروفیسر۔ پاکستان کا قیام وجود میں آیا تو یہاں آگیا۔
انتخابات کا سلسلہ جب شروع ہوا تھا تو مسلم لیگ نے مجھے بنگال سے ٹکٹ بھی دیا تھا۔ عجیب بات ہے کہ میری تعلیم اور سیاست دونوں بنگال کے تعلق سے شروع ہوئیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد میں چھ سال تک مختلف وزارتی عہدوں پر رہا۔ سب سے پہلے ڈپٹی منسٹر بنا، پھر منسٹر۔ 1954ء میں جب غلام محمد نے اسمبلی توڑ دی تو دل برداشتہ ہوکر امریکا چلا گیا۔ وہاں کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا۔ 1960ء میں دوبارہ پاکستان آیا۔ واپسی پر پاکستان میں سنٹرل اسلامک انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر ہوا۔ اس کے بعد گیارہ برس تک وائس چانسلر رہا۔ 1970ء کے آخر میں دنیا کے دورے پر مجھے دھوکہ دے کر بھیجا گیا کہ بنگلہ دیش کے سلسلے میں پاکستان کا مؤقف بیان کروں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ادھر پہلے ہی ملک توڑنے کی سازش کی جا چکی ہے۔ مجھے مشن پر مختلف ممالک میں صورتِ حال واضح کرنے اور حمایت حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، وہ مشن پورا کرکے میں لوٹا۔ خدا گواہ ہے کہ اس معاملے میں میرا ضمیر پوری طرح مطمئن ہے اور تبھی سے میرا اعتبار سرکاری افسران پر سے اٹھ گیا، حالانکہ ان سرکاری افسران میں بعض خود میرے شاگرد بھی تھے۔ 1972ء میں مجھے ایک سال کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں سیمسٹر فیلو کی حیثیت سے بلا لیا گیا، لیکن میرا خطاب پروفیسر کا تھا اور میں ملک سے باہر چلا گیا۔
طاہر مسعود: سیاسی جماعت کی حیثیت سے آپ نے تحریک استقلال ہی میں شمولیت کو کیوں ضروری سمجھا، جب کہ اس کے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ہی کی طرز کی ایک جماعت ہے اور ان دونوں کا انجام سب کے سامنے ہے؟
ڈاکٹر قریشی: انجام کا علم تو صرف اللہ کو ہے البتہ جہاں تک تحریک استقلال میں میری شمولیت کے فیصلے کا تعلق ہے، میں نے دو وجوہ کی بنا پر ایسا کیا۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ واحد جماعت تھی جو اس وقت مسٹر بھٹو کا مقابلہ کررہی تھی۔ اگر تحریک استقلال پیپلزپارٹی ہی کی طرز کی جماعت ہوتی تو میں پیپلزپارٹی میں شامل نہ ہوجاتا؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں نے اصغر خان صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ ایک مخلص اور پُرجوش مسلمان ہیں اور اسلام کا سچا درد رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کبھی تحریک کی قیادت تبدیل ہو اور دوسرے لوگ اس کے سربراہ ہوں۔ اُس وقت کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ اس لیے کہ سیاست میں حکم صرف حال پر لگایا جاتا ہے اور اس وقت مجھے تحریک کے اصول اور پالیسیوں سے کامل اتفاق ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ میں نے مسلم لیگ میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ وہ مختلف دھڑے بندیوں کا شکار ہوگئی تھی۔ حالانکہ آغاز میں میری وابستگیوں کا مرکز مسلم لیگ ہی تھی۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ جب آپ وائس چانسلر تھے تب آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ کی پشت پناہی کی تھی اور اسے سیاسی سطح پر کامیاب بنانے میں خاصا حصہ لیا تھا، آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر قریشی: بات یہ ہے کہ جہاں تک جمعیت کی پشت پناہی کا سوال ہے تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ آخر جب میں وائس چانسلر نہیں رہا تو پھر جمعیت کیسے جیتتی رہی ہے اور ابھی تازہ ترین الیکشن میں اس بھاری اکثریت سے آخر کیوں کر جیتی! دوسری چیز یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ وائس چانسلر اگر کسی پارٹی کو بڑھاتا ہے تو وہ جماعت طلبہ میں بہت جلد نا مقبول ہوجاتی ہے۔ میں نے اپنے زمانے میں بھی اچھے اصول کو اپنایا اور اس پر کاربند رہا۔ کچھ لوگوں کو بے راہ روی کی چاٹ بری طرح سے لگ گئی تھی اور جب لوگوں کو بے راہ روی کی چاٹ لگ جاتی ہے تو کوئی کیا کرسکتا ہے!
