اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں خواتین کے خلاف ’تشدد‘ اور ’جرائم‘ میں اضافہ ہورہا ہے۔ مغربی ممالک سے پیدا ہونے والا یہ تشدد مستقل بڑھتا جارہا ہے اور اپنے زیراثر ممالک میں بھی سرایت کررہا ہے۔ یورپی محققین یہی بتاتے ہیں کہ ’مغربی تہذیب‘ تاریخ انسانی کی سب سے متشدد تہذیب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی ممالک اور نظریہ آزادی و مساوات کو عقیدہ ماننے والوں میں ہی تشدد کے مسائل عام ہیں، عدالتوں میں ایسے کیسز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، کہیں جہالت، فرسٹریشن اور نظامِ انصاف اور قانون کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے خواتین سے حق تلفیاں اور غیر منصفانہ رویّے نظر آنے لگے ہیں۔
عورتوں پر تشدد کی بہت سی اقسام بنادی گئی ہیں جن میں جسمانی تشدد، نفسیاتی استحصال، مالی تنگی، گالی گلوچ کرنا، ہراساں کرنا شامل ہیں۔ یہ تشدد سسرال سے لے کر قریبی رشتے داروں، دفتری لوگوں اور اجنبیوں کی جانب سے بھی ہوسکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں عورتیں تشدد کی رپورٹ نہیں کرتیں کہ اس سے اُن کی یا خاندان کی بدنامی ہوگی، کیونکہ اب میڈیا بھی ایسے کیسز کو خوب اچھالتا اور نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مسائل کا شکار وہ خواتین ہیں جنہیں کسی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اس میں امیر، غریب، تعلیم یافتہ، ناخواندہ کی بھی کوئی تفریق نہیں۔
تمام ہی نوکری پیشہ خواتین کے لیے اس ضمن میں خاصی مشکلات رہتی ہیں۔ انیسویں صدی میں لبرل ازم کی فکر نے جب بڑے پیمانے پر صنعتی انقلاب کو جنم دیا، تو اس کے انڈے بچوں میں سے ایک ”فیمن ازم“ کی تحریک نے مغرب میں جڑ پکڑی، جس نے انسانی حقوق کے کندھوں پر سوار ہوکر مزید نئے پَر نکالے۔ انسانی حقوق کے لیے پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں ’خواتین کا تحفظ‘ بھی شامل کرایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ بتاتی ہے کہ اس ایشو کو تحرک 2006ء میں ’می ٹو‘ جیسی شرمناک مہم سے ملا۔ اقوام متحدہ نے دنیا کو جنسی بنیادوں پر تشدد سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا۔ تضاد یہ ہے کہ اقوام متحدہ جنس کی جو تعریف کرتا ہے وہ تو کبھی تشدد کی بنیاد بنی ہی نہیں۔
یہ جو دن لیا گیا ہے وہ بھی ڈومینین ریپبلک میں 3 بہنوں کی موت کے دن کی مناسبت سے لیا گیا ہے۔ یہ تین بہنیں مقامی فوجی حکمران کے خلاف خفیہ سیاسی جدوجہد کے جرم میں مار دی گئیں، بعد ازاں اقوام متحدہ نے ان کے قتل کو فیمنسٹ مزاحمت سے جوڑ دیا اور 1999ء سے 25 نومبر کا دن خواتین پر تشدد کے خاتمے سے جوڑ دیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ استعماری قوت کے ساتھ پھیلتا چلا گیا، صرف دن ہی نہیں بلکہ اس دن کے لیے ماحول بھی بنایا جاتا ہے۔
اب مزید ظلم یہ ہوتا ہے کہ بلاوجہ اِس پروپیگنڈے کے دباؤ میں آکر سادہ لوح مسلمان، مغرب کے اس مسئلے کو اپنی تاریخ میں جاکر زبردستی ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں، اور یوں ڈھونڈ کر نکالتے ہیں کہ اسلام سے پہلے بھی ’لڑکی کو زندہ گاڑ دیتے‘۔ پوری اسلامی تاریخ سے ایک غیر مستند، ضعیف بلکہ علما کے مطابق موضوع روایت کو لاکر ٹھونس دیا جاتا ہے۔ ایک اور ستم یہ کرتے ہیں کہ مزید سپورٹ کے لیے سورۃ التکویر کی ایک آیت matchکرلیتے ہیں۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ سب ’دے مار ساڑھے چار‘ کے مصداق مغرب کے پیش کردہ ’’عورتوں پر تشدد‘‘ کے پروپیگنڈے کو اپنی تہذیب میں یوں ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور اُسی گندگی میں جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں جو خالص مغرب ہی کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے۔
