’’آپ کو معلوم ہے کہ مجھے مرعوب کرنے کے لیے اُس کا آخری حربہ کیا تھا؟ یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم ایک عیسائی ماں کی بیٹی ہو۔ اِس لیے میں جب چاہوں اپنی لونڈی بنا سکتا ہوں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ مجھے یہ اُمید نہ تھی کہ وہ اِس حد تک کمینگی پر اُتر آئے گا، لیکن تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اگر عیسائیت کے ساتھ ہمارا رشتہ تمہارے ابا جان کو کوئی نقصان پہنچا سکتا تو شہنشاہ ایران کے تمام سرداروں کو نظر انداز کرکے قسطنطنیہ فتح کرنے کی مہم اُن کے سپرد نہ کرتا۔ شہنشاہ کے دربار میں تمہارے ابا جان کے حاسدوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ میں تھیوڈوسیس کی بیٹی ہوں، لیکن جب تک شہنشاہ کو ہماری خدمات کی ضرورت ہے کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ ایرج ہماری برائی سوچ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اُس نے کسی بات سے چڑ کر تمہیں پریشان کرنے کی کوشش کی ہو۔ بہرحال اب وہ رخصت پر جارہا ہے، شاید وہیں اسے کوئی عہدہ مل جائے، اس لیے تمہیں غصے یا نفرت کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ گھر جا کر تمہارا خیال ہی چھوڑ دے اور ہمیں اُس کے خاندان کے ساتھ بگاڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘‘۔
ماں اور بیٹی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ نوکر کھانا تیار کرچکے تھے۔ لیکن ایرج ابھی تک غیر حاضر تھا۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’اب بہت دیر ہوگئی ہے، میں نوکر کو بھیج کر اُسے بلاتی ہوں‘‘۔
فسطینہ نے اُٹھ کر کہا۔ ’’امی مجھے بھوک نہیں، میں اپنے کمرے میں جاتی ہوں‘‘۔
’’بیٹی بھوک تو مجھے بھی نہیں، لیکن وہ بُرا مانے گا‘‘۔
’’امی، اگر آپ کو اُس کی ناراضگی کا اس قدر خوف ہے تو آپ اُسے کہہ دیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں‘‘۔ فسطینہ یہ کہہ کر برابر کے کمرے میں چلی گئی۔ یوسیبیا چند ثانیے پریشانی کی حالت میں کھڑی رہی، پھر اُس نے ایک نوکر کو آواز دے کر بلایا اور کہا۔ ’’تم ایرج کو بلا لائو‘‘۔
نوکر باہر چلا گیا اور یوسیبیا دروازے میں کھڑی ہو کر صحن کی طرف جھانکنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد نوکر واپس آیا تو اُس کے ساتھ ایرج کی بجائے قلعے کا محافظ تھا۔ اُس نے جھک کر یوسیبیا کو سلام کیا اور کہا۔ ’’جناب وہ شہر کی طرف نکل گیا ہے۔ اُس کی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی‘‘۔
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھی‘‘۔ یوسیبیا نے پریشان ہو کر کہا۔
’’جناب وہ بہت زیادہ شراب پی چکا تھا اور میں نے اُسے آپ کے پاس بھیجنا نامناسب سمجھ کر وہیں اُس کے کھانے کا انتظار کردیا تھا‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’اور اب وہ شہر میں کسی مکان کا دروازہ توڑ رہا ہوگا‘‘۔
قلعے کے محافظ نے کہا۔ ’’اُسے روکنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ اُس کے ساتھی بھی میری بات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس لیے میری آخری کوشش یہی تھی کہ وہ قلعے کے اندر کوئی بدمزگی پیدا نہ کریں‘‘۔
فسطینہ کمرے سے باہر نکلی اور اُس نے کہا۔ ’’کیا ہوا امی جان؟‘‘۔