طاہر مسعود: ڈاکٹر صاحب! ایک الزام آپ پر یہ بھی ہے کہ آپ نے اشتراکیت پسند طلبہ کو محض اُن کے اشتراکی نظریات کے سبب اپنے عتاب کا نشانہ بنایا، کیا یہ درست ہے؟
ڈاکٹر قریشی: یہ بالکل غلط بات ہے‘ میں نے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ میں نے ہمیشہ طالب علم کو طالب علم سمجھا‘ کبھی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی، مثلاً میں دہلی یونیورسٹتی میں بھی رہا ہوں جہاں مسلمان لڑکے بھی پڑھتے تھے اور ہندو بھی۔ مگر آج تک وہاں کے ہندو طلبہ میری تعریف کرتے ہیں۔ لوگ ایسی باتیں اس وجہ سے نہیں کرتے ہیں کہ میں اُن کی مخالفت کیا کرتا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اُس وقت مجھ سے بے جا حمایت اور پشت پناہی چاہتے تھے، اور بہرحال میں ایک کو دوسرے فریق پر ترجیح نہ دینے کے اصول پر قائم تھا جس کی وجہ سے انہوں نے مجھے اس طرح سے بدنام کرنا شروع کیا اور مجھ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی تاکہ یہ الزام مٹانے کے لیے میں جمعیت کے افراد کے خلاف خوامخواہ کارروائی کروں۔ مثلاً اس زمانے کا واقعہ ہے کہ انجمن طلبہ کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سید سعید حسن میرے پاس رات گئے آگئے، کہنے لگے ’’انتخابات ملتوی کر دیجیے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’آخر کوئی وجہ تو ہو۔‘‘ کہنے لگے ’’بس ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات ملتوی کردیجیے۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’بغیر کسی سبب کے میں ایسا نہیں کرسکتا‘ یہ میرے اصول کے خلاف ہے۔‘‘ وہ چاہتے تھے کہ میں علی الاعلان ان کی طرف داری میں بے ایمانی کروں۔ یہ مجھے منظور نہیں تھا اور اسی ایمان داری کے صلے میں مجھے یہ سب کچھ پروپیگنڈہ آج تک سننا پڑ رہا ہے۔
طاہر مسعود: جامعہ کراچی کی موجودہ حالت کے بارے میں تو آپ کو علم ہوگا‘ آپ کی رائے میں جامعہ مالی حیثیت سے اتنی تباہ حال کیوں اور کیسے ہوئی؟ اس کی ذمے داری کن پر ہے؟
ڈاکٹر قریشی: جامعہ کی موجودہ حالت کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کروں گا۔
طاہر مسعود: کچھ تو ارشاد فرمائیں؟
ڈاکٹر قریشی: اصل میں مجھے جامعہ کی موجودہ حالت کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔
طاہر مسعود: انتظامی پالیسیوں میں آپ کی سخت گیری آج بھی مشہور ہے بلکہ اس کا تذکرہ ناپسندیدہ لہجے میں کیا جاتا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر قریشی: اگر ڈسپلن کے معنی سخت گیری کے ہیں تو یقینا سخت گیر ہوں۔ میرے زمانے میں صرف پڑھائی نہیں ہوتی تھی بلکہ طالب علم اور استاد کے کردار پر نگاہ بھی رکھی جاتی تھی۔ بعد میں جامعہ کراچی کی صورت حال تعلیمی اور اخلاقی لحاظ سے جو خراب ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔
طاہر مسعود: بحیثیت ماہرِ تعلیم کے، موجودہ نظام تعلیم کے بارے میں آپ کیا تصور رکھتے ہیں اور اس میں کون سی بنیادی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں؟