کوئی لمحے بھر کو یہ نہیں سوچتا کہ اگر ایسے واقعات اسلامی تاریخ میں بالعموم ہورہے ہوتے، قبل از اسلام عورت کے ساتھ ویسا ہی کم تر مخلوق کی مانند سلوک ہوتا تھا تو خواتین وہاں کہیں نظر نہ آتیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شادیاں ہورہی تھیں، خواتین جنگوں میں جارہی تھیں، بیوہ ہوکر بھی تجارت کررہی تھیں۔ اگر سب کو دفنایا جارہا تھا تو یہ کون تھیں؟یہ بات کسی طور تسلیم کی جاسکتی ہے کہ کسی کو لڑکی کی پیدائش ایک سخت ذمے داری و معاشرے میں بوجھ کے طور پر محسوس ہوتی ہو، کیونکہ قبائلی نظام میں طویل دشمنی کے معاملات چلتے تھے۔
لڑکے جنگ و جدل، خاندانی لڑائی چلانے میں کام آتے۔ کوئی لڑکی مالی مسائل، جہیز یا کمتر ہونے کی وجہ سے نہیں گاڑی گئی۔ جبکہ مغربی تہذیب میں تو صرف ’ابارشن‘ اتنا عام ہے کہ یہ لڑکا، لڑکی سب کے لیے ہی ہوتا ہے۔ پھر اب 1400 سال اسلام کو ہوگئے ہیں، یہ کم عرصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد تو وہ سلسلہ تب ہی ختم ہوگیا اگر تھا بھی تو۔ اب 1400 سال میں دونوں تہذیبوں کا موازنہ کافی ہے۔ یہی نہیں 4000سال قبل موئن جو دڑو کے آثار بتاتے ہیں کہ خواتین پر ایسی کوئی پُرتشدد تہذیب مسلط نہیں تھی۔ دیواروں پر عورتوں کے کندہ نقوش، زیورات و دیگر، کسی تشدد کی نشاندہی نہیں کرتے۔ کچھ لوگ ہندو تہذیب سے مثال لاتے ہیں،مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ بیوی کو شوہر کے ساتھ جلانا مذہبی عمل تھا۔
یہ عمل شوہر سے وفاداری، خدمت و پاکیزگی کی علامت تھا۔ ہندوؤں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتوں میں خیال پیدا ہوگیا تھا کہ ہمیں کسی قسم کی پوجا کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنے شوہروں کی اطاعت کرنا اور ان کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانا ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ اس لیے اس کو ہندو مذہب سے باہر کھڑے ہوکر تشدد نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ میں عورت کی حفاظت ہمیشہ خاندان کرتا رہا ہے۔ مگر کیا مساوات کا مغربی نعرہ ہمیں خاندان کے ملبے پر کھڑا نظر نہیں آتا؟ روایتی تہذیب میں خلافتِ عثمانیہ تک عورت پر تشدد کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا۔
خالق کی جانب سے مردو عورت میں تقسیمِ اختیارات کردیئے گئے، اس پر عمل ہوتا رہا۔ عورت بھی بحفاظت، پُرامن، پُرسکون زندگی گزارتی رہی۔ نہ کوئی جنسی تشدد کی عمومیت، نہ کوئی انسانی اسمگلنگ، نہ کوئی چائلڈ میرج پر شکوہ شکایت۔ اگر مسائل ہوتے تو سارا خاندان اندر ہی انہیں حل کرتا رہتا۔ باپ، بھائی، بیٹا، دادا، ماموں، خالہ… سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ خوفِ خدا ہی غالب عنصر تھا۔ رشتوں کی تقدیس، عزت، درجہ اہمیت رکھتا تھا۔ جو مستشرقین قرآن مجید میں شوہر کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت پر تنقید کرتے ہیں وہ اپنے تعصب میں یہ بات نظرانداز کرتے ہیں کہ دائرئہ ’عبدیت‘ میں، کسی سخت عدم اطاعت پر آخری مرحلے میں تزکیے و اصلاح کی خاطر شوہر کا ہاتھ اٹھانا اور ’مغرب‘ کے پیش کردہ ’تشدد‘ میں کوئی مماثلت ممکن ہی نہیں۔