کراچی میں سردیاں شروع ہوگئیں

661

ویسے تو سال میں چار موسم ہوتے ہیں، لیکن ساون اور سردیاں سب ہی کو پسند ہیں۔ سردیوں کا موسم شروع ہوگیا ہے۔ویسے تو ملک کے تمام ہی حصوں میں اکتوبر میں سردیاں شروع ہوتی ہیں، لیکن کراچی میں سردیوں کا آغاز دسمبر میں ہوتا ہے۔ سردیوں کا موسم رومانویت سے بھرپور ہوتا ہے۔ سخت سردیوں میں کمبل اوڑھ کر کافی پینے اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی خوبصورت اور دلکش شاعری کا مطالعہ اور مونگ پھلی کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

جبکہ جوان رات میں اپنے دوستوںکے ساتھ موٹربائیکس پر گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ چائے خانوں کے باہر چائے کی چسکیاں لگاتے ہوئے گپ شپ کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں زیادہ تر صنف نازک، عشق، تتلیوں اور پھولوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ یا پھرمختلف ریستورانوں پر لوگوں کے رش ہوتے ہیںان میں لوگ اپنے خاندانوں کے ہمراہ بھی جاتے ہیں اور دوستوں کے ساتھ بھی ۔وہاں بھی ہنسی مذاق کے علاوہ خوبصورت یادیں تتلیوں کی طرح اڑتی ہیں۔ بعض منچلے کراچی میں کلفٹن کے ساحل پر سرد موسم میں چلے جاتے ہیں، جہاں سی ویو کے قریب دودریا کے علاقے میں درجنوں مغربی طرز کے ریستوران ہیں۔ وہ سمندر کے ساحل پر عین سمندر کے اوپر بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر ریستوران لکڑی کے ہیں اور ان کے کنارے کھڑے ہوکر یوں لگتا ہے کہ گویا ہم بحری جہاز پر ہوں۔ ان ریستوران سے کباب اور شباب کی خوشبو بکھری رہتی ہے۔ ویسے ان ریستورانوں میں زیادہ تر لوگ اپنے اہل خاندان کے ہمراہ آتے ہیں، اور ان کی اکثریت امیر طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ مڈل کلاس کے نوجوان سی ویو پر گپ شپ لگاتے اور بُھٹے کھاتے ہیں۔ ویسے سی ویو کے ساحل پر اونٹوں اور گھوڑوں کی سواری کا بھی انتظام ہے جس سے بچے بہت زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔ اب وہاں کئی برس سے کئی اور دلچسپیوں کا اضافہ ہوگیا ہے جس میں ٹرائی سائیکل بھی شامل ہے۔

کلفٹن ہی کے ساحل پر کئی بلند وبالا جدید عمارتیں بھی ہیں جن میں جدید شاپنگ مالز اور دفاتر ہیں۔ کلفٹن کے پرانے راستے سے واپس ہوں تو جہانگیرکوٹھاری کی قدیم تاریخی عمارت ہے، جو اپنے اندر محبتوں کی بہت سی داستانیں سموئے ہوئے ہے۔ ساحلی علاقوں پر اصل رش تو گرمیوں اور برسات میں ہوتا ہے۔ لیکن ٹھٹھرتی سردیوں میں وہاں منچلے ضرور آتے ہیں اور پوری شان اور آب وتاب لئے ہوئے سورج کو ٹھنڈے پانی میں ڈوبتا ہوا دیکھ کران کی قلفی سی جم جاتی ہے۔

گلی گلی چکن کارن سوپ کے ٹھیلے اور ان پر لوگوں خاص طوپر نوجوانوں کا رش۔ مٹھائی کی دکانوں پر گاجر کے حلوے کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ گرما گرم مونگ پھلی شاید ہر کسی کو پسند ہیں۔ سردیاں بہت پرکیف ہوتی ہیں۔ راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوجاتے ہیں اور کمبل سے باہر نکلنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔

جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ روایات اور قدریں تبدیل ہورہی ہیں۔ اسی طرح موسم بھی اپنا رنگ بدل رہے ہیں۔ کراچی میں خاص طورپر سردی کا رنگ بھی بدل گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں کڑاکے دار سردی پڑتی تھی، شاید نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے، ہم جب سوکر اٹھتے تو منہ سے سردیوں والی بھاپ نکلا کرتی تھی۔ سردیوں کی آمد سے قبل ہی خاندان کی خواتین اور بڑی بوڑھیاں موٹے موٹے اور بھاری بھرکم لحاف نکال کر انہیں دھوپ لگاتیں ، اگر ضرورت ہوتی تو ان کے غلاف تبدیل کرکے ان پر خود ہی ڈورے لگایا کرتیں۔ کیونکہ ہمارے بچپن کے دور تک لوگ اپنے ہاتھ سے ہی بہت سارے کام کرتے تھے۔

چونکہ گیس نہیں تھی، اس لئے گیزر کا تصور تک نہ تھا، جب سردی اپنے جوبن پر ہوتی تو گھروں میں انگیٹھیاں جلا کر ہر پلنگ کے پاس اور ہر کمرے میں رکھ دی جاتیں، ان سے نہ صرف سردی کی شدت کم ہوتی، بلکہ مچھر بھی بھاگ جاتے اور گلی محلوں میں لوگ آگ کے الاؤ روشن کرکے ان سے ہاتھ تاپتے۔ اس زمانے سردیوں میں گاجر کا حلوہ مٹھائی کی دکانوں پر تو ملتا ہی تھا لیکن اسے گھر میں تیار کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ مونگ پھلی کے ساتھ چلغوزے بھی عام آدمی کی پہنچ میں تھے۔

کراچی میں سردی کی شدت اتنی ہوا کرتی تھی کہ لوگ سوئٹر اور مفلر کے علاوہ منکی (بندر) کیپ بھی استعمال کیا کرتے اور خواتین کے علاوہ مرد حضرات بھی شال اوڑھا کرتے۔ غرض ہمارے بچپن میں کراچی میں سردیاں بہت شدت سے پڑا کرتی تھیں۔ایک خاص بات یہ تھی کہ اس زمانے میں نہ توزندگی اتنی تیزرفتار تھی اور نہ ماحول میں آج کل کی طرح اتنی کشیدگی تھی جیسے اب ہے، اور ہر شخص خوش رہا کرتا تھا۔ لوگ کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی اور گلی محلے اکثر لوگوں کی خوش گپیوں اور قہقہوں سے گونجا کرتے تھے۔

لوگ سادگی سے زندگی گزارتے ، اسی لئے کم میں بھی گزارا ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور کی طرح نہ تو ٹیلی ویژن تھا، نہ وی سی آر، نہ کمپیوٹر اور نہ ہی موبائل فون اور اس کے تباہ کن ایپس ’’واٹس ایپ، فیس بک، ٹک ٹوک وغیرہ‘‘۔ اسی طرح لوگ گھروں پر ہی پیدا ہوتے اور گھروں پر ہی مرجاتے تھے۔ اس لئے اسپتالوں کی زیادہ ضرورت بھی نہ تھی۔ شادیوں کے لئے بھی گلیوںمیں شامیانے لگ جاتے۔ چولہے اور تنور تیار ہوجاتے۔ شادیوں کے لیے آج کل کی طرح بینکوئٹس یا مارکیس نہ تھیں، جہاں چند گھنٹوں کی تقریب کے لئے لاکھوں روپے لٹانا پڑتے ہیں۔ ہمارے دور میں سال میں ایک دو مرتبہ ملبوسات تیار کرنے کا رواج تھا۔ ان ہی میں سے کوئی اچھا سوٹ دھلوا کر پہن لیا جاتا ۔ جبکہ خواتین کے شادیوں میں استعمال کے لئے چند سوٹ بہت سنبھال کر رکھے جاتے۔ بعض ماں یا ساس یا کسی اور بزرگ خاتون کے انتقال کے بعد ان کے استعمال میں رہنے والے شادی کے ملبوسات بہت جدوجہد کرکے حاصل کئے جاتے۔ اس زمانے کی سادہ زندگی کی بہت مثالیں ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی سکون سے گزرتی تھی۔ کیا غریب اور کیا امیر، سب ہی سکون سے رہا کرتے تھے۔