ڈاکٹر قریشی: بات یہ ہے کہ میں ایک عرصے سے موجودہ نظام تعلیم کے خلاف ہوں۔ میں شروع سے اس کا خواہش مند رہا ہوں کہ موجودہ نظام تعلیم ختم کرکے ایک بہتر اور بامقصد نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ اس سلسلے میں مَیں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے اور عملی کوششیں بھی کیں۔ میری کتاب Education in Pakistan میں میرے سارے خیالات درج ہیں۔ مگر اس وقت میں یہ کہوں گا کہ ایک اسلامی مملکت میں وہی تعلیم بارآور ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اسلام پر ہو، یا تو ہم کہنا ہی چھوڑ دیں کہ ہم مسلمان ہیں، یا پھر ان اصولوں کو عملاً قبول کریں جن کے قبول کرنے کی ذمے داری بحیثیت مسلمان ہم پر عائد ہوتی ہے۔ ہماری بدنصیبی شروع سے یہ رہی ہے کہ ہمارے اوپر ایک طبقہ ایسا برسراقتدار رہا ہے جس کے خیالات ہمیشہ سے سیکولر یا لادینی رہے ہیں۔ اسی طبقے نے اس ملک کا ستیاناس کردیا۔ اس طبقے نے ایک ایسا نظام تعلیم رائج کیا ہے جسے حاصل کرکے نوجوان کے دل سے اسلام اور پاکستان کی محبت ختم ہوگئی۔ مثلاً آپ کے سامنے اس ذہنیت کو واضح کرنے کے لیے بتاتا چلوں جب ہمارے فوجی انڈیا میں قید ہوئے تھے ان ہی دنوں پاکستان سے انڈر گریجویٹ طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج گئے ہوئے تھے۔ جب ان طلبہ سے بعض وطن دوست طلبہ نے کہا اپنے وطن کے فوجیوں کی رہائی کے لیے مظاہرہ کرو تو ان طلبہ نے صاف انکار کردیا اور کہنے لگے کہ ہم ہندو اور عیسائی دوستوں کی دل آزاری نہیں چاہتے۔ انہوں نے مظاہرے سے انکار اس لیے کیا کہ ان کی حکومت کی طرف سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ یہی طلبہ اُس وقت اپنے نوّے ہزار فوجیوں کی ذلت آمیز زندگی سے بے نیاز سکھوں اور ہندو لڑکوں کے گلے میں ہاتھ ڈال کر عیاشی کرتے پھر رہے تھے۔ اب آپ بتائیں کہ ان کی کیا اخلاقی حیثیت رہ جاتی ہے کہ وہ وہاں اسلام کی نمائندگی کر سکتے! آپ بیج بوئیں لادینیت کا اور پھل کاٹیں اسلام کا‘ آخر یہ کیسے ممکن ہے! جب ہم اپنے نظام تعلیم کی بنیاد غیر اسلامی اصولوں پر رکھیں گے تو ایسے نوجوان لازماً پیدا ہوں گے۔ میرے ان تمام خیالات کے گواہ میرے پرانے طالب علم ہیں کہ میں شروع سے اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ اس ملک کو باقی رکھنا ہے تو آپ کو اسی کے مطابق تعلیم دینی ہوگی۔ موجودہ لادینی نظام تعلیم نے تو پورے یورپ کو دیوالیہ کردیا اور وہاں عیسائیت کو کمزور کردیا ہے، لہٰذا پاکستان میں لادینی تعلیم مضر اثرات کیسے نہ دکھاتی! حیرت اس بات پر نہیں ہونی چاہیے کہ اس نظام تعلیم نے نوجوانوں کو اسلام اور اخلاقی لحاظ سے پست کردیا، بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم کے باوجود اتنے نوجوان کیسے نکل آئے جو آج بھی اسلام اور پاکستان کا درد اپنے سینوں میں رکھتے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم نے ایک ایسی نسل پیدا کی جس کے نزدیک صرف مادّی آسائشیں اور حصولِ زر ہی زندگی کا اوّل و آخر مقصد ہے، جس کے اساتذہ اور دوسرے عہدوں پر فائز حضرات کی دل چسپی صرف اپنی تنخواہوں تک محدود ہے۔ ان میں کسی قسم کی فرض شناسی کی کوئی رمق نہیں پائی جاتی، اور یہ چیز اس ملک کے مستقبل کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ اس میں سب سے پہلی اصلاح تو تعلیمی اداروں کی ہونی چاہیے۔ کون سا طریقہ ہے کہ جب اسلام کی ضرورت ہو تو اسلام کا نعرہ لگایا جائے اور جب اسلام کے نفاذ سے اپنے کسی مفاد پر ضرب پڑتی ہو تو اسلام زمانۂ قدیم کا فرسودہ نظام بن جائے!