’’کچھ نہیں بیٹی، ایرج شراب پی کر شہر کی طرف نکل گیا ہے‘‘۔
فسطینہ نے قلعے کے محافظ کی طرف متوجہ ہو کرکہا۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ تم اس شہر کے حاکم ہو؟‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے لیکن ایرج جیسے لوگوں پر میرا حکم نہیں چلتا۔ اُس کے ساتھ گیارہ مسلح آدمی ہیں۔ ’’اور تم نے اِس شہر کے بے بس انسانوں کو ان گیارہ بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ تمہارے پاس کتنے آدمی ہیں‘‘۔
’’جناب میرے پاس ڈیڑھ سو آدمی ہیں، لیکن میں ایرج کے خلاف کسی کارروائی کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘۔
فسطینہ نے چلا کر کہا۔ ’’میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ تم اپنے سپاہی لے کر اُن کا پیچھا کرو‘‘۔ اگر صبح مجھے یہ معلوم ہوا کہ رات کے وقت اِس شہر کی کسی بے بس لڑکی کی چیخیں سنی گئی ہیں تو تم اِس قلعے کے محافظ نہیں ہوگے‘‘۔
’’جناب! اگر وہ مزاحمت کریں تو؟‘‘۔
’’اگر وہ مزاحمت کریں تو انہیں باندھ کر یہاں لے آئو‘‘۔
’’مجھے آپ کے حکم کی تعمیل سے انکار نہیں، لیکن آپ کو نتائج کی ذمہ داری لینی پڑے گی‘‘۔
فسطینہ نے چلا کر کہا۔ ’’تم وقت ضائع کررہے ہو۔ جائو!‘‘۔
قلعے کا محافظ یوسیبیا کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’جناب آپ کا بھی یہی حکم ہے؟‘‘۔
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’سین کی بیٹی کا حکم سننے کے بعد تمہیں مجھ سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور میں یہ نہیں سمجھتی کہ چند شراب سے بدمست آدمیوں کو قابو میں رکھنے کے لیے تمہیں کسی لشکر کی ضرورت ہے‘‘۔
قلعے کا محافظ کچھ اور کہے بغیر کمرے سے باہر نکل گیا اور یوسیبیا نے ندھال سی ہو کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’فسطینہ یہ معاملہ بہت خطرناک ہے، مجھے ڈر ہے کہ ایرج گھر جا کر ہمارے خلاف طوفان کھڑا کردے گا۔ کاش! تمہارے ابا جان آج یہاں ہوتے‘‘۔
’’امی، اگر ابا جان یہاں ہوتے تو ایرج شراب سے مدہوش ہو کر شہر کا رُخ کرنے کی جرأت نہ کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ قلعے کے محافظ پر یہ اعتراض نہیں کریں گے کہ تم نے ایرج اور اُس کے ساتھیوں کو رات کے وقت لوگوں کے گھروں میں گھسنے سے کیوں روکا تھا۔ فرض کیجیے اگر شہر میں کوئی سر پھرا ایرج کو قتل کردے تو قلعے کے محافظ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے ایک بیوقوف انسانوں کو خطرے سے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا اِس سے قبل کئی بستیوں میں اِس قسم کے واقعات پیش نہیں آئے؟‘‘۔
فسطینہ کا جوش بہت حد تک کم ہوچکا تھا اور وہ اپنی ماں سے زیادہ اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کررہی تھی۔
ایک ساعت پریشانی اور اضطراب کی حالت میں انتظار کرنے کے بعد انہیں قلعے کے دروازے کی طرف آدمیوں کا شور سنائی دیا۔ اور وہ اُٹھ کر اپنے کمرے سے باہر جھانکنے لگیں۔ ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا اور اس نے کہا۔ ’’قلعے کے سپاہی ایرج اور اُس کے ساتھیوں کو پکڑ کر لے آئے ہیں‘‘۔
یوسیبیا نے پوچھا۔ ’’شہر میں کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟‘‘۔