ذکر چل رہا تھا، سردیوں کا، باتوں باتوں میں نصف صدی قبل کی سادہ زندگی کی بات تک جاپہنچا۔ سردیوں میں خواتین اپنے چاہنے والوں کے لئے سوئیٹر بہت اہتمام سے بُنا کرتی تھی۔جن میں زیادہ تر اپنے بچوں، شوہروں، والدین یا وہ بھی ، جن کے نام سے دل دھڑکتا اور ان کا نام سنتے ہی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑجاتے یا چہرہ شرم سے سرخ ہوجاتا۔اب تو اون، سوئیٹربننے کی سلائیاں کسی ثقافتی عجائب گھر میں رکھنا چاہئیں۔

اسی دوران یہ بھی یاد آیا کہ گھروں میں بڑے اہتمام سے پائے پکا کرتے تھے، سرشام ہی خاندان کے قریبی لوگوں کو جمع کرلیا جاتا اور ایک بڑے بھگونے میںبہت سے پائے چڑھا دیئے جاتے ، اور گھر کے بڑے کمرے یا صحن میں سب بیٹھ جاتے اور گپ شپ شروع ہوجاتی۔ اس کے بعد اکثر لوگ سوجاتے ، لیکن میزبان خواتین خاص طورپر بہوئیں ، رات میں کئی مرتبہ چولہے پر چڑھے پائے کی دیکھ بھال کرتی رہتیں۔ صبح سویرے پائے کی خوشبوؤں سے پورا گھر مہک رہا ہوتا، سورج طلوع ہوتے ہی سب اٹھ کر بیٹھ جاتے ، عموماً وہ اتوار کی صبح ہوتی۔ پھر کسی پپو اور گڈو کو چند روپے دے کر گھر کے قریب ہی واقع کسی ریستوران کی جانب دوڑا دیا جاتا۔ اس زمانے میں ریستوران بھی صبح سات بجے کے قریب کھل جایا کرتے تھے اور ایک روپے میں سولہ روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ اس کے بعد گھر کے بڑے سے کمرے میں دسترخوان بچھائے جاتے اور گرماگرم روٹیاں اور مزیدار، لذیذ اور ہردلعزیز پائے بڑے بڑے تھالوں میں لائے جاتے۔کھانے کے لئے عام پلیٹوں کے مقابلے میں بڑی پلیٹیں ہوتیں، پائے نکال کر اس میں ہرادھنیا، پودینا، ہری مرچ، تلی پیاز ڈالی جاتی اور لیموں نچوڑے جاتے۔ پھر سب لوگ مل جل کر پائے کھاتے، اور انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ لیکن چاٹتے وقت انگلیاں چپک جاتیں تو یہ ثابت ہوجاتا کہ پائے بہت اچھے پکائے گئے ہیں۔ پہلے مرد حضرات اور خواتین تناول کرتے ، بعد میں لڑکیوں کی باری آتی ۔ کیونکہ کھلانے کی ذمہ داری ان ہی کی ہوا کرتی تھی۔ سخت سردی میں پائے کی ان دعوتوں کی اکثر میزبانی ہمارے گھر کے حصے میں آیا کرتی تھی۔ اب تو وہ ساری باتیں خواب و خیال ہوئیں۔

سردیوں میں گرم کپڑے اب بھی استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن زیادہ تر ہماری عمر کے افراد یا موٹر سائیکل سوار استعمال کرتے ہیں۔ گاجر کے حلوے اب گھروں میں تیار نہیں ہوتے، بلکہ مٹھائی کی دکانوں ہی سے خریدے جاتے ہیں۔ اور تو اور اب پنجیری گھروں میں تیار کرنے کے بجائے آن لائن آرڈر کرکے منگوائی جاتی ہے۔ جبکہ چلغوزے تو اس طرح فروخت ہوتے ہیں، جیسے سونا۔کیونکہ اب ان کی قیمت بھی ہزاروں روپے فی کلو میں جاپہنچی ہے۔ حتیٰ کہ ا ب مونگ پھلی کھانا بھی عیاشی تصور ہوتا ہے۔ اسی طرح دیگر خشک میوہ جات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ تھوڑا بہت تو استعما ل کیا ہی جاسکتا ہےماضی کے مقابلے میں اب کافی کا استعمال بڑھ گیا ہے، برانڈڈ کافی شاپ کے خوابناک ماحول میں کافی پینے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔لیکن ہماری عمر کے لوگ اب بھی گھروں میں لحافو ں میں گھسے کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں یا چائے کی چسکیاں لیتے ہیں۔ کبھی ہم جیسے پرانے لوگ جمع ہوجائیں تو یادوں کے دفتر کے دفتر کھل جاتے ہیں اور ان کا سلسلہ اس وقت رکتا ہے، جب گھروں سے بیگمات یا کسی اور یعنی پوتے پوتیوں میں سے کسی کے فون آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ سردیوں کے موسم میں بہت کشش ہوتی ہے۔اردو کے نامور شاعرنظیر اکبرآبادی کی نظم ’’جاڑے کی بہاریں‘‘ماضی کی سردیوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے:

جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
تن ٹھوکر مار پچھاڑا ہو اور دل سے ہوتی ہو کشتی سی
تھر تھر کا زور اکھاڑا ہو بجتی ہو سب کی بتیسی
ہو شور پھپو ہو ہو کا اور دھوم ہو سی سی سی سی کی
کلے پہ کلا لگ لگ کر چلتی ہو منہ میں چکی سی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں میں سردی نے آ باندھ دیا ہو یہ چکر
جو ہر دم کپ کپ ہوتی ہو ہر آن کڑاکڑ اور تھر تھر
پیٹھی ہو سردی رگ رگ میں اور برف پگھلتا ہو پتھر
جھڑ باندھ مہاوٹ پڑتی ہو اور تس پر لہریں لے لے کر
سناٹا باؤ کا چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
اور تن میں نیمہ شبنم کا ہو جس میں خس کا عطر لگا
چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
ہاتھوں میں پیالہ شربت کا ہو آگے اک فراش کھڑا
فراش بھی پنکھا جھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
جب ایسی سردی ہو اے دل تب روز مزے کی گھاتیں ہوں
کچھ نرم بچھونے مخمل کے کچھ عیش کی لمبی راتیں ہوں
محبوب گلے سے لپٹا ہو اور کہنی، چٹکی، لاتیں ہوں
کچھ بوسے ملتے جاتے ہوں کچھ میٹھی میٹھی باتیں ہوں
دل عیش وطرب میں پلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہو فرش بچھا غالیچوں کا اور پردے چھوٹے ہوں آ کر
اک گرم انگیٹھی جلتی ہو اور شمع ہو روشن اور تس پر
وہ دلبر، شوخ، پری، چنچل، ہے دھوم مچی جس کی گھر گھر
ریشم کی نرم نہالی پر سو ناز و ادا سے ہنس ہنس کر
پہلو کے بیچ مچلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ترکیب بنی ہو مجلس کی اور کافر ناچنے والے ہوں
منہ ان کے چاند کے ٹکڑے ہوں تن ان کے روئی کے گالے ہوں
پوشاکیں نازک رنگوں کی اور اوڑھے شال دو شالے ہوں
کچھ ناچ اور رنگ کی دھومیں ہوں عیش میں ہم متوالے ہوں
پیالے پر پیالہ چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں ہو خلوت کا اور عیش کی سب تیاری ہو
وہ جان کہ جس سے جی غش ہو سو ناز سے آ جھنکاری ہو
دل دیکھ نظیرؔ اس کی چھب کو ہر آن ادا پر واری ہو
سب عیش مہیا ہو آ کر جس جس ارمان کی باری ہو
جب سب ارمان نکلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

ماضی کے مقابلے میں اب کراچی میں سردی بہت کم پڑنے لگی ہے، لیکن میرے لیے تو اتنی سردی بھی بہت ہے۔ مجھے ہمیشہ سے سردیاں پسند رہی ہیں، پوری گرمیاں اس انتظار میں گزار دیتا تھا کہ کسی طرح یہ گرم موسم گزرے اور سردیاں شروع ہوں تو مزے کے دن گزریں۔ اب بھی سردیوں کی آمد پر خوشی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ایک انجانا سا خوف بھی اپنے پنجے گاڑے رہتا ہے۔یعنی اپنی صحت کے بارے میں کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ شاید یہی زندگی ہے اور یہی اس کا حسن ۔

حصہ