طاہر مسعود: ہمارے یہاں اسلامی نظام تعلیم کی اصطلاح کے استعمال کا عام رواج ہے اور مقبولِ عام نعروں میں بھی اسے جگہ ملی ہے، مگر اس اصطلاح کا مفہوم بہت سے ذہنوں میں تشنۂ وضاحت ہے۔ آپ نے بھی اپنے زمانۂ تدریس میں یہ اصطلاح اکثر استعمال کی ہے‘ کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ اسلامی نظام تعلیم سے کیا مراد ہے اور یہ اپنی جزئیات اور اصول میں مروجہ نظام تعلیم سے کس طرح اور کتنا مختلف ہوگا؟
ڈاکٹر قریشی: بات یہ ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم کوئی ایسی چیز نہیں جسے دو لفظوں میں بیان کردیا جائے۔ ایک انقلابی عمل‘ ہمہ گیر قسم کی تحریک ہے۔ مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ یہ تعلیم اس قسم کی ہوگی جس میں دین و دنیا دونوں سے واقفیت حاصل ہوسکے لیکن جس میں انسان کی وفاداریاں صرف اور صرف اللہ اور اس کے احکامات سے وابستہ ہوں۔ یہ نظامِ تعلیم پرانے نظامِ تعلیم سے مختلف ہوگا، لیکن پھر بھی ہمیں پرانے نظام تعلیم سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ پرانا نظامِ تعلیم مختلف علوم کا مرکب ہے اور پرانے اور نئے نظامِ تعلیم میں درحقیقت اتنا ہی فرق ہے جتنا فرق سیب اور سیب کے مربے میں ہے۔ نیا اسلامی نظام تعلیم زندہ اور تروتازہ ہوگا جس میں نمو کی قوت ہوگی۔ پرانے نظام یا موجودہ نظام تعلیم میں یہ قوت موجود نہیں ہے، اور یہ اصلاح معمولی پیوندکاری کا کام نہیں ہے۔ آخر ہمارے بزرگوں نے بھی اپنے زمانے میں علوم و فنون رائج کیے تھے جنہوں نے دنیا کو بہت کچھ سکھایا تھا، یہ الگ بات کہ وہ نظام تعلیم اب مُردہ ہوگیا اور عملاً بے کار ہوگیا۔
طاہر مسعود: آپ مخلوط تعلیم کے حق میں ہیں یا مخالف؟
ڈاکٹر قریشی: یہ سوال آسان نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام مرد اور عورت کا ارتباط پسند نہیں کرتا اور وہ ایسی تمام چیزیں بروئے کار لاتا ہے جن سے اس ارتباط کو روکا جاسکے۔ اس کے باوجود کہ وہ مرد اور عورت کو شانہ بشانہ کام کرنے سے منع نہیں کرتا اگر یہ ارتباط سے خالی ہو۔ اس طرح مخلوط تعلیم تو کیا، زندگی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں اس اصول کو پیش نظر رکھ کر بہت سی حدیں قائم کرنی پڑیں گی۔ ویسے ایک بات سمجھ لیجیے، اگر عورت اور مرد کے مقام اور فرائض ایک نہیں ہیں تو ان کی تربیت بھی جداگانہ طریقے سے ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ آپ لڑکوں کو لڑکیاں بنادیں اور لڑکیوں کو لڑکا۔