’’نہیں سپاہی کہتے ہیں کہ جب شہر میں داخل ہوئے تھے تو یہ لوگ ایک گلی سے چند پتھر کھانے کے بعد چیختے چلاتے واپس آرہے تھے۔ ایرج کے ایک ساتھی کا سر پھٹا ہوا ہے اور میرے خیال میں وہ چند دن سفر کے قابل نہیں ہوگا‘‘۔
صحن میں کسی کے بھاری قدموں کی آہٹ سنائی دی اور نوکر نے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’شاید قلعے کے محافظ آرہے ہیں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’اچھا تم جائو‘‘۔
نوکر چلا گیا اور قلعے کے محافظ نے دروازے کے قریب پہنچ کر کسی تمہید کے بغیر کہا۔ ’’جناب میں انہیں لے آیا ہوں اور مجھے خوش قسمتی سے اُن کے ساتھ جھگڑا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’ہمارا نوکر کہتا ہے کہ شہر کے لوگوں نے اُن پر پتھر برسائے تھے؟‘‘
جی ہاں، اور یہ اُلٹے پائوں واپس آرہے تھے۔ ایرج نے ہمیں دیکھا تو اُسے یہ غلط فہمی ہوئی کہ ہم اُس کی مدد کے لیے آئے ہیں۔ اُس نے مجھے کسی تاخیر کے بغیر حملہ کرنے کا حکم دیا، لیکن میں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں سپہ سالار کے حکم کے بغیر اِس شہر کے باشندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ سچ پوچھیے تو مجھے شہر کے باشندوں سے قطعاً یہ توقع نہ تھی کہ وہ کسی ایرانی پر پتھر برسانے کی جرأت کریں گے، لیکن قدرت کو شاید میری عزت رکھنا منظور تھی۔ میرے خیال میں انہوں نے یہی سمجھا ہوگا کہ ڈاکوئوں کی کوئی ٹولی آگئی ہے۔ ایرج مجھ سے سخت خفا ہے اور اُس نے مجھے بہت دھمکیاں دی ہیں۔ لیکن میں اُسے سمجھا بجھا کر واپس لے آیا ہوں۔ اب وہ میری شکایت لے کر آپ کے پاس آنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اُسے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ آپ آرام کررہی ہیں۔ اُس کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علی الصباح سے روانہ ہوجائے گا‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی جان، اُس کے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کریں گی۔ اور مجھے یہ بھی اُمید نہیں کہ شراب کا نشہ اُترنے کے بعد وہ ہمارے سامنے آنے کی جرأت کرے گا‘‘۔
قلعے کا محافظ ادب سے سرجھکا کر واپس چلا گیا۔ اور یوسیبیا نے دروازہ بند کرنے کے بعد فسطینہ کا بازو پکڑ کر کہا۔ ’’چلو، بیٹی اب آرام کرو‘‘۔
فسطینہ کچھ کہے بغیر اُس کے ساتھ دوسرے کمرے میں داخل ہوئی اور وہ دونوں اپنے بستر پر لیٹ گئیں۔ یوسیبیا کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد سو گئی، لیکن فسطینہ پچھلے پہر تک کروٹیں بدلتی رہی۔ بالآخر اُسے نیند آگئی۔ اگلے دن وہ بیدار ہوئی تو کمرے کے روزن سے سورج کی شعائیں آرہی تھیں، اور یوسیبیا اُس کے بستر کے قریب کھڑی تھی۔ یوسیبیا نے کہا۔ ’’اُٹھو، بیٹی اب دوپہر ہونے والی ہے‘‘۔
فسطینہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ دیر خاموشی سے اپنی ماں کی طرف دیکھتی رہی، بالآخر اُس نے پوچھا۔
’’وہ چلا گیا ہے؟‘‘۔
’’وہ صبح ہوتے ہی چلا گیا تھا۔ اور تمہارا خیال درست تھا، اس نے میرے پاس آنے کی جرأت نہیں کی‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی عاصم زندہ ہے، میں نے اُسے خواب میں دیکھا ہے‘‘۔
یوسیبیا نے قریب بیٹھ کر فسطینہ کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹی خدا کرے وہ زندہ ہو‘‘۔
بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ کے محاذوں پر ایرانیوں کے ہاتھوں پے در پے شکستیں کھانے کے بعد یورپ میں بھی ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال کا سامنا کررہی تھی۔ یہاں قسطنطین اعظم کے جانشین کسی منظم سلطنت یا لشکر کی بجائے اُن خانہ بدوش وحشیوں کے ایک نئے طوفان کا سامنا کررہے تھے جو گزشتہ صدیوں میں بارہا وسط ایشیا سے نکل کر کبھی بحیرئہ خزر اور بحیرئہ اسود کے جنوبی اور کبھی شمالی علاقوں کو روندتے ہوئے یورپ کو تباہی اور بربادی کا پیغام دیا کرتے تھے۔ شکاریوں اور چرواہوں کی اس قوم کو جب اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے وسائل حیات کی کمی محسوس ہونے لگتی تو وہ نئی زمینوں کی تلاش میں نکل پڑتے اور پھر جو مہذب اور ترقی یافتہ ہوتے اُن کے راستے میں آتے، وہاں تہذیب و تمدن کے سارے چراغ بجھادیے جاتے۔ لہلہاتے کھیت سرسبز باغات اور ویران ہوجاتے اور خوشحال بستیوں اور پر رونق شہروں کی جگہ راکھ کے ڈھیر اور لاشوں کے انبار دکھائی دیتے۔ پھر یہی خانہ بدوش کچھ مدت لوٹ مار پر گزارا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ آرام اور فراغت کی زندگی کے عادی ہوجاتے۔ اپنے آبائی وطن کی برفانی ہوائوں اور بنجر زمینوں کی بجائے مفتوحہ علاقوں کی زرخیزی موسموں کا اعتدال اور وسائل حیات کی فراوانی کے باعث اُن کی سخت کوشی اور جفاکشی، تن آسانی اور عافیت پسندی میں تبدیل ہونے لگتی، بوسیدہ کھالوں کے جھونپڑے کشادہ مکانوں سے بدل دیے جاتے۔ خانہ بدوشی کی جگہ مکانیت کا شعور اُبھرنے لگتا۔ مکان بستیوں، اور بستیاں شہروں میں تبدیل ہوجاتیں۔ شکاری اور چرواہے ؟ بن جاتے اور چراگاہوں اور ویرانوں کی جگہ کھیت اور باغات دکھائی دینے لگتے۔ لیکن پھر صحرائے کوبی اور اس کی وسعتوں سے ننگے اور بھوکے انسانوں کا کوئی قافلہ اُٹھتا اور یہ مہذب، تن آسان اور عافیت پسند لوگ وحشت اور بربریت کے ایک نئے سیلاب کے سامنے تنکوں کے انبار ثابت ہوتے۔
روم اور ایران کی جنگوں کے اس دور میں خانہ بدوشوں کے جو قبائل شمال مشرقی یورپ کو ہڑپ کرنے اور اطالیہ کو آگ و خون کا پیغام دینے کے بعد تھریس کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ شاید اُن تمام قبائل سے زیادہ خونخوار تھے جنہوں نے گزشتہ ادوار میں مغرب پر یلغار کی تھی۔ اور بازنطینی سلطنت پر ایک کاری ضرب لگانے کے لیے جو سازگار حالات ان لوگوں نے دیکھے تھے وہ شاید کسی اور نے نہیں دیکھے۔ رومی عقاب زخمی ہوچکا تھا۔ ایرانیوں نے اُس کے پرنوچ لیے تھے، اب اُسے ہلاک کرنے کے لیے کسی جرأت یا ہمت کی ضرورت نہ تھی، آوار قبائل کا خاقان دریائے ڈیلنوب سے لے کر اطالیہ تک ہزاروں بستیاں تباہ کرنے اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے بعد ہرقلیہ کے قریب ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ مشرقی یورپ سے تباہ حال لوگوں کے قافلے قسطنطنیہ اور اُس کے مضافات میں پناہ لے رہے تھے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ تاتاریوں کی درندگی اور سفاکی کی جو داستانیں لائے تھے، اُن کے باعث شہر میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی اور ہر آن یہ خطرہ محسوس کیا جارہا تھا کہ اچانک کسی وقت گردوغبار کے بادلوں سے وحشیوں کا لشکر نمودار ہوگا اور مضافات کی بستیوں سے لے کر قیصر کے محل تک لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔
(جاری ہے)