طاہر مسعود: آپ سمسٹر سسٹم کو ایک درست طریقۂ تعلیم سمجھتے ہیں؟
ڈاکٹر قریشی: سمسٹر سسٹم کے بعض ایسے قواعد اور ایسے لوازم ہیں جن کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پہلا استاد کا کردار ہے کہ استاد کسی دھمکی‘ لالچ‘ دبائو اور خوف میں نہ آئے‘ یعنی اس کا مضبوط کردار ہی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ماضی میں روشن روایات موجود ہیں۔ دوسرا لازمہ یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی انتظام ایسا ہے جس سے یہ جانچ ہوسکے کہ طالب علم نے اپنے اس پورے تعلیمی عرصے میں واقعی کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے صرف گریڈ سے تو یہ پتا نہیں چل سکتا۔ اگر یہ نظام حسنِ نیت سے قائم کیا ہوتا ہے تو بعض ایسے اقدامات بھی کیے جاتے جن سے بہتری کے نتائج پیدا ہوتے۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں پرانا یعنی سالانہ امتحانات کا طریقۂ تعلیم بہتر ہے یا موجودہ؟
ڈاکٹر قریشی: اصل میں ہر اسکیم میں بعض ایسے تحفظات ہوتے ہیں کہ کہیں اس کا غلط استعمال ہوجائے۔ اگر آپ امتحان میں نقل کرنے والوں کو نہ روک سکیں اور امتحان کی عصمت ہی قائم نہ رہ سکے تو کوئی بھی طریقہ تعلیم ہو، اس کا فائدہ؟ اساتذہ کو یہ بات طالب علموں کے ذہن نشین کرانی چاہیے کہ اس میں تمہارا ہی نقصان ہے کہ ڈگری تو مل جاتی ہے لیکن علم حاصل نہیں ہوتا۔ خصوصاً غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے تو موجودہ طریقۂ کار اور نظام تعلیم سم قاتل ہے، اس لیے کہ امیر طبقہ تو اپنے بیٹے بیٹیوں کو یورپ بھیج کر پڑھا دیتا ہے، اور یہ سب کچھ محض اس لیے کہ ایک طبقے کا اقتدار اور دوسرے طبقے کا استحصال باقی رہے۔ ساری آسائشیں‘ سفارشیں اور وسائل تو اسی ایک امیر طبقے کو حاصل رہے ہیں، اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے متوسط اور غریب طبقے کو۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ تعلیمی نظام پروپیگنڈہ نہیں ہے جس کے ذریعے برسراقتدار طبقہ طلبہ اور اساتذہ سے سیاسی تائید حاصل کرے۔ مثلاً استاد کو خوش رکھنا ہے تو تنخواہیں بڑھا دیں۔ طلبہ کو مطمئن کرنا ہے تو ان کے ناجائز مطالبے مان لیے جائیں۔ اب یہی دیکھیے کہ میرے بچے ہیں‘ پوتے اور پوتیاں ہیں‘ میرے نزدیک ان کی تعلیم و تربیت کے لیے دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ میں انہیں جا و بے جا خوش دیکھنے کے لیے بدپرہیزی کراتا رہوں۔ ان کی جائز و ناجائز فرمائشیں اور خواہشیں پوری کرتا رہوں تاکہ ان کے اور میرے تعلقات اچھے رہ سکیں۔ دوسرے یہ کہ میں ان کی صحت اور تعلیم کے لیے ان کی پرسش کروں، وہ اگر غلط کریں تو انہیں روکوں اور سیدھا راستہ دکھائوں۔ کون سا طریقہ ہے جو نیک اندیشی پر منحصر ہے؟ نوجوان تو ہماری قوم کی طاقت کا سرچشمہ ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، اور متوسط طبقہ ہی ہر قوم کی ترقی کا باعث بنتا ہے اور آج ہم اسی طبقے کو تباہ کررہے ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ اس نظامِ تعلیم کو کیا کہیں گے جو آدمی میں اتنا کردار بھی پیدا نہ کرسکے کہ آدمی اپنے اصول کے لیے قربانی دے سکے! لعنت ہے اُس تعلیم پر جو کردار کو بگاڑے اور قابلیت پیدا نہ کرسکے۔
طاہر مسعود: آپ کے نزدیک کیا ہمارے ملک کے اساتذہ اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دے رہے ہیں؟ اور کیا طلبہ ٹھیک ٹھیک اپنے منصب کو پہچانتے ہیں؟
ڈاکٹر قریشی: بالکل نہیں‘ نہ استاد اپنے مقام سے واقف ہیں اور نہ طالب علم اپنے مقصد سے۔ جب معاملہ محض نفع اندوزی کا ہو تو ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ اگر کسی قوم کی بنیاد ہی باقی نہ رہے اور معاشرے کے سامنے کوئی مقصد نہ ہو سوائے روٹی کمانے کے، تو اس معاشرے سے کیا آپ توقع رکھیں گے۔ آپ بتائیں کہ موجودہ تعلیم نے کیا کسی قسم کا آئیڈیلزم پیدا کیا ہے؟ پیٹ تو جانور بھی بھر لیتے ہیں۔ آج ہر شخص کی کوشش یہی ہے کہ نوکری اچھی مل جائے اور تنخواہ معقول سے زیادہ ہو۔ میرا دل تو درد سے بھرا ہوا ہے، آپ کہاں تک سنیں گے؟
طاہر مسعود: اگر موجودہ دی جانے والی تعلیم اتنی فرسودہ ہے تو اساتذہ نے آج تک اس تعلیم کے خلاف کوئی تحریک کیوں نہ چلائی، جب کہ وہ اس معاشرے کا باشعور حصہ ہیں؟
ڈاکٹر قریشی: وہ کوئی تحریک چلا ہی نہیں سکتے۔ آپ پوری تاریخِ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیں، آپ دیکھیں گے کہ اساتذہ نے اپنی تنخواہیں بڑھانے کے سوا کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی۔ کم از کم مجھے تو نہیں معلوم کہ اساتذہ نے تعلیم اور معیارِ تعلیم کو بلند کرنے کی عملی کوششیں کی ہوں۔ ہاں البتہ ایسی بہت سی کوششیں آپ کو ملیں گی جو گریڈ اور اُن کی ترقیوں سے متعلق ہوں گی۔ میں اساتذہ کی تنخواہیں بڑھانے کا مخالف نہیں ہوں‘ یقینا ایک استاد کی تنخواہ اتنی ضرور ہونی چاہیے کہ وہ معاشی بدحالی کا شکار نہ ہو۔ (ٹھیر کر) آخر استاد بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں‘ وہ بے چارے بھی کیا کریں!
طاہر مسعود: ڈاکٹر صاحب! آپ تاریخ کے استاد بھی ہیں اور مورّخ بھی‘ آپ کا کیا خیال ہے کون سے عوامل کے سبب آج تک پاکستان اس منزل پر نہیں پہنچ سکا جس کے لیے وہ حاصل کیا گیا تھا؟
ڈاکٹر قریشی: اصل میں ہماری قوم میں شروع سے رجحان یہ تھا کہ جسے اچھی نوکری مل جائے وہی کامیاب ہے۔ پھر ہماری طرف سے کبھی کسی نصب العین کے لیے کام نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگ کی وہ قیادت جس نے حصولِ پاکستان کی جنگ لڑی تھی‘ چار سال کے اندر اندر ختم ہوگئی۔ قائداعظم 1948ء میں اور لیاقت علی خان 1951ء میں انتقال کر گئے۔ وہ لوگ خالی الذہن نہیں تھے لیکن انہیں موقع نہیں مل سکا۔ بہت سے لوگوں نے قائداعظم کے خطوط پر کام کرنا چاہا لیکن ان کے خلاف سازشیں کی گئیں اور انہیں ناکام بنا دیا گیا۔ مثلاً فضل الرحمن‘ عبدالرب نشتر اور خواجہ ناظم الدین وغیرہ۔ اصل میں سرکاری افسران نے پورے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ ظاہر ہے اس صورت میں پاکستان اس منزل اور مقصد تک کیسے پہنچ سکتا تھا جب راستے کی مشکلات ہی طے نہ ہوسکیں۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ طلبہ کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنی توجہ صرف تعلیم پر دینی چاہیے‘ آپ کا کیا خیال ہے؟
ڈاکٹر قریشی: بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص اقتدار پر ہوتا ہے تو یہی کہتا ہے۔ ایسے ممالک جو ترقی پذیر ہیں‘ وہاں طلبہ ہی اس ملک کا باشعور طبقہ ہوتے ہیں جو دنیا کے معاملات میں اس درجہ ملوث نہیں ہوتے ہیں کہ سوچنے سمجھنے اور برے بھلے کو پرکھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھیں۔ اس طبقے سے توقع رکھنا کہ اس کے دل میں درد نہ ہو، اور اگر درد ہو تو وہ اس کا اظہار نہ کرے‘ ممکن نہیں۔
طاہر مسعود: ڈاکٹر صاحب! آپ نے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ کوششیں کیں؟
ڈاکٹر قریشی: میں گورنمنٹ نہ تھا لیکن میں نے گورنمنٹ سے بڑی لڑائیاں لڑیں، مثلاً ایک زمانے میں زبان کا مسئلہ تھا جسے خود یونیورسٹی کے اساتذہ نے چلنے نہیں دیا۔ ایک وقت میں ایک ہی لڑائی لڑی جاسکتی ہے۔ زبان کا مسئلہ بنیادی تھا۔ زبان ایک ایسی چیز ہے جس میں بہت سے خیالات اور عقائد ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب استاد کی زبان کو طالب علم سمجھ ہی نہ پائے گا تو وہ پڑھے گا کیا! دس ہزار چیزیں اصلاح طلب تھیں۔ اس میں مجھے کسی بنیادی نکتے کو بچانا تھا جس کی اصلاح کے انقلاب انگیز اثرات پڑیں، اس لیے میں نے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانا چاہا، لیکن وہ طبقہ جس کا تفوق ہے انگریز پر، وہ بھلا کیسے چاہ سکتا تھا؟ وہ اب بھی نہیں چاہتا۔ وہ ترقی کے معنی یہ سمجھتا ہے کہ انگریزی بولنی آجائے۔ متوسط گھرانوں میں بلکہ میں نے خود اپنے جاننے والے گھرانوں میں دیکھا ہے کہ ابا کو ابا کہو تو بری بات ہے اور ڈیڈی کہو تو اچھی بات ہے۔ ممی بولو تو بہت خوب، اور اماں بولو تو بہت برا۔ جب کسی قوم میں احساسِ کمتری اس درجہ پیدا ہوجائے تو وہ کیسے ترقی کرسکتی ہے!
طاہر مسعود: کیا کسی مسئلے پر ایسا ہوا ہے کہ آپ کچھ کہہ رہے ہوں اور اوپر سے کچھ اور احکامات نازل ہو رہے ہوں؟
ڈاکٹر قریشی: دبائو کا جہاں تک تعلق ہے ایسا بہت بار ہوا ہے، خود اس زبان کے مسئلے پر۔ لیکن اس قسم کی تفصیلات کا بیان اپنے منہ سے کچھ اچھا نہیں لگتا